واضح رہے کہ سودی معاملہ اور سودی لین دین نصِ قرآن واحادیثِ مبارکہ کی رو سے حرام ہے، اسلام میں جس طرح سود دیناحرام و ناجائز ہے، اسی طرح سود لینابھی حرام و ناجائز ہے ، احادیثِ مبارکہ میں دونوں پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں،لہٰذا مسلمان خواہ دار الحرب میں ہو یا دار الاسلام میں، سودی معاملہ مسلمان سے کرے یا غیر مسلم سے، ہر حال میں ناجائز وحرام ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں غیر مسلموں سے ایک یا دو مہینے کی مدت تاخیر کرنے پر پانچ یا دس فیصد سود لینا جائز نہیں ہے،چاہے اس رقم کو ہدیہ یا غرباء میں تقسیم کرنے ہی کی نیت کیوں نہ ہو، البتہ اگر پہلے سودی معاملہ کیا گیا ہو اور رقم آگئی ہو تو اگر کسی فرد سے لی ہو او وہ معلوم بھی ہو، تو اس کو لوٹانا شرعاً ضروری ہوگا، اور اگر اس شخص تک رقم پہنچانا دشوار ہو یا وہ معلوم نہ ہو ،تو کو بلا نیتِ ثواب سودی رقم کو صدقہ کردے اور اپنے فعل پر توبہ واستغفار کرے۔
نیز اگر کسٹمر سے ثمن كی وصوليابی ميں تاخیر کی وجہ سے دشواری پیش آرہی ہو، تو بائع کو چاہیےکہ ادھار کی صورت میں اپنے مال کی قیمت بڑھاکر فروخت کرے اور جس قیمت پر فروخت کرے وہی قیمت وصول کرنا جائز ہوگا،تاخیر کی وجہ سے اس پر جرمانہ وصول کرنا ناجائز ہوگا۔
قرآنِ کریم میں باری تعالی کا ارشاد ہے :
"{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}."
ترجمہ:…’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔ [البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹-بیان القرآن]
حدیث شریف میں ہے:
"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»".
(صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:1219،3،ط:داراحیاءالتراث العربی
No comments:
Post a Comment