https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 8 November 2020

مولاناعبداللہ کاشفی رحمہ اللہ

میرے چچاجان حضرت مولاناعبداللہ بن الحاج چندرخان علیہ الرحمہ نے طویل علالت کے بعد بتاریخ 5نومبر2020 مطابق 15ربیع الاول 1442ھ بوقت 3بجے دن وفات پائی اناللہ واناالیہ راجعون.

آنے جانے پہ سانس کے ہےمدار

سخت ناپائیدار ہے دنیا

 وہ دوسال سے تقریبا صاحب فراش تھے .ذیابیطس,بلڈ پریشر,اور ضیق النفس جیسے موذی امراض کی بناپرچلنے پھرنے سے مکمل طور پر عاجز ہوگئے تھے لیکن بیماری کے دوران  اخیرتک ہوش وحواس مکمل طور پرصحیح سلامت رہے.5نومبر بعد نماز عشاء راقم الحروف نے مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی.نماز سے پہلے احباب کے اصرار پرمختصربیان بھی کیا

انہوں نے بحالت یتیمی پرورش پائی .ماں باپ کاسایہ بچپن ہی میں سرسے اٹھ گیاتھا.مختلف مدارس میوات میں تعلیم حاصل کی.زمانۂ طالبعلمی میں مدارس  کی سرزنش وزدوکوب کے ماحول سے بچپن میں ان کادل اچاٹ ہوگیاتھااسی لئےباربار مدارس سے فرار ہوجاتے تھے.والد صاحب انہیں باربار تلاش کرکے لاتے پھرکسی مدرسہ میں داخلہ دلادیتے اور وہ پھروہاں سے راہ فرار اختیار کرلیتے.یہ سلسلہ سالہا سال چلتا رہا.  آج میں سوچتا ہوں تو میں یقین کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کی وجہ مدارس میں طلباء کی بے تحاشہ پٹائی اورمدرسین کی سختی  ہوتی تھی.اس غیرشرعی طریقۂ کار نے نہ معلوم کتنے بچوں کودینی تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا اور نہ جانے کتنی بڑی تعداد دینی تعلیم سے متنفر ہوکر ہمیشہ کے لئے تشنۂ علم رہ گئ.حضرت تھانوی اور دیگر محققین علماء نے مدارس میں طلباء کی اس بیجا پٹائی سے سختی کے ساتھ روکا ہے.اور اسے حرام قرار دیا ہے .لیکن افسوس مدارس میں اساتذہ طلباء کوجس  بے دردی  سے ہمارے زمانے میں مارتے تھے اس کی بناپر خود مجھے بھی اپنے زمانۂ طالبعلمی میں مدارس سے نفرت سی ہوگئ تھی .حتی کہ مجھے ان لوگوں اور گاؤں کے باشندوں سے بھی نفرت تھی جو مدارس کے قریب رہتے تھے.میں مدرسہ میل کے آس پاس آباد چھوٹے چھوٹے گاؤں جیسے کھیڑا,وغیرہ کے مکینوں کو اپنے بچکانہ دل میں پاگل سمجھتاتھا, دل میں کہتاتھایہ لوگ ان گاؤں میں کس طرح رہتے ہیں جبکہ یہاں سب سے بڑی آفت و مصیبت مدرسہ موجود ہے! جہاں اساتذہ طلباء کوجانورکی طرح مارتے ہیں اور کھانے کے لئے اتناسادہ کھانادیتے ہیں جسے انسان صرف جان بچانے کے لئے ہی شدید بھوک کی حالت میں کھاسکتاہے.اور مزدوروں سے زیادہ کام لیتے ہیں .نہ لباس کی فکر نہ بیماری کاپتہ نہ آرام کی خبر.میرا خیال تھا کہ جیل میں لوگ ان مدارس سے زیادہ آزاد اور آرام میں رہتے ہوں گے

تبارک اللہ ازیں فتنہا کہ درسرماست

 . بہرکیف چچاجان نے اسی بھاگم بھاگ میں بالآخرمدرسہ کاشف العلوم مسجد بنگلہ والی مرکز حضرت نظام الدین دہلی سے فضیلت کی سند حاصل کی. ان کے اساتذہ میں مولانا محمد ایوب بن میانجی موسی گھاسیڑہ (والد محترم مولانا محمد قاسم بانئ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑلا), مولانا غلام قادرکشمیری,مولانا محمد اسحاق اٹاؤڑی شیخ الحدیث مدرسہ معین الاسلام نوح,مولانانیاز محمد خلیفہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی,مولانا محمد صدیق شیخ الحدیث مدرسہ نوح,مولانا شبیراحمد بن منشی بشیراحمد رحمہ اللہ,مولانا اظہارالحسن  کاندھلوی وغیرہ قابل ذکر ہیں,والد صاحب نے بھی انہیں مدرسہ افضل العلوم تاج گنج آگرہ میں ابتدائی عربی فارسی کی کتابیں گلستاں بوستاں,نحومیرصرف میر وغیرہ پڑھائی تھیں. مرکزنظام الدین سے فارغ التحصیل ہونے کے بعدسے ہی گوڑیانی ضلع ریواڑی اورعلاقۂ جھجر میں  امامت کے فرائض انجام دیتے رہے.اور یہ سلسلہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے.

راقم الحروف کوبارہا  چچاجان نے گوڑیانی اور علاقۂ جھجر آنے کی دعوت دی لیکن اپنی کاہلی کی بناپرکبھی حاضر نہ ہوسکا.وہاں کے مسلمانوں کی حالت زار, دین سے دوری اور دینی دعوت کے واقعات اکثر سناتے تھے.

میں نے ایک روزاپنے والدگرامی حضرت مولانارحیم بخش علیہ الرحمہ سے دریافت کیا:چچاجان جب باربار مدارس سے بھاگ جاتے تھے تو آپ کیوں ان کوپڑھانے کے درپے تھے؟رہنے دیتے!توآپ نے اس کا جو جواب  دیاتھاوہ یقیناََ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.انہوں نے فرمایا"میں اس لئے ان کوتلاش کرکے باربار مدارس میں داخل کرتاتھا کیونکہ مجھے یہ خوف دامن گیرتھا , کہیں میرے ماں باپ روز محشر مجھ سے  پوچھ  بیٹھے ہم نے ایک یتیم بچہ چھوڑا تھا تم اسے بھی نہ پڑھاسکے!  تومیں انہیں کیاجواب دوں گا"اس لئے جب تک وہ فارغ التحصیل نہ ہوگئے میں چین سے نہ بیٹھا". میں نے عرض کیا لیکن آپ تو تین بھائی بہن ہیں  .آپ کی بہن بھی توہیں ؟انہوں نے فرمایا :لڑکی ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم کا کوئی انتظام اس دور میں ہم جیسے مفلوک الحال لوگوں کے لئے ممکن نہ تھا البتہ لڑکوں کے لئے مدارس موجودتھے .اس لئے جوممکن تھا اس پرعمل کرنا میں اپنا فرض سمجھتاتھا.

چچاجان خودبھی اکثر اپنے واقعات بیان فرمایاکرتے تھے ایک مرتبہ فرمایا جب ہماری شادی ہوئی توسنگار سے سرائے گاؤں برات گئ .اس میں تمہارے بڑے بھائی قاسم بھی تھے. جوبچپن میں ہی تقریبا تین سال کی عمر میں فوت ہوگئے تھے.وہ اتنے چھوٹے تھے کہ برات کا مفہوم نہیں جانتے تھے البتہ جماعت کے لفظ سےواقف تھے کیونکہ تبلیغی جماعتوں کی آمدورفت میوات میں عام تھی.غرض سرائے گاؤں کے کسی شخص نے ان سے پوچھا: کہاں سے آئے ہو؟تو انہوں نے کہا جماعت میں آیاہوں. اس وقت ان کی عمرتین سال تھی. تین سال کی عمر میں ڈھائی پارہ قرآن مجید انہیں حفظ یادتھا.مولاناعبدالکریم بن میانجی موسی رحمہ اللہ جو اس دور میں مدرسہ مصباح العلوم سنگار کے ناظم تھے اور والد صاحب سے گہرے تعلقات کی بناپراکثر گھرتشریف لاتے تھے پہلی بار اتنے چھوٹے بچے  سے قرآن مجید سن کر دنگ رہ گئے.

جب راقم الحروف قصبہ کاماں کے مدرسہ کاشف العلوم میں تحفیظ قرآن کا طالب علم تھا تو چچاجان وہاں مجھ سے ملنے آئے.اور کپڑے دھونے کے پانچ بھائی صابن  دلاکر چلے گئے میں ان کے پیچھے پیچھے ہولیا اس امید پرکہ شاید اس جنجال سے مجھے ہمیشہ ہمیش کے لئے آزاد کراکے لیجائیں گے!لیکن  ایسا نہ ہوسکا انہوں مجھے اپنے پیچھے آتے دیکھا تو سبب دریافت کیا. میرے پاس  بتلا نے کے لئے رونے کے علاوہ الفاظ نہ تھے.لہذا میں نے رونا شروع کردیا وہ مجھے  بازار سے مدرسہ میں چھوڑکر ڈانٹتے ہوئے چلے گئے کہ اب میرے پیچھے مت آنا مدرسہ میں محنت سے پڑھو.

میل کھیڑلاء میں دوران تعلیم مجھے منطق و فلسفہ سے دلچسی تھی.علامہ تفتازانی کی شرح تہذیب کی اردو شرح مصباح التہذیب میں نے کہیں دیکھی توعاریتاََ لےلی ,میں اسے چھٹیوں میں گھرلے آیا ایک روز چچاجان تشریف لائے توکتاب دیکھ کرفرمایا یہ کس کی کتاب ہے؟میں نے کہا میری ہے.فرمایامنطق وفلسفہ میں اتنی محنت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں .محنت قرآن وحدیث میں کرنی چاہئے.منطق وفلسفہ میں مہارت عام طورپرالحاد لاتی ہے."

پھروہ کتاب اٹھاکرلے گئے جب میں نے بہت اصرار کیا تو عرصۂ دراز کے بعداس تنبیہ کے ساتھ واپس کی کہ جس سے لی ہے اسے واپس کردینا.اس وقت میں نے نادانی کی بناپر یہ سمجھا کہ منطق و فلسفہ پر زیادہ توجہ نہ دینے کامشورہ غلط تھا حالاں کہ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ مشورہ بالکل درست تھا.منطق وفلسفہ صرف معاون ہیں اصل نہیں. اصل قرآن حدیث فقہ وتفسیرہی ہیں.

والد صاحب سے کسی بات پر ایک  مرتبہ ان بن ہوگئ تھی پھر عرصہ کے بعد افہام وتفہیم سے احباب نے دونوں کاسمجھوتہ کروایاتو دونوں بھائی دیر تک بچوں کی طرح گلے مل کر سرعام روتے رہے.اور سارے گلے شکوے فی الفور کافور ہوگئے.

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

***

3 comments:

  1. You are amazing blogwriter
    May Allah grant you further success!

    ReplyDelete
  2. Really informative article. I think it would be great to see this article translated in English.

    ReplyDelete