https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 7 June 2021

حدیث کے لئے سب سے پہلے صحیح کااستعمال

    حدیث کے حوالے سے استعمال ہونے والی اصطلاحات صحیح وغیرہ کا استعمال سب سے پہلے علی بن المدینی رحمہ اللہ نے کیا ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وأما علي بن المديني، فقد أكثر من وصف الأحاديث بالصحة والحسن في مسنده وعلله، فظاهر عبارته قصد المعنى الاصطلاحي وكأنه الإمام السابق لهذا الاصطلاح، وعنه أخذ البخاري ويعقوب بن شيبة وغير واحد(النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر:۱/۴۲۶)

کہ اصطلاحی اعتبار سے علی بن المدینی نے صحت وحسن کے لفظ کو استعمال کیا ۔

۲۔                              اصطلاح " صحیح " کے دو معنی ہیں : (۱) معنی اخص : جو  کہ متاخرین کے ہاں ہے ، اس کی تعریف یہ ہے : هو ما اتصل سنده بنقل عدل تام الضبط ، غیر معلل ولا شاذ ، فالحدیث المجمع علی صحته عند المحدثین هو ما اجتمع فیه خمسة شرائط ۔(المدخل الی اصول الحدیث :۹۶، ط: دارالکتب پشاور)

علامہ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہی پانچ چیزیں محدثین کے نزدیک صحیح حدیث کی حقیقت میں معتبر ہیں ، فرماتے ہیں :

فهذه الخمسة هي المعتبرة فی حقیقة الصحیح عند المحدثین (توضیح الافکار :۱/۲۳)

اور صحیح کی یہ اصطلاح اس معنی میں علی ابن المدینی رحمہ اللہ کے دور میں شروع ہوئی اور سب سے پہلے اس اصطلاح کو علی ابن المدینی رحمہ اللہ نے استعمال کیا جیسا کہ ماقبل میں ہم نے یہ بات حوالہ کے ساتھ ذکر کردی ہے ۔

(۲) حدیث صحیح کا دوسرا معنی ، معنی اعم ہے ، یعنی  ہر وہ حدٰیث جو معمول بہ ہو، یہ متقدمین محدثین اور فقہاء واصولیین کے ہاں ہے ، علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :

ان الحدیث الصحیح بالمعنی الاخص عند المتاخرین من حوالی زمن البخاری ومسلم هو مارواه العدل الحافظ عن مثله من غیر شذوذ ولا علة ، وبالمعنی الاعم عند المتقدمین من المحدثین وجمیع الفقهاء والاصولیین هو المعمول به (الاجوبة الفاضلة ،ص: ۱۹۰، دارالکتب للنشر والتوزیع پشاور)

اس فر ق کو مد نظر رکھتے ہوئے اب ملاحظہ فرمائیں کہ ائمہ اربعہ نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں یا نہیں ؟

۱۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ : 

                                                  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے کہ : انی اخذت بکتاب الله اذا وجدته فما اجده اخذت بسنة رسول الله صلی الله علیه وسلم والآثار الصحاح عنه التی فشت فی ایدی الثقات " (امام اعظم اور علم حدیث :۴۴۷، مکتبۃ الحسن )

یعنی جب میں مسئلہ کو کتاب اللہ میں پاتا ہوں تو وہاں سے لے لیتا ہوں ، اگر وہاں سے نہ ملے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحیح حدیثیوں سے لیتا ہوں جو ثقات کے ہاتھوں شائع ہوچکی ہیں ۔

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ کے اس طرز عمل کی شہادت ان الفاظ میں دی ہے :

"یأخذ بما صح عنده من الاحادیث التی یحملها الثقات وبالاخر من فعل رسول الله صلی الله علیه وسلم

(یعنی جو حدیثیں صحیح ہوتی ہیں ان کے نزدیک اور جن کو ثقہ روایت کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ہوتا ہے وہی لیتے ہیں ۔(الانتقاء ،ص: ۲۶۲، ط: المکتبۃ الغفوریہ)

۲۔امام مالک رحمہ اللہ 

                                                 امام مالک رحمہ اللہ سے اذان کے مسئلہ میں ابو مصعب رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا  کہ آپ ترجیع کے ساتھ اذان دیتے ہیں ، حالانکہ آپ کے پاس اس بارے میں کوئی حدیث نہیں ہے ، تو فرمانے لگے : مجھے اس سے زیادہ کوئی بات پسند نہیں کہ سب کے سامنے روزانہ  پانچ بار یہ اعلان کیاجائے جسے بچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہمارے زمانے تک کے تمام لوگوں کو ذکر کریں جنہوں نے اس کو حدیث کو لیا ہو ، کیا ایسی صورت میں بھی فلان عن فلان کی ضرورت پڑے گی ، یہی میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح ترین حدیث ہے ، عبارت ملاحظہ فرمائیں :

قال ابو مصعب : قال ابویوسف رحمه الله : تؤذنون بالترجیع ولیس عندکم عن النبی صلی الله علیه وسلم فیه حدیث ! فالتفت مالک الیه وقال : یا سبحان الله ! ما رأیت امراً اعجب من هذا ، ینادی علی رؤوس الاشهاد فی کل یوم خمس مرات یتوارثها الابناء من لدن رسول الله صلی الله علیه وسلم الی زماننا هذا ، أیحتاج فیه الی فلان عن فلان ، هذا اصح عندنا من الحدیث "۔(الامام مالک وعمله بالحدیث من خلال کتابه الموطا :۱۶۸، ط: دارابن حزم )

۳۔امام شافعی رحمہ اللہ 

                                                      امام شافعی رحمہ اللہ " الرسالۃ " میں ایک حدیث کے تحت فرماتے ہیں:ودلالة علی انهم قبلوا فیه خبر الواحد ، فلا نعلم احدا رواه من وجه یصح عن النبی صلی الله علیه وسلم الا ابا هریرة (الرسالة :۴/۲۲۳، ط: دارالحدیث قاهره)

۴۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 

                                                  امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی حدیث کی صحت کے لیے صحیح کا لفظ استعمال کیا ہے ، علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

قال الامام احمد بن محمد بن حنبل صح سبع مئة الف وکسر وهم خمسون الفا (ظفر الامانی للکنوی :۷۳)

حدثنا عن ابی عبدالله انه قال : کنت عند اسحاق بن ابراهيم بنیسابور فقال رجل من اهل العراق : سمعت احمد بن حنبل یقول : صح من الحدیث سبع مئة الف وکسر (ظفر الامانی:۷۴)۔

۳۔ صحیح کا لفظ استعمال کرنے والے محدثین :                              

امام بخاری رحمہ اللہ :                          

امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا :ما ادخلت فی کتابی الجامع الا ما صح وترکت من الصحیح حتی لا یطول (مقدمة فتح الباری :۱/۹، ط: دارالسلام )

 امام مسلم رحمہ اللہ :

امام مسلم رحمہ اللہ  سے باب التشہد فی الصلاۃ کے تحت  فاذا قرأ فانصتو ا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ میرے نزدیک صحیح ہے ،

فقال له ابوبکر: فحدیث ابی هریرة ؟ قال ہو صحیح ؟ یعنی فاذا قرأ فانصتوا ۔ فقال : هو عندی صحیح (صحیح مسلم :۴/۳۴۳،ط: دارالمعرفہ)

اس سے معلوم ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی حدیث کی صحت کے لیے بھی صحیح کا لفظ استعمال کیا ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ : 

امام ترمذٰی رحمہ اللہ کی عادت مشہور ہے کہ وہ جگہ جگہ پر اپنی سنن میں حدیث پر صحت وضعف وحسن کے اعتبار سے حکم لگاتے رہتے ہیں ۔

امام ابوداؤد رحمہ اللہ :

امام ابو داؤد رحمہ اللہ سے تاریخ بغداد میں منقول ہے :

سمعت ابا داؤد یقول : کتبت عن رسول الله صلی الله علیه وسلم خمسائة الف حدیث ، انتخبت منها ما ضمنته هذا الکتاب یعنی کتاب السنن ۔ جمعت فیه اربعة آلاف وثمان مائة حدیث ، ذکرت الصحیح ومایشبهه ویقاربه (تاریخ بغداد :۹/۵۷)۔

امام نسائی رحمہ اللہ :

امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اپنی حدیث کی صحت کے لیے صحیح کا لفظ استعمال کیا ہے ، چنانچہ صحت کے بارے میں خود امام نسائی فرماتے ہیں :

قال النسائی : کتاب السنن کله صحیح "(سنن النسائی ، حاشیة زهر الربی :۱/۳، ط: قدیمی کتب خانہ)

امام ابن ماجہ رحمہ اللہ :

ہمیں تلاش کے باوجود ابن ماجہ رحمہ اللہ کی کوئی صریح عبارت نہ مل سکی جس میں انہوں نے حدیث کی صحت کے لیے صحیح کا لفظ استعمال کیا ہو ، البتہ دیگر ائمہ ومحدثین نے ان کی تعریف وتوصیف میں ذکر کیا ہے کہ ان کی احادیث کا بڑا مجموعہ حدیث صحیح پر مشتمل ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

عن ابن ماجة  قال : عرضت هذه السنن علی ابی زرعة فنظر فیه وقال : اظن ان وقع هذا فی ایدی الناس تعطلت هذه الجوامع او اکثرها (سیر اعلام النبلاء :۱۳/۶۷۸)۔

۴۔صحٰیح کا لفظ صحیحین کے استعمال کرنے والے حضرات 

صحیح البخاری :

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا نام ہی صحیح رکھا ہے ؛ کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام :"الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول الله صلی الله علیه وسلم وسننه وایامه ، وروی من جهات عن البخاری ، قال : صنفت کتاب الصحیح لست عشر سنة (مقدمه صحیح البخاری:۱/۴،ط: قدیمی کتب خانہ)

صحیح مسلم :

خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  امام مسلم فرماتے ہیں :صنفت هذا المسند الصحیح من ثلاث مئة الف حدیث مسموعة "۔(تاریخ بغداد :۳/۱۰۰)

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ حدیث کی مشہور کتابوں کے ساتھ لفظ صحیح کا استعمال خود امام بخاری ومسلم رحمہا اللہ نے کیا ہے ، البتہ اسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہنا بعد کے حضرات کا عمل ہے خود ان کا نہیں

4 comments:

  1. علی بن المدینی رحمہ اللہ کی مولد کب کی ہے؟

    ReplyDelete
  2. اگر تمام حدیثوں کو جمع کرا جاے تو اسمے سے صحیح احادیث کتنی ہونگی ؟

    ReplyDelete
  3. علامہ صنعانی رحمہ اللہ کی معروف کتاب ”توضیع الافکار لمعانی تنقیح الانظار“ میں سفیان ثوری رحمہ اللہ ، شعبہ رحمہ اللہ، یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ، عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ صحیح احادیث جو مسند ہوں اور بلا تکرار مروی ہوں ان کی تعداد چار ہزار چار سو ہے۔
    فائدة ذکرہا الحافظ بن حجر عن أبی جعفر محمد بن الحسن البغدادی أنہ قال فی ”کتاب التمییز“ لہ عن النووی وشعبة ویحی بن سعید القطان وابن مہدی واحمد بن حنبل أن جملة الأحادیث المسندة عن النبي - صلی اللہ علیہ وسلم یعنی الصحیحة بلا تکرار أربعة آلاف وأربع مأة حدیث الخ (۱/۶۴، ط: بیروت)

    ReplyDelete
  4. علی بن مدینی کی ولادت اگر 161 میں ہوئ تو پھر حدیث کے حوالے سے استعمال ہونے والی اصطلاحات صحیح وغیرہ کا استعمال سب سے پہلے علی بن المدینی رحمہ اللہ نے نہیں کیا وہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کیا تھا کیونکہ "انی اخذت بکتاب الله اذا وجدته فما اجده اخذت بسنة رسول الله صلی الله علیه وسلم والآثار الصحاح عنه التی فشت فی ایدی الثقات" اس قول کے حساب سے اسمے وہ استعمال کیا ہے

    ReplyDelete