https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 8 June 2021

اصطلاحات حدیث

 اصطلاحات حدیث (عربی: مُصْطَلَحُ الحَدِيْث‎) حدیث اقسام حدیث، راویان حدیث وغیرہ کے علم کو اسلام میں بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ جس کے لیے کئی اصطلاحات حدیث وضع کی گئی ہیں۔

بنیادی اصطلاحات

علم مُصطلح الحدیث کی 14 بنیادی اصطلاحات ہیں :

علم المُصطلح: 

وہ علم جس کے ذریعہ سے حدیث کے سند و متن کے احوال کی معرفت حاصل کی جاتی ہے تاکہ حدیث کے قبول و عدم کا فیصلہ کیا جاسکے۔

موضوع: 

اِس میں حدیث کے سند اور متن کے صحیح یا موضوع ہونے کا فیصلہ کیا جاتا ہے

غایت: ترميم

اِس اصطلاح میں علم کی بابت صحیح و سقیم احادیث کے درمیان امتیازی خط کھینچنا ہوتا ہے۔

الحدیث: 

حدیث کے لغوی معنی جدید یا نئی چیز کے ہیں اور اِس کی جمع خلافِ قیاس الاحادیث آتی ہے۔ اِصطلاح حدیث میں ہر اُس قول، فعل یا تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے جس کی نسبت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کی جاتی ہو۔ تقریر سے مراد وہ فعل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے سامنے کیا گیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نہ تو اِس کے کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایا بلکہ اِس پر سکوت فرمایا۔

الخبر: 

اِس کے لفظی معنی تو عام خبر کے ہیں اور اِس کی جمع الاخبار ہے۔ اصطلاحی تعریف میں تین اقوال مشہور ترین یہ ہیں کہ:

(ا) پہلا قول یہ ہے کہ خبر بالکل حدیث کے ہم معنی لفظ ہے یعنی باہم خبر اور حدیث مترادف ہیں۔

(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ خبر کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس مفہوم میں حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول کلام کو سمجھا جاتا ہے اور خبر اُس کلام کو کہتے ہیں جس کی نسبت خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہ ہو بلکہ کسی اور شخصیت سے منسوب وہ کلام ہو۔ یہ قول اول کے برعکس ہے۔

(ج) تیسرا قول یہ ہے کہ حدیث سے زیادہ عام لفظ خبر ہے، یعنی حدیث اُس کلام کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہو اور خبر اُس کلام کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یا کسی اور شخص سے منقول ہو۔

عموماً علما و محدثین دوسرے قول کی نسبت زیادہ اعتماد کرتے ہیں کیونکہ اُس میں خبر کی وضاحت آسان ہے۔ اگر پہلے اور تیسرے قول کو اپنایا جائے تو تمام اخبار احادیث میں شامل ہوجائیں گی اور حدیث کا اطلاق خبر پر بھی ہونے لگے گا۔ ابتدائی محدثین خبر کو بھی حدیث ہی جانتے تھے مگر تدوین فقہ کے زمانہ میں خبر کو حدیث سے الگ کر لیا گیا۔

الاثر: 

اِس کے لفظی معنی ہیں : کسی چیز کا باقی ماندہ نشان یا علامت۔ اِصطلاح میں اِس کے دو اقوال ہیں :

(ا) پہلا قول یہ ہے کہ لفظ اثر، حدیث کے ہم معنی ہے اور باہم دونوں مترادف ہیں۔

(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ اِس لفظ کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس میں اثر وہ قول یا فعل ہے جس کی نسبت صحابہ کرام یا تابعین یا تبع تابعین کی طرف سے کی گئی ہو۔  دوسرا قول یہ ہے کہ اِس لفظ کا مفہوم حدیث کے بالکل برعکس ہے، اِس میں اثر وہ قول یا فعل ہے جس کی نسبت صحابہ کرام یا تابعین یا تبع تابعین کی طرف سے کی گئی ہو۔

محدثین عظام اثر کا مفہوم دوسرے قول کی نسبت سے لیتے ہیں۔

الاسناد: 

اِس کے دو مفہوم ہیں :

(ا) حدیث کی نسبت اُس کے قائل کی طرف کرنا۔

(ب) متن حدیث تک پہنچانے والے سلسلہ سند کے رجال، یہ لفظ سند کے ہم معنی ہی ہے۔ محدثین عظام اِسی قول کو تسلیم کرتے ہیں۔

