https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 8 February 2024

امام کو قرآن نہ سنانے کی بناپر پریشان کرنا

 


الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذاتی مفاد اور کسی  غرض سے کسی مسجد کے امام کو جس سے کوئی شرعی اختلاف نہیں ہے، الگ یا معزول نہیں کیا جا سکتا یہ بہت بری بات ہے کہ معمولی سے  اختلاف یا ذاتی مفاد کو امام پر یا امامت پر اتارا جائے اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں سے بچا جائے کہ یہ حرکت غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے، اگر واقعی امام صاحب میں کوئی کمی ہے، تو ان کو بصد ادب واحترام معروف وسہل انداز میں تمام احترامات کے ساتھ متوجہ کر دینا چاہئے۔ بغیر وجہ شرعی کے موجود ہ امام کو معزول اور الگ کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عمر و بن الحارث بن المصطلق قال: کان یقال أشد الناس عذابا یوم القیامۃ إثنان إمرأۃ عصت زوجہا، وإمام قوم وہم لہ کارہون، قال ہناد: قال جریر: قال منصور: فسألنا عن أمر الإمام فقیل لنا: إنما عني بہذا الأئمۃ الظلمۃ، فأما من أقام السنۃ، فإنما الإثم علیٰ من کرہہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من أم قوماً وہم لہ کارہون‘‘: ج۱، ص: ۶۶،رقم:۳۵۹)
ولوأم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ، أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً (إلیٰ قولہ) وإن ہو أحق لا، والکراہۃ علیہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
وفي جامع الفصولین بغض عالمًا أو فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔…(جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون في مسائل کلمات الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص266اولا ًتو کسی  ایک عام مسلمان کو برا  کہنا، شرعی اعتبار سے بہت بڑا گناہ ہے،پھر جب سامنے مسجد کا امام ہو ،اور اس کے بارے میں غلط الفاظ منہ سے نکالے جائیں ،تو گناہ کی سنگینی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے،امامت کا مرتبہ تو وہ مرتبہ ہے ،کہ جس پر انبیاء ،خلفاء راشدین،اللہ کے نیک وکار لوگ فائز تھے،ایسے مبارک منصب پر جو شخص موجود ہو،اس کے بارے میں بلا وجہ نازیبا زبان استعمال کرناگناہ ہے،لہذا جو بھی لوگ اس حرکت میں مبتلا ہیں ،ان کو چاہیے کہ فورا پہلے امام سے جاکر معافی مانگیں،جو بھی گلے شکوے ہیں ،ان کو بیٹھ کر دور کیا جائے ،اور پھر اللہ کے سامنے بھی توبہ واستغفار کرے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص جو امام کو برا بھلا کہے،اس کو گالیاں دے،تو ایسے شخص کی نماز اس امام کے پیچھے ہوجائے گی ،اعادہ کی ضرورت نہیں ۔ 

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"أن ‌اسم ‌الإمامة يتناول ما ذكرناه، فالأنبياء عليهم السلام في أعلى رتبة الإمامة، ثم الخلفاء الراشدون بعد ذلك، ثم العلماء والقضاة العدول ومن ألزم الله تعالى الاقتداء بهم، ثم الإمامة في الصلاة ونحوها."

(باب القول في بسم الله الرحمن الرحيم، ج:١، ص:٨٣، ط:دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

" ومن أبغض عالماً من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصداً الاستخفاف بالدين كفر، لا إن لم يقصده".

(باب احكام المرتدين، ج:٥، ص:١٣٤، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوٰی مفتی محمود میں ہے:

"س:کیافرماتےہیں علمائے دین دریں مسئلہ کہ ایک آدمی کی امام مسجد سے کافی عرصہ سے بول چال نہیں ہے،وجہ یہ ہوئی کہ دونوں میں جھگڑا صرف دنیاداری پرہے،اورباقی لوگوں نے دونوں کومنانے کی کوشش کی لیکن صلح نہیں ہوسکی،نہ امام مسجد مانتاہے ،نہ مقتدی مانتاہے،گزارش یہ ہے کہ اگرمقتدی اس امام کے پیچھےنمازپڑھ لے تونماز ہوسکتی ہے یانہیں؟

ج:شخص ِمذکور اگرامام ِمذکور کی پیچھے نمازپڑھے گاتو نمازاداہوجائےگی۔"

(باب الامامۃ، ج:2، ص:208، ط:جمعیت پبلیکیشنز)

No comments:

Post a Comment