https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 30 July 2024

کھڑے ہوکر پانی پینا

 کھڑے ہو کر پانی پینے کے متعلق کتبِ حدیث میں  دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں، اُن میں سے بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی ممانعت  وارد ہوئی ہے، اور بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی اجازت موجود ہے، لہٰذا دونوں جانب  کی احادیث کو  مدِ نظر رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے یہ حکم بیان فرمایا ہے  کہ  اگر کوئی مجبوری ہو (مثلاً رش ہو  یا جگہ کیچڑوالی ہو، یابیٹھنے کے لیے جگہ میسر نہ ہو) تو ایسی صورت میں  کھڑے ہوکر پانی پینا بلا کراہت جائز ہے، لیکن   بغیر کسی مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پینا  اور اس کی عادت بنا لینا مکروہِ تنریہی (یعنی خلافِ ادب) ہے؛ کیوں  کہ اس سے انسان کے جسم میں بیماریاں پیدا ہونے اور اس كو  ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے؛لہٰذا    بیٹھ کر پانی پینا ہی باعثِ خیر و ثواب ہے، لیکن  اگر کسی نے  بغیر مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پی لیا  تب بھی وہ گناہ گار نہیں کہلائے گا اور نہ ہی  اُس کی پکڑ ہوگی، بلکہ صرف بیٹھ کر پانی پینے  سے جو ثواب ملتا ہے،  اس سے محروم ہوجاۓگا۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب کھڑے ہوکر پانی پینے کا واقعہ کتبِ حدیث میں سنداًومتناً صراحت کےساتھ موجودہے، لیکن اس عمل کو  عمومی اَحوال پر محمول نہیں کیا جاسکتا، دراصل  اہلِ کوفہ  کھڑے ہوکر پانی پینے کو  ناجائز  امر سمجھتے تھے،  صرف ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پانی پی کر دکھایا؛ تاکہ  ان کے دل و دماغ سے یہ خلجان دور ہوسکے۔ اور  آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس لیے تھا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ جائز ہے، عادت کے طور پر نہیں تھا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا أبو نعيم: حدثنا مسعر، عن عبد الملك بن ميسرة عن النزال قال: أتى علي رضي الله عنه على باب الرحبة بماء فشرب قائما، فقال: إن ناسا يكره أحدهم أن يشرب و هو قائم، وإني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فعل كما رأيتموني فعلت."

(كتاب الأشربة، باب: الشرب قائما، ج:5، ص:2130، ط: دار ابن كثير)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا بأس بالشرب قائما، ولا يشرب ماشيا ورخص للمسافرين، ولا يشرب بنفس واحد، ولا من فم السقاء والقربة؛ لأنه لا يخلو عن أن يدخل حلقه ما يضره، كذا في الغياثية."

(کتاب الکراهیة، الباب الحادي عشر فی الکراهة فی الأکل و مایتصل به، ج:5 ص:341 ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما المكروه كراهة تنزيه فإلى الحل أقرب اتفاقا

(قوله: فإلى الحل أقرب) بمعنى أنه لا يعاقب فاعله أصلا، لكن يثاب تاركه أدنى ثواب تلويح، وظاهره أنه ليس من الحلال، ولا يلزم من عدم الحل الحرمة ولا كراهة التحريم، لأن المكروه تنزيها كما في المنح مرجعه إلى ترك الأولى."

(کتاب الحظر و الإباحة، ج:6، ص:337 ط: دارالفکر)

No comments:

Post a Comment