https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday, 11 February 2025

شب برات کی فضیلت

 شعبان کی پندرہویں شب”شب برأت“کہلاتی ہے۔یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔تقریبًادس صحابہ کرامؓ سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجودنہ پایاتوتلاش میں نکلی دیکھاکہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیاپرنزول فرماتاہے اورقبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گنہگاروں کی بخشش فرماتاہے۔“

دوسری حدیث میں ہے”اس رات میں اس سال پیداہونے والے ہربچے کانام لکھ دیاجاتاہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کانام لکھ لیاجاتاہے،اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے۔“

اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ” اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے وہ یہ ہیں۔مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں۔“

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جوگناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟

ان احادیث کریمہ اورصحابہ کرام ؓاوربزرگانِ دینؒ کے عمل سے ثابت ہوتاہے کہ اس رات میں تین کام کرنے کے ہیں:

۱۔قبرستان جاکرمردوں کے لیے ایصالِ  ثواب اورمغفرت کی دعا کی جائے۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شب برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے۔اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے چلاجائے تواجروثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں،چادرچڑھاوے،اورچراغاں کااہتمام کرنااورہرسال جانے کولازم سمجھنااس کوشب برأت کے ارکان میں داخل کرنایہ ٹھیک نہیں ہے۔جوچیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھناچاہئے اس کانام اتباع اوردین ہے۔

۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔اس بارے میں یہ واضح رہے کہ نفل ایک ایسی عبادت ہے جس میں تنہائی مطلوب ہے یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے۔لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے،اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں،بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔

۳۔دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اوردوسرایہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہرماہ ایام بیض(۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے ،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے توموجب اجروثوب ہوگا۔باقی اس رات میں پٹاخے بجانا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کااہتمام کرنایہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔

بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلف صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔

فإن ليلة النصف من شعبان قد ورد في فضلها عدة أحاديث، منها ما هو صالح للاحتجاج، ومنها ما هو ضعيف لا يحتج به . فمما هو صالح للاحتجاج ما رواه البيهقي في شعب الإيمان عن أبي ثعلبة الخشني رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان ليلة النصف من شعبان اطلع الله إلى خلقه، فيغفر للمؤمنين، ويملي للكافرين، ويدع أهل الحقد بحقدهم حتى يدعوه" ورواه الطبراني، وحسنه الألباني- رحمه الله- في صحيح الجامع برقم 771. وعن أبي موسى رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه، إلا لمشرك أو مشاحن" رواه ابن ماجه، وابن حبان عن معاذ بن جبل رضي الله عنه.
هذا، وقد قال عطاء بن يسار: ما من ليلة بعد ليلة القدر أفضل من ليلة النصف من شعبان، يتنزل الله تبارك وتعالى إلى السماء الدنيا، فيغفر لعباده كلهم، إلا لمشرك أو مشاجر أو قاطع رحم.
فينبغي على العبد أن يتحلى بالطاعات التي تؤهله لمغفرة الرحمن، وأن يبتعد عن المعاصي والذنوب التي تحجبه عن هذه المغفرة. ومن هذه الذنوب: الشرك بالله، فإنه مانع من كل خير. ومنها الشحناء والحقد على المسلمين، وهو يمنع المغفرة في أكثر أوقات المغفرة والرحمة. فعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تفتح أبواب الجنة يوم الاثنين والخميس فيغفر الله لكل عبد لا يشرك بالله شيئا، إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء فيقول: أنظروا هذين حتى يصطلحا". رواه مسلم. فأفضل الأعمال بعد الإيمان بالله سلامة الصدر من أنواع الشحناء كلها.
ولم يثبت في تخصيص هذه الليلة بصلاة معينة، أو دعاء معين، شيء عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عن أحد من أصحابه، وأول ظهور لذلك كان من بعض التابعين. قال ابن رجب في لطائف المعارف: ( وليلة النصف من شعبان كان التابعون من أهل الشام كخالد بن معدان، ومكحول، ولقمان بن عامر وغيرهم، يعظمونها ويجتهدون فيها في العبادة، وعنهم أخذ الناس فضلها وتعظيمها. وقد قيل: إنه بلغهم في ذلك آثار إسرائيلية، فلما اشتهر ذلك عنهم في البلدان اختلف الناس في ذلك فمنهم من قبله منهم ووافقهم على تعظيمها، منهم طائفة من عباد أهل البصرة وغيرهم، وأنكر ذلك أكثر العلماء من أهل الحجاز).
وقال ابن تيمية رحمه الله: ( وأما ليلة النصف من شعبان ففيها فضل، وكان في السلف من يصلي فيها، لكن الاجتماع فيها لإحيائها في المساجد بدعة).
وقال الشافعي رحمه الله: بلغنا أن الدعاء يستجاب في خمس ليال: ليلة الجمعة، والعيدين، وأول رجب ونصف شعبان.
وأما صيام يوم النصف من شعبان فيسن على أنه من الأيام البيض الثلاثة، وهي: الثالث عشر، والرابع عشر، والخامس عشر، لا على أنه يوم النصف من شعبان، فإن حديث الصيام فيه لا يصلح للاحتجاج، بل هو حديث موضوع، وهو قوله (إذا كان ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلتها وصوموا

No comments:

Post a Comment