جواب
کسی ادارے کی سفیر کی حیثیت اجیر کی ہوتی ہے اور عقد اجارہ میں ضروری ہے کہ اجرت متعین ہو۔ صورت مسؤلہ میں کمیشن پر چندہ اکٹھا کرنا تین وجوہ سے درست نہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ اس میں سفیر کی اجرت مجہول ہوتی ہےجب کہ اجارہ کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ اجیر کی اجرت معلوم ہو،لہذا اجرت کی جہالت کی بنا پر یہ معاملہ جائز نہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس عقد میں منفعت بھی مجہول ہے،کیونکہ اگر اس کا کام لوگوں سے چندہ وصول کرنا ہے تووہ اس کے اختیار میں نہیں،اس کا کام تو محض لوگوں کو چندہ کی ترغیب دینا ہے ،لہذا یہ اجارہ ایسے عمل پر ہوا جو اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔اور اگر اجارہ اس پر منعقد ہوا کہ وہ لوگوں کو چندہ کی ترغیب دیا کرے تو اس صورت میں بھی یہ واضح نہیں کہ اس کام میں کتنا وقت خرچ کرے گا ،نیز کن کن مواقع پر لوگوں کو ترغیب دےگا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں سفیر کی تنخواہ چندہ سے مقرر کی جاتی ہے اور فقہاےکرام کی آراء کے مطابق جو چیز اجیر کے عمل سے حاصل ہوتی ہو،اسے اجرت میں مقرر کرنا جائز نہیں۔
لہذا کسی دینی مدرسہ کے سفیر کی یا مہتمم کی تنخواہ چندہ کی رقم سے بطور کمیشن مقرر کرنا جائز نہیں ۔جائز صورت یہ ہے کہ معین تنخواہ مقرر کی جائے ۔
وشرطها:كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛لأن جهالتهما تفضي الى المنازعة۔(الدر المختار على صدر رد المحتار:كتاب الإجارة،ج:9،ص:7)
(تفسد الأجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد،فكل ما أفسد البيع،يفسدها)كجهالة مأجور أوأجرة۔(الدر المختار على صدر رد المحتار:كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة:ج:9،ص:64)
No comments:
Post a Comment