اگر داماد واقعۃً مستحقِ زکاۃ ہو یعنی اس کے پاس ضرورتِ اصلیہ سے زائد نقدی جو نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر یا اس سے زیادہ ہو یا کسی قسم کا مال (سونا، چاندی، نقدی یا مالِ تجارت) یا (اتنی مالیت کا ضرورت و استعمال سے زائد کسی قسم کا) سامان نہ ہو، اور ہاشمی بھی نہ ہو تو اسے زکاۃ دے سکتے ہیں، اور اس میں دوگنا اجر ہوگا، ایک فریضۂ زکاۃ کی ادائیگی کا، دوسرا صلہ رحمی کا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وَيَجُوزُ دَفْعُهَا لِزَوْجَةِ أَبِيهِ وَابْنِهِ وَزَوْجِ ابْنَتِهِ، تَتَارْخَانِيَّةٌ". ( كتاب الزكاة، بَابُ مَصْرِفِ الزَّكَاةِ وَالْعُشْرِ، ٢ / ٣٤٥، ط: دار الفكر)
مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:
"والأفضل صرفها للأقرب فالأقرب من كل ذي رحم محرم منه ثم لجيرانه، ثم لأهل محلته ثم لأهل حرفته ثم لأهل بلدته، و قال الشيخ أبو حفص الكبير رحمه الله: لاتقبل صدقة الرجل وقرابته محاويج حتى يبدأ بهم فيسد حاجتهم". ( كتاب الزكاة، باب المصرف، ١ / ٢٧٢ - ٢٧٣، ط: المكتبة العصرية)
No comments:
Post a Comment