نماز میں آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کےفوراً بعد سجدہ واجب ہوجاتا ہے، اور اسی وقت سجدہ کرنا چاہیے، اور آیتِ سجدہ تلات کرنے کے بعد آگے مزید تین آیات پڑھ لیں اور سجدہ نہیں کیا تو یہ سجدہ قضا شمار ہوگا، اوراس کے لیے پھر نماز کے اندر ہی سجدہ تلاوت بھی کرنا لازم ہوگا، اور تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو بھی لازم ہوگا۔
آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد تین آیات سے پہلے اگر رکوع کرلیا تو رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرنے سے سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا، امام اگر رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت کرے تو مقتدیوں کو بھی رکوع میں سجدہ تلاوت کرنے کی نیت کرنی ہوگی، ورنہ مقتدیوں کا سجدہ ادا نہیں ہوگا، اس لیے امام کو رکوع میں سجدہ تلاوت کی نیت نہیں کرنی چاہیے، اور اگر آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد آگے تین آیات پڑھنے سے پہلے رکوع کیا اور اس میں نیت نہیں کی تو اس کے بعد نماز کے سجدہ سے امام اور مقتدی دونوں کا سجدہ تلاوت ادا ہوجائے گا۔
لیکن آیتِ سجدہ تلاوت کرنے کے بعد آگے مزید تین آیات تلاوت کرنے کے بعد رکوع کیا تو اس میں نیت سے بھی سجدہ تلاوت ادا نہیں ہوگا اور نہ ہی نماز کے سجدہ سے ادا ہوگا، یعنی نماز کےرکوع میں نیت کے ساتھ اور سجدہ میں نیت کے بغیر سجدہ تلاوت ادا ہونے کے لیے "فور" (جلدی) شرط ہے، اور "فور" کا مطلب ہے کہ آیتِ سجدہ کے بعد مزید تین آیات نہ پڑھے۔ تاہم اس صورت سے دو سورتیں مستثنیٰ ہیں، (1)سورۂ انشقاق (2) سورۂ بنی اسرائیل، ان دو سورتوں میں اگر سورۃ ختم کرکے بھی رکوع میں نیت کرلی تب بھی سجدہ تلاوت ادا ہوجاتا ہے، اس لیے کہ ان دونوں سورتوں میں سورت ختم ہونے سے چند آیات پہلے ہی آیت سجدہ ہے ، تو یہ "فور" کے حکم میں ہی ہے۔
مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں مذکورہ امام کا "سورۃ انشقاق" پڑھ کر سورت ختم کرکے رکوع میں سجدۂ تلاوت کی نیت کرلینے سے امام کا سجدہ تلاوت تو ادا ہوجائے گا، البتہ مقتدیوں کے سجدہ تلاوت ادا ہونے کے لیے ان کا بھی نیت کرنا ضروری ہے، اس لیے امام کو چاہیے کہ یا مقتدیوں کو بھی بتادے، ورنہ اس طرح کا معمول نہ بنائے؛ تاکہ لوگوں کو تشویش نہ ہو۔
باقی جو سجدہ تلاوت نماز میں پڑھا جائے تو اس کا سجدہ نماز ہی میں ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، اس کے بعد اس کی قضا نہیں ہوتی، اس لیے مقتدیوں سے جو سجدہ قضا ہوگئے ہیں ان پر توبہ واستغفار کریں اور ان نماز وں کی قضا لازم نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 109، 110، 111):
"(وهي على التراخي) على المختار ويكره تأخيرها تنزيهاً، ويكفيه أن يسجد عدد ما عليه بلا تعيين ويكون مؤدياً وتسقط بالحيض والردة (إن لم تكن صلويةً) فعلى الفور لصيرورتها جزءاً منها ويأثم بتأخيرها ويقضيها ما دام في حرمة الصلاة ولو بعد السلام، فتح ... (ولو تلاها في الصلاة سجدها فيها لا خارجها)، لما مر. وفي البدائع: وإذا لم يسجد أثم فتلزمه التوبة ... (وتؤدى بركوع وسجود) غير ركوع الصلاة وسجودها (في الصلاة وكذا في خارجها ينوب عنها الركوع) في ظاهر المروي، بزازية (لها) أي للتلاوة (و) تؤدى (بركوع صلاة) إذا كان الركوع (على الفور من قراءة آية) أو آيتين وكذا الثلاث على الظاهر، كما في البحر (إن نواه) أي كون الركوع (لسجود) التلاوة على الراجح (و) تؤدى (بسجودها كذلك) أي على الفور (وإن لم ينو) بالإجماع، ولو نواها في ركوعه ولم ينوها المؤتم لم تجزه ويسجد إذا سلم الإمام ويعيد القعدة.
No comments:
Post a Comment