https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 2 January 2024

ناصبی کسے کہتے ہیں

 ناصبی وہ گروہ جو علی بن ابی طالب اور ان کی آل سے بغض و عداوت رکھتا ہو۔ یہ ایک مخصوص فرقہ نہیں بلکہ ایک رجحان کہا جا سکتا ہے، جو ہر دور میں انفرادی یا بعض ادوار یا علاقوں میں کسی حد اجتماعی ہوتا ہے۔ عام اہل تشیع تمام اہل سنت کو جو امیر معاویہ کو درست قرار دیتے ہیں اور علی بن ابی طالب کو بھی حق پر مانتے ہیں، ان سب کو ناصبی قرار دیتے ہیں۔ بعض معاصر محققین کا خیال ہے کہ ناصبیت کا آغاز قتل عثمان سے شروع ہوا اور یہ بنو امیہ کے دور میں رائج ہوئی۔

ناصبی اہلسنت کی اصطلاح میںترمیم

نواصب یا ناصبی وہ فرقہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلیت کرام کی شان میں تو ہیں وتنقیص کرتا ہے حضرت امام حسیں کو باغی اور یزید کو برحق اور جنتی کہتے ہیں خار جیوں اور ناصبیوں میں سب سے بڑافرق یہ ہے کہ خارجی ان تمام صحابہ کرام کو جن کے درمیان میں لڑائیاں ہوئیں کافرقرار دیتے ہیں۔ جیسے حضرت علی و حضرت معاویہ و عمرربن العاص وطلحہ و زبیر اور نامی فرقہ حضرت علی اور ان کی اولاد سے بغض و عداوت رکھتا ہے۔[1] ناصبی وہ فرقہ جو اپنے سینوں میں علی المرتضی اور حسن و حسین سے بغض و کینہ رکھتے ہیں۔[2] اعلیٰحضرت شاہ احمد رضا خان لکھتے ہیں ناصبی وہ ہے جو اہل بیت رسالت کا دشمن ہے [3] علامہ ابن تیمیہ نے فرمایا کہ ناصبی وہ ہے جو اہل بیت کو اپنے قول یا فعل سے تکلیف پہونچانے کا کام انجام دے[4]

معروف ناصبیترمیم

حضرت امیر معاویہ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو برا کہنے والے کی نماز جنازہ پڑھنادرست ہے کہ نہیں

 ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے والا شخص فاسق اور اہلِ سنت و الجماعت سے خارج ہے، لیکن اسلام سے خارج نہیں ہے؛  اس لیے اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا اور پڑھاناجائز ہے، اس سے کسی کے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا، تاہم ایسے افراد کی نمازِ جنازہ میں مقتدا لوگوں کو شرکت نہیں کرنی چاہیے۔

یہ حکم اس وقت ہے جب کوئی شخص ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو صرف برا بھلا کہے، لیکن اگر کوئی شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان باندھے تو وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا؛کیوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک دامنی خود اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں بیان کی ہے، لہٰذا آپ پر تہمت لگانا  قرآن پاک کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ ایسے شخص کی نمازِ جنازہ پڑھنا اور پڑھانا بھی جائز نہیں ہوگا، اور عقائد کا علم ہوتے ہوئے جان بوجھ کر جائز سمجھتے ہوئے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل پر توبہ اور تجدیدِ ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی کرے، البتہ اگر کوئی شخص ان کے عقائد سے مطلع نہ ہو یا مطلع ہونے کے باوجود ناجائز سمجھتے ہوئے کسی لالچ کی وجہ سے یا سیاسۃً و رسماً پڑھے تو وہ دائرہ اسلام سے تو خارج نہیں ہوگا، لیکن ایک حرام فعل کے ارتکاب کی وجہ سے اس کے فاسق و فاجر بننے میں کوئی شک نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 46)

"وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر؛ لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل علياً أو يسب الصحابة؛ فإنه مبتدع لا كافر، كما أوضحته في كتابي "تنبيه الولاة والحكام علی أحكام شاتم خير الأنام أو أحد الصحابة الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام".

