میراث کی تقسیم میں حتی الامکان جلدی کرنی چاہیے،بغیر کسی سخت مجبوری کے تاخیر کرنا درست نہیں،اس لیے کہ اگر بر وقت میراث کی تقسیم نہ کی جائے تو آگے چل کر بہت سے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں، اگربغیر کسی مجبوری کےمیراث کی تقسیم میں تاخیر کی جائےتواس اس کا وبال اس پر ہوگا جو بغیر کسی وجہ کے میراث کی تقسیم میں رکاوٹ بنےگا،بلکہ جتنا جلدی ہوسکےمرحوم کےتمام ترکہ کوتمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کردیا جائے۔
الدر المختار میں ہے:
"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول"
( كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط:سعيد)
میراث کی تقسیم میں تاخیر مناسب نہیں، بسا اوقات تاخیر سے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں: قال في واقعات المفتیین: مات وترک امرأة بہا حبل، فإن کانت الولادة قریبة ینتظر لتقع القسمة عن علم، وإن لم تکن قریبة ینتظر لأن في ذلک تأخیرًا․ (واقعات المفتیین: ۲۲۶)
No comments:
Post a Comment