https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 26 September 2021

انسانیت کے لباس میں خونی درندے

 نازش ہما قاسمی

کہا جاتا ہے کہ انسانوں کے سینے میں دل ہوتا ہے، جو کسی کی تکلیف اور مصیبت کو دیکھ کر کڑھتا ہے، اس میں ایسے جذبات ہوتے ہیں جو اس کو جانوروں اور وحشی درندوں سے الگ اور ممتاز بناتا ہے۔ لیکن اگر دنیا میں ظلم و جور اور جبر و تشدد کی تاریخ کو کھنگالا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان صفات رذیلہ کے حامل افراد کے سینے میں دل نہیں بلکہ پتھر ہوتا ہے جو ہر قسم کے جذبات سے عاری ہوا کرتے ہیں۔ اگر ان کے سینوں میں دھڑکنے والا دل موجود ہوتا تو پھر کیسے کسی معصوم کو موت کی نیند سلاکر خود خواب خرگوش کا مزہ لیتے۔ کسی بوڑھے پر گولیوں کی بوچھار کرکے آرام دہ بستروں پر آرام کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان افراد کے سینوں میں دل ہے لیکن وہ انسانیت کے جذبات اور محبت و مروت کی مٹھاس سے عاری ہیں۔ ان کے سینوں میں نفرت و عداوت، بغض و عناد اور کینہ و تکبر اس حد تک سما چکا ہے کہ وہ اچھے اور برے کی تمیز بھول جاتے ہیں۔ وہ انسانیت کے بجائے وحشیانہ طرز زندگی اپنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اجتماعی عصمت دری کے واقعات ہوں یا پھر ماب لنچنگ کی خون ریز داستانیں یا پھر معصوموں پر گولیوں کی بوچھار کرنے والے حادثات ان تمام میں یہ بات مشترک ہیں کہ ان کے انجام دینے والوں کی ذہنی تربیت پیار و محبت کے ماحول میں نہیں بلکہ نفرت و عداوت کے ماحول میں ہوئی ہے۔ ابتدا سے ہی انہیں نفرت کرنا اور تشدد پھیلانا سکھایا جاتا ہے۔ یہ جس گروہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں ان تمام کی منزل نفرت اور وحشیانہ پن ہے۔ اب تو حد ہوگئی کہ ہر کوئی دوسرے پر فوقیت لینے کی دوڑ میں ہے۔ اجتماعی عصمت دری کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنونی اور ہوس پرست بھیڑئے معصوموں کی عزت سے کھیلنے تک اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ تو ان کے کلی نما جسم کو اس طرح مسلتے ہیں جیسے کانٹوں میں گلاب کو مسل دیا جائے، جس کا ہر ہر جز سرخ اور زخمی ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان حادثات کی شکار معصوم بچیاں بہت جلد زندگی کی بازی ہار جاتی ہے۔ ان خونی درندوں میں یہ وحشیانہ پن اسی نفرت کا نتیجہ ہے جو انہیں سکھائی جاتی ہے اور جس کی انہیں تعلیم دی جاتی ہے۔ انسان کی نشو و نما اگر نفرت بھرے ماحول میں ہو اور اس میں انسانیت کی مٹھاس کے بجائے نفرت کا زہر گھولا جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ظاہری دنیا میں اس نے کیا کمالات حاصل کئے ہیں یا کس پیشہ اور شعبہ سے تعلق رکھتا ہے۔

آسام اس کی زندہ مثال ہے جہاں بے گھر معصوموں پر گولیوں کی بوچھار کردی گئی جس کے نتیجہ میں موت تک کے واقعات پیش آئے ہیں۔ پولس کی ذمہ داری عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پیشہ سے جڑے بعض افراد انسانیت کی تعلیم سے مکمل طور پر بے بہرہ اور نابلد ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات وردی میں ملبوس انسان وہ کالے کارنامے کرجاتے ہیں جو دوسروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات ہے کہ صحافت جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ صحافی جسے معاشرہ میں سچائی اور انصاف پر مبنی واقعات و حادثات کو بیان کرنا ہوتا ہے، اگر وہ انسان کے مردہ جسم پر ناچنے لگے اور اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو تو آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور کہاں سے یہ آرہے ہیں۔ درحقیقت یہ وہی لوگ ہیں جن کی نشو و نما نفرت کے ماحول میں ہوئی ہے۔ جن کی بنیادی تعلیم اور انتہائی تعلیم ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں انسانیت نہیں بلکہ نفرت سکھائی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی لاش پر چڑھ کر ناچے، یہ تو ان آدم خور لوگوں کی بستی کے رہائشی اور مکین نہیں ہے جہاں ایک انسان دوسرے انسان کو کھاجاتا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ نام نہاد مہذب سماج کا حصہ ہیں اور ان کی رہائش تہذیب و ثقافت کی عکاس بھی ہوسکتی ہے لیکن ان کے دل نفرت میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ ان سے انسانیت والے کام سرزد نہیں ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ خونی بھیڑئے ہیں جو ہمیشہ اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کبھی کبھار ان کے کالے کرتوت عوام الناس کے حلقوں میں پہنچ جاتے ہیں جبکہ بیشتر اوقات ان کے جرائم پردہ خفا میں رہ جاتے ہیں کیونکہ چہار جانب نفرت کے سوداگر اور انسان نما درندے بیٹھے ہیں جو ایک دوسرے کے معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دجالی میڈیا کے معاون ہیں یہ جرنلزم کی آڑ میں ٹیررازم پھیلاتے ہیں صاف و شفاف اور منصف و غیر جانبدار میڈیا جمہوریت کا ستون ہے لیکن یہ لوگ جمہوریت کو کھوکھلا کرنے والے افراد ہیں جمہوریت کا ستون بننے کے بجائے اپنے اعمال و افعال سے اس ستون کو منہدم کرچکے ہیں اور یہ فرقہ پرست گودی میڈیا کی پیداوار نفرت کے سوداگر اپنے مذہبی تعلیمات سے بھی دور ہیں اور دجالی میڈیا کے آلہ کار بن کر اپنی ہندوازم کی عظیم تعلیمات و سنسکرتی جس میں انہیں زور دے کر کہاگیا ہے کہ انسانیت پر دیا کرو دیالو بنو ہنسا کا راستہ نہ چنو اہنسا کے پجاری بنو، ان سبھی کو پس پشت ڈال کر اپنے مذہب کا بھی مذاق اڑارہے ہیں اور ہنسا و تشدد کا راستہ اپنا کر مجبور و بے کس مسلمانوں کی لاشوں پر کود کر جمہوریت کا مذاق اڑاتے ہوئے جمہوریت کے جنازے پر کود رہے ہیں۔


No comments:

Post a Comment