https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 24 July 2024

سودی رقم سے غیر مسلم کا علاج کرانا

  حرام مال اگر اصل مالک یا اس کی موت کی صورت میں اس کے ورثاء  کو لوٹانا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں ثواب کی نیت کے بغیر  فقراء پر  صدقہ کرنا واجب  ہوتا ہے،  کافر فقیر کو بھی ایسا مال دے سکتے ہیں، تاہم مسلمان فقراء پر صدقہ اولی ہے۔

  غیر  مسلم شخص اگر محتاج ہو تو ایسی صورت میں سودی رقم اسے دے سکتے ہیں؛ تاکہ وہ اپنا علاج کرائے بشرطیکہ سودی رقم اصل مالک کو واپس کرنا ممکن نہ ہو، پس جن افراد سے یا ادارے سے سود وصول کیا ہو اگر ان کو لوٹانا ممکن ہو تو اصل افراد کو واپس کرنا شرعًا ضروری ہوگا۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"بنک کی سودی رقم غریب مسلمانوں کے ہوتے ہوئے غیرمسلم کو دینا جائز ہے؟

الجواب:

دے سکتے ہیں، مگر بہتر نہیں ہے، حاجت مند مسلمانوں کا حق مارنے کے مثل ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب"۔

( کتاب الزکاة، بعنوان: زکوٰۃ کی تقسیم کا کام غیر مسلم کو سپرد کرنا اور غیر مسلم کو زکوۃ اور سود کی رقم دینا، ۷ / ۱۸۱)

المبسوط للسرخسي میں ہے:

"والسبيل في الكسب الخبيث التصدق". ( ١٢ / ١٧٢)

 الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه".(٥ / ٩٩)

فتاوی شامی میں ہے:

لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ اهـ.

( كتاب الحضر و الاباحة، فصل في البيع، ٦ / ٣٨٥، ط: دار الفكر)

منحة الخالق لابن العابدين میں ہے:

وَيَجِبُ عَلَيْهِ تَفْرِيغُ ذِمَّتِهِ بِرَدِّهِ إلَى أَرْبَابِهِ إنْ عُلِمُوا وَإِلَّا إلَى الْفُقَرَاءِ."

(منحة علي البحر، كتاب الزكوة، شروط وجوب الزكوة، ٢ / ٢١١، ط: دار الكتاب الإسلامي )

No comments:

Post a Comment