https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday, 16 February 2025

کرایہ داری کا معاہدہ کرایہ دارکی وفات پر ختم ہوجا تا ہے

 کرایہ داری کا معاملہ مالک یا کرایہ دار کے مرنے سےختم  ہوجاتا ہے،لہذا جب  کرایہ دار ی کا معاہدہ کرنے والےفریقین  کا انتقال ہوچکا ہے ،تو ان کا معاہدہ بھی ختم  ہوگیا،اور ان میں سے کسی کی اولاد پر اس کی پاسداری شرعاً ضروری نہیں تھی ،لیکن جب دونوں کی اولاد نے اس معاملہ کو حسب سابق جاری رکھا  ،اس لیے اس کی عملی تجدید ہونے کی وجہ سے جب تک فریقین اس کو حسب سابق جاری رکھنے پر متفق ہوں ،جاری رکھ سکتے ہیں ،البتہ اگر از سرنو دونوں عاقدین کی اولاد  آپس میں نیا معاملہ کرنا چاہیں ،یا اسی سابقہ معاملہ کو تجدید معاہدہ کی صورت میں  برقرار رکھنا چاہیں ،تو باہمی رضامندی سے کرسکتے ہیں ،بلکہ کرلیا جائے ،تو زیادہ مناسب ہے ۔

وإذا مات أحد المتعاقدین وقد عقد الإجارۃ لنفسہ انفسخت الإجارۃ (ہندیۃ، کتاب الإجارۃ، باب فسخ الإجارۃ، اشرفي ۳/ ۳۱۵، شامي، زکریا ۹/ ۱۱۴، کراچی ۶/ ۸۳، مختصر القدوري، ص: ۱۰۵)


فتاوی عالمگیری میں ہے :

"‌‌[الباب الثامن في انعقاد الإجارة بغير لفظ]

وفي الحكم ببقاء الإجارة وانعقادها مع وجود ما ينافيها استأجر دارا شهرا فسكن شهرين لا أجر عليه في الشهر الثاني هذا جواب الكتاب وروي عن أصحابنا يجب وعن الكرخي ومحمد بن سلمة إنهما يوفقان بين الروايتين بين المعد للاستغلال وغير المعد للاستغلال من غير تفصيل بين الدار والحمام والأرض قال الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - وبه يفتى كذا في خزانة الفتاوى۔۔۔۔

استأجرها سنة بأجر معلوم فسكنها ثم سكنها سنة أخرى ودفع الأجر ليس له أن يسترد هذا الأجر قال - رضي الله تعالى عنه - والتخريج على الأصول يقتضي أن تكون له ولاية الاسترداد إذا لم تكن الدار معدة للإجارة. كذا في القنية."

(کتاب الاجارۃ ،الباب الثامن في انعقاد الإجارة بغير لفظ،ج:4،ص:427،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے :

"آجر داره كل شهر بكذا فلكل الفسخ عند تمام الشهر."

(کتاب الاجارۃ،ج:6،ص:45،ط:سعید

No comments:

Post a Comment