https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 10 May 2024

چند بڑے گناہ

 معاشرہ میں جب لوگ مل جل کر ساتھ رہتے ہیں تو کبھی لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آجاتی ہے ، لیکن قرآن وسنت میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے باہمی جھگڑے کسی قیمت پر پسند نہیں ، بلکہ حکم یہ ہے کہ حتی الامکان آپس کی رنجشوں اور جھگڑوں کو، باہمی نفرتوں اورعداوتوں کو کسی طرح ختم کرو ۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الحجرات : ۱۰)
ترجمہ
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں ، اس لئے اپنے دو بھائیوں کے درمیان (اگر کوئی رنجش یا لڑائی ہوگئی ہو تو تمہیں چاہئے کہ ان کے درمیان صلح کراؤ اور) تعلقات اچھے بناؤ ، اور (صلح کرانے میں) اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے ۔ (آسان ترجمہ قرآن : ۳/ ۱۵۸۳)
لڑائی جھگڑے مسلمانوں کے درمیان باہمی اتفاق و اتحاد ، محبت اور ملاپ پیدا کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں، انہی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے دل میں بغض ونفرت اور کینہ پیدا ہوتا ہے ، اور ہمارے معاشرے کے جھگڑے عموماً دنیا داری کے لئے اور آپس میں کسی ایک کا حق دبانے سے ہوتے ہیں ، اور ہر فریق غصہ میں بھراہوا ہوتا ہے ، اس لئے ایک دوسرے پر زیادتی ہوجاتی ہے اور گالی گلوچ ، ہاتھا پائی تک نوبت آجاتی ہے ، جس کا نتیجہ یہ کہ پھر صاحب حق بھی حق پر قائم نہیں رہتا ، اس لئے حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے کہ جھگڑے کی نوبت ہی نہ آئے ، کیونکہ جھگڑا لو انسان اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے ، اگر بالفرض کبھی جھگڑا ہوجائے تو دوسرے فریق کو معاف کرکے جھگڑا ختم کردینا چاہئے ، کیونکہ آپس میں صلح کرنے اور جھگڑا ختم کرنے کی قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں بہت ترغیب دی گئی ہے ۔ ذیل میں لڑائی جھگڑے کی مذمت سے متعلق چند احادیثِ طیبہ ملاحظہ فرمائیں:
حدیث نمبر ۱ : عن عائشۃ رضی اللہ عنہا، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : ان ابغض الرجال الی اللہ الالد الخصم(صحیح البخاری۔ ۳/ ۱۳۱)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے مبغوض اور ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو سخت جھگڑا لو ہو۔(صحیح بخاری)
حدیث نمبر ۲: عن ابن عباس، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : لا تمار اخاک ، ولا تمازحہ ، تعدہ موعدا فتخلفہ (سنن الترمذی ۔ ۴/ ۳۵۹) قال الترمذی : ھذا حدیث غریب
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے جھگڑا مت کر ، اور اس کے ساتھ نامناسب مذاق مت کر، اور اس کے ساتھ ایسا وعدہ نہ کر کہ (جس کو تو پورا نہ کرسکے اور) وعدہ خلافی کرے ۔(ترمذی)
حدیث نمبر ۳: عن ابن عباس قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : کفی بک ائثمًا ان لا تزال مخاصما۔ (سنن الترمذی۔ ۴/ ۳۵۹) قال الترمذی : ھذا حدیث غریب لا نعرفہ الا من ھذا الوجہ ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تجھ کو یہ گناہ کافی ہے کہ تو ہمیشہ جھگڑتا رہے ۔(ترمذی)
حدیث نمبر ۴ : عن أنس بن مالک ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من ترک الکذب وھو باطل ، بنی لہ قصر فی ربض الجنۃ ، ومن ترک المراء وھو محق ، بنی لہ فی وسطھا ، ومن حسن خلقہ ، بنی لہ فی اعلاھا۔ (سنن ابن ماجہ۔ ۱/ ۱۹) قال الترمذی بعد اخراجہ فی السنن ۴ / ۳۵۸ (۱۹۹۳) وھذا حدیث حسن ۔
ترجمہ :حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص جھوٹ کو ترک کردے حالانکہ جھوٹ باطل چیز ہے تو اس کے لئے جنت کے کناروں میں گھر تیار کیا جائے گا، اور جو شخص حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑدے اس کے لئے جنت کے بیچوں بیچ گھر بنایا جائے گا، اور جوشخص اپنے اخلاق اچھے کرے گا اس کے لئے جنت کے اوپر کے حصہ میں گھر بنایا جائے گا۔۔۔ (ابن ماجہ)
تشریح : یعنی جو شخص حق پر ہونے کے باوجود یہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں حق کا زیادہ مطالبہ کروں گا تو جھگڑا کھڑا ہوجائے گا، اس لئے اس حق کو چھوڑتا ہوں تاکہ جھگڑا ختم ہوجائے تو اس کے لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کے بیچوں بیچ گھر دلوانے کی ذمہ داری لی ہے ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ سرکارِ دو عالم صلی للہ علیہ وسلم کو جھگڑا ختم کرانے کی کتنی فکر تھی ۔ ہاں اگر کہیں معاملہ بہت آگے بڑھ جائے اور قابلِ برداشت نہ ہوتو ایسی صورت میں اس کی اجازت ہے کہ مظلوم ظالم کا مقابلہ کرے اور اس سے بدلہ لے لے ، لیکن حتی الامکان کوشش یہ ہو کہ جھگڑا ختم ہوجائے ۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا آپس میں لڑائی جھگڑا ناپسندیدہ ہے ، اور اختلاف کے وقت صلح کرانا محمود اور مطلوب ہے ، بلکہ درجِ ذیل حدیث شریف کی رُو سے نماز ، روزہ اور صدقہ سے بھی افضل ہے۔
عن أبی الدرداء ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ألا أخبرکم بأفضل من درجۃ الصیام والصلاۃ والصدقۃ ، قالوا : بلی ، قال : صلاح ذات البین ، فان فساد ذات البین ھی الحالقۃ : ھذا حدیث حسن صحیح، ویروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : ھی الحالقۃ لا أقول تحلق الشعر ، ولکن تحلق الدین ۔(سنن الترمذی ۔ ۴/ ۶۶۳)
ترجمہ : حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابۂ کرام سے مخاطب ہوکر) فرمایا : کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاؤں جو نماز ، روزے اور صدقہ سے بھی افضل ہے ؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگوں کے درمیان صلح کرانا ۔ اس لئے کہ آپس کے جھگڑے مونڈنے والے ہیں ۔ یعنی یہ چیزیں انسان کے دین کو مونڈنے والی ہیں (انسان کے اندر جو دین کا جذبہ ہے وہ اس کے ذریعہ سے ختم ہوجاتا ہے )۔ (ترمذی)
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو ناحق جھگڑے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment