https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 7 April 2022

استصحاب

دلیل کے ذریعہ کوئی حکم پہلے سے ثابت ہو اور کوئی صریح دلیل اس حکم کے آئندہ باقی رہنے پر موجود ہواور نہ اس حکم کے ختم ہو جانےپرایسی صورت میں اس حکم کو باقی اور مسلسل قرار دینے کا نام استصحاب ہے، خواہ ماضی کے حکم کو حال میں یا حال کے حکم کو مستقبل میں یا ماضی میں موجود سمجھا جائے۔ اس کی پانچ قسمیں جو حکم شرعی پہلے سے ثابت ہو جب تک اس میں تبدیلی کی کوئی دلیل نہ آجائے ، اس کے باقی رہنے کا حکم لاگایا جائے، جیسے نکاح صحیح کے ذریعہ جب مردو عورت ایک دوسرے کے لیے حلال ہو گئے، تو جب تک نکاح کے ختم ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو وہ ایک دوسرے کی لیے حلال ہی رہیں گے۔ (2)بعض احکام وہ ہیں جو عقل اور شریعت دونوں ہی کے ثبوت و استمرار کا تقاضا کرتے ہیں، مثلا کسی شخص نے دوسرے سے قرض لیا یا ادھار سامان خریدا، تو جب تک دین ادا نہ کر دے یا دوسرا فریق بری نہ کر دے، اس وقت تک اس کی ذمہ داری باقی رہے گی۔ (3) کوئی حکم عام ہو تو جب تک تخصیص پر کوئی دلیل نہ آجائے وہ عام رہے گا، اسی طرح جب کوئی نص وارد ہو تو جب تک دلیل نسخ نہ آجائے وہ حکم باقی رہے گا۔ ان تینوں صورتوں کے معتبر ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ (4) جب تک کسی امر کے بارے میں نص وارد نہ ہو اس وقت تک وہ جائز شمار کیا جائے، انسان اسی وقت مکلف ہوگا ، جب اس کو کسی حکم کا مکلف قرار دینے پر نص موجود ہو۔ (5) اختلافی مسئلہ میں اتفاقی مسئلہ کے حکم کو باقی رکھا جائے، جیسے ایک شخص نے تیمم کیا اور نماز شروع کردی ، تو اگر پانی نظر آنے سے پہلے اس نے اپنی نماز پوری کرلی تو بالاتفاق نماز پوری ہوجائے گی اور اگر نماز کے ختم ہونے سے پہلے پانی نظر آجائے تو اس صورت میں اختلاف ہے ، اس اختلافی صورت میں پانی نظر آنے سے پہلے والے حکم کو باقی رکھا جائے یہ بھی استصحاب کی ایک قسم ہے، جس کو استصحاب اجماع کہتے ہیں، استصحاب حكم الإباحة الأصلية للأشياء التي لم يرد دليل على تحريمها، ومعنى هذا أن المقرر عند جمهور الأصوليين، بعد ورود الشرع: هو أن الأصل في الأشياء النافعة التي لم يرد فيها من الشرع حكم معين هو الإباحة، كما أن الأصل في الأشياء الضارة هو الحرمة. استصحاب العموم إلى أن يرد تخصيص أو استصحاب النص إلى أن يرد نسخ. استصحاب ما دل العقل والشرع على ثبوته ودوامه، وقد عبر عنه ابن القيم باستصحاب الوصف المثبت للحكم حتى يثبت خلافه كالملك، عند وجود سببه، وهو العقد أو الوراثة، أو غيرهما من أسباب الملك. استصحاب الحكم الأصلي المعلوم بالعقل في الأحكام الشرعية أى انتفاء الأحكام السمعية في حقنا قبل ورود الشرع، كالحكم ببراءة الذمة من التكاليف الشرعية حتى يوجد دليل شرعى يدل على التكليف ويسمى هذا بالبراءة الأصلية. استصحاب حكم ثابت بالإجماع في محل الخلاف بين العلماء مثاله: إجماع الفقهاء على صحة الصلاة عند فقد الماء، فإذا أتم المتيمم الصلاة قبل رؤية الماء صحت الصلاة، وأما إذا رأى الماء في أثناء الصلاة فهل تبطل الصلاة أم لا. قال الشافعي ومالك، لا تبطل الصلاة لأن الإجماع منعقد على صحتها قبل رؤية الماء، فيستصحب حال الإجماع إلى أن يدل دليل على أن رؤية الماء مبطلة (اصول الفقہ الاسلامی لوہبہ الزحیلی )

1 comment: