https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 13 May 2024

سجدۂ تلاوت کے لیے وضو لازم ہے

  جب حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے  قولی اور فعلی دونوں طرح کی روایات منقول ہیں تو قولی روایت راجح ہوگی۔

اور اگر ہم ابن عمررضی اللہ عنہما کے مسلک کو مان بھی لیں  کہ ان کے ہاں بغیر وضو سجدۂ تلاوت کرنا درست تھا تو  یہ صرف ان ہی کا مسلک ہے، باقی  کسی صحابی رضی اللہ عنہ  کا یہ مسلک نہیں ہے،  اسی طرح ائمہ  اربعہ متبوعین کے ہاں بھی سجدۂ تلاوت کے لیے طہارت شرط ہے۔ ہاں  امام شعبی  اس  کے قائل ہیں کہ سجدہ تلاوت کے لیے طہارت شرط نہیں ہے، لہٰذا تفردات پر عمل کرنےکےبجائے  جملہ صحابہ کرام کے قول  پر عمل کرنا لازم ہے اور مشہور مذہب کو چھوڑنا نہ عقل کاتقاضا ہے اور نہ شرع کا،بلکہ اِبن عمر رضی اللہ عنہما سے اس فعل کا معارض قول بھی موجود ہے ،جو کہ راجح مذہب ہے،لہٰذااسی کےمطابق عمل کیاجائے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:

"ولا خلاف في أن سجود القرآن يحتاج إلى ما تحتاج إليه الصلاة من طهارة حدث ونجس ، ونية ، واستقبال قبلة ، ووقت . إلا ما ذكر البخاري عن ابن عمر أنه كان يسجد على غير طهارة . وذكره ابن المنذر عن الشعبي."

(تفسير القرطبي، (9 / 438) .

امام نووی رحمہ اللہ  "المجموع شرح المھذب" میں  تحریر فرماتے ہیں:

"و حكم سجود التلاوة حكم صلاة النافلة يفتقر إلى الطهارة و الستارة واستقبال القبلة لأنها صلاة في الحقيقة."

No comments:

Post a Comment