https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 29 February 2024

تدوین قرآن مجید


 

          ”قرآن مجید“ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے، جو آخری نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے، قیامت تک کوئی اور کتاب نازل نہ ہوگی، یہ زندگی کا وہی دستورِ کہن ہے جو ہمارے آبائے اولین کو ملا تھا، اس میں اصولاً اسی کا اعادہ اور عہد کی تجدید ہے، یہ خدائی عطیہ، ہمارا مشترکہ روحانی ترکہ ہے، جو منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے، اسے دوسری آسمانی کتابوں کا آخری اور دائمی ایڈیشن بھی کہا جا سکتا ہے۔ ابتدائے نزول سے آج تک بلا کسی ادنیٰ تغیر و تبدل کے باقی ہے، اس میں سرِ مو کوئی فرق نہیں آیا، ایک لمحہ کے لیے نہ تو قرآن مسلمانوں سے جدا ہوا اور نہ مسلمان قرآن سے جدا ہوئے، اس میں باطل کے در آنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے: ”لاَ یَأتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنَ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہ “(حم سجدہ)

          (ترجمہ:) قرآن مجید میں باطل نہ تو سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے سے۔

          آسمانی کتابوں میں قرآن مجید ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ قیامت تک اپنی اصل حالت پر رہے گا، خود اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے، ایک جگہ بڑے ذور دار انداز میں ارشاد فرمایا: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ (حجر ۹)

          (ترجمہ:) ہم نے ہی ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔

          صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ معانی و مطالب کی تشریح و توضیح کی ذمہ داری بھی خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے، ایک جگہ ارشاد ہے: ”ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ“ (ترجمہ) پھر ہم پر ہی اس کا بیان (بھی) ہے۔

          قرآن مجید کا نزول ضرورت و حاجت کے مطابق تھوڑا تھوڑا ہوتا رہا، کبھی ایک آیت کبھی چند آیتیں نازل ہوتی رہیں، نزول کی ترتیب موجودہ ترتیب سے بالکل الگ تھی، یہ سلسلہ پورے عہد نبوی کو محیط رہا؛ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک جاری رہا؛ اس لیے آپ ﷺ کے سامنے آج کی طرح کتابی شکل میں منصہ شہود پر آنا مشکل؛ بلکہ ناممکن تھا، ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ ہر آیت کے نازل ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا لیتے تھے اور زمانہ کے لحاظ سے نہایت ہی پائدار چیز پر لکھواتے تھے؛ چنانچہ پورا قرآن مجید بلا کسی کم و کاست کے لکھا ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہٴ مبارکہ میں موجود تھا، اس میں نہ تو کوئی آیت لکھنے سے رہ گئی تھی اور نہ ہی کسی کی ترتیب میں کوئی کمی تھی؛ البتہ سب سورتیں الگ الگ تھیں، اور متعدد چیزوں پر لکھی ہوئی تھیں، کتابی شکل میں جلد سازی اور شیرازہ بندی نہیں ہوئی تھی:

          قد کان القرآنُ کُلُّہ مکتوباً فی عَھْدِہ صلی اللہ علیہ وسلم لکن غیرَ مجموعٍ في مَوضِعٍ واحدٍ۔ (الکتابي ج ۲ص ۳۸۴ بحوالہ تدوینِ قرآن ص ۴۳)

          (ترجمہ:) پورا قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا ہوا تھا؛ لیکن ایک جگہ جمع نہیں تھا۔

          حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کتابی شکل میں جمع کرایا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کی محقق نقلیں تیار کرکے ہر طرف پھیلایا؛ بلکہ پوری امت کو اس پر جمع کیا۔ آج تک قرآن مجید اسی کے مطابق موجود ہے۔

حفاظتِ قرآن مجید کے طریقے

          ابتدائے نزول سے قرآن مجید کی حفاظت جس طر ”لکھ کر“ ہوئی ہے، اس سے کہیں زیادہ ”حفظ“ کے ذریعہ ہوئی ہے، سینہ بہ سینہ حفظ کی خصوصیت صرف اسی آخری کتابِ الٰہی کو نصیب ہوئی، تو رات، انجیل اور دوسری آسمانی کتابوں اور صحیفوں کی حفاظت صرف سفینہ میں ہوئی، اس لیے وہ تغیر و تبدل اور دوسرے حوادث کا شکار ہو گئیں، قرآن مجید کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے، ارشاد فرمایا:

          و مُنَزِّلٌ علیکَ کتاباً لا یغسِلْہ الماء۔ (صحیح مسلم)

