https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 25 July 2024

زکوٰۃ کی مد میں ملے ہوئے سامان کو بیچنا

 جس کو زکوۃ وغیرہ میں کوئی چیز مل جائے،تو وہ اُس چیزکا مالک بن جاتا ہے، اور اسے اس میں  تصرف کرنے کا اختیار حاصل ہوتاہے ، چاہے توخود استعمال کرے ،یا فروخت کرے یا کسی دوسرے کو ہبہ کرے ،کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں مستحق  زکوۃ کو زکوۃ  کی مد میں راشن وغیرہ  ملنے کی صورت میں اس کے لیے  آگے بیچنا جائز ہے۔اور اسی طرح استطاعت رکھنے والے کےلیے زکوۃ کا مال خریدناجائز ہے، کیونکہ ملکیت تبدیل ہونے سے اُس چیزکا حکم بدل جاتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"للمالك أن یتصرف في ملكه أي تصرف شاء."

(کتاب الدعوي، ج: 6، ص: 264، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وهل له أن يخالف أمره؟ لم أره والظاهر نعم.

وفي الرد: (قوله: والظاهر نعم) البحث لصاحب النهر وقال؛ لأنه مقتضى صحة التمليك قال الرحمتي: والظاهر أنه لا شبهة فيه؛ لأن ملكه إياه عن زكاة ماله."

(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج: 2، ص: 345، ط: سعيد)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن قتادة، سمع أنس بن مالك، قال: أهدت بريرة إلى النبي صلى الله عليه وسلم لحماً تصدق به عليها، فقال: «هو لها صدقة، ولنا هدية»."

(كتاب الزكاة، باب إِباحة الهدية للنبي صلى الله عليه وسلم ولبني هاشم وبني المطلب وإِن كان المهدي ملكها بطريق الصدقة...، ج: 2، ص: 700، رقم: 2485، ط: بشري)

No comments:

Post a Comment