https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 26 January 2021

ریشمی رومال تحریک:جنگ آزادی کا ایک گمشدہ باب

 شیخ الہند مولانا محمود حسنکے والد  بزرگوار کا نام مولانا ذوالفقار علی تھا۔بانیان دارالعلوم دیوبند میں آپ کاشمار ہوتاہے. عربی زبان کےمایہ ناز ادیب تھے.بریلی میں انگریزی حکومت کی طرف سے انسپیکٹرمدارس کی حیثیت سے ملازم تھے وہیں شیخ الہند   کی پیدائش ۱۸۵۱ء میں ہوئی۔آپ دارالعلوم دیوبند کے اولین طالب علم تھے جبکہ  ملامحمود اولین مدرس .آپ نے  ابتداء سے فراغت تک دارالعلوم ہی میں تعلیم حاصل کی. فراغت کے بعد معین مدرس بنائے گئے۔ اور چار سال کے بعد دارالعلوم دیوبند میں مدرسِ چہارم قرار دیے گئے۔ پھر ۱۸۸۸ء میں صدر المدرسین کے عہدہ پر فائزکیے گئے۔ جس کے فرائض ۱۹۱۵ء تک انجام دیتے رہے

  آپ نے دارالعلوم ہی  میں  ”ثمرة التربیت“کے نام سے ایک جماعت بنائی۔ دارالعلوم کے مالی مفادات کے لیے فضلاء اور ہمدردانِ دارالعلوم سے رابطہ رکھنا اس کا مقصد ظاہر کیاگیا

          ۱۳۲۱ھ/۱۹۰۳ میں”نظارة المعارف“ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بانی حضرت مولانا عبیداللہ سندھی تھے۔ لیکن روحِ رواں  ان کے استاذشیخ الہندمولانا محمود حسن ہی تھے.گاہ بھی تھا۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی تحریر فرماتے ہیں:

           ”اس کا مقصد یہ تھا کہ انگریزی تعلیم سے نوجوانانِ اسلام کے عقائد اور خیالات پر جو بے دینی اور زہریلا اثر پڑتا ہے اس کو زائل کیا جائے اور قرآن کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ ان کے شکوک وشبہات دینِ اسلام سے دور ہوجائیں اور وہ سچے اور پکے مسلمان ہوجائیں ۔“ 

          ساتھ ہی اس کا مقصد سیاسی بھی تھا۔ سی آئی ڈی نے اس سلسلہ میں لکھا ہے:

           ”دیوبند کو اپنے مشنریوں کی تربیت گاہ نہ بنا سکا تو عبیداللہ نے فیصلہ کیا کہ ایک مدرسہ دلّی میں اس مقصد کے لیے قائم کرے۔ اس میں درس کے علاوہ جو ”نظارةالمعارف“ میں دیا جاتاتھا وہ صریحاً درست نہیں تھا،یہ سازشوں کے لیے وقتاً فوقتاً مل بیٹھنے کے لیے ایک جلسہ گاہ بھی تھا۔“

          ۱۹۱۴ء میں عالمی جنگ چھڑ جانے کے بعد شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن  نے محسوس کیا کہ وقت قریب آگیاہے کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے جنگ شروع کی جاسکتی ہے ۔ حضرت شیخ الہند  نے محسوس کرلیاتھا کہ ہندوستانی عوام اور مشرقِ وسطی کے ممالک خصوصاًافغانستان،ایران اور خلافت عثمانیہ کو متحد کیے بغیر برطانوی حکومت سے ایشیاء کو آزاد نہیں کرایا جاسکتا ہے۔ اس وقت خلافت عثمانیہ مشرقی وسطی کے وقار کی محافظ سمجھی جاتی تھی، اور ترکی ہی برطانیہ،اٹلی ‘ فرانس،یونان اور روس کے مقابلہ میں ڈٹا ہوا تھا؛ اس لیے آپ نے حضرت مولا نا عبید اللہ سندھی کو افغانستان جانے کا حکم دیا اورخود حجاز وخلافت عثمانیہ کا سفر کیا۔

          ۱۹۱۵ء میں حضرت شیخ الہند  نے مولانا سندھی کو کابل جانے کا حکم دیا؛ مگر انھیں کوئی مفصل پروگرام نہیں دیا ۔ سی آئی ڈی کو غفلت میں ڈال کر شیخ عبدالرحیم سندھی کے ساتھ کوئٹہ ہوتے ہوئے افغانستان کے لیے روانہ ہوگئے ۔

           شیخ عبدالرحیم سندھی جنہوں نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا یہ بھی حضرت شیخ الہند کی تحریک کے معتمد تھے۔ مولانا عبید اللہ سندھی کو افغانستان جانے کے لیے ان کی بیوی اور بیٹیوں نے اپنے زیورات فروخت کرکے زاد راہ کی فراہمی کی تھی۔ روانگی کے وقت شیخ عبدالرحیم کو ئٹہ تک گئے اور وہاں جاکر روپئے سپر د کرکے واپس لوٹ آئے۔

          گرفتاری سے بچنے کے لیے مولانا سندھی بلوچستان کے ریگستان اور سنسان پہاڑی راستوں اور دروں سے ہوتے ہوئے ۱۵/اگست ۱۹۱۵ء کو افغانستان کی سرحد میں داخل ہوئے ۔ اس وقت سورج غروب ہورہا تھا ۔ افغانستان کی آزاد سرزمین پر انھوں نے پہلی مغرب کی نماز ادا کی۔ اور حسنِ اتفاق یہی ۱۵/ اگست ہندوستان کی آزادی کی تاریخ ہوئی۔

          مولانا عبید اللہ سندھی تحریر کرتے ہیں:

          ”۱۹۱۵ء میں شیخ الہند کے حکم سے کابل گیا، مجھے کوئی مفصل پروگرام نہیں بتایاگیا تھا؛ اس لیے میری طبیعت اس ہجرت کو پسندنہیں کرتی تھی؛لیکن تعمیلِ حکم کے لیے جانا ضروری تھا۔خدانے اپنے فضل سے نکلنے کا راستہ صاف کردیا اور میں افغانستان پہونچ گیا۔روانگی کے وقت دہلی کی سیاسی جماعت کو میں نے بتلایا کہ میرا کابل جانا طے ہوچکا ہے، انھوں نے بھی مجھے اپنا نمائندہ بنایا؛ مگر کوئی معقول پروگرام وہ بھی نہ بتاسکے۔کابل جاکر مجھے معلوم ہوا کہ حضرت شیخ الہند قدس سرہ جس جماعت کے نمائندہ تھے، اس کی پچاس سال کی محنتوں کا حاصل میرے سامنے غیر منظم شکل میں تعمیلِ حکم کے لیے تیار ہے۔ان کو میرے جیسے ایک خادمِ شیخ الہند کی اشد ضرورت تھی۔اب مجھے اس ہجرت اور شیخ الہند کے اس انتخاب پر فخر محسوس ہونے لگا۔میں سات سال تک حکومتِ کابل کی شرکت میں اپنا ہندوستانی کام کرتارہا۔۱۹۱۹ء میں امیرحبیب اللہ خاں نے ہندوؤں سے مل کر کام کرنے کا حکم دیا، اس کی تعمیل میرے لیے فقط ایک ہی صورت میں ممکن تھی کہ میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوجاؤں اس وقت سے میں کانگریس کا داعی بن گیا۔۱۹۲۲ء میں امیر امان اللہ خاں کے دور میں میں نے کانگریس کمیٹی کابل بنائی، جس کا الحاق ڈاکٹر انصاری کی کوششوں سے کانگریس کے گیا سیشن نے منظورکر لیا۔برٹش ایمپائر سے باہر یہ پہلی کانگریس کمیٹی ہے اور میں اس پر فخر محسوس کرسکتا ہوں کہ میں اس کا پہلا پریسیڈنٹ ہوں۔“

          افغانستان کے جس علاقہ میں مولانا سندھی داخل ہوئے اس علاقہ کو ”سوریایک“ کہا جاتا ہے۔ حضرت مولانا وہاں سے قندھار پہنچے۔ وہاں سے کابل پہنچے۔ ان کے سفر کا مقصد تھا افغانستان کو ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں اخلاقی اور فوجی امداد دینے کے لیے تیار کرانا۔ مولانا اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کوشش کرتے رہے ۔ اس سلسلہ میں حکومت کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کیا اوران کی مدد سے امیر حبیب اللہ تک رسائی حاصل کی۔ اور اپنے مقصد سفر کے سلسلہ میں ایک عرض داشت پیش کی، جس میں افغانستان کو ہندوستان کی آزادی کے لیے امداد دینے کی درخواست تھی۔

          ”مولانا سندھی کے کابل پہنچنے سے پہلے پنجاب اورسرحد کے انگریز ی کالج کے طلبہ کا ایک وفد بھی کابل پہنچ چکا تھا ۔ جہاں ان کو نظر بند کردیا گیا تھا۔ طلبہ کے اس وفد کا مقصد تھا خلافت عثمانیہ کی فوج میں شامل ہوکر انگریزوں سے لڑنا ۔ ان طلبہ کو مولانا سندھی نے کابل پہنچنے کے بعد رہا کرایا تھا۔ مولانا سندھی نے ان مہاجر طلبہ کو اپنے حلقہ میں شامل کرلیا۔ ان کو مشورہ دیا کہ وہ ترکی فوج میں شامل ہونے کا ارادہ ترک کردیں۔ اورافغانستان ہی میں رہ کر ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کریں؛ چنانچہ وہ طلبہ تیار ہوگئے۔ اوران کے ساتھ مل کر مولانا سندھی نے ایک عارضی حکومت قائم کی ۔ اس عارضی حکومت کے تین رکن تھے۔ راجہ مہندر سنگھ،مولانا برکت اللہ بھوپالی اور مولانا عبیداللہ سندھی۔ اس عارضی حکومت نے مختلف ممالک میں اپنے وفود روانہ کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی ۔ اسی سلسلہ میں مارچ ۱۹۱۶ء کو ایک وفد روس بھیجا گیا ،اس کے بعد دووفد کو ترکی اور جاپان کے لیے روانہ کیا گیا۔ ترکی جانے والے وفد میں عبدالباری اور شجاع اللہ اور جاپان جانے والے وفد میں شیخ عبد القادر اور ڈاکٹر متھرا سنگھ شامل تھے ۔ جاپان جانے والے وفد کوگرفتار کرکے روسی حکام نے برطانیہ کے حوالے کردیا۔ اور بد قسمتی سے ترکی جانے والا وفد بھی برطانوی حکام کے قبضہ میں آگیا۔ ان کے بیانات سے سارے واقعات انگریزوں کے علم میں آگئے۔ حکومتِ برطانیہ نے حکومتِ افغانستان سے احتجاج کیا، جس کے دباؤ میں آکر حکومتِ افعانستان نے مولوی محمد علی اور شیخ ابراہیم کو ہندوستان جانے کا حکم دے دیا۔ یہ دونوں حبیبیہ کالج کے پرنسپل اور پروفیسر تھے۔“

          مولانا عبیداللہ سندھی نے ان حالات سے حضرت شیخ الہند کو مطلع کرنا ضروری سمجھا اور ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں پر خط لکھ کر ۹/ جولائی ۱۹۱۶ء کو عبد الحق کو دیا اور اس کو ہدایت کردی کہ یہ خطوط شیخ عبدالرحیم سندھی کو پہچا دیں ”ریشمی رومال“ کے اس خط کو ”ریشمی رومال تحریک “ یا”ریشمی خطوط تحریک“ کہتے ہیں۔یہ خطوط کیسے ہاتھ لگے؛ اس سلسلہ میں ریشمی خطوط سازش کیس میں آفیسران کی تحریر ملاحظہ ہو:

          ”۱۴/اگست کو ملتان کے خان بہادر رب نواز خاں نے ملتان ڈویزن کے کمشنر کو زرد ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑے دکھا ئے جن پر خوش خط اردو لکھی تھی۔انھوں نے بیان کیا کہ یہ ۴/اگست سے ان کے پاس تھے؛ لیکن کمشنر کی عدم موجود گی کے باعث پیش نہیں کیے جاسکے۔ خان بہادر نے بتاکہ انھیں یہ خطوط عبدالحق سے ملے ہیں، جو پہلے ان کے لڑکوں کا اتالیق تھا اور ۱۹۱۵ء میں ان کے ہمراہ کابل گیا تھا۔ عبدالحق نے رب نواز خاں کو یہ خطوط پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان خطوط کو پہنچا نے کے لیے ہی اس کوکابل سے بھیجا گیا ہے۔جو حیدرآباد سندھ میں عبدالرحیم کو دیے جانے تھے؛ تاکہ وہ ان خطوط کو مدینہ روانہ کردے ۔عبدالحق کو عبدلرحیم سے ان خطوط کی رسیدلینی تھی اور اس رسید کو واپس کابل لے جانا تھا۔

          کمشنر ملتان نے اس خط کے بعض حصے پڑھواکر سنے اور انھیں بچوں کی سی حماقت قرار دیا؛ تاہم ان خطوط کو پنجاب سی آئی ڈی کے حوالہ کردیا گیا، پنجاب سی آئی ڈی کے مسٹر ٹومکنس نے ان خطوط کا ترجمہ کرایا اور عبدالحق قاصد پر جر ح کرائی۔“

           انگریز آفیسران خطوط کی تحریر کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:

          ”ان خطوط کی تحریر بہت اچھی نہایت صاف اور پختہ ہے۔نہ تو کوئی لفظ کھرچ کر صاف کیا گیا ہے، نہ کہیں کچھ مٹا یا گیا ہے، نہ کسی لفظ کی اصلاح کی گئی ہے۔صرف ونحوکی صرف ایک نہایت معمولی غلطی پوری تحریر میں نظر آتی ہے۔خط کی زبان اگرچہ بعض مقامات پر مبہم ہے۔جیسا کہ بالعموم سازشی تحریروں میں ہوتی ہیں؛لیکن اچھے تعلیم یافتہ؛ بلکہ عالم شخص کی زبان ہے۔“

          مولانا عبیداللہ سندھی نے جوریشمی رومال پر خطوط لکھے تھے ’تاریخی اور سیاسی اعتبار سے وہ خطوط نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے پہلا خط شیخ عبد الرحیم سندھی کے نام تھا۔ یہ خط ۶/انچ لمبے اور ۵/ انچ چوڑے ٹکڑوں پرلکھا گیا تھا۔ دوسرا خط حضرت شیخ الہند  کے نام تھا۔ یہ خط دس انچ لمبے اور آٹھ انچ چوڑے کپڑے کے ٹکڑے پر لکھا گیا تھا ۔ تیسرا خط ۱۵/انچ لمبے اور دس انچ چوڑے ٹکڑے پر لکھا گیا تھا یہ خط شیخ الہند  کے نام تھا۔ ریشمی خطوط سازش کیس میں ان خطوط کے سلسلہ میں تفصیل درج ہے، وہ یہ ہے:

          ”یہ خطوط زرد رنگ کے ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں پر ہیں، ان میں پہلا خط شیخ عبدالرحیم صاحب کے نام ہے۔یہ ٹکڑا چھ انچ لمبا اور پانچ انچ چوڑا ہے۔دوسرا خط مولانا کے نام ہے یہ دس انچ لمبا اور آٹھ انچ چوڑا ہے۔تیسرا خط بظاہر پہلے خط ہی کے تسلسل میں ہے۔پندرہ انچ لمبا اور دس انچ چوڑا ہے۔

           پہلے اور تیسرے خطوط پر ”عبیداللہ“دستخط ہیں۔عبدالحق نے ہمیں بتایاہے کہ مولوی عبیداللہ نے اس کو یہ تینوں ریشمی رومال دیے ہیں۔جن پر اس کی موجود گی میں مولوی عبیداللہ نے خطوط لکھے تھے۔

          اس میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ عبیداللہ نے خود ہی یہ خط لکھے تھے۔ عبیداللہ نام کے دستخط عبیداللہ کے ان دستخطوں سے پوری مطابقت رکھتے ہیں۔ جو یہاں ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔“

          ریشمی خطوط کے مضمون کیا تھے۔اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

          ”پہلا خط جو شیخ عبد الرحیم سندھی کے نام تھا، اس کا مضمو ن یہ تھا :

          ”یہ خط حضرت مولانا شیخ الہند کو مدینہ بھیجنا ہے ۔حضرت شیخ الہندکو خط کے ذریعہ بھی اور زبانی بھی آگاہ کردیں کہ وہ کابل آنے کی کوشش نہ کریں ۔ حضرت مولانا شیخ الہند مطلع ہوجائیں کہ مولانا منصور انصاری اس بار حج کے لیے نہ جاسکیں گے۔ شیخ عبد الرحیم کسی نہ کسی طرح کابل میں مولانا سندھی سے ملاقات کریں“ ۔

          دوسرا خط شیخ الہند  کے نام تھا جس کے سلسلہ میں ہدایت تھی کہ تحریک کے ممتاز کارکنوں کو بھی یہ خط دکھادیا جائے! اس خط میں رضاکار فوج ”جنود اللہ“ اور اس کے افسروں کی تنخواہوں کا تذکرہ ہے۔ ۱۰۴ افراد کے نام ہیں ۔ جنہیں فوجی تربیت اور ان کے کام کی ذمہ داری کے سلسلہ میں تحریر ہے۔ اس کے علاوہ راجہ مہندر پرتاب سنگھ کی سرگرم ”جرمن مشن کی آمد، عارضی حکومت“ کا قیام روس جاپان اورترکی وفود کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

          تیسرا خط حضرت شیخ الہند  کے نام تھا ۔ مشہور یہ ہے کہ یہ خطوط مولانا منصور انصاری نے لکھا تھا؛لیکن عبدالحق ‘ جنہیں یہ خط پہنچانے کے لیے دیا گیا تھا ،کابیان ہے کہ یہ خط مولانا سندھی نے اس کے سامنے لکھا تھا ۔ اس خط کے خاص مضامین یہ ہیں کہ ہندوستان میں تحریک کے کون کون سے کارکن سرگرم ہیں۔ اور کون کون سے لوگ سست پڑگئے ہیں ۔ اس میں مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کی گرفتاری کی اطلاع بھی تھی۔ اس میں یہ بھی تحریر ہے کہ میرا حجاز آناممکن نہیں ہے۔

          ”غالب نامہ“ تحریک کے کارکنوں کودکھا کر قبائلی علاقہ کے سرداروں کو دکھا دیا گیا ہے۔ حاجی ترنگ زئی اس وقت ”مہمند“ علاقہ میں ہیں ۔مہاجر ین نے مہمند اور ”سوات“ کے علاقہ میں آگ لگا رکھی ہے۔ جرمن ترک مشن کی آمد اور اس کے ناکام ہونے کے اسباب کا تذکر ہ بھی ہے۔مشن کی ناکامی کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ جرمنی اور ترکی کو چاہیے تھا کہ پہلی جنگِ عظیم میں شامل ہونے سے پہلے ایران اورافغانستان کی ضرورت معلوم کرے اور اس کو پورا کرنے کی صورت نکالے۔اس کے علاوہ افغانستان کو جنگ میں شریک ہونے کے لیے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے ا س کی تفصیل درج ہے۔ ساتھ ہی حضرت شیخ الہند کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ مدینہ منورہ میں ٹھہر کر ترکی، افغانستان اور ایران میں معاہدہ کرانے کی کوشش کریں۔ اس خط میں حضرت شیخ الہندسے یہ بھی گزارش کی گئی تھی کہ وہ ہندوستان نہ آئیں حکومت نے ان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ “

          مولانا سندھی نے یہ خطوط ریشمی رومال پر لکھ کر عبد الحق کو دیے، او راس کو ہدایت کردی کہ یہ خط شیخ عبدالرحیم سندھی کو پہنچادیں ۔ عبدالحق ایک نو مسلم تھا ‘ وہ مہاجر طالب علموں کے ساتھ افغانستان گیا تھا۔ مہاجر طالب علموں میں دوطالب علم اللہ نوازاورشاہ نواز قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں رب نواز کے لڑکے تھے، جو ملتان میں انگریزی ایجنٹ تھا‘ عبد الحق بھی رب نواز کے یہاں رہتا تھا۔

           جب یہ خطوط عبدالحق کو پہنچانے کے لیے دیے گئے تو وہ سرحد کے راستے سے پنجاب ہوتا ہوا بھاولپور پہنچا‘ وہاں بھاولپور کے مرشد کے پاس وہ کوٹ رکھ دیا جس کے استر میں وہ ریشمی ٹکڑے سلے ہوے تھے۔ اس کے بعد وہ بھاولپور سے اپنے آقا رب نواز سے ملاقات کرنے کے لیے ملتان چلاگیا۔ اس نے ان دونوں کی خیر یت کے علاوہ تحریک اوراس کی سرگرمی،قبائلی علاقہ اور جیل کے واقعات اور مولانا عبید اللہ سندھی کی سرگرمیوں کی تفصیل بھی بتادی ۔اور دھمکانے پر بھاولپور کے مرشد مولانا محمد کے پاس سے لاکر وہ کوٹ بھی دیا،جس کے استر میں وہ ریشمی خطوط سلے ہوئے تھے،جب رب نواز کو یہ خطو ط ہاتھ لگے تو اس نے غداری کی، اور اس نے فوراً ہی کمشنر سے ملاقات کی، اور ریشمی خطوط پیش کیے اور تمام تفصیلات سے اس کو باخبر کردیا۔ ساتھ ہی عبد الحق کو کمشنر کے پاس لے گیا، اس کے صلہ میں اس کو ”خان بہادر“ کے خطاب سے نوازا گیا۔ اس طرح وہ رب نواز سے خان بہادررب نواز بن گیا۔

          ۱۰/اگست ۱۹۱۶ء کو رب نواز کے ذریعہ کمشنر کو مفصل رپورٹ ملی ،اور پھرکیاتھا ، اس کی روشنی میں حکومت نے نہایت ہی تیزی سے کاروائی شروع کردی، چھاپے مارے گئے۔ اور گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ اور اس طرح ۲۲۰ افراد کے خلاف انکوائری اور پوچھ تاچھ کی گئی۔ ۵۹اشخاص پر حکومت برطانیہ کا تختہ الٹنے کا اور غیر ممالک سے امداد حاصل کرنے کی سازش کا مقدمہ قائم کیاگیا۔ مولاناسندھی نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے:

          ”ہندوستان میں گرفتار یاں شروع ہوئیں تو ہم حیران رہ گئے،چند روز بعد شیخ الہند او ران کے ساتھی مکہ معظمہ میں گرفتار کیے گئے۔ ایک عرصہ کے بعد ہمیں حقیقت معلوم ہوئی، اس کے ساتھ ہی کابل کی حالت بھی خراب ہونے لگی ‘ امیر حبیب اللہ کی رائے بھی بدل گئی،وہ نہیں چاہتا تھا کہ افغانستان اس تحریک میں کوئی دلچسپی لے یا ہندوستان کو کسی قسم کی مد د دے۔ اس کے علاوہ انگریزوں کا دباؤ مولانا سندھی اور ان کے ساتھیوں کے سلسلہ میں امیر حبیب اللہ پربڑھ رہا تھا۔آخر کار حبیب اللہ نے مولانا عبیداللہ سندھی او ران کے ساتھیوں کی گرفتاری اور نظر بندی کا حکم جاری کردیا۔ “

          ”یہ تینوں خط انڈیا آفس لائبریری لندن کے پولٹیکل اور سکریٹریٹ شعبہ میں من وعن محفوظ ہیں۔

          تحریک آزادی کے لیے حضرت شیخ الہندنے اپنا مرکز بھی سرحدی علاقہ کو بنایا تھا۔ انگریزوں سے مقابلہ میں مجاہدین وہاں کام کررہے تھے ۔ اور انگریزوں سے مقابلہ کررہے تھے۔ وہاں حضرت شیخ الہند  کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی؛ مگر آپ اس حقیقت کو پوری طرح محسوس کررہے تھے کہ کہاں کا سفر ضروری ہے؛ چنانچہ حضرت مولانا محمد میاں صاحب تحریر کرتے ہیں:

          مرکزیاغستان سے تقاضہ ہورہا تھا کہ حضرت وہاں تشریف لے آئیں، تو مجاہدین کا اجتماع اور زیادہ ہوجائے گا۔ آپس کے تفرقہ کا خطرہ نہ رہے گا،اور کاروبار جہاد میں پختگی آجائے گی؛ لیکن مجاہدین اور ضروریاتِ جہاد کے لیے غیر معمولی امداد کی بھی ضرورت تھی ۔ اور حضرت کے علاوہ اور کوئی ایسانہ تھا کہ لوگ اس کی شخصیت سے متاثر ہوں ‘ اور محض خفیہ اشارہ پر غیر معمولی امداد پیش کردیں۔ لہٰذا حضرت نے یاغستان جانا خلافِ مصلحت سمجھا، مسلسل تقاضوں کے بعد کچھ تیار بھی ہوئے تو خبر پہنچیں کہ میگزین ختم ہوچکا ہے۔رسد بھی باقی نہیں رہی، اوریہ کہ عوام کی خفیہ امدادی ضروریات جہاد کے لیے کافی نہیں ہوسکتیں، لہٰذا کسی باقاعدہ حکومت کو آمادہ کیا جائے کہ وہ پشت پناہی کرے، اس مرحلہ پر حضرت نے یاغستان کے بجائے حجاز کا ارادہ کیا کہ ترکی حکومت سے رابطہ قائم کریں اور مرکز یاغستان کے لیے مولانا عبید اللہ سندھی کو مامور فرمایا۔

          مکہ معظمہ پہنچنے کے بعد حضرت شیخ الہند نے اپنے مقصد کے لیے کوشش شروع کردی۔ اور گورنر حجاز سے ملاقت کرکے اپنا مقصد سمجھایا،گورنر نے تمام باتیں غور سے سنیں، ضروری سوالات کے جوابات حاصل کیے ‘ اور اسی طرف سے جواب دینے کے لیے حضرت شیخ کودوسرے دن اپنے یہاں تشریف لانے کی دعوت دی۔ حضرت شیخ سے مختلف موضوع پرگفتگو کرنے کے بعد وہ اتنا متاثر ہوا کہ حضرت شیخ اپنے مقصد کے لیے جو تحریر حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ مرتب کرکے انھوں نے دے دیا ، ان میں سب سے اہم مسلمانانِ ہند کے نام پیغام تھا ‘ جس میں حضرت شیخ الہند پراعتماد ظاہر کرتے ہوئے ان کی جد وجہد کی تحسین کی تھی۔ اور ہدایت کی تھی کہ ان کی حمایت اور امداد کریں۔ اس کے علاوہ اپنی یعنی ترکی حکومت کی طرف سے بھی امداد کا یقین دلایا ،یہ تحریر ”غالب نامہ“ کے نام سے مشہور ہوئی، اور اس کی کاپیاں یاغستان میں تقسیم کی گئیں۔ اس تحریر کے علاوہ دوسر ی تحریر مدینہ منورہ کے گورنر بصری پاشا کے نام تھی ،جس میں حضرت شیخ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے فرمائش کی تھی کہ ان کو استنبول انور پاشا کے پاس پہنچا دیں ، تیسری تحریر انور پاشا کے نام تھی کہ یہ معتمد بزرگ ہیں، ان کے مطالبات پورے ہونے چاہئیں؛ لیکن حضرت شیخ کو استنبول جانے کی ضرورت پیش نہ آئی؛کیونکہ جب حضرت شیخ الہند حج بیت اللہ سے فارغ ہوکر ۶/ محرم الحرام ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۵ء کو مدینہ منورہ پہنچے تو خود انور پاشا اور جمال پاشا اپنے سرکاری پروگرام کے مطابق مدینہ طیبہ حاضر ہوگئے۔ وہیں حضرت شیخ سے ملاقات ہوئی اور حضرت شیخ کی فرمائش کے بموجب ان حضرات نے فرامین اور پیغامات لکھ کر دے دیے، ان پیغامات کا مضمون بھی وہی تھا جو ”غالب نامہ“ کا تھا ‘ یعنی ہندوستانیوں کے مطالبہٴ آزادی کی تحسین کی گئی تھی ،اور اپنی طرف سے امداد واعانت کا وعدہ تھا ‘ اور ہر شخص کو جو ترکی کی رعیت یا ملازم ہو، حکم تھا کہ مولانا محمود حسن صاحب پر اعتماد کرے اور ان کی اعانت میں حصہ لے۔ یہ فرمان صندوق کی دوسری تلی میں پیوست کرکے ہندوستان پہنچائے گئے۔ پھر ان کے فوٹو لیے گئے ،او ران کو افغانستان ویاغستان پہنچایا گیا۔

          مولانا سید محمد میاں دیوبندی رحمہ اللہ تحریر کرتے ہیں:

          ”حضرت خود تو حجاز ہی میں ٹھہرگئے؛لیکن ”غالب نامہ“ اور دوسرے ضروری کا غذات بطریقِ محفوظ ہندوستان پہنچا نے کی تدبیر یہ سوچی کہ کپڑے رکھنے کے لیے لکڑی کا ایک صندوق بنوایا۔اس کے تختے اندر سے کھودکر کا غذات رکھ دیے، پھر انھیں اس طرح ملادیا کہ باہر سے دیکھنے والا کتنا ہی مبصر کیوں نہ ہو پتہ نہ لگا سکے؛ بلکہ شبہ بھی نہ کر سکے۔ یہ صندوق مولانا ہادی حسن رئیس خاں جہاں پور۔(ضلع مظفر نگر)اور حاجی شاہ بخش سندھی کے حوالہ کردیاگیا۔بمبئی میں جہاز پر سی آئی ڈی بھی موجود تھی اور اہلِ شہر بھی بکثرت آئے ہوئے تھے۔ انھیں میں سے مولانا محمد بنی نام ایک مخلص نے مولانا ہادی حسن صاحب سے کہا کہ اگر کوئی چیز محفوظ رکھنے ہوں تو ابھی مجھے دے دیجیے؛چنانچہ صندوق انھیں دے دیا گیا،وہ اسے محفوظ نکال لائے اور توڑکر تحریریں نکال لیں۔ دہلی میں حاجی احمد میرزافوٹو گرافر نے ان کے فوٹو لیے اور مولانا محمد میاں عرف منصور انصاری کے ہاتھ یہ تحریریں سرحد بھیج د ی گئیں، بعد ازاں حضرت نے اپنے ایک عزیز کو اس خیال سے تحریروں کا راز بتادیا کہ وہ ہندوستان واپس جاکر ان کے فوٹو لینے اور جابحاپہنچانے کا پیغام اربابِ کار تک پہونچا نے کا انتظام کریں؛مگر اسے گرفتار کرلیا گیا۔اور اس نے کچھ بتادیا جس کی بناپر مختلف اصحاب کی تلاشیاں ہوئیں اور انھیں گوناگوں مصائب سے سابقہ پڑا۔“

          ” اسی زمانہ میں انگریزوں سے مل کر مکہ کے گورنرشریف حسین نے ترکی حکومت کے خلاف بغاوت کردیا۔ اس بغاوت سے اور بے چینی ہندوستان میں بھی پیدا ہوئی۔ حکومت ہند نے خان بہادر مبارک علی اورنگ آبادی کو خفیہ طور پر مکہ معظمہ بھیجا کہ وہاں سے ترکی کے خلاف فتوی حاصل کرکے لائیں؛چنانچہ شریف حسین کے عہدہ دار علماء کی مدد سے خان بہادر نے استفتاء اور اس کا جواب مرتب کرایا، جس میں ترکی فوج کی مطلقاً تکفیر تھی اور سلاطین آل عثمان کی خلافت سے انکار کیا گیا تھا ،اور شریف حسین کی بغاوت کو حق بجانب اور مستحسن قرار دیا گیا تھا۔ شریف حسین سے تعلق رکھنے والے بہت سے علماء نے اس پر دستخط کردیے تھے؛ لیکن علماء کی کثیر تعداد متردد اور خائف تھی۔ حضرت شیخ کے سامنے فتوی پیش کیا گیا تو حضرت موصوف نے سختی سے انکار کردیا۔ آپ کے انکار پر تمام حق پرست علماء کی ہمت بلند ہوگئی، جو حضرات متردد اور خائف تھے، ان سب نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ فتوی پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے حکومتِ ہند نے ان حضرات کو شریف حسین سے طلب کیا ، شریف نے گرفتار ی کے احکام جاری کردیے ، حضرت شیخ طائف میں گرفتار کر لیے گئے۔ اور وہاں سے ۱۵/فروری ۱۹۱۷ء کو مالٹا روانہ کردیے گئے۔ جوسیاسی اور جنگی قیدیوں کا مرکز تھا۔ وہاں سخت تکلیف کی زندگی گزار نے کے بعد ۸/ جون۱۹۲۰ء کو تین برس سات مہینے کے بعدبمبئی پہنچا کر آپ کو رہا کیاگیا۔“

          واپسی کے بعد ملک کی آزادی میں سرگرم حصہ لیا۔مالٹا ہی میں حضرت شیخ ا لہند نے محسوس کیا کہ ہندوستان جیسے وسیع ملک میں جو مختلف مذاہب  وقبائل اور اقوام کا گہوارہ ہے یہاں  آزادی محض ایک قوم اپنی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتی ہے۔۱۸۳۱ء سے ۱۹۱۵ء تک کا تجربہ ان کے سامنے تھا۔ لہٰذا آپ نے تشدد کی پالیسی بد ل دی اور ہندوستان کی آزادی کوہندو اور مسلمان کی مشترکہ جد وجہد سے حاصل کرنے کی تجویز پیش کی اور پھر ۱۹۱۹ء میں جمعیة علماء ہند کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا۔ جس نے تحریکِ آزادی میں سر گرم حصہ لیا۔اس طرح ملک کی آزادی میں ”ریشمی رومال تحریک“ کا اہم رول ہے اور تاریخِ آزادی کا اہم باب بھی۔

Monday 25 January 2021

جنگ آزادی میں ہندوستانی مسلمان اور علماء کا کردار


انگریزوں سے باقاعدہ اور منظم جنگ کا آغاز نواب سراج الدولہ 

 کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کیا اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر ,فورٹ ولیم انگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے ہندوستان کی سب سے پہلی منظم اورمسلح جدوجہد آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔ علی وردی خان کے بعدان کے نواسے نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے انہیں احساس ہوا کہ انگریز ان کے ملک پرآہستہ آہستہ حاوی ہورہے ہیں لہذا انہیں ملک سے نکالناضروری ہے۔اس نے حوصلہ کیا تیاری کی؛مگر انکا دربار سازشوں کا اڈہ بنا ہواتھا؛ اس لیے انہیں انگریزوں کے مقابلے میں  شکست ہوئی اور1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔

   تاریخ کے صفحات میں پلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764کی تفصیل موجود ہے،یہ جنگ بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح قابض ہوچکے تھے .

 

 حیدرعلی اورٹیپوسلطان

    فرمانروائے دکن حیدرعلی(م1782ء) اوران کے صاحبزادہ ٹیپوسلطان کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہوگی،جومستقل انگریزوں کے لیے چیلنج بنے رہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چارجنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے۔ انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو سلطان معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔

                حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی  رحمه الله لکھتے ہیں:

”سب سے پہلاشخص جس کواس خطرہ کااحساس ہواوہ میسور کابلندہمت اورغیور فرمانروا فتح علی خان ٹیپوسلطان (۱۳۱۳ ھ۱۷۹۹ ء)تھا، جس نے اپنی بالغ نظری اورغیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کرلی کہ انگریزاسی طرح ایک ایک صوبہ اورایک ایک ریاست ہضم کرتے رہیں گے اور اگرکوئی منظم طاقت ان کے مقابلہ پرنہ آئی توآخرکارپوراملک ان کالقمہ تربن جائے گا؛ چنانچہ انھوں نے انگریزوں سے جنگ کافیصلہ کیااوراپنے پورے سازوسامان، وسائل اور فوجی تیاریوں کے ساتھ ان کے مقابلہ میں آگئے“۔

ٹیپوسلطان کی جدوجہداوراولوالعزمی

ٹیپونے ہندوستان کے راجوں،مہاراجوں اور نوابوں کوانگریزوں سے جنگ پرآمادہ کرنے کی کوشش کی، اس مقصدسے انھوں نے سلطان ترکی سلیم عثمانی، دوسرے مسلمان بادشاہوں اور ہندوستان کے امراء اورنوابین سے خط وکتابت کی اور زندگی بھرانگریزوں سے سخت معرکہ آرائی میں مشغول رہے، قریب تھاکہ انگریزوں کے سارے منصوبوں پرپانی پھرجائے اوروہ اس ملک سے بالکل بے دخل ہوجائیں؛ مگر انگریزوں نے جنوبی ہندکے امراء کو اپنے ساتھ ملالیااور آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے ۴/مئی ۱۷۹۹ ء کوسرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہیدہوکرسرخروئی حاصل کی، انھوں نے انگریزوں کی غلامی اوراسیری اوران کے رحم وکرم پرزندہ رہنے پرموت کوترجیح دی، ان کامشہور تاریخی مقولہ ہے کہ ”گیڈرکی صد سالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی اچھی ہے“۔ جب جرنیل ہورس کوٹیپوسلطان کی شہادت کی خبرملی تواس نے ان کی لاش پرکھڑے ہوکریہ الفاظ کہے کہ:آج سے ہندوستان ہماراہے۔ 

(ہندوستانی مسلمان ص۱۳۷) 

 

شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمہ اللہ اورانکے تلامذہ

 

 

ٹیپوسلطان کی شہادت نیزہزاروں افرادکے قتل کے بعدملک میں برطانوی اثرات بڑھتے چلے گئے، انگریزوں کے بڑھتےہوئے اثرورسوخ اور ان کو ملک بدر کرنے کے لئے علماء کی کوششیں تیز تر ہوتی چلی گئیں ،ان کوششوں کے ساتھ ساتھ دہلی میں ایک تحریک وجود میں آئی، جس کے بانی شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله (م1762ء)تھے،ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمه الله (م1824ء)نے اپنے والدکی تحریک کوبڑھایا، وہ انگریزوں کے سخت خلاف تھے۔انہوں نے1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی دیا،جس میں ہندوستان کودارالحرب قراردیاگیااورسیداحمدشہیدرائے بریلوی رحمه الله کوتحریک آزادی کا قائد مقرر کیا۔1831ء میں سیداحمدشہید رحمه الله اورشاہ اسماعیل شہید رحمه الله بالاکوٹ میں اپنے بے شمار رفقاء کے ساتھ  جنگ کرتے  ہوئے شہیدہوئے؛ ان کی شہادت کے بعد بھی یہ تحریک چلتی رہی،مولانانصیرالدین دہلوی رحمه الله نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔1840ء میں آپ کی وفات ہوئی۔انکے بعدمولانا ولایت علی عظیم آبادی رحمه الله  (م1852ء)اورانکے بھائی مولاناعنایت علی عظیم آبادی (م1858ء) نے اس تحریک کوزندہ رکھنے میں اہم کرداراداکیا۔اس طرح جدوجہد آزادی کا یہ قافلہ برابررواں دواں رہا؛  1857ء  کے بعد علماء کی اس تحریک کوانگریزوں نے وہابی تحریک کے نام سے مشہورکیا جو نجد کے محمدبن عبدالوہاب نامی عالم کے نظریات پرمبنی تھی؛لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کے اکثر افرادہندوستان ہی کے مشہورعالم شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمه الله  کے تربیت یافتہ تھے،اوریہ تحریک انھیں کے نظریات پرمبنی تھی؛ 1857ء میں شاہ ولی الله اورشاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمه الله اورشاہ اسحاق محدث دہلوی رحمه الله  اور انکے شاگردوں کی محنت رنگ لائی، اور 1857 ء میں علماء کرام کی ایک جماعت تیارہوئی۔ ان میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمه الله ، مولانا رحمت الله کیرانوی رحمه الله ، مولانافضلِ حق خیرآبادی، رحمه الله مولاناسرفراز رحمه الله ، حاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله ، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمه الله ، مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله ،حافظ ضامن شہید رحمه الله اور مولانا منیر نانوتوی رحمه الله خاص طور پر قابل ذکرہیں۔ غدر کے زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمه الله نے انگیریزوں کے خلاف فتوی مرتب کرایاجس پر علماء دہلی سے دستخط لیے گئے، اور یہی فتوی مولاناکی گرفتاری کاسبب بنا،جب مولاناپرمقدمہ چلااور جہاد کے فتوی کی عدالت نے تصدیق چاہی،تومولانا نے کھل کرکہاکہ فتوی میراہی مرتب کیاہواہے۔1857ء کے زمانہ میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمه الله سپہ سالارکی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ہومزلکھتاہے: ”مولوی احمدالله شاہ شمالی ہندمیں انگریزوں کاسب سے بڑادشمن تھا۔1865ء میں مولانااحمدالله عظیم آبادی رحمه الله ، مولانایحییٰ علی رحمه الله ، مولاناعبدالرحیم صادق پوری رحمه الله ، مولانا جعفرتھانیسری رحمه الله کوانڈمان بھیج دیا گیا جو کالاپانی کہلاتاہے۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمه الله ، مفتی احمدکاکوروی رحمه الله اورمفتی مظہرکریم دریابادی  رحمه الله کوبھی انڈمان روانہ کیاگیا، جن میں مولانا احمدالله عظیم آبادی رحمه الله ، مولانایحییٰ علی رحمه الله ، اورمولانا فضل حق خیرآبادی رحمه الله  وغیرہم کا وہیں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالرحیم صادق پوری رحمه الله  اورمولانا جعفر تھانیسری رحمه الله اٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد 1883ء میں اپنے وطن واپس ہوئے۔ مولاناجعفرتھانیسری رحمه الله اپنی کتاب کالاپانی میں تحریرفرماتے ہیں:”ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریزہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا۔ مولانا جعفر تھانیسری رحمه الله نے جزیرہ انڈمان کی زندگی پربہت ہی مفصل آپ بیتی”کالاپانی“کے نام سے لکھی ہے۔!

تازہ خواہی داشتن گرداغہائے سینہ را

گاہے گاہے باز خواں این قصۂ پارینہ را

 

1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمه الله ، مولاناقاسم نانوتوی رحمه الله ، اورمولانامنیرنانوتوی رحمه الله کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن  رحمه الله شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے، انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کے نام وارنٹ رہا؛لیکن گرفتارنہ ہوسکے،1880ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودئہ خواب ہیں۔حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ملک میں رہ کراب اپنے مشن کوبرقراررکھنا ممکن نہیں، مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے۔وہاں سے انھوں نے اپنے مریدین ومتوسلین کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے ہدایت وفیض کاسلسلہ جاری رکھا۔1899ء میں وفات پائی اورجنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ مولانارشیداحمدگنگوہی رحمه الله کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ میں رکھاگیا،پھرکچھ دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا۔چھ ماہ تک آپ کوقیدوبندکی مصیبتیں جھیلنی پڑی۔1905 ء میں وفات پائی۔گنگوہ کی سرزمین میں آسودہ خواب ہیں۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی، 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعدانگریزوں نے اسلامی عقائد،اسلامی فکراوراسلامی تہذیب کو ہندوستان سے ختم کرنے کافیصلہ کیا، 

    ہندوستان میں اسلام کی حفاظت کے لیے الله تعالیٰ نےجن شخصیات کوپیداکیا،ان میں سے ایک اہم شخصیت حجة الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمه الله کی تھی،اس زمانہ میں اسلام کی بقاء، اسلامی عقائد،اسلامی فکر اوراسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله نے ایک تحریک چلائی،جگہ جگہ مدارس قائم کیے،اس مقصدکے لیے انھوں نے اپنے رفقاء (حاجی عابدحسین دیوبندی رحمه الله ،مولاناذولفقارعلی دیوبندی رحمه الله ، مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمه الله اورمولانارفیع الدین رحمه الله وغیرہم)کی مددسے15 محرم 1283ھ مطابق 30مئی 1866ء جمعرات کے دن ضلع سہارنپورمیں واقع دیوبندنامی مقام پرایک دارالعلوم کی بنیادرکھی؛ تاکہ یہ مسلمانوں میں نظم پیداکرے، جوان کواسلام اورمسلمانوں کی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معین ہو،ایشیاکی اس عظیم درسگاہ کاآغازدیوبندکی ایک مسجد(چھتہ مسجدکے صحن میں آنارکے درخت کے سایہ میں ایک استاد(ملامحمود)اورایک طالب علم (محمودحسن)سے ہوا جو بعدمیں ”ازہرہند“کہلائی اورجسے دارالعلوم دیوبندکے نام سے شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی،بقول حضرت حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله  ”دارالعلوم دیوبندہندوستان  

میں بقاء اسلام اورتحفظِ علم کاذریعہ ہے“۔ 

 

انڈین نیشنل کانگرس کاقیام اوراس میں مسلمانوں کاحصہ

 

 1884میں  

انڈین نیشنل کانگرس کاپہلااجلاس منعقدہوا،جس میں بعد ممتازاہل علم واہل فکرمسلمان بھی شریک تھے،اور اس کا قیام 1885 ء میں عمل میں آیا۔اس کے بانیوں میں مسلمان بھی شامل تھے، جن کے نام بدرالدین طیب جی اوررحمت الله سیانی تھے،کانگرس کا چوتھااجلاس 1887ء میں مدراس میں ہوا،جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی۔ جنگ آزادی میں اکابردیوبند(حاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله ،مولاناقاسم نانوتوی رحمه الله ، مولانارشیداحمد گنگوہی رحمه الله ) اور فرزندان دارالعلوم دیوبند(شیخ الہندمولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله ، مولاناحسین احمدمدنی  رحمه الله ، مولاناعبیدالله سندھی رحمه الله ، مولانا عزیز گل پیشاوری رحمه الله ، مولانا منصورانصاری رحمه الله ، مولانا فضل ربی رحمه الله ، مولانا محمداکبر رحمه الله ، مولانا احمدچکوالی رحمه الله ، مولانا احمدالله پانی پتی رحمه الله ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمه الله وغیرہم) کی جدوجہد کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ 1912ء میں ریشمی رومال تحریک کی ابتداء ہوئی،جس کے بانی فرزندِ اول دارالعلوم دیوبند تھے، جن کودنیاشیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله کے نام سے جانتی ہے، حضرت مولاناسیدابوالحسن علی ندوی رحمه الله لکھتے ہیں :”آپ انگریزی حکومت اور اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے،سلطان ٹیپو کے بعدانگریزوں کاایسادشمن اورمخالف دیکھنے میں نہیں آیا“۔اس تحریک میں اہم رول آپ کے شاگردمولاناعبیدالله سندھی رحمه الله نے ادا کیا، افغانستان کی حکومت کومدد کے لیے تیارکرنااورانگریزوں کے خلاف رائے عامہ بنانا مولانا عبیدالله سندھی رحمه الله  کامشن تھا۔ شیخ الہند رحمه الله کے نمائندے ملک کے اندر اور ملک کے باہرسرگرم اورفعال تھے، افغانستان، پاکستان، صوبہ سرحداورحجازکے اندرقاصدکاکام کررہے تھے،خلافتِ عثمانیہ کے ذمہ داروں سے مثلاًانورپاشاہ وغیرہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،اورترکی جانے کاشیخ الہند نے خودعزم مصمم کرلیا تھا، اس مقصدکے لیے پہلے وہ حجازتشریف لے گئے اوروہاں تقریباًدوسال قیام رہا،اس اثنا میں دوحج کیے،مکہ مکرمہ پہنچ کرحجازمیں مقیم ترک گورنرغالب پاشاسے ملاقاتیں کیں، اورترکی کے وزیر جنگ انورپاشاسے بھی ملاقات کی، جوان دنوں مدینہ آئے ہوئے تھے،انھیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیااوراپنے منصوبہ سے واقف کرایا،ان دونوں نے شیخ الہند رحمه الله  کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے، ان کے منصوبے کی تائیدکی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنے اوراپنی حکومت کے تعاون کایقین دلایا، مولانا عبیدالله سندھی رحمه الله نے کابل سے ریشمی رومال پرجوراز دارانہ خطوط شیخ الہند مولانامحمودحسن  رحمه الله کومکہ مکرمہ روانہ کیے تھے، ان کوحکومت برطانیہ کے لوگوں نے پکڑلیا، یہی شیخ الہند رحمه الله  کی گرفتاری کاسبب بنی اورپورے منصوبے پر پانی پھیردیا۔1916 ء میں شریف حسین کی حکومت نے ان کومدینہ منورہ میں گرفتار کرکے انگریزی حکومت کے حوالہ کردیا۔شریف حسین نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت اور غداری کی تھی، وہ برطانوی حکومت کاوفاداردوست تھا اورخلافت عثمانیہ اورمسلمانوں کی تحریک آزادی کاشدید مخالف تھا۔1917ء میں شیخ الہند رحمه الله  اور ساتھوں کوبحیرئہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلاوطن کیاگیا۔ مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله ،مولاناعزیزگل پیشاوری رحمه الله ،مولاناحکیم نصرت حسین رحمه الله ،مولاناوحیداحمد رحمه الله وغیرہم نے مدتوں اپنے استاذشیخ الہند رحمه الله کے ساتھ مالٹا کے قیدخانہ میں سختیاں برداشت کیں،مالٹاکے قیدخانہ میں انگریزوں نے شیخ الہند رحمه الله کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا، سخت سے سخت سزائیں دی گئیں؛چنانچہ مولانا حسین احمدمدنی رحمه الله  فرماتے ہیں کہ جب شیخ الہند رحمه الله  کو مالٹا جیل میں نظربندکیاگیاتو انگریزمیرے استادکوایک تہہ خانہ میں لے گئے اور لوہے کی گرم تپتی ہوئی سلاخیں لے کرکمرپرلگاتے رہے اور ساتھ میں یہ کہتے رہے کہ ”اے محمودحسن! انگریزکے حق میں فتوی دے“جب شیخ الہند رحمه الله ہوش میں آتے توصرف یہی فرماتے تھے کہ ”اے انگریز!میرا جسم پگھل سکتاہے، میں بلال کاوارث ہوں، میری جلدادھیڑسکتے ہو؛ لیکن میں ہرگز ہرگز تمہارے حق میں فتوی نہیں دے سکتا۔“شیخ الہندکی تحریک میں مولانامنصورانصاری رحمه الله ، مولانا فضل ربی رحمه الله ، مولانافضل محمود رحمه الله ،مولانامحمداکبر رحمه الله  کاشماراہم ارکان میں تھا۔مولانا عبدالرحیم رائے پوری رحمه الله ، مولانا محمداحمدچکوالی رحمه الله ، مولانامحمدصادق کراچوی رحمه الله ، شیخ عبدالرحیم سندھی، مولانا احمدالله پانی پتی، ڈاکٹراحمدانصاری وغیرہ سب مخلصین بھی مخلصانہ تعلق رکھتے تھے،ان کے علاوہ مولانا محمدعلی جوہر رحمه الله ، مولاناابواکلام آزاد رحمه الله ،مولانااحمدعلی لاہوری رحمه الله ،حکیم اجمل خان وغیرہ بھی آپ کے مشیر ومعاون تھے ۔ 1919ء میں جمعیة علماء ہندکاقیام عمل میں آیا،جس کے بنیادی ارکان میں شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمه الله ،مولاناحسین احمدمدنی رحمه الله ، مولاناعطاء الله شاہ بخاری، مولانا ثناء الله امرستری رحمه الله ، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله ، مولانامحمدعلی جوہر،مولاناشوکت علی،مولانا ابوالمحاسن سجاد، مولانا احمدعلی لاہوری رحمه الله ، مولاناابوالکلام آزاد، مولاناحفظ الرحمن سیورہاروی رحمه الله ، مولانا احمدسعید دہلوی رحمه الله ، مولانا سیدمحمدمیاں دیوبندی رحمه الله  جیسے دانشوران قوم تھے۔شیخ الہند رحمه الله  کی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29جولائی 1920ء کوترکِ موالات کافتوی شائع کیاگیا۔     آپ کی وفات کے بعدآپ کے جاں نثارشاگردمولاناحسین احمدمدنی رحمه الله نے آپ کے اس مشن کو جاری رکھا، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله کی وفات کے بعد1940ء سے تادم حیات جمعیة علماء ہند کے صدررہے،کئی باربرطانوی عدالتوں میں پھانسی کی سزاسے بچے،آپ انگریزوں کی حکومت سے سخت نفرت رکھتے تھے،آپ دارالعلوم دیوبندکے شیخ الحدیث کے منصب پربھی فائز تھے۔ آزادی کے بعداصلاحی کاموں میں مصروف ہوگئے،دینی خدمت وتزکیہ نفوس کے مقدس مشن میں لگے رہے،5دسمبر1957ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودہ خواب ہیں۔

تحریک خلافت اورہندومسلم اتحاد: 1919 ء میں جلیاں والاباغ سانحہ پیش آیاجس میں سینکڑو افراد ہلاک ہوئے،انھیں ایام میں تحریکِ خلافت وجودمیں آئی،جس کے بانی مولانامحمدعلی جوہر تھے، اس تحریک سے ہندومسلم اتحادعمل میں آیا۔گاندھی جی،علی برادران(مولانامحمدعلی جوہر ومولانا شوکت علی)اورمسلم رہنماوٴں کے ساتھ ملک گیردورہ کیا،اس تحریک نے عوام اورمسلم علماء کوایک پلیٹ فارم پرکھڑاکردیا،جن میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی رحمه الله ،مولانا عبدالباری فرنگی محلی رحمه الله ، مولاناآزادسبحانی،مولاناثناء الله امرتسری رحمه الله ، مفتی کفایت الله دہلوی رحمه الله ، مولاناسیدمحمدفاخر،مولانا سید سلیمان ندوی رحمه الله ، مولانااحمدسعیددہلوی وغیرھم شریک تھے،الغرض ہندوستان کے اکابرعلماء نے سالہاسال کے اختلافات کو نظرانداز کرکے تحریکِ خلافت میں شانہ بشانہ کام کیا۔1931ء میں مولانامحمدعلی جوہرگول میز کانفرنس (Round Table Conference) لندن میں شرکت کے لیے گئے اوروہیں دوران خطاب انہوں نے اجابت دعاء کے موقعہ پر ببانگ دہل فرمایاتھا:میں ہندوستان خالی ہاتھ نہیں جاؤں گا یاآزادی کاپروانہ ورنہ دوگززمین قبرکے لئے دینی ہوگی اوربالآخراچانک اس عظیم مجاہد آزادی نے دیارغیر میں وفات پائی, بیت المقدس میں آسودۂ خواب ہیں کیونکہ یہ مقدس سرزمین اس وقت برطانیہ کے زیر نگیں تھی.عربی کے امیرالشعراء احمدشوقی نے مرثیہ کہا

 

تحریک ترک مولات:1920

میں گاندھی جی اورمولاناابوالکلام آزادنے غیرملکی اشیاء کے بائیکاٹ 

اورنان کوآپریشن(ترک موالات)کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیارتھا، جواس جنگ آزادی اورقومی جدوجہدمیں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کاپوراپورانوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کاخطرہ پیداہواکہ پوراملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے، آثارانگریزی حکومت کے خاتمہ کی کی پیشینگوئی کررہے تھے۔(ہندوستانی مسلمان،ص۱۵۷).

 

 1921میں موپلابغاوت،1922ء میں چوراچوری میں پولیس فائرنگ،1930ء میں تحریک سول نافرمانی ونمک آندولن، 1942ء میں ہندوستان چھوڑوتحریک(Quit India Movement)، 1946میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پرپولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہیدہوئے۔انگریزوں کی قیدوبندکے مصائب جھیلنے اورانکی گولیوں کانشانہ بننے والوں کی تعدادتوشمارسے باہرہے۔عام مسلمانوں کے علاوہ شہیدعلماء کی تعدادبیس ہزار سے پچاس ہزارتک بتائی جاتی ہے؛مگران اہم لیڈروں اوران اہم واقعات کے بغیرپوری تاریخ ادھوری اورحقیقت سے کوسوں دورہے،جن میں مذکورہ بالا شخصیتوں کے علاوہ بہادرشاہ ظفر،بیگم محل،نواب مظفرالدولہ،امام بخش صہبائی، مولانابرکت الله بھوپالی، مولاناحسرت موہانی، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،ڈاکٹرسیف الدین کچلو، مولانا مظہرالحق، ڈاکٹرسیدمحمودوغیرہم نے جنگ آزادی میں بھرپورحصہ لیا۔ان کے علاوہ بھی ایک بڑی تعداد کاذکرتاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے.

واقف توہیں اس راز سے دارورسن بھی

ہردور میں تکمیل وفاہم سے ہوئی ہے

Prem Lata


 The corpse hanging on the fan and the suicide note placed on the table told the whole story in front of the inspector, Kumar Pandey. It was written in the suicide note:

 I want to inform you that No one is responsible for my death but the whole society. Especially my husband Prameshwar Jumna Prasad Sharma and my son Mohandas Sharma. These are the people who never understood my feelings.  I still worship my husband and love my only son Mohan very much. I have been sad for the rest of my life and even after death, I will be sad that neither my husband nor my son can understand me.  But my son is my part. I am sad that he did not spare any effort to kill me alive.

 I want to say today that I was never wrong. Yes, I was so sure that I could not see the poor and troubled people. Because that's how I was trained. I still remember when someone begged at the door of our house.  When he came to ask, Mom would bring him flour or money from my path.

 "Why do you beg from Prema ???"  Why don't you give it to yourself ??? I am also at home ... just wait. ”Then My Mom to my father say.

 "You won't understand ... Prema should be in the habit of helping people from now on ... so that when she grows up she will have no hesitation in helping the suffering people."

 This is how I was trained. I remember another incident when I was a college student. Hindi was my subject. When I studied Hindi literature deeply, the spirit of humanity began to rise in my heart. I think that human beings in the world Have killed the rights of human beings, if we help the poor as much as possible, then there is no greater penny. So I gave my fee money to a poor rickshaw puller, I thought that if this rickshaw will not pull one day and this  It will give me a lot of peace of mind. But when my father found out about this, he scolded me saying that he earns money by working hard all day in a locksmith factory.  I blow them up in nonsense. They didn't even like my studies. They said what will I do after doing MA ???  After marriage, I have to take care of the housework.

 Suddenly the cry of a young man attracted inspector Odhish Kumar Pandey.

 "You ... who are you ???"

 The speaker asked the young man who came.

 "Yes ... I ... Mohandas Sharma."

 "Hmm ... Madam's son ???"

 "Yes ..."

 Why ... have you come? Where is your address?

 "Yes, he is ..."

 ''is he???.''

 "Yeah ... they refused to come."

 '' Yes ​​!!!

 I know ... well, even your coming ... won't do you any good. "

 '' Yes ​​!!!  I know ... Mommy was angry with me. "

 The inspector said in silence.

 "This ... is your mommy's suicide note ... read it for yourself."

 "No ... I can't read ... I don't have that much strength," Mohan said with tears in his sleeves and sat down on the sofa next to him. There was also 'Bhuri' who was silently shedding tears.  She was wiping her eyes again and again with her handkerchief. Both of them looked at each other and turned their eyes away.

 Prem Lata's body had been removed from the fan and preparations were being made to send her for autopsy.

 Inspector Odhish once looked at the corpse and saw a strange calm on the corpse's face. He took his eyes off the corpse and started reading the suicide note again. It was written in the note.

 My mom always repulsed me and gave me every facility to study. It is the result of her hard work that today I am the principal of St. Samuel's College of Literature, Aligarh. But despite all the conveniences and abundance of wealth,   I am still the same girl who used to show her heart for the poor in her childhood. I still don't like to call any poor person very lazy. I always call my office attendant 'Iqbal' as 'Iqbal Bhai'.  It feels very bad when a teacher calls him by his name. He is older than us. He has given college thirty-five years of his life. What happened if he has a beard on his face ??? What if he is a Muslim?  What happened ???  That is not a valley of terror.

 Inspector Odhish had just read the text of the note when he was attracted by noise. He told Constable Suresh.

 "Just find out ... how is this noise ???" ... tell these people to take care of social distance ... don't they know that there is a lockdown due to Coronavirus ??? "  '

 Saying this, Specter Odhish again engaged in reading the note. It was written in it.

 How cruel the time is, it passes very quickly. I don't know when I got married and came to Ghanshyam Puri, Ram Ghat Road, Aligarh, an apartment every day. I came to Devi's flat number eight. Everything was fine here for a few days  My destiny took a turn.  I told my husband Jumna Prashad to take the place of Hindi teachers in Samuel College of Literature, Aligarh.

 "You know we have no shortage ... Mommy and Daddy ... Won't be happy to see you in the job. And then there's the question of Mohan's upbringing."

 But I persisted in my stubbornness and somehow my husband agreed to my job even though he didn't want to. From here my ruin began. I arranged a rickshaw to go to school. The rickshaw driver belonged to the poor class.  One day when he was returning from college, I realized that he was a little sad. I was not released, I said.

 "Brother Shadab, what happened? Why are you sad?"

 ''no !!!  Ma'am Saab, it doesn't matter. "

 "Is there anything ???"

 ''Yes !!!  Of course, we won't be able to take you to college from tomorrow. "

 ''Why???''

 "They ... we can't tell ... you'll find out when you get home."

 It was five o'clock in the evening. It was the month of February. The cold was still showing its colours in Aligarh. I reached home as usual. There was a knock on the door. Then Mohan opened it.  Our neighbour Ajay Pal Yadav was sitting in the drawing-room. My mother-in-law and my husband were sitting on the sofa next to him.

 Jumna Prashad addressed me and said, "Where are you coming from?" I replied.

 "Don't you know ???"

 "I know ... tell me how do you feel about the rickshaw driver you come with ???"

 This question from my husband hurt my heart to the core.

 "What ... what ... do you mean ???" I said controlling my anger.

 "It means that Ajay Pal Bhai Sahib ... you ..."

 "What ... you ???"

 Suddenly a piece of my liver spoke.

 "You took the rickshaw puller out of the bank for ten thousand rupees. Uncle Ajay Paul saw this with his own eyes."

 "So what happened ??? Yes ... what's wrong with that ???"

 I answered in the affirmative.

 "Mommy, one is poor ... and then ... then ... a Muslim ... you helped a Muslim ..."  Why???''

 "His daughter was married. He needed money."

 Suddenly my mother-in-law Pail Devi spoke.

 "Yours with him ..."

 The sentence remained incomplete but I was hurt. It was as if someone had stuck thousands of knives in my heart.

 Where was the father-in-law going to stay behind? He spoke angrily.

 "Look, Prema ...  You are complaining a lot ... sometimes she talks to the vegetable grower ... sometimes she smiles when she sees the fruit grower ... you are being talked about all over the society ... and ... our noses are being cut.  

 There was blood flowing in Jumna Prashad's eyes. He grabbed my hair and slapped me. "Now you will never go to college," he said.

 "I will go."

 I also said in a state of rage. I was most sorry that I was beaten in front of my neighbour. It was like the third night. The next morning when I was ready for college, Jumna Prasad told Mohan.

 "Tell your mommy that if she goes out of the house, she will never come back."

 While the inspector was reading the suicide note, he saw that Prem Lata's staff had come to her house on hearing of her death.

 An old man with a weak beard saw the scene of Prem Lata's body lying on the ground. He started crying uncontrollably. A middle-aged man with a beard silenced him.

 "Brother Iqbal ... be patient ... be calm ... we are also saddened by Madam's death."

 Suddenly inspector realized that the suicide note was once again addressing the inspector and telling him to read it in its entirety.

 It has been almost three years now that I live in a rented house near PAC in Quarsi Bypass. I am not comfortable coming here either. My husband and son have been separated for a long time but the people around here. They also hurt me and make fun of me in various ways. What is my fault that I have brought a poor beggar to my house thinking that it is the turn of the poor to starve because of the coronavirus?  It is from 'Bhuri'. I met it for about a year and a half ago. I was sitting in my drawing room reading My Bai's compositions when someone knocked on the door and a voice came.

 "Give two bets in his name ... give two bets in his name ..."

 I wondered who came to our neighbourhood to ask for her name ??? Isn't she scared here ??? Well, I gave her a ten note. Now she would call me at my door every evening.

 "Give two bets in his name ... give two bets in his name ..."

 One day a neighbour of mine complained.

 "Do you know who is asking for this madam ???"

 "Who is Gupta Ji? Man and who? He is also poor. I know about her. She lives in Jivangarh. Her husband is an alcoholic. She earns something."  No, he is killed separately ... there is no child.

 Gupta spoke angrily.

 "You don't know where you started telling the story ... you know he is a Muslim ... and ... I hate Muslims ..."

 ''why???''

 "These thieves ... come ... and ... are valleys of terror ... do not love the country ... are traitors ..."

 I replied with a smile.

 "Who said that?"

 "Hey !!!  Take it, the whole world says ... don't you watch news channels??? "

 The talk ended, but my notoriety began in a new way in the neighbourhood. This notoriety was felt again and again when I was locked down due to the coronavirus. One morning, 'Bhuri' came to my house crying.

 '' Madam Ji !!!  Madamji !!!  My husband hit me hard today. "

 ''Why???.''

 I motioned for her to sit on the sofa in the drawing-room. She sat down on the floor. I said.

 "Sit on the sofa, not on the ground."

 I noticed that her skin colour had increased and she had a cut on her neck.

 She has been staying at my house since the incident. But today I was very sorry when I got a call from my son.

 '' Mommy !!!  That's enough ... before you used to go around with a rickshaw puller and now with a Muslim beggar you ... "

 His speech was incomplete and I hung up.

 I can bear everything but not my misunderstanding, especially of my son Mohan. So I am ending myself sleeping in the Bhuri armpit room and I am going to sleep forever. The owner of all the money in my bank is Bhuri and my husband and son should not be allowed to come to my funeral.

 Prem Lata - Shanti Kutir - 4/222 Quarsi Nayar PAC Aligarh.

 The suicide note told the whole story of Prem Lata. A few tears welled up in the eyes of Inspector Odhish Kumar. A loud TV sound was coming from a house "the Coronavirus spread by Muslims."

Saturday 23 January 2021

آن لائن گیم کھیل کر کوئن جیتنےکی شرعی حیثیت

 خرید وفروخت  کے جائز ہونے کی بنیادی شرطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ  مبیع (جس  چیز کو بیچا جارہا ہے) اور ثمن( جس کے ذریعے  کسی چیز کو خریدا جارہا ہے)   خارج میں مادی شکل میں  موجود ہوں، اور وہ مالِ متقوم ہو، محض فرضی چیز نہ ہوں، لہذا جس چیز کا خارج میں وجود نہ ہو اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی جامد اثاثے ہوں  تو شرعاً ایسی  چیزوں کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔

لہذاآن لائن گیم کے کوئن  چوں کہ صرف ایک فرضی چیز ہے، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ، اس لیے اس میں مبیع بننے کی صلاحیت نہیں ،  نیز آن لائن گیم  کے کوئن  کو معتدبہ تعداد تک پہنچا کر فروخت  کرنے کے لیے کافی عرصہ لگتا ہے، اور یہ لہو ولعب میں لگ کر وقت اور مال دونوں کا ضیاع ہے، اور اگر گیم میں جان دار کی تصاویر ہوں تو یہ اس پر  مزید  ایک اور قباحت ہے، اس لیے آن لائن گیم  کے کوئن کی  خرید وفروخت  شرعاً جائز  نہیں ہے۔

نیز یہ  کہ  کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کہ وجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہوگا:

1۔۔   وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت  ہومثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

         حاصل یہ ہے کہ اگر آن لائن گیم میں   مذکورہ خرابیاں پائی جائیں  یعنی اس میں مشغول ہوکر  شرعی فرائض اور واجبات میں کوتاہی  اور غفلت برتی جاتی ہو، یا اس میں غیر شرعی امور کا ارتکاب کیا جاتا ہو، مثلاً جان دار کی تصاویر، موسیقی اور جوا وغیرہ  ہوں یا اسے محض  لہو لعب کے لیے کھیلا جاتا ہو تو  خود اس طرح  کی گیم کا کھیلنا  بھی جائز نہیں ہوگا۔

       فتاوی شامی میں ہے:

’’إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح‘‘. (5/ 58،   کتاب البیوع، باب بیع الفاسد، ط: سعید)                    

بدائع الصنائع  میں ہے:

’’وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجوداً فلاينعقد بيع المعدوم، ...  (ومنها) أن يكون مالاً؛ لأن البيع مبادلة المال بالمال ...‘‘ الخ (5/ 138، 140، کتاب البیوع، فصل شرائط رکن البیع، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے: 

’’وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف.

(قوله: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لاتحتمل التمليك ولايجوز الصلح عنها‘‘.(4 / 518، کتاب البیوع،  ط؛ سعید)

روح المعانی میں ہے:

’’ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها‘‘. (تفسیر آلوسیؒ (11 / 66)، سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیہ)                       

Friday 22 January 2021

Vociferation of the oppressed

 Halaku Khan, the cruellest and savage man in the medieval world, was sitting proudly on his horse, surrounded by rows of Tatar forces, in front of him were three rows of captives, Who were to be killed by Halaku Khan  today, then he said cruelly: behead them!

 And the executioner began to cut off the heads of the people, seeing this an old man lefts his row due to the fear of death, he went to the second row, the first row was completely cleared, Halaku Khan's eyes saw this old man that he left his first row for fear of death and went to the second row, Halaku Khan was sitting on a horse.  He was bouncing with a powerful thunderbolt in his hand and was playing with it and was happy with the game after seeing the scene of the murder of an oppressed man.  

 The executioner was wielding a sword and fountains of blood were gushing and falling on the ground. When the old man saw that the necks of the people in the second row were being cut off and his turn was coming very soon, he ran and stood in the third row.  Halaku Khan's eyes were fixed on the old man that now the third row is the last, then where will he try to hide?  Who can save this stupid old man from my sword, I killed millions of people, how long will he survive?

 The sword of the executioners was falling like lightning in the third row, Halaku Khan's eyes were constantly seeing on the old man how he was restless and restless due to death, the necks of the people in the third row were falling, the executioner was lightning fast.  When he reached this old Baba, Halaku Khan's voice echoed, stop!  Don't tell him anything now, tell Baba, you ran from the first row to the second row, when it finished you ran to the third row,  tell now, there is no other row behind it, now where will you run, now  Who will save you from me?

 The old man looked up at the sky and said, I left the first row so that I might survive in the second, but death also reached there, then I left the second row so that I might survive in the third row.  He raised his hand and said, "Baba, what kind of imaginary person are you talking about? Can anyone save you from my sword as well?"  The Almighty God can do anything if it wants and can save me from you if it wants."the old man said.

 How to save?  Halaku Khan was so arrogant that the thunderbolt fell from his hand. Halaku Khan was a clever warrior.  He grabbed him in the air, in the same attempt Halaku Khan's one foot came out of the stirrup and he fell from his horse, while the other foot got stuck in the stirrup.

 Halaku Khan's horse was so frightened that he ran away. He tried hard to save himself. The army also moved but the horse was so powerful that no one could control it. He dragged Halaku khan into the rocks and kept running.  Even Halaku khan's head was pounded with stones and he bled so much that in a few minutes his soul left his arrogant being and went to hell.  By this time his head had been badly crushed, Halaku khan's army became so frightened of this old man that the army deliberately ignored him and Baba walked towards his house with great ease.  Fear from malediction because when it turns to Almighty, acceptance comes from far away to receive it as acceptance.

بترس از آہ مظلوماں کہ ہنگام دعا کردن

اجابت از درحق بہراستقبال می آید

Wednesday 20 January 2021

مثالی شوہر کی صفات


* بیوی سے حسن سلوک کرنے والا بہترین شوہر ہے


* آزمائش اور مصیبت میں صبر کرنے والا 


*اولاد کو دینی تعلیم دلانے اور اچھی تربیت کرنے والا ۔


*۔۔۔ بیوی کے معاملہ میں درگزر کرنے والا اور نرمی سے کام لینے  والا۔


* بیوی اور بچوں پر خوشدلی سے خرچ کرنے والا ۔


* گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹانے والا ۔