''فنقول: لایصلی علی الکافر …؛ لأن الصلاة علی المیت دعاء واستغفار له، والاستغفار للکافرحرام ''…الخ (المحیط البرهاني: ٨٢/٣ )

"(وشرطها) ستة ( إسلام المیت وطهارته)".

وفي ردالمحتار: (قوله: وشرطها) أي شرط صحتها''…الخ ( الدرالمختار مع ردالمحتار:٦٤٠/١)
''ومنها: أن استحلال المعصیة صغیرةً کانت أوکبیرةً کفر''…الخ (شرح فقه الأکبر : ١٥٢

معتزلہ کے عقائد

 دوسری صدی ہجری کے اوائل میں یہ فرقہ وجود میں آیا اور اس کا سب سے پہلا پیروکار عمرو بن عبید تھا جو حسن بصری کا شاگرد تھا، ان لوگوں کو اہل السنۃ و الجماعۃ کے عقائد سے الگ ہوجانے کی بنا پر معتزلہ کہا جاتا ہے۔ معتزلہ کے مذہب کی بنیاد عقل پر ہے کہ ان لوگوں نے عقل کو نقل پر ترجیح دی ہے، عقل کے خلاف قطعیات میں تاویلات کرتے ہیں اور ظنیات کا انکار کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے افعال کو بندوں کے افعال پر قیاس کرتے ہیں، بندوں کے افعال کے اچھے اور برے ہونے کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ کے افعال پر اچھے اور برے کا حکم لگاتے ہیں، خلق اور کسب میں کوئی فرق نہیں کرپاتے،

پانچ اصولترمیم

ان کے مذہب کے پانچ اصول ہیں:

  • توحید
  • عدل
  • نفاذِ وعید
  • منزلۃ بین منزلتین۔
  • امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔
  • (1) عقیدۂ عدل کے اندر درحقیقت انکارِ عقیدۂ تقدیر مضمر ہے، ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ شر کا خالق نہیں، اگر اللہ تعالیٰ کو خالقِ شر مانیں تو شریر لوگوں کو عذاب دینا ظلم ہوگا جو خلافِ عدل ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ عادل ہے ظالم نہیں۔
  • (2) ان کی توحید کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اور قرآن مجید مخلوق ہیں، اگر انہیں غیر مخلوق مانیں تو تعدد قدماء لازم آتا ہے جو توحید کے خلاف ہے۔
  • (3) نفاذِوعید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو جو عذاب بتلائے ہیں اور جو جو وعیدیں سنائی ہیں، گنہگاروں پر ان کو جاری کرنا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو معاف نہیں کر سکتا اور نہ کسی گنہگار کی توبہ قبول کر سکتا ہے، اس پر لازم ہے کہ گنہگار کو سزا دے، جیسا کہ اس پر لازم ہے کہ نیکو کار کو اجر و ثواب دے، ورنہ نفاذِ وعید نہیں ہوگا۔
  • (4) منزلۃ بین منزلتین کا مطلب یہ ہے کہ معتزلہ ایمان اور کفر کے درمیان ایک تیسرا درجہ مانتے ہیں اور وہ مرتکبِ کبیرہ کا درجہ ہے، ان کے نزدیک مرتکبِ کبیرہ یعنی گنہگار شخص ایمان سے نکل جاتا ہے اور کفر میں داخل نہیں ہوتا، گویا نہ وہ مسلمان ہے اور نہ کافر۔
  • (5) امر بالمعروف کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ جن احکامات کے ہم مکلّف ہیں دوسروں کو ان کا حکم کریں اور لازمی طور پر ان کی پابندی کروائیں اور نہی عند المنکر یہ ہے کہ اگر امام ظلم کرے تو اس کی بغاوت کرکے اس کے ساتھ قتال کیا جائے۔

جبریہ کے عقائد

وہ فرقہ جو انسان کو مجبور محض مانتا ہے۔ اور کہتا ہے۔ کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ تقدیر الہٰی کے تحت ہوتا ہے۔ انسان خود کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اس فرقے کی بنیاد جہم بن صفوان نے رکھی۔ بخاریہ، قلابیہ اور بکریہ بھی جبریہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں قدریہ یعنی معتزلہ انسان کو مختار مطلق مانتے ہیں۔ وہ جو چاہے کرے اسے پورا اختیار ہے۔ اشعری کہتے ہیں کہ انسان کچھ مختار ہے اور کچھ مجبور۔ معتزلہ اشاعرہ کو بھی جبریہ کہتے ہیں۔

فلاسفہ مغرب کا ایک گروہ بھی جبر کا قائل ہے۔ یونانی مفکر دیمقراطیس کا خیال تھا کہ کائنات کی ہر شے قانون قدرت کے ماتحت ہے اور اس سے انحراف نہیں کرسکتی۔ برطانوی فلسفی ہابس کا نظریہ تھا کہ کائنات اور انسان کی ہر حرکت قانون اسباب کے تحت ہے۔ نفسیات کے علما کا خیال ہے کہ انسان اپنی مرضی کا مختار نہیں ہے۔ بلکہ ذہنی اور جسمانی حالات اس کے ارادے اور عمل کو جس رخ کو چاہتے ہیں موڑ دیتے ہیں۔

قدریہ کے عقائد

قدریہ فرقے کے لوگ خدا کی حکمت سے منکر ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ کام کرنے نہ کرنے، کھانا کھانے یا نہ کھانے اور خیر و شر میں خدا کا ارادہ شامل نہیں ہوتا بلکہ انسان خود مختار ہے جو چاہے کرے اور جو چاہے نہ کرے۔[1]

وجہ تسمیہترمیم

فرقہ قدریہ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں محققین مختلف الرائے ہیں لیکن انہیں قدریہ کہنے کی صحیح وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ خدا سے تقدیر کی نفی کرکے اسے بندے کے لیے ثابت کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہر چیز انسان کے ارادہ و قدرت کے تابع ہے، گویا انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔

بانی عقیدہ قدریہترمیم

عقیدہ انکار تقدیر کے سرخیل، معبد جہنی اور غیلان دمشقی نامی دو اشخاص تھے۔ اول الذکر نے عراق اور ثانی الذکر نے دمشق کو اپنی دعوت و تبلیغ کا مرکز بنایا۔ عبد الرحمن بن اشعث کی بغاوت جب ناکام ہو گئی (اس بغاوت مین معبد برابر کا شریک تھا) تو حجاج نے معبد کو قتل کر دیا۔ غیلان عرصہ دراز تک شام میں اپنے عقائد کی اشاعت میں سرگرم رہا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز اور اس کے درمیان متعدد تحریری مناظرے بھی ہوئے جس سے متاثر ہو کر غیلان نے اپنے عقائد کی تبلیغ بند کردی۔ مگر خلیفہ مذکور کے انتقال کے بعد وہ پھر قدری عقائد کی دعوت دینے لگا۔ یہاں تک خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے اس کے فتنہ کو روکنے کے لیے فقیہ شام امام اوزاعی سے اس کا مناظرہ کرایا تاکہ اس کے قتل کیے جانے کی دلیل ہاتھ آسکے۔ مناقب الاوزاعی میں اس مناظرہ کی پوری تفصیلات نقل کرنے کے بعد مذکور ہے کہ امام موصوف نے اس مناظرہ میں غیلان کو دلائل قاطعہ سے خاموش کر دیا۔ بعض محققوں نے لکھا ہے کہ غیلان نے امام اوزاعی کا ترکی بہ ترکی مدلل و مسکت جواب دیا اور مناظرہ بالکل برابر اور ہم پلہ تھا مگر اس کا مقصد تو صرف بہانہ قتل کی تلاش تھی اس لیے ہشام نے اسے قتل کرادیا۔

قدریہ کی تاریخترمیم

قدری مذہب غیلان کے خاتمہ کے بعد بھی بصرہ میں صدیوں پھلتا پھولتا رہا۔ بعض علما کا خیال ہے کہ قدری مذہب نے بعد میں ثنویہ عقائد کا لبادہ اوڑھ لیا۔ ثنویہ کا عقیدہ ہے کہ دنیا پر دو قوتیں حاکم ہیں۔ ایک نور دوسری ظلمت۔ نور خیر کا مصدر و ماخذ ہے اور ظلمت شر کو جنم دیتی ہے۔ ثنویہ نیک اعمال کو خدا کی طرف منسوب کرتے تھے اور افعال قبیحہ کو اپنی طرف۔ اسلام چونکہ توحید کا علمبردار ہے اس لیے اس کے نزدیک ثنویت یعنی دو خدا ماننے کا مطلب خدا کے تصور کی نفی ہے۔ اسلام میں کوئی باقاعدہ ثنوی فرقہ نہیں ہے۔ یہ اصطلاح ایک خاص مکتب خیال کے لیے مستعمل ہے جو تین غیر مسلم افراد بن

 دیصان، مانی، فردک اور ان کے پیروؤں تک محدود ہے۔[2]

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ کا قول ہے:

اللہ تعالی کا فرمان ہے "جسے اللہ تعالی ہدایت نصیب فرمائے وہ راہ راست پر ہے اور جسے گمراہ کر دے تو یہ نا ممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارساز اور راہنما پاسکیں" الکہف/ 17

اللہ جل وعلا نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ ہدایت دینا اور گمراہ کرنا صرف اللہ وحدہ کے ہاتھ میں ہے تو جسے وہ ہدایت نصیب فرمادے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے۔

اور اسی معنی کی وضاحت بہت سی دوسری آیات میں کی گئی ہے ۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔

"اور جسے اللہ تعالی ہدایت نصیب کرے تو وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے وہ راہ سے بھٹکا دے ناممکن ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو اس کا مدد گار پائیں ایسے لوگوں کا ہم قیامت کے دن اوندھے منہ حشر کریں گے اور ان کا یہ حال ہوگا کہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہوں گے" الاسراء/ 97

اور فرمان باری تعالی ہے۔

"جسے اللہ ہدایت دیتا ہے تو وہی ہدایت والا ہے اور جس کو وہ گمراہ کر دے تو ایسے ہی لوگ خسارے میں پڑنے والے ہیں" الاعراف 178

اور اللہ تعالی کا یہ ارشاد:

"جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہے ہدایت دیتا ہے" القصص 56

اور اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے۔

"اور جس کو فتنہ میں ڈالنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لیے ہدایت الہی میں سے کسی چیز کے مختار نہیں" المائدہ 41

اور فرمان ربانی ہے:

"گو آپ انکی ہدایت کے خواہش مند رہے ہیں لیکن اللہ تعالی اسے ہدایت نہیں دیتا جسے گمراہ کر دے اور نہ ہی انکا کوئی مددگار ہوتا ہے" النحل 37

اور فرمان باری تعالی ہے:

"تو جس شخص کو اللہ تعالی ہدایت دینا چاہے تو اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشادہ کردیتا ہے اور جس کو گمراہ کرنا چاہے اس کے سینہ کو بہت تنگ کردیتا ہے جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہے" الانعام 125

اور اس طرح کی آیات بہت ہی زیادہ ہیں۔

تو ان اور قرآن کی اس طرح کی دوسری آیات سے قدریہ کے مذہب کا باطل ہونا اخذ کیا جاسکتا ہے کہ: انسان اپنے عمل بھلائی اور برائی کرنے میں مستقل ہے اور یہ کہ یہ مشیت الہی نہیں بلکہ بندے کی اپنی چاہت ہے تو اللہ اس سے پاک اور بلند بالا ہے کہ اس کی ملک میں اس کی مشیت کے بغیر واقع کوئی ہو جائے اور اللہ تعالی اس سے بلند اور بڑا ہے۔