          (ترجمہ:) میں آپ پر ایسی کتاب نازل کرنے والا ہوں جس کو پانی نہیں دھو سکے گا۔

          غرض یہ کہ قرآن کی حفاظت شروع شروع میں سب سے زیادہ حافظہ کے ذریعہ ہوئی اور حفاظت کا سب سے اہم ذریعہ یہی ہے، اسی وجہ سے آج تک یہ کتاب مقدس اپنی اصل حالت پر باقی ہے، صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے خداداد بے نظیرحافظے کو جاہلیت کے اشعار، انسابِ عرب حتی کے اونٹوں اور گھوڑوں کی نسلوں کے حفظ سے ہٹا کر، آیاتِ الٰہی کے حفظ پر لگادیا، عرب کے ضرب المثل حافظے نے چند ہی دنوں میں ہزاروں حفّاظِ آیاتِ الٰہی کو معرضِ شہود میں لا کھڑا کر دیا، حفّاظ کی کثرت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ: صرف ”جنگ ِیمامہ“ میں شہید ہونے والے حافظوں کی تعداد سات سو تھی، بخاری شریف کے حاشیہ میں ہے: وکان عِدَّةٌ مِن القُرّاء سَبْعَ مائة (۲/۷۴۵)۔

          سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل علیہ السلام جب قرآن مجید پڑھ کر سناتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی دہرانے لگے تھے؛ تاکہ خوب پختہ ہو جائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لا تُحَرِّک بہ لِسانَک لِتَعْجَلَ بہ، انّ علینا جَمْعَہ وقُرآنَہ۔ (قیامہ۱۷)  (ترجمہ:) آپ قرآن مجید کو جلدی جلدی یاد کرلینے کی غرض سے، اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے، (اس لیے کہ) قرآن مجید کو جمع کرنے اور اس کو پڑھوانے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے۔

کتابت کا اہتمام

          زبانی یاد کرنے اور کرانے کے ساتھ ہی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیات کی حفاظت کے لیے کتابت (لکھانے) کا بھی خوب اہتمام فرمایا، نزول کے ساتھ ہی بلا تاخیر آیات قلم بند کرا دیتے تھے:

          فکان اذا نَزَلَ علیہ الشئیُ دَعَا بَعْضَ مَنْ کان یَکْتُبُ فیقولُ: ضعوا ھٰذا في السُّورة التي یذکر فیھا کذا و کذا۔ (مختصر کنزص ۴۸ بحوالہ تدوین قرآن ص۲۷)۔

          (ترجمہ:) چنانچہ رسول اللہ ﷺ پر جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی، تو (بلاتاخیر) جو لکھنا جانتے تھے، ان میں سے کسی کو بلاتے اور ارشاد فرماتے کہ: اس آیت کو اس سورت میں لکھو جس میں فلاں فلاں آیتیں ہیں۔

          اور مجمع الزوائد میں یہاں تک ہے: کان جبریلُ علیہ السلام یُملي علی النبيّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (۷/۱۵۷) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جبریل قرآن مجید لکھواتے تھے۔

          مسند احمد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشاد فرمایا: آتاني جبریلُ فأمَرَني۔(کنز العمال ۲/۴۰) یعنی حضرت جبریل علیہ السلام نے آکر مجھے (فلاں آیت کو فلاں جگہ رکھنے کا) حکم دیا۔

          غرض یہ کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم آیات لکھانے کا بھی خوب اہتمام فرماتے تھے، اور لکھانے کے بعد سن بھی لیتے تھے، اگر کوئی فرو گذاشت ہوتی تو اس کی اصلاح فرما دیتے تھے: فإن کان فیہ سَقَطٌ أقَامہ۔(مجمع الزوائد ۱/۶۰) پھر یہ لکھی ہوئی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے۔

          صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر لکھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سناتے تھے، اس طرح بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھائی ہوئی آیات موجود تھیں، بعض کے پاس پورا پورا قرآن مجید لکھا ہوا تھا۔

سامانِ کتابت

          نزولِ قرآن مجید کے زمانہ میں ایجادات و مصنوعات کی کمی ضرور تھی، جس طرح آج کاغذ، قلم اور دوات کی بے شمار قسمیں دریافت ہیں، اس زمانہ میں اتنی ہرگز نہ تھیں؛ لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس وقت کاغذ اور کتابیں دریافت نہ تھیں، یمن، روم اور فارس میں کتب خانے بھی تھے، یہود و نصاریٰ کے پاس کتابوں کا ذخیرہ موجود تھا، اس زمانے میں ”کاغذ“ وغیرہ کی صنعتیں بھی تھیں؛ لیکن بڑے پیمانے پر نہ ہونے کی وجہ سے کاغذ وغیرہ ہر جگہ دریافت نہ تھے؛ اس لیے لکھنے کے لیے جو چیز بھی قابل اور پائدار سمجھ میں آتی اس پر لکھ لیا جاتا تھا۔ (التبیان فی علوم القرآن ص۴۹)

          قرآن مجید کی کتابت کے لیے بھی اس وقت کی ایسی پائدار چیزیں استعمال کی گئیں، جن میں حوادث وآفات کے مقابلے کی صلاحیت نسبتاً زیادہ تھی؛ تاکہ مدتِ دراز تک محفوظ رکھا جا سکے۔ (تدوین قرآن ص ۳۱)حافظ ابن حجر کی تحقیق کے مطابق کتابتِ قرآن میں درج ذیل چیزیں استعمال کی گئیں:

          (الف) زیادہ تر پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں (لِخاف) کو استعمال کیا گیا، اِسے ہم سلیٹ کہہ سکتے ہیں۔

          (ب) اونٹوں کے مونڈھوں کی چوڑی گول ہڈیوں (کَتِف) پر بھی لکھا گیا، مونڈھوں کی ہڈیوں کو نہایت اچھی طرح گول تراش کر تیار کیا جاتا تھا۔

          (ج) چمڑوں کے کافی باریک پارچوں (رِقاع) پر بھی قرآن مجید لکھا جاتا تھا، یہ ٹکڑے نہایت باریک ہوتے تھے، اور لکھنے کے لیے ہی تیار کیے جاتے تھے، گوشت خور ملک میں اس کی بڑی افراط تھی۔

          (د) بانس کے ٹکڑوں پر بھی آیات لکھی جاتی تھیں۔

          (ھ) درخت کے چوڑے اور صاف پتے بھی کتابت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔

          (و) کھجور کی شاخوں کی چوڑی جڑوں (عسیب) اور کھجور کے جڑے ہوے پتوں کو کھول کر ان کی اندرون جانب بھی آیات کی کتابت ہوتی تھی۔

          (ز) محدثین نے کاغذ پر بھی کتابتِ قرآن کا ذکر کیا ہے۔ (فتح الباری ۹/۱۷)

سورتوں اور آیتوں کی ترتیب

          پوری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن مجید میں سورتوں اور آیتوں کی ترتیب توقیفی ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پورا قرآن مجیدمرتب طور پر لکھوایا، آج بھی اسی ترتیب سے قرآن مجید لکھا اور پڑھا جارہا ہے، اور قیامت تک اسی طرح رہے گا۔

          پورا قرآن مجید بائیس سال، پانچ ماہ، چودہ دن میں نازل ہوا (مناہل العرفان ص۴۳)، حسبِ ضرورت کبھی ایک آیت، کبھی چند آیتیں اور کبھی پوری سورہ کی شکل میں آیات نازل ہوتی رہیں، اور ساتھ ہی یہ بھی حکم ہوتا کہ اس کو فلاں سور ہ کے فلاں مقام پر رکھ دیجیے؛ چنانچہ کاتبینِ وحی کو بلا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ضَعواھا في مَوضع کذا (التبیان في علوم القرآن ص۴۹، فتح الباری ۹/۲۷) (ترجمہ:) اس کو فلاں مقام پر لکھو!

عہدِ نبوی میں قرآن مجید کے نسخے

          جیسا کہ اوپر گذرا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ وحی کے ساتھ ہی آیات لکھوا لیا کرتے تھے، اور لکھانے کے ساتھ سن بھی لیتے تھے، پھر اسے اپنے پاس محفوظ فرما لیتے تھے، اسی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پورا قرآن مجید لکھی ہوئی شکل میں بھی موجود تھا؛ لیکن ایک جلد میں مجلد نہ تھا، مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا۔

          صحابہٴ کرام میں جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ،وہ خدمت ِنبوی میں پہنچ کر آیات لکھ لیتے تھے، جب کسی سورت میں آیت کا اضافہ ہوتا تو معلوم کرکے مرتب فرما لیتے تھے، اس طرح بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدقہ نسخہٴ قرآن موجود تھا، بعض کے پاس پورا قرآن بھی تھا اور بعض کے پاس چند سورتیں اور چند آیتیں تھیں، لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل ابتداء سے کثرت سے جاری تھی، اس کی شہادت درج ذیل روایتوں سے ملتی ہے:

          (۱) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے والی روایت میں ہے کہ: ان کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہما ان سے پہلے ہی مسلمان ہو چکے تھے، وہ حضرت خباب بن الارث سے قرآن پڑھ رہے تھے، جب حضرت عمر نہایت غضب ناک حالت میں ان کے پاس پہنچے تو ان کے سامنے ایک صحیفہ تھا جس کو انہوں نے چھپا دیا تھا، اس میں سورہ طہ کی آیات لکھی ہوئی تھیں۔ (سنن دار قطنی ۱/ ۱۲۳ باب نہی المحدث عن مس القرآن، دار نشر لاہور)

          (۲) امام بخاری علیہ الرحمہ نے ”کتاب الجہاد“ میں ا یک روایت نقل کی ہے، جس میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصاحف (لکھا ہوا قرآن مجید) لے کر دشمنوں کی زمین میں جانے سے منع فرما دیا تھا۔ (صحیح بخاری ۱/۴۱۹)

          (۳)حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے مشورہ سے جب قرآن مجید کے اجماعی نسخہ کی کتابت کا وقت آیا تو اس وقت حضرت زید بن ثابت کو پابند کیا گیا تھا کہ: جو کوئی بھی لکھی ہوئی آیت لے کر آئے ،اس سے دو گواہوں کی گواہی اس بات پر لیجیے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی ہے ؛چناں چہ اس پر عمل ہوا (الاتقان ۱/۷۷)

          مذکورہ بالا تینوں روایتوں اور ان کے علاوہ بہت سی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ نبوی میں بہت سے صحابہٴ کرام کے پاس آیات لکھی ہوئی تھیں؛ بلکہ بعض کے پاس پورا قرآن مجید بھی لکھی ہوئی شکل میں موجود تھا۔

عہد صدیقی میں تدوینِ قرآن مجید

          ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: أعظمُ النّاسِ في المصاحب أجراً أبوبکرٍ، رحمہُ اللہ علی أبي بکر، ھو أوّلُ مَنْ جَمَعَ کتابَ اللہ۔ (الاتقان في علوم القرآن ۱/۷۶)

          (ترجمہ:) قرآن مجید کی خدمت کے سلسلے میں سب سے زیادہ اجر و ثواب کے مستحق ابوبکرصدیق ہیں، اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائیں کہ وہ اولین شخصیت ہیں، جنہوں نے، جمعِ قرآن کا (مایہ ناز) کارنامہ انجام دیا۔

          سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل قرآن مجید مختلف چیزوں پر لکھا ہوا تھا، سارے اجزا الگ الگ تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی تمام سورتوں کوا یک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر ایک ہی جلد میں مجلد کروانے کا کام حکومتی اور اجماعی طور پر انجام دیا؛ چنانچہ ایسا نسخہ مرتب ہو گیا جس کو سارے صحابہٴ کرام کی اجماعی تصدیق حاصل ہوئی۔

          حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی خدمت کو حکومت کی طرف سے انجام دینے کا مطالبہ کر رہے تھے، وہ چاہتے تھے کہ خلافت و حکومت اس مہم کو اپنے ہاتھ میں لے اور اپنی نگرانی میں اس کو مکمل کرائے؛ تاکہ قرآن مجید ضائع ہونے سے بچ جائے اور بعد میں کتاب اللہ میں اختلاف پیدا نہ ہو۔

          حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت امام بخاری علیہ الرحمہ نے نقل فرمائی ہے، فرماتے ہیں کہ:

          ”جنگ یمامہ“ کے فوراً بعد صدیق اکبر نے میرے پاس بلاوا بھیجا، میں ان کے پاس پہنچا تو وہاں حضرت عمر فاروق بھی موجود تھے، حضرت ابوبکر مجھ سے مخاطب ہوئے کہ: عمر نے ابھی آکر مجھ سے کہا کہ: جنگ ِیمامہ میں حفاظِ کرام کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی ہے، اگر آئندہ لڑائیوں میں بھی اسی طرح حفاظ شہید ہوتے رہے تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں قرآن کریم کا بڑا حصہ ناپید نہ ہو جائے!

          لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید جمع کرنے کا حکم دے دیں، میں نے کہا کہ: جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے، وہ ہم کیسے کریں؟ عمر نے جواب دیا کہ: بہ خدا! یہ کام بہتر ہے، اس کے بعد عمر بار بار مجھ سے یہ کہتے رہے ؛یہاں تک کہ مجھے بھی اس پر شرحِ صدر ہو گیا، اور اب میری رائے بھی وہی ہے جو عمر کی ہے!

          اِنَّکَ رجلٌ شابٌّ عاقلٌ، لا نَتَّھِمُکَ، وقد کُنْتَ کتبتَ الوحيَ لرسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فَتَتَبَّعِ القرآنَ فاجمعْہُ۔(ترجمہ:) واقعہ یہ ہے کہ تم نوجوان، سمجھ دار آدمی ہو، ہمیں تمہارے بارے میں کوئی بدگمانی نہیں ہے، اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کتابتِ وحی کی خدمت بھی کر چکے ہو؛ اس لیے تم قرآن کریم کو تلاش کرکے جمع کرو!

          حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: خدا کی قسم! اگر یہ حضرات مجھے پہاڑ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو مجھے اتنا مشکل نہ ہوتا، جتنا جمعِ قرآن کا بار ہوا، میں نے کہا بھی کہ: آپ حضرات ایسا کام کیوں کر رہے ہیں ،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا؟ اس پر حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ: خدا کی قسم یہ کام بہتر ہے، اور حضرت ابوبکر بار بار یہی دہراتے رہے؛ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا، جس کام کے لیے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو شرحِ صدر عطا فرمایا تھا؛چنانچہ میں نے کھجور کی شاخوں، پتھر کی باریک تختیوں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن مجید تلاش کرکے جمع کرنا شروع کر دیا؛ یہاں تک کہ توبہ کی آیت ؛لقد جاء کم رسولٌ مِنْ انفسِکم اخیر سورہ تک“ میں نے صرف حضرت ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پائی، ان کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں پایا، ان کی تنہا شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمی کی شہادت کے قائم مقام قرار دیاتھا (صحیح بخاری ۲/ ۷۴۵، ۷۴۶)

جمعِ قرآن میں حضرت زید بن ثابت کا طریقہٴ کار

          حضرت ابوبکر و عمر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سب حافظِ قرآن تھے ،ان کے علاوہ بھی صحابہٴ کرام میں حفاظ کی کمی نہیں تھی، اگر حضرت زید چاہتے تو اپنے حافظہ سے پورا قرآن مجید لکھ دیتے، یا حافظ صحابہٴ کرام کو اکٹھا کرکے محض ان کے حافظے کی مدد سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا، اسی طرح محض رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کی لکھی ہوئی آیتوں سے بھی قرآن مجید لکھا جا سکتا تھا؛ لیکن حضرت ابوبکر نے بیک وقت سارے وسائل کو برروئے کار لانے کا حکم فرمایا، خود بھی شریک رہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت زید کے ساتھ لگایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان فرمایا کہ:

          جن لوگوں نے جو کچھ بھی آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھی ہو، وہ سب لے کر آئیں! (فتح الباری۹/۱۷) چنانچہ جب کوئی لکھی ہوئی آیت آتی تو بلا چوں و چرا قبول نہ کی جاتی تھی؛ بلکہ اس پر دو گواہی طلب کی جاتی تھی:

          وکان لا یَقْبَلُ مِنْ أحدٍ شیئاً حتی یَشْھَدَ شَاھِدَان۔ (الاتقان ۱/۷۷)

          (ترجمہ:) اور کسی سے بھی کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی تھی جب تک کہ اس پر دو گواہ گواہی نہ دے دیتے (کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھی گئی، یعنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کی تصدیق ہو چکی ہے کہ یہ واقعتا آیتِ الٰہی ہے)۔

          جمع قرآن میں درج ذیل باتیں بھی پیشِ نظر رکھی گئیں:

          ۱۔  سب سے پہلے حضرت زید اپنی یاد داشت سے اس کی تصدیق فرماتے تھے۔

          ۲۔  حضرت ابوبکر نے حضرت زید اور حضرت عمر دونوں حضرات کو حکم دیا تھا کہ: ”آپ دونوں حضرات مسجدِ نبوی کے دروازے پر بیٹھ جاےئے، پھر جو کوئی آپ دونوں کے پاس کتاب اللہ کی کوئی آیت دو گواہوں کے ساتھ لے کر آئے ،اس کو آپ دونوں لکھ لیجیے! (فتح الباری ۹/۱۷، الاتقان ۱/۷۷)

          رسول اللہ ﷺ کے سامنے کتابت ہونے پر گواہیاں لی جانے کی کیا وجہ تھی؟ اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں لکھتے ہیں:) کانَ غزضُھم أن لا یُکْتَبَ الاّ منْ عَیْنِ ما کُتِبَ بین یَدَي النبي صلی اللہ علیہ وسلم لا مِنْ مْجَرَّدِ الحِفظ ۔ ( فتح الباری ۹/۱۷، الاتقان ۱/۷۷)

           (ترجمہ:) ان کا مقصد یہ تھا کہ: صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عین سامنے لکھی گئی آیتوں کو ہی لکھا جائے، محض حافظہ سے نہ لکھا جائے۔

          حافظ ابن حجر نے ہی ایک دوسری وجہ بھی لکھی ہے کہ: گواہیاں اس بات پر بھی لی جاتی تھیں کہ: دو گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ لکھی ہوئی آیت ان وجوہ (سبعہ) کے مطابق ہے جن پر قرآن مجید نازل ہوا ہے (فتح الباری ۹/ ۱۷، الاتقان۱/۷۷)

          ۳۔  لکھنے کے بعد صحابہٴ کرام کے پاس موجود لکھے ہوئے مجموعوں سے ملایا جاتا؛ تاکہ یہ مجموعہ متفقہ طور پر قابلِ اعتماد ہو جائے، (البرہان في علوم القرآن للزرکشی ۱/۲۳۸)

          جب اجتماعی تصدیق کے ساتھ ”قرآن مجید“ کی جمع و تدوین کا کام مکمل ہو گیا، تو صحابہٴ کرام نے آپس میں مشورہ کیا کہ: اس کو کیا نام دیا جائے؟ چنانچہ بعض صحابہٴ کرام نے اس کا نام ”سِفْر“ رکھا؛لیکن یہ نام یہودیوں کی مشابہت کی وجہ سے پاس نہیں ہوا، اخیر میں ”مصحف“ نام پر سارے صحابہٴ کرام کا اتفاق ہو گیا۔ (الاتقان ۱/۷۷)

          قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر کے پاس ان کی وفات تک رہا، پھر حضرت عمر کے پاس رہا، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر کے پاس محفوظ رکھاگیا، جیسا کہ بخاری شریف کے حوالے سے گذر چکا ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس سے ہی منگوا کر نقول تیار کرائے تھے۔

نسخہٴ صدیق کی خصوصیت

          دوسرے صحابہٴ کرام کے پاس بھی قرآن مجید لکھا ہوا تھا؛ لیکن جن خصوصیات کا حامل حضرت ابوبکر صدیق والا اجماعی نسخہ تھا، ان سے دوسرے سارے نسخے خالی تھے، اسی وجہ سے صحابہٴ کرام کے درمیان اُسے ”اُم“ کہا جاتا تھا،اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں:

          ۱ ہر سورت کو الگ الگ لکھا گیا تھا؛ لیکن ترتیب بعینہ وہی تھی، جو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی تھی (فتح الباری ۹/۲۲)

          ۲ اس نسخہ میں ساتوں حروف جمع تھے، جن پر قرآن مجید کا نزول ہوا۔ (مناہل العرفان ۱/۲۴۶، ۲۴۷)

          ۳ یہ نسخہ خط ”حِیَرِی“ میں لکھا گیا تھا۔ (تاریخ القرآن از مولانا عبد الصمد صارم# ص ۴۳)

          ۴ اس میں صرف وہ آیات لکھی گئی تھیں، جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھی۔

          ۵ اس کو لکھوانے کا مقصد یہ تھا کہ ایک مرتب نسخہ تمام امت کی ”اجماعی تصدیق“ سے تیار ہو جائے؛ تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کی طرف رجوع کیا جا سکے (علوم القرآن از مفتی محمد تقی عثمانی ص۱۸۶)

          ۶ اس نسخہ میں قرآن مجید کی تمام سورتوں کو ایک ہی تقطیع اور سائز پر لکھوا کر، ایک ہی جلد میں مجلد کرایا گیا تھا، اور یہ کام حکومت کی طر ف سے انجام دیا گیا، جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہو پایا تھا، (تدوین قرآن ص۴۰)

          وکان القرآنُ فیھا مُنْتَشِراً فَجَمَعَھا جامعٌ و رَبَطَھَا بخیطٍ ۔ (الاتقان ۱/۸۳)

          (ترجمہ:) اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں قرآن مجید کی مکمل یاد داشتوں کا جو ذخیرہ تھا) اس میں (قرآنