https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 3 August 2021

جمہوریت بچانے کے لئے یوپی سے یوگی راج کاخاتمہ ضروری

 نئی دہلی،مسلم مجلس کے قومی صدر پروفیسر ڈاکٹر بصیر احمد خاں نے کہا ہے کہ آل انڈیا مسلم مجلس نے فیصلہ کیا ہے کہ آنے الے یوپی اسمبلی الیکشن میں وہ بڑی پارٹیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرکے حصہ لے گی یہ اطلاع انہوں نے آج یہاں جاری ریلیز میں دی ہے مسٹر بصیر احمد خاں جو اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے سابق پرووائس چانسلر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبا یونین کے سابق صدر رہ چکے ہیں، نے ایک بیان میں کہا کہ یوپی میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اپوزیشن کا اکٹھا ہونا ضروری ہے۔ مختلف محاذ بناکر یا اکیلے لڑکر اسے ہرانا مشکل ہوگا بلکہ اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مسلم مجلس چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے کسی بھی محاذ میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی ہم ایسے کسی بھی کارواں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو چونکہ ہار کا ڈر ستارہا ہے لہذا وہ اپنے مخالف ووٹوں کی تقسیم کرانے کی پالیسی پر کام کر رہی ہے۔ لہذا نادان دوستوں اور ہمیں دوست نما دشمنوں کو پہچاننا ہوگا۔ بی جے پی کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام بیروزگاری، مہنگائی، بد انتظامی اور لاقانونیت کی مار جھیل رہے ہیں، گنگا کے کنارے کو رونا سے مرنے والوں کی لاشیں نکلنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ کسان مہینوں سے دھرنے دے رہے ہیں لیکن سرکار گونگی بہری ہوگئی ہے۔ سیاست دانوں، میڈیا، دانشوروں اور ججوں تک کی جاسوسی کرائی جارہی ہے۔ بے قصور لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیں، انکاؤنٹر کی دھمکی دی جارہی ہے لہذا ملک میں جمہوریت کو بچانے اور قانون کا راج قائم کرنے کے لئے اور عوام کو بیروزگاری اور مہنگائی سے چھٹکارا دلانے کے لئے یوپی کو یوگی مُکت کرنا ضرورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم مجلس یوپی کی بیس اسمبلی سیٹوں پر الیکشن لڑے گی اور اپنے بانی ڈاکٹر فریدی مرحوم کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے جمہوریت نواز، کسان اور نوجوان حامی پارٹیوں سے انتخابی سمجھوتہ کرے گی۔ ماضی میں مسلم مجلس کے وزیر یوپی اور مرکز کی مخلوط حکومتوں میں شامل رہ چکے ہیں۔ لہٰذا مسلم مجلس اسی پالیسی پر عمل کر رہی ہے۔ آخری فیصلہ ہمارا پارلیمنٹری بورڈ کرے گا۔

سالگرہ منانااوراس کی مبارک باد دینا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، حضرات صحابہٴ کرام وتابعین سے ائمہ اربعہ سے، بزرگان دین سے جنم دن یا سالگرہ منانے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، یہ غیرقوموں کا طریقہ ہے۔ ہم مسلمانوں کو غیروں کا طریقہ اپنانا جائزنہیں، نہ ہی اس موقعہ پر مبارکباد دینا درست ہے۔ ہمیں اسلامی طریقہ پر زندگی گذارنا چاہیے، غیروں کے طریقوں کو اختیار نہ کرنا چاہیے۔ وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہ (القرآن)

محرم اورعزاداری کی توہین

 لکھنو: آل انڈیا شیعہ حسینی کونسل کے صدر معروف دانشور اور عالم دین علی ناصر سعید عبقاتی عرف آغا روحی نے اتر پردیش کے بدلتے منظر نامے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور ریاست میں قیامِ امن کے لیے متعین کئے گئے افسران ہی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں گے، تو ملک کے امن پسند اور جمہوریت میں یقین رکھنے والے لوگوں کے کئے مسائل مزید ابتر و پیچیدہ ہوجائیں گے۔

روح الملت کے مطابق کورونا کی گائڈ لائن کے نام پر اتر پردیش کے ڈی جی پی کے تحریری بیان اور ہدایت نامے نے صرف اہل تشیع حضرات کے جذبات کو ہی مشتعل و مجروح نہیں کیا ہے بلکہ محرم کی تقدیس اور کربلا کی روح پر بھی ضرب کاری کی ہے۔ ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست کے ڈائرکٹر جنرل پولس کی زبان اور طرز تحریر نے ان تمام لوگوں کو مایوس کیا ہے جو ملک اور بالخصوص اتر پردیش میں شیعہ سنی اور ہندو مسلم اتحاد کے حامی ہیں۔ اور اس اتحاد و اتفاق کے لیے اپنے جائز حقوق جذبوں اور خواہشوں کی قربانیاں بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ 

واضح رہے کہ اتر پردیش کے ڈی جی پی کی جانب سے کورونا کے نام پر جاری کی گئی اڈوائزری میں محرم کے دوران ادا کیے جانے والے عوامل کے تعلق سے جو کچھ تحریر کیا گیا تھا، اس کو لے کر علماء کرام اور عوام کی جانب سے سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ کچھ علماء نے مطالبہ کیا ہے کہ ڈی جی پی کو معافی مانگنی چاہئے جبکہ کچھ لوگوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ آئندہ الیکشن میں مفاد حاصل کرنےکے لئے حکومت اپنی پرانی حکمت عملی کی طرف لوٹ رہی ہے اور ڈی جی پی کا یہ ہدایت نامہ اسی منصوبہ بند حکمت عملی کا ایک شاخسانہ ہے۔ 

Monday 2 August 2021

استغفارکے فوائداورسیدالاستغفار

 استغفار کے فوائد:

٭استغفار کرنے سے انسان کے تمام چھوٹے بڑے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں جن کو انسان شمار بھی نہیں کر سکتا،لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس ان گناہوں کا پورا پورا ریکارڈ ہوتا ہے،جبکہ انسان بھول جاتا ہے۔
٭ظاہراً وباطناً خضوع وخشوع کا حصول ،کیونکہ جب انسان دل سے عاجزی کا اظہار کرتا ہے تب جا کر وہ توبہ کرتا ہے۔
٭نبی کریمﷺ کی اقتداء اور پیروی،کیونکہ نبی کریمﷺ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔
٭گناہوں سے بچنے اور اطاعت کرنے میں کوتاہی کا اعتراف،کیونکہ جب انسان اپنی کوتاہی کا اعتراف کر لیتا ہے تب وہ زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرتا ہے اورنیک اعمال کر کے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کوشش کرتا ہے۔
٭استغفار دل کی سلامتی اور صفائی کا ذریعہ ہے۔کیونکہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((ان العبد اذا أخطا خطیئۃ نکتت فی قلبہ نکتۃ سوداء ،فان ھو نزع واستغفر وتاب،صقل قلبہ))[رواہ الترمذی]
’’جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے،اگر انسان اس گناہ کو چھوڑ دے اور اس پر توبہ واستغفار کرے تو اس کے دل کودھو کر چمکا دیا جاتا ہے۔‘‘
سید الاستغفار:

حضرت شداد بن اوس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص یقین کامل کے ساتھ صبح کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا ،اگر اسی دن شام سے پہلے پہلے مر گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا،اسی طرح جو شخص یقین کامل کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد سید الاستغفار پڑھے گا ،اگر اسی رات صبح سے پہلے پہلے مر گیا تو سیدھا جنت میں جائے گا۔سید الاستغفار یہ ہے:
((اللھم أنت ربی لاالہ الا أنت،خلقتنی وأنا عبدک ،وأنا علی عھدک ووعدک مااستطعت،أعوذبک من شر ما صنعت ، أبوء لک بنعمتک علی وأبوء بذنبی ،فاغفرلی فانہ لا یغفر الذنوب الا أنت))[رواہ مسلم]

’’اے اللہ تو ہی میرا رب ہے ، تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں،تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوںجس قدرطاقت رکھتا ہوں،میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں،اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوںاور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں،پس مجھے بخش دے کیونکہ تیرے علاوہ کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔‘‘

درود شریف کب پڑھ سکتے ہیں اور کب نہیں پڑھنا چاہیے

 سات جگہوں پر درود شریف پڑھنامکروہ ہے، ان کے علاوہ ہر جگہ، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، ہر وقت (با وضو اور بے وضو بھی) پڑھ سکتے ہیں، اور بہت ہی خیر وبرکت کا باعث ہے۔

وہ سات جگہیں درج ذیل ہیں: 

(۱)  ہم بستری کے وقت۔ (۲) پیشاب وپاخانہ کرتے وقت۔ (۳) کسی چیز کے بیچنے کے ارادے سے کسی کو دکھانے کے وقت (تاکہ اس سے سامنے والے کو چیز کی عمدگی معلوم ہو)۔ (۴)  ٹھوکر لگتے وقت۔ (۵)  تعجب کے وقت۔(۶)  ذبح کرتے وقت۔ (۷)  چھینک آنے پر۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 518):
"تكره الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم في سبعة مواضع: الجماع، وحاجة الإنسان، وشهرة المبيع والعثرة، والتعجب، والذبح، والعطاس على خلاف في الثلاثة الأخيرة شرح الدلائل، ونص على الثلاثة عندنا في الشرعة فقال: ولا يذكره عند العطاس، ولا عند ذبح الذبيحة، ولا عند التعجب".

درودشریف کے فضائل

 درود شریف کے فضائل

- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا)
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ [ مسلم : ۴۰۸]
- ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے پر دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ) [ صحیح الجامع : ۶۳۵۹ ]
’’ جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے۔‘‘
- درود شریف کثرت سے پڑھا جائے تو پریشانیوں سے نجات ملتی ہے ۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ پر زیادہ درود پڑھتا ہوں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے کہ میں آپ پر کتنا درود پڑھوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ جتنا چاہو۔ میں نے کہا : چوتھا حصہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہواور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکَ جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا : دو تہائی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَا شِئْتَ ، فَإِنْ زِدْتَّ فَہُوَ خَیْرٌ لَّک یعنی جتنازیادہ سے زیادہ پڑھو گے تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔میں نے کہا : میں آپ پر درود ہی پڑھتا رہوں تو ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذًا تُکْفٰی ہَمَّکَ ، وَیُغْفَرُ لَکَ ذَنْبُکَ تب تمھیں تمھاری پریشانی سے بچا لیا جائے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ۔ایک روایت ہے میں ہے :إِذَنْ یَکْفِیْکَ اﷲُ ہَمَّ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِتب تمھیں اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت کی پریشانیوں سے بچا لے گا۔‘‘ [ ترمذی : ۲۴۵۷ ، وصححہ الالبانی ]
روزِ قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب وہی ہو گا جو سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا تھا ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلاَۃً)
’’ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے قریب وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجے گا۔‘‘
[رواہ الترمذی وابن حبان وابو یعلی وغیرہم]

درودشریف کے فوائد

 علامہ ابن قیم ؒ نے درود شریف پڑھنے کے ۳۹ فوائد ذکر کئے ہیں ، ان میں سے چند اہم فوائد یہ ہیں :

 درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل ہوتا ہے۔
ایک مرتبہ درود شریف پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں ۔
 دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔
دس گناہ معاف کردییجاتے ہیں ۔
دس درجات بلند کردیے جاتے ہیں ۔
دعاسے پہلے درود شریف پڑھنے سے دعا کی قبولیت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
 اذان کے بعد کی مسنون دعا سے پہلے درود شریف پڑھا جائے تو قیامت کے روز آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔
درود شریف کثرت سے پڑھنے سے پریشانیاں ٹل جاتی ہیں ۔
قیامت کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب ہو گا۔
 درود شریف پڑھنے سے مجلس بابرکت ہو جاتی ہے۔
جب انسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجتا ہے تواللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اس کی تعریف کرتا ہے۔
 درود شریف پڑھنے والے شخص کی عمر اس کے عمل اور رزق میں برکت آتی ہے۔
 درود شریف کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار ہوتا ہے۔
 درود شریف پڑھنے سے دل کو ترو تازگی اور زندگی ملتی ہے۔
آخر میں اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام حقوق ادا کرنے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔ اور روزِ قیامت ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور آپ کے ہاتھوں حوضِ کوثر کا پانی نصیب کرے ۔ آمین ثم آمین
٭٭٭٭٭

قسم کاکفارہ

 اگر کوئی شخص یہ قسم کھا لے کہ ’’میں فلاں شخص سے بات نہیں کروں گا‘‘ اور اب وہ فلاں شخص  اس سے بات کرتا ہے لیکن یہ اس سے بات نہیں کرتا تو اس صورت میں یہ حانث نہ ہوگا اور اگر وہ فلاں شخص بات کرے اور یہ اسے جواب دے یا یہ اس سے بات کرے تو اس صورت میں یہ شخص حانث ہو جائے گا اور اس پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں  یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دیں ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دیں تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دیں،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دیں۔ اور اگر مالی حالت ایسی ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتے ہیں اور نہ کپڑے دے سکتے ہیں تو مسلسل تین روزے رکھیں، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھیں۔

﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾(المائدة: 89)

Sunday 1 August 2021

یارسول اللہ اور لبیک یاحسین کہنا

  اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حاضر و ناظر ذات صرف باری تعالی کی ذاتِ اقدس ہے، اس کے علاوہ کائنات میں کوئی بھی ایسی ذات نہیں جو ہر جگہ موجود ہو اور سب کچھ دیکھ اور سن رہی ہو، یہاں تک کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم بھی حاضر و ناظر نہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھنا بتصریحاتِ فقہاء کفر ہے، جیساکہ فتاوی قاضی خان میں ہے:

"رجل تزوج بإمرأة بغير شهود، فقال الرجل للمرأة: ’’خدائے را و پیغمبر را گواہ کردیم‘‘قالوا: يكون كفراً؛ لأنه اعتقد أن رسول الله صلي الله عليه وسلم يعلم الغيب، و هو ما كان يعلم الغيب حين كان في الأحياء فكيف بعد الموت". ( ٢ / ١٨٥)

ترجمہ: کسی آدمی نے بغیر گواہوں کے کسی خاتون سے شادی کی اور کہا کہ: اللہ اور پیغمبر کو گواہ بنایا، فقہاء نے کہا کہ یہ کفر ہے؛ اس  لیے کہ اس نے یہ اعتقاد رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں، حال آں کہ وہ ( پیغمبر علیہ السلام) اپنی حیاتِ دنیوی میں غیب نہیں جانتے تھے تو موت کے بعد کیسے غیب جان سکتے ہیں۔

نیز اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر اطہر میں حیات ہیں، اور جو شخص روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر ہوکر سلام پیش کرتا ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفسِ نفیس اسے سنتے اور جواب دیتے ہیں، جس کی وجہ سے روضہ رسول پر کھڑے ہو کر ندا و صیغہ خطاب کے ذریعہ سلام پیش کرنا جائز ہے، البتہ روضہ مبارک کے علاوہ دنیا کے کسی اور مقام سے درود پڑھا جائے تو اللہ رب العزت کی جانب سے مامور فرشتے پڑھے جانے والے درود کو پڑھنے والے کے نام کے ساتھ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے ہیں، جیساکہ احادیث میں ہے:

"٩٣٤ - وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا أُبْلِغْتُهُ»". رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ: فِي: "شُعَبِ الْإِيمَانِ ". (مشكاة، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

"٩٣٤ - (وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ» ) : أَيْ [سَمْعًا] حَقِيقِيًّا بِلَا وَاسِطَةٍ، قَالَ الطِّيبِيُّ: هَذَا لَايُنَافِي مَا تَقَدَّمَ مِنَ النَّهْيِ عَنِ الِاعْتِيَادِ الدَّافِعِ عَنِ الْحِشْمَةِ، وَلَا شَكَّ أَنَّ الصَّلَاةَ فِي الْحُضُورِ أَفْضَلُ مِنَ الْغَيْبَةِ. انْتَهَى. لِأَنَّ الْغَالِبَ حُضُورُ الْقَلْبِ عِنْدَ الْحَضْرَةِ وَالْغَفْلَةُ عِنْدَ الْغَيْبَةِ، ("وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَائِيًا ") ، أَيْ: مِنْ بَعِيدٍ كَمَا فِي رِوَايَةٍ: أَيْ بَعِيدًا عَنْ قَبْرِي (" أُبْلِغْتُهُ ") : وَفِي نُسْخَةٍ صَحِيحَةٍ: بُلِّغْتُهُ مِنَ التَّبْلِيغِ، أَيْ: أُعْلِمْتُهُ كَمَا فِي رِوَايَةٍ، وَالضَّمِيرُ رَاجِعٌ إِلَى مَصْدَرِ صَلَّى كَقَوْلِهِ تَعَالَى: {اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى} [المائدة: ٨]، (رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ)  قَالَ مِيرَكُ نَقْلًا عَنِ الشَّيْخِ: وَرَوَاهُ أَبُو الشَّيْخِ، وَابْنُ حِبَّانَ فِي كِتَابِ: ثَوَابِ الْأَعْمَالِ، بِسَنَدٍ جَيِّدٍ". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابح، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

"  ٩٢٤ - وَعَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ» "، رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ". (مشكاة، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثاني)

"٩٢٤ - (وَعَنْهُ) ، أَيْ: عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ (قَالَ: «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً» ") ، أَيْ: جَمَاعَةً مِنْهُمْ (" سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ ") ، أَيْ: سَيَّارِينَ بِكَثْرَةٍ فِي سَاحَةِ الْأَرْضِ مِنْ سَاحَ: ذَهَبَ، فِي الْقَامُوسِ: سَاحَ الْمَاءُ جَرَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ، (" يُبَلِّغُونِي ") : مِنَ التَّبْلِيغِ، وَقِيلَ: مِنَ الْإِبْلَاغِ، وَرُوِيَ بِتَخْفِيفِ النُّونِ عَلَى حَذْفِ إِحْدَى النُّونَيْنِ، وَقِيلَ: بِتَشْدِيدِهَا عَلَى الْإِدْغَامِ، أَيْ: يُوَصِّلُونَ (" مِنْ أُمَّتِيَ السَّلَامَ ") : إِذَا سَلَّمُوا عَلَيَّ قَلِيلًا أَوْ كَثِيرًا، وَهَذَا مَخْصُوصٌ بِمَنْ بَعُدَ عَنْ حَضْرَةِ مَرْقَدِهِ الْمُنَوَّرِ وَمَضْجَعِهِ الْمُطَهَّرِ، وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى حَيَاتِهِ الدَّائِمَةِ وَفَرَحِهِ بِبُلُوغِ سَلَامِ أُمَّتِهِ الْكَامِلَةِ، وَإِيمَاءٌ إِلَى قَبُولِ السَّلَامِ حَيْثُ قَبِلَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَحَمَلَتْهُ إِلَيْهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَسَيَأْتِي أَنَّهُ يَرُدُّ السَّلَامَ عَلَى مَنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ، (رَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ) : قَالَ مِيرَكُ: وَرَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ، وَلَيْسَ فِي رِوَايَتِهِمَا " فِي الْأَرْضِ ". وَاعْلَمْ أَنَّ الْمَفْهُومَ مِنْ كَلَامِ الشَّيْخِ الْجَزَرِيِّ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، وَظَاهِرُ إِيرَادِ الْمُصَنِّفِ يَقْتَضِي أَنَّهُ مَرْوِيٌّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَتَأَمَّلْ. قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَرَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، وَالْبَيْهَقِيُّ، وَذَكَرَ ابْنُ عَسَاكِرَ طُرُقًا مُتَعَدِّدَةً وَحَسَّنَ بَعْضَهَا، ثُمَّ قَالَ: وَفِي رِوَايَةٍ بِسَنَدٍ حَسَنٍ إِلَّا أَنَّ فِيهِ مَجْهُولًا، " «حَيْثُمَا كُنْتُمْ فَصَلُّوا عَلَيَّ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ تَبْلُغُنِي» ". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَضْلِهَا، الْفَصْلُ الثَّالِثُ)

مذکورہ بالا تمہید کے بعد  جواب یہ ہے کہ ”یارسول اللہ“ کہنا مطلقاً ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ان صورتوں کے اعتبار سے اس کا حکم بھی مختلف ہوگا:

1- غائبانہ اس عقیدے سے کہنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  یا امام حسین یا حضرت علی رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کی طرح ہرجگہ حاضر وناظر ہیں، ہماری ہرپکار اور فریاد کو سننے والے ہیں، حاجت روا ہیں؛ ناجائز اور شرک ہے۔ (فتاوی رحیمیہ: ۲/۱۰۸، کتاب السنة والبدعة، ط: دار الاشاعت، پاکستان)

2- روضہٴ اطہر کے سامنے کھڑے ہوکر ’’السلام علیکم یا رسول الله‘‘یا ’’السلام علیك یا رسول الله‘‘یا ’’الصلاة والسلام علیك یا رسول الله‘‘  کہنا جائز ہے، اس لیے کہ لفظ ”یا“ کے ذریعے اسی کو مخاطب کیا جاتا ہے، جو سامنے حاضر ہو،اور روضہ اطہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف حیات ہیں، بلکہ سلام کا خواب بھی دیتے ہیں، لہٰذا سامنے موجود ہونے کی صورت میں خطاب درست ہے۔

3- صحیح عقیدہ ( کہ  میرا سلام فرشتے پہنچا دیں گے) کے ساتھ دور سے "الصلاة والسلام علیك یا رسول الله" پڑھنے کی اگرچہ اجازت ہے، تاہم اس طرح پڑھنے سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اہلِ بدعت کی طرح) حاضر وناظر سمجھ کر اس طرح پڑھا جارہاہے، دل کا حال کسی کو معلوم نہیں، اس لیے روضۂ رسول ﷺ کے علاوہ دیگر جگہوں میں اس جملہ سے احتیاط بہتر ہے، اس لیے علمائے کرام غائبانہ اس لفظ کے ذریعہ درود و سلام پڑھنے سے منع کرتے ہیں، لہذا درود و سلام کا وہ طریقہ اپنانا چاہیے، جس میں کسی قسم کا شبہ شرک نہ ہو،۔  اور ایسے الفاظ میں درود و سلام بھیجنا جو  رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں، زیادہ بہتر ہے

ماتم کرناکیساہے

 واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ  پاک میں مصیبت کے وقت صبر کی تلقین فرمائی ہے اور صبر کرنے والوں کے لیے انعامات کا ذکر فرمایا ہے،جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

ترجمہ: اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لو۔ بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور اللہ تعالی کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو شعور نہیں۔

(سورۃ البقرۃ: 153،154)

اسی  طرح   قرآن  مجید  میں ایمان والوں کی صفت یوں بیان ہوئی:

ترجمہ: اور خوش خبری دیجیے صبر کرنے والوں کو جب ان پر کوئی مصبت پڑے تو کہیں:  ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا ہے،  یہی ہے وہ لوگ  جن پر ان کے رب کی خصوصی عنایات ہیں اور رحمت، اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔

(سورہ بقرہ:156،157) 

جب کہ مروجہ ماتم قرآنِ مجید میں  دیے گئے حکمِ  صبر کے  بھی خلاف  ہے اور احادیثِ مبارکہ میں دیے گئے احکام کے صریح خلاف ہے۔

بصورتِ  مسئولہ رنج وغم ایک غیراختیاری چیز ہے جس  پر شریعتِ مطہرہ  میں مؤاخذہ نہیں ہے،البتہ کسی کے انتقال پر آواز سے رونا،چیخنا،سینہ کوبی کرنا، اور لباس  چیر کر سے اس غم کا اظہار کرنا، ماتم کرنا شرعًا ناجائز اور حرام ہے، رسول اکرم ﷺ  نے اس سےمنع فرمایا ہے،  چنانچہ حضرت  عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"جو منہ پر طمانچے مارے ، گریبان چاک کرے اور زمانۂ  جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے  وہ ہمارے دین پر نہیں ۔"

نیز  جس طرح ماتم کرنا اور اس میں شریک ہونا  گناہ اور ناجائز ہے، اسی طرح اسے دیکھنے کے  لیے جانا کثرت کا سبب بننے کی وجہ سے   ناجائز اور گناہ ہے،کیوں کہ دیکھنے والا اگرچہ اس میں شریک نہیں ہے لیکن دوسرے لوگ یہی سمجھیں گے کہ یہ شریکِ  ماتم ہے،لہذا ماتم  دیکھنے کے لیے جانا بھی ناجائز ہے۔

تحفة الأحوذي لمحمد المباركفوري میں ہے:

"قال النووي: أي يبعثون مختلفين على قدر نياتهم فيجازون بحسبها، وفي هذا الحديث من الفقه التباعد من أهل الظلم والتحذير من مجالستهم ومجالسة البغاة ونحوهممن المبطلين لئلايناله مايعاقبون به، وفيه: إن من كثر سواد قوم جرى عليهم حكمهم في ظاهر عقوبات الدنيا انتهى."

(باب ماجاء في الخسف، ج:6، ص:347، ط: دار الكتب العلمية،بيروت)

نصب الراية برهان الدين المرغيناني میں ہے:

"عن عمرو بن الحارث أنّ رجلًا دعا عبد الله بن مسعود إلى وليمة فلما جاء ليدخل سمع لهوًا، فلم يدخل فقال له: لم رجعت؟ قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من كثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضى عمل قوم كان شريك من عمل به. انتهى ورواه علي بن معبد في كتاب الطاعة والمعصية."

(باب مايوجب القصاص، ج:4، ص:346، ط:مكتبة الريان،لبنان)

یوم مسلم خواتین کی حقیقت

 تین طلاق کا قانون مسلم خواتین کے لئے سخت نقصاندہ


مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)  کا بیان


نئی دہلی، یکم اگست 2021ء

مرکزی حکومت نے آج تین طلاق قانون کے پس منظر میں یوم مسلم خواتین منانے کا اعلان کیا ہے، یہ چوری اور سینہ زوری کا مصداق ہے، اس قانون نے مسلمان عورتوں کی دشواریوں کو بڑھا دیا ہے؛ کیونکہ حکومت اس کو طلاق تسلیم نہیں کرتی اور مسلم سماج شریعت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کو طلاق تصور کرتا ہے، اس کے نتیجہ میں ایسی عورتیں قانون کی رو سے دوسرا نکاح کرسکتی ہیں، اور مسلم سماج میں کوئی ان سے نکاح کے لیے تیار نہیں ہوتا اور کوئی بھی فرد اپنے سماج سے سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکتا، اس قانون میں مطلقہ عورت کو شوہر کی طرف سے نفقہ کا مستحق قرار دیا گیا ہے،  دوسری طرف مرد کے لیے تین سال جیل کی سزا رکھی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ جب شوہر جیل میں ہوگا تو یہ بیوی کا نفقہ کیسے ادا کرے گا، پس یہ قانون تضاد سے بھرا ہوا ہے، اور عورتوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے؛ اسی لیے بڑے پیمانہ پر خواتین اس قانون کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں، اس لئے حکومت کو چاہیے کہ علماء کے مشورہ سے اس میں مناسب ترمیم کا بل لائے۔

Friday 30 July 2021

نذریامنت ماننا

 منت ماننا شرعاً جائز ہے اور منت کے  لازم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ:

1-   منت اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے، پس غیر اللہ کے نام کی منت صحیح نہیں۔

2- منت صرف عبادت کے کام کے لیے ہو، پس جو کام عبادت نہیں اس کی منت بھی صحیح نہیں۔

3- عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے: نماز، روزہ، حج، قربانی وغیرہ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی منت بھی صحیح نہیں۔ اسی طرح جو عبادت پہلے سے فرض ہے (مثلاً پنج وقتہ نماز، صاحبِ نصاب کے لیے زکاۃ، رمضان کا روزہ اور صاحبِ استطاعت کے لیے حج)، اس کی نذر ماننا بھی صحیح نہیں، کیوں کہ یہ پہلے سے ہی فرض ہیں۔

اور منت کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے ہونے پر منت مانی جائے اور وہ کام ہو جائے تو اس منت کا پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: {لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: {من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه}، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك؛ لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج: 5، صفحہ: 82، ط: دار الكتب العلمية)

تعزیر بالمال یامالی جرمانہ لگاناجائز ہے کہ نہیں

 احناف کے نزدیک تعزیر بالمال یعنی مالی جرمانہ کسی پر لگانا یا کسی سے لینا جائز نہیں، خواہ وہ دینی علوم کا طالب علم ہو یا عصری علوم کا طالب علم ہو، اگر کسی نے ایسا جرمانہ وصول کیا ہے تو اسے واپس کرنا ضروری ہے: وفی شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ، والحاصل المذہب عدم التعزیر بالمال (شامي: ۳/۱۷۹)