السَنَد: 

اِس کا لغوی معنی ہے : سہارا۔ مُصطلح الحدیث میں سند کے ذریعہ جو کسی بھی حدیث میں مروی ہوتی ہے، اُس کی ثقاہت کا انحصار اِسی سند پر ہوتا ہے۔ اِس اصطلاح میں سند اُس سلسلہ رجال کو کہا جاتا ہے جو حدیث کے متن تک پہنچا دے۔ کسی بھی حدیث کی ثقاہت جاننے کے لیے سند اہم ستون ہے، گویا ایک سیڑھی ہے جس کے سہارے حدیث کے متن تک پہنچا جاتا ہے۔

المَتَن: 

متن کا لغوی معنی ہے : زمین کا وہ سخت حصہ جو سطح زمین سے کچھ بلند ہو۔ اِصطلاح میں اِس سے مراد کلام کا وہ حصہ ہے جس پر سند کا سلسلہ ختم ہو جائے۔

المُسنَد: 

اَسنَد سے اسم مفعول ہے یعنی جس کی طرف کوئی جزء منسوب ہو۔ اِصطلاح میں اِس کے لیے تین اقوال مشہور ہیں :

(ا) ہر وہ کتاب جس میں ہر صحابی کی الگ الگ مرویات جمع کی گئی ہوں۔ اِس اعتبار سے بیشتر کتب ہائے حدیث تالیف کی گئی ہیں جن میں امام احمد بن حنبلکی مُسنَد احمد بن حنبل مشہور ہے۔

(ب) ہر وہ مرفوع حدیث جو سند کے اعتبار سے متصل ہو۔

(ج) تیسرے قول کے مطابق یہ ہے کہ اِس سے سند مراد لی جائے۔ اِس صورت میں مصدر میمی بمعنیٰ اسناد ہوکر سند ہی کے ہم معنی ہوگا۔

المُسنِد: 

وہ شخص جو سند کو حدیث کے ساتھ روایت کرے، خواہ وہ اُس حدیث کا علم رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔

المُحَدِّث: 

اِس سے مراد وہ شخص ہے جس کا شغف روایت و درایت کے اعتبار سے علمحدیث اور اُسے اکثر روایات اور اُن کے رواۃ کے احوال کا علم ہو، ایسا شخص محدث کہلاتا ہے۔

الحَافِظ: 

حافظ کے متعلق محدثین کے دو اقوال ہیں :

(ا) بیشتر محدثین کے نزدیک یہ لفظ محدث کے معنی میں لیا جاتا ہے۔

(ب) دوسرا قول یہ ہے کہ حافظ کا درجہ محدث سے قدرے بلند ہوتا ہے کیونکہ اُسے محدثین کے ہر طبقہ میں سے اکثر کا علم ہوتا ہے۔

الحَاکِم : 

الحاکم کی اصطلاح بعض محدثین عظام کے اقوال میں اُس شخص پر لازم آتی ہے جس کا علم جملہ احادیث پر محیط ہو، چہ جائیکہ جو احادیث اُس کے علم میں نہ ہوں اُن کی تعداد محض مختصر ہی ہو۔

ذرائع خبر 

ہم تک خبر یعنی حدیث کے پہنچنے کے دو اہم ذرائع ہیں : خبر متواتر اور خبر آحاد۔

  • اگر خبر کی روایت کے سلاسل میں تعداد متعین نہ ہو تو اُسے خبر متواتر کہا جاتا ہے۔
  • اگر خبر کی روایت کے سلاسل کی تعداد متعین ہو تو اُسے خبر آحاد کہا جاتا ہے۔

خبر متواتر: 

اِس کی لغوی تعریف یہ ہے کہ متواتر لفظ تواتر سے مشتق ہوکر اسم فاعل بنا ہے جس کے معنی ہیں : پے در پے ہونا۔ مثال جیسے کہ مسلسل بارش کی صورت میں کہا جاتا ہے : تواتر المطر، یعنی مسلسل بارش ہوئی۔ اصطلاحی تعریف میں متواتر اُس حدیث کو کہتے ہیں جسے ہر زمانہ میں محدثین اور علما کی کثیر جماعت نے اِس قدر روایت کیا ہو کہ اُس کا کذب بیانی پر متفق ہونا محال ہو۔[1]

اِس کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ خبر متواتر سے مراد وہ حدیث یا خبر ہے جس کے سلسلہ روایت کے ہر طبقہ یا مرحلہ روایت میں راویوں کی اتنی بڑی تعداد ہو کہ عقل کے نزدیک اُن سب کا اِس حدیث یا خبر کو من گھڑت کہنے پر متفق ہونا محال ہو جائے۔

Why don't politicians talk about lynching?

 جمعیۃ ہند کے ایک وفد نے دہلی کے سوروپ وہار نزد بھلسوا ڈیری علاقہ جہانگیرپوری میں ماب لنچنگ کے شکار ہوئے سرفراز ولد بھورا خان مرحوم کی ماں اور دیگر اہل خانہ سے ملاقات کرکے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

جمعیۃ علماء ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق سورپ وہار میں رہنے والی خوشنما بیوہ بھورا خاں، اپنی دو نوعمر بچیوں کے سا تھ رہتی ہے، جس کے گھر میں ان کا ایک 22سالہ بیٹا سرفراز تنہا کمانے والا تھا، جب جمعیۃ علماء ہند کا وفد اس کے گھر پہنچا تو ماں انتہائی غم میں ڈوبی ہوئی تھی۔ وفد میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، مولانا قاری عبدالسمیع نائب صدر جمعیۃ علماصوبہ دہلی، مولانا ضیاء اللہ قاسمی، مولانا یسین جہازی، عظیم اللہ صدیقی اور مولانا رحمت اللہ بوانہ شامل تھے۔

اہل خانہ نے وفد کو بتایا کہ 23 مئی کی رات نو بجے سرفراز عمر 22 سال جو کسی دوست کے کہنے پر باہر نکلا، وہ دیر رات تک واپس نہیں آیا، 24 مئی کی صبح آگے کی گلی سے اس کی لاش ملی، جسے محلے کے شرپسندوں نے باندھ کر بڑ ی بے رحمی سے مارا تھا

اور اس سے موت ہوگئی تھی۔ موت کس حالت میں ہوئی اوراسے کس طرح مارا گیا، یہ اب تک پردہ خفا میں ہے، مرحوم کے بہنوئی کہتے ہیں کہ اسے کچھ لوگوں نے باندھ کر پوری رات پیٹا، مارنے والی گلی میں سبھی لوگ اسے جانتے تھے، لیکن انسانیت پر حیوانیت حاوی تھی۔

سوروپ نگر تھانہ پولس نے ایف آئی نمبر 0249کے تحت کچھ غیر معلوم لوگوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی ہے اور دو تین لوگوں کوگرفتار بھی لیا ہے کچھ لوگوں کے خلاف نامزد ایف آئی آر بھی درج کی ہے اور تین غیر مسلم گرفتار بھی ہیں، لیکن انصاف کی اس ڈگر سے ماں مایوس ہیں، وہ کہتی ہے کہ ان کے بچے کو شیطان نے ماردیا، شوہر گزرجانے کے بعد وہ میرے لیے سہارا تھا، لیکن خدا کے علاوہ اب میرا کوئی سہارا نہیں ہے۔ بیوہ خاتون کا گھر ایک مختصر سی دکان سے چلتا ہے،جو گھر کے نیچے قائم ہے، لیکن دکان میں کچھ خاص سامان نہیں ہے۔

ریلیز کے مطابق بیوہ خاتون نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا محمود مدنی صاحب کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں تعاون کی اپیل کی ہے۔ جمعیۃعلماء ہندکے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے ان کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ہے، اس سلسلے میں جمعیۃ علماء صوبہ دہلی کے نائب صدر قاری عبدالسمیع صاحب اور مولانا ضیا اللہ قاسمی صاحب ان کے اہل خانہ سے رابطہ میں رہیں گے اور ان کی ہر ممکن مدد کریں گے، اگر قانونی چارہ جوئی میں بھی کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے تو جمعیۃعلماء ہند ان کی مدد کرنے کو تیار ہے -

علی بن مدینی محدث جلیل رحمہ اللہ

 ابو الحسن کنیت اور علی نام تھا۔ ان کا خانوادہ بنو سعد کے ایک شخص عطیۃ السعد کا غلام تھا۔ آبائی وطن مدینہ المنورہ تھا۔ اس نسبت سے مدینی مشہور ہوئے۔ بعد میں ان کاخاندان بصرہ میں آباد ہو گیا تھا۔ یہیں 161ھ میں ان کی ولادت ہوئی اور وہیں ان کی نشو و نما اور ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔ ان کے والد اور دادا دونوں صاحب علم و فضل تھے۔ ان کے والد کے بارے میں تو خطیب بغدادینے لکھا ہے کہ وہ مشہور محدث تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم تو انہی کی آغوش تربیت میں ہوئی۔ بعض واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اختتام تعلیم سے پہلے ہی ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے سماع حدیث کے لیے یمن کا سفر کیا تو اس وقت ان کے اخراجات کی ساری ذمہ داری ان کی والدہ کے سر تھی۔

طلب علم

انہوں نے طلبِ علم کے شوق میں دور دور کی خاک چھانی تھی۔ مکہ، مدینہ، بغداد، کوفہ، عرض ممالک اسلامیہ کے ہر مشہور مقام تک طلب علم کے لیے گئے۔ خصوصیت سے یمن میں وہ تین سال تک مقیم رہے۔ علم حدیث میں ان کو فطری لگاؤ بھی تھا اور وراثتاً بھی یہ علم ان کے حصہ میں آ گیا۔ اس لیے ان کے علم کا سارا جوہر اس فن میں کھلا۔ سماع حدیث کے لیے جس وقت انہوں نے یمن کا سفر کیا تھا، اس وقت یہ مبتدی تھے، بلکہ اپنے حفظ و سماع سے حدیث کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ پاس جمع کر چکے تھے۔ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے سلسلہ سفر کے اعتبار سے ایک سند جمع کی تھی۔ میں جب یمن جانے لگا تو اس کو بحفاظت ایک صندوق میں بند کرتا گیا، لیکن تین برس کے بعد واپس ہوا تو یہ سارا ذخیرہ مٹی کا ڈھیر ہو چکا تھا۔ مجھ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ پھر دوبارہ اس کے جمع کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کا کوئی نگران نہیں تھا۔ صرف ان کی والدہ تنہا تھیں۔ ان کے قیام یمن کے زمانہ میں ان کو نہ جانے کتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، مگر ان کی والدہ نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان تکالیف کی اطلاع دے کر اپنے بیٹے کے سمندِ شوق کی راہ میں روڑہ ڈالیں، بلکہ جن لوگوں نے اس کا مشہور دیا ان کو ان کی والدہ نے اپنے لڑکے کا دشمن سمجھا۔ ان کے علمی شغف کا یہ حال تھا کہ رات کو سوتے سوتے کوئی حدیث یاد آ گئی یا کوئی شبہ ہوا تو فوراً لونڈی سے کہتے کہ چراغ جلا۔ چراغ چل جاتا اور جب وہ اپنی تسکین کر لیتے تب جا کر پھر ان کو نیند آتی تھی۔

اساتذہ

جن اساتذہ سے انہوں نے کسب فیض کیا تھا، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چند مشاہیر کے نام یہ ہیں۔ ان کے والد عبد اللہ بن جعفر مدینی، حماد بن زید،سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی، ابو داؤد طیالسی،ابن علیہ، سعید بن عامر الضبعی وغیرہ۔

علم و فضل

ان کے علم و فضل کا ہر کہ دمہ کو اعتراف تھا۔ یحییٰ بن سعید القطان ان کے اساتذہ میں تھے، مگر وہ کہا کرتے تھے کہ علی بن المدینی جتنا مجھ سے استفادہ کیا وہ اس سے کہیں زیادہ میں نے ان سے استفادہ کیا۔ اسی طرح مشہور محدث اور ان کے شیخ ابن مہدی کہا کرتے تھے کہ میں نے احادیث نبوی کا اتنا جاننے والا نہیں دیکھا۔ سفیان بن عیینہ کے یہ خاص اور محبوب تلامذہ میں تھے۔ بعض لوگوں کو ابن المدینی کے ساتھ ان کی نسبت و محبت ناگوار گزرتی تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے لوگ علی کی محبت پر ملامت کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! انہوں نے مجھ سے جتنا کسب فیض کیا ہے، اس سے کچھ زیادہ میں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ سفیان بن عیینہ ان کو حدیث کا مرجع و ماویٰ کہتے تھے۔ کہتے تھے کہ اگر ابن المدینی نہ ہوتے تو میں درس بند کر دیتا۔ احمد بن حنبل ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ ادب سے ان کا نام نہیں لیتے تھے، بلکہ ہمیشہ ان کی کنیت ہی سے ان کو مخاطب کرتے تھے۔محمد بن اسماعیل بخاری ان کے تلامذہ میں ہیں۔ ان کا قول ہے کہ علی بن المدینی کے علاوہ کسی کے سامنے اپنے کو حقیر نہیں سمجھا۔ ان کے انتقال کے بعد کسی نے امام بخاری سے پوچھا کہ آپ کے دل میں کوئی خواہش باقی ہے؟ ایک خواہش ہے، وہ یہ ہے کہ ابن المدینی زندہ ہوتے اور عراق جا کر ان کی صحبت میں بیٹھتا۔ ابن ماجہ اور نسائی نے ان سے بالواسطہ روایتیں کی ہیں۔ امام نسائی کہتے تھے کہ اللہ نے ان کو علم حدیث ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔

تصانیف

وہ ان ائمہ تبع تابعین میں ہیں، جنہوں نے اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی ہیں۔ یحییٰ بن شرف نووی نے لکھا ہے کہ حدیث میں دو سو ایسی تصنیفیں چھوڑی ہیں، جس کی مثال ان سے پہلے نہیں ملتی۔ مگر ان میں بیشتر ضائع ہو گئیں۔ ابن حجر عسقلانی نے صرف اتنا لکھا کہ وہ صاحب تصانیف ہیں۔ ابن ندیم نے ان کی چند تصانیف کے نام گنائے ہیں: کتاب المسند بعللہ، کتاب المدلسلین، کتاب الضعفاء، کتاب العلل، کتاب الاسماء و الکنی، کتاب الاشربہ، کتاب النزیل۔

وفات

ابن المدینی سنہ وفات اور مقام اور وفات دونوں میں اختلاف ہے۔ سنہ وفات کسی نے 232ھ لکھا، کسی نے 235ھ اور کسی نے 238ھ لکھا ہے۔ مگرخطیب بغدادی نے 234ھ کو صحیح قرار دیا ہے۔ بعض اہل تذکرہ نے لکھا ہے کہ ان کا انتقال بصرہ ہی میں ہوا مگر خطیب بغدادی اور ابن ندیم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا انتقال سامراء میں ہوا

Monday 7 June 2021

حدیث کے لئے سب سے پہلے صحیح کااستعمال

    حدیث کے حوالے سے استعمال ہونے والی اصطلاحات صحیح وغیرہ کا استعمال سب سے پہلے علی بن المدینی رحمہ اللہ نے کیا ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وأما علي بن المديني، فقد أكثر من وصف الأحاديث بالصحة والحسن في مسنده وعلله، فظاهر عبارته قصد المعنى الاصطلاحي وكأنه الإمام السابق لهذا الاصطلاح، وعنه أخذ البخاري ويعقوب بن شيبة وغير واحد(النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر:۱/۴۲۶)

کہ اصطلاحی اعتبار سے علی بن المدینی نے صحت وحسن کے لفظ کو استعمال کیا ۔

۲۔                              اصطلاح " صحیح " کے دو معنی ہیں : (۱) معنی اخص : جو  کہ متاخرین کے ہاں ہے ، اس کی تعریف یہ ہے : هو ما اتصل سنده بنقل عدل تام الضبط ، غیر معلل ولا شاذ ، فالحدیث المجمع علی صحته عند المحدثین هو ما اجتمع فیه خمسة شرائط ۔(المدخل الی اصول الحدیث :۹۶، ط: دارالکتب پشاور)

علامہ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہی پانچ چیزیں محدثین کے نزدیک صحیح حدیث کی حقیقت میں معتبر ہیں ، فرماتے ہیں :

فهذه الخمسة هي المعتبرة فی حقیقة الصحیح عند المحدثین (توضیح الافکار :۱/۲۳)

اور صحیح کی یہ اصطلاح اس معنی میں علی ابن المدینی رحمہ اللہ کے دور میں شروع ہوئی اور سب سے پہلے اس اصطلاح کو علی ابن المدینی رحمہ اللہ نے استعمال کیا جیسا کہ ماقبل میں ہم نے یہ بات حوالہ کے ساتھ ذکر کردی ہے ۔

(۲) حدیث صحیح کا دوسرا معنی ، معنی اعم ہے ، یعنی  ہر وہ حدٰیث جو معمول بہ ہو، یہ متقدمین محدثین اور فقہاء واصولیین کے ہاں ہے ، علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :

ان الحدیث الصحیح بالمعنی الاخص عند المتاخرین من حوالی زمن البخاری ومسلم هو مارواه العدل الحافظ عن مثله من غیر شذوذ ولا علة ، وبالمعنی الاعم عند المتقدمین من المحدثین وجمیع الفقهاء والاصولیین هو المعمول به (الاجوبة الفاضلة ،ص: ۱۹۰، دارالکتب للنشر والتوزیع پشاور)

اس فر ق کو مد نظر رکھتے ہوئے اب ملاحظہ فرمائیں کہ ائمہ اربعہ نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں یا نہیں ؟

۱۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ : 

                                                  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے کہ : انی اخذت بکتاب الله اذا وجدته فما اجده اخذت بسنة رسول الله صلی الله علیه وسلم والآثار الصحاح عنه التی فشت فی ایدی الثقات " (امام اعظم اور علم حدیث :۴۴۷، مکتبۃ الحسن )

یعنی جب میں مسئلہ کو کتاب اللہ میں پاتا ہوں تو وہاں سے لے لیتا ہوں ، اگر وہاں سے نہ ملے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحیح حدیثیوں سے لیتا ہوں جو ثقات کے ہاتھوں شائع ہوچکی ہیں ۔

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ کے اس طرز عمل کی شہادت ان الفاظ میں دی ہے :

"یأخذ بما صح عنده من الاحادیث التی یحملها الثقات وبالاخر من فعل رسول الله صلی الله علیه وسلم

(یعنی جو حدیثیں صحیح ہوتی ہیں ان کے نزدیک اور جن کو ثقہ روایت کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ہوتا ہے وہی لیتے ہیں ۔(الانتقاء ،ص: ۲۶۲، ط: المکتبۃ الغفوریہ)

۲۔امام مالک رحمہ اللہ 

                                                 امام مالک رحمہ اللہ سے اذان کے مسئلہ میں ابو مصعب رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا  کہ آپ ترجیع کے ساتھ اذان دیتے ہیں ، حالانکہ آپ کے پاس اس بارے میں کوئی حدیث نہیں ہے ، تو فرمانے لگے : مجھے اس سے زیادہ کوئی بات پسند نہیں کہ سب کے سامنے روزانہ  پانچ بار یہ اعلان کیاجائے جسے بچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہمارے زمانے تک کے تمام لوگوں کو ذکر کریں جنہوں نے اس کو حدیث کو لیا ہو ، کیا ایسی صورت میں بھی فلان عن فلان کی ضرورت پڑے گی ، یہی میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح ترین حدیث ہے ، عبارت ملاحظہ فرمائیں :

قال ابو مصعب : قال ابویوسف رحمه الله : تؤذنون بالترجیع ولیس عندکم عن النبی صلی الله علیه وسلم فیه حدیث ! فالتفت مالک الیه وقال : یا سبحان الله ! ما رأیت امراً اعجب من هذا ، ینادی علی رؤوس الاشهاد فی کل یوم خمس مرات یتوارثها الابناء من لدن رسول الله صلی الله علیه وسلم الی زماننا هذا ، أیحتاج فیه الی فلان عن فلان ، هذا اصح عندنا من الحدیث "۔(الامام مالک وعمله بالحدیث من خلال کتابه الموطا :۱۶۸، ط: دارابن حزم )

۳۔امام شافعی رحمہ اللہ 

                                                      امام شافعی رحمہ اللہ " الرسالۃ " میں ایک حدیث کے تحت فرماتے ہیں:ودلالة علی انهم قبلوا فیه خبر الواحد ، فلا نعلم احدا رواه من وجه یصح عن النبی صلی الله علیه وسلم الا ابا هریرة (الرسالة :۴/۲۲۳، ط: دارالحدیث قاهره)

۴۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 

                                                  امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی حدیث کی صحت کے لیے صحیح کا لفظ استعمال کیا ہے ، علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

قال الامام احمد بن محمد بن حنبل صح سبع مئة الف وکسر وهم خمسون الفا (ظفر الامانی للکنوی :۷۳)

حدثنا عن ابی عبدالله انه قال : کنت عند اسحاق بن ابراهيم بنیسابور فقال رجل من اهل العراق : سمعت احمد بن حنبل یقول : صح من الحدیث سبع مئة الف وکسر (ظفر الامانی:۷۴)۔

۳۔ صحیح کا لفظ استعمال کرنے والے محدثین :                              

امام بخاری رحمہ اللہ :                          

امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا :ما ادخلت فی کتابی الجامع الا ما صح وترکت من الصحیح حتی لا یطول (مقدمة فتح الباری :۱/۹، ط: دارالسلام )

 امام مسلم رحمہ اللہ :

امام مسلم رحمہ اللہ  سے باب التشہد فی الصلاۃ کے تحت  فاذا قرأ فانصتو ا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ میرے نزدیک صحیح ہے ،

فقال له ابوبکر: فحدیث ابی هریرة ؟ قال ہو صحیح ؟ یعنی فاذا قرأ فانصتوا ۔ فقال : هو عندی صحیح (صحیح مسلم :۴/۳۴۳،ط: دارالمعرفہ)

اس سے معلوم ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی حدیث کی صحت کے لیے بھی صحیح کا لفظ استعمال کیا ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ : 

امام ترمذٰی رحمہ اللہ کی عادت مشہور ہے کہ وہ جگہ جگہ پر اپنی سنن میں حدیث پر صحت وضعف وحسن کے اعتبار سے حکم لگاتے رہتے ہیں ۔

امام ابوداؤد رحمہ اللہ :

امام ابو داؤد رحمہ اللہ سے تاریخ بغداد میں منقول ہے :

سمعت ابا داؤد یقول : کتبت عن رسول الله صلی الله علیه وسلم خمسائة الف حدیث ، انتخبت منها ما ضمنته هذا الکتاب یعنی کتاب السنن ۔ جمعت فیه اربعة آلاف وثمان مائة حدیث ، ذکرت الصحیح ومایشبهه ویقاربه (تاریخ بغداد :۹/۵۷)۔

امام نسائی رحمہ اللہ :

امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اپنی حدیث کی صحت کے لیے صحیح کا لفظ استعمال کیا ہے ، چنانچہ صحت کے بارے میں خود امام نسائی فرماتے ہیں :

قال النسائی : کتاب السنن کله صحیح "(سنن النسائی ، حاشیة زهر الربی :۱/۳، ط: قدیمی کتب خانہ)

امام ابن ماجہ رحمہ اللہ :

ہمیں تلاش کے باوجود ابن ماجہ رحمہ اللہ کی کوئی صریح عبارت نہ مل سکی جس میں انہوں نے حدیث کی صحت کے لیے صحیح کا لفظ استعمال کیا ہو ، البتہ دیگر ائمہ ومحدثین نے ان کی تعریف وتوصیف میں ذکر کیا ہے کہ ان کی احادیث کا بڑا مجموعہ حدیث صحیح پر مشتمل ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

عن ابن ماجة  قال : عرضت هذه السنن علی ابی زرعة فنظر فیه وقال : اظن ان وقع هذا فی ایدی الناس تعطلت هذه الجوامع او اکثرها (سیر اعلام النبلاء :۱۳/۶۷۸)۔

۴۔صحٰیح کا لفظ صحیحین کے استعمال کرنے والے حضرات 

صحیح البخاری :

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا نام ہی صحیح رکھا ہے ؛ کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام :"الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول الله صلی الله علیه وسلم وسننه وایامه ، وروی من جهات عن البخاری ، قال : صنفت کتاب الصحیح لست عشر سنة (مقدمه صحیح البخاری:۱/۴،ط: قدیمی کتب خانہ)

صحیح مسلم :

خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  امام مسلم فرماتے ہیں :صنفت هذا المسند الصحیح من ثلاث مئة الف حدیث مسموعة "۔(تاریخ بغداد :۳/۱۰۰)

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ حدیث کی مشہور کتابوں کے ساتھ لفظ صحیح کا استعمال خود امام بخاری ومسلم رحمہا اللہ نے کیا ہے ، البتہ اسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہنا بعد کے حضرات کا عمل ہے خود ان کا نہیں