https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 1 December 2023

سیکورٹی پر مکان یا پروپرٹی دینا یا لینا

 مالک مکان کا  کر ایہ دار سے سیکورٹی کے طور پر (ایڈوانس)  رقم وصول کرناشرعاً جائز ہے، اور یہ رقم فی نفسہ مالک کے پاس امانت ہوتی ہے، البتہ چوں کہ عرفاً مالک مکان یا دکان کو  اس رقم کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے؛ اس بنا پر  یہ رقم شرعاً مالک کے ذمے  قرض شمار  ہوگی، اور اس پر قرض والے اَحکام لاگو ہوں  گے۔باقی اگر مالک مکان کرایہ دارسے پیسے نہیں لیتا تو اس طرح کرنا بھی جائز ہے بشرطیکہ کرایہ نہ دینے کو ایڈوانس کی رقم کے ساتھ مشروط نہ کیا گیا ہو اگر یوں طے کیا گیا کہ کرایہ دار ایڈوانس دے گا تو کرایہ نہیں لیا جائے گا تو  یہ معاملہ سود کی اقسام میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگا۔ 

واضح رہے کہ مکان کرائے پر لیتے وقت   جو سکیورٹی  (زر ضمانت) مالک مکان کو ادا کی جاتی ہے یہ تو شرعا قرض کے حکم میں ہوتی ہے ۔ رہائشی مکان کے بدلہ سکیورٹی (زر ضمانت)  کی تین ممکنہ صورتیں ہیں :

۱) مارکیٹ ریٹ کے مطابق مکان کرائے پر لیا جائے اور مالک مکان کے پاس سکیورٹی جمع کروائی جائے۔

۲) مالک مکان کو معروف سکیورٹی سے کچھ زیادہ سکیورٹی جمع کروائی جائے اور اس زیادہ سکیورٹی کی وجہ سے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے کم کرایا طے کیا جائے۔

۳) مالک مکان کو سکیورٹی جمع کروائی جائے اور کسی قسم کا کرایہ  طے نہ کیا جائے بلکہ اس سکیورٹی کے عوض رہائش پر مکان مل جائے۔

ان تین صورتوں میں سے پہلی صورت جائز ہے باقی دونوں صورتیں  نا جائز ہیں کیونکہ اخیر کی دونوں صورتوں میں سکیورٹی جو کہ قرض ہے اس کے بدلہ نفع کا حاصل کرنا پایا جارہا ہے (دوسری صورت میں یہ نفع کرائے میں کمی کی شکل میں ہے اور تیسری صورت میں بغیر کرائے کے مکان میں رہائش کی شکل میں ہے) اور قرض کے بدلہ نفع حاصل کرنا سود کے حکم میں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں  سکیورٹی ادا  کر کے  بلا اجرت مکان رہائش  کے لیے لینا شرعا نا جائز ہے۔نیز  جن ایام میں مکان میں رہائش اختیار کی ان ایام کی  اجرت مکان میں رہنے والے پر اجرت مثل کے اعتبار سے واجب ہوگی کہ وہ مالک مکان کو اس  جیسے مکان کا کرایہ ادا کرے خواہ علیحدہ سے رقم دے کر کرایہ دے یا ایسی سکیورٹی والی رقم میں سے منہا کر کے دے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه."

(کتاب البیوع ، باب المرابحہ وا لتولیۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۶،ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية. (وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة."

(کتاب الاجارہ ، باب اول ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۰۹، ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما الإجارة ‌الفاسدة، وهي التي فاتها شرط من شروط الصحة فحكمها الأصلي هو ثبوت الملك للمؤاجر في أجر المثل لا في المسمى بمقابلة استيفاء المنافع المملوكة ملكا فاسدا؛ لأن المؤاجر لم يرض باستيفاء المنافع إلا ببدل."

(کتاب الاجارۃ، فصل فی حکم الاجارۃ ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۱۸، دار الکتب العلمی

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الخانية: رجل استقرض دراهم وأسكن المقرض في داره، قالوا: يجب أجر المثل على المقرض؛ لأن المستقرض إنما أسكنه في داره عوضا عن منفعة القرض لا مجانا وكذا لو أخذ المقرض من المستقرض حمارا ليستعمله إلى أن يرد عليه الدراهم اهـ وهذه كثيرة الوقوع."

(کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ جلد ۶ ص :۶۳ ، ۶۴  ط : دارالفکر)

آپ کے مسائل اور ان کے حل  میں ہے:

"کرایہ دار سے ایڈوانس لی ہوئی رقم کا شرعی حکم

س… مالکِ مکان کا کرایہ دار سے ایڈوانس رقم لینا امانت ہے یا قرضہ ہے؟
ج… ہے تو امانت، لیکن اگر کرایہ دار کی طرف سے استعمال کی اجازت ہو  (جیسا کہ عرف یہی ہے) تو یہ قرضہ شمار ہوگا۔
س… مالکِ مکان ایک طرف کرایہ میں بھاری رقم لیتا ہے، پھر ایڈوانس کے نام کی رقم سے فائدہ اُٹھاتا ہے، پھر سال دو سال میں کرایہ میں اضافہ بھی کرتا ہے، تو کیا یہ صریح ظلم نہیں، اس مسئلے کا سرِ عام عدالت کے  واسطے سے، یا علمائے کرام کی تنبیہ کے ذریعے سے سدِ باب ضروری نہیں؟

ج… زَرِ ضمانت سے مقصد یہ ہے کہ کرایہ دار بسااوقات مکان کو نقصان پہنچادیتا ہے، بعض اوقات بجلی، گیس وغیرہ کے واجبات چھوڑ کر چلا جاتا ہے، جو مالکِ مکان کو ادا کرنے پڑتے ہیں، اس کے  لیے کرایہ دار سے زَرِ ضمانت رکھوایا جاتا ہے، ورنہ اگر پورا اعتماد ہو تو زَرِ ضمانت کی ضرورت نہ رہے۔"

(کرایہ دار سے لی ہوئی رقم کا شرعی حکم جلد ۷ ص:۱۶۷ ، ۱۶۸ ط: مکتبہ لدھیانوی)

No comments:

Post a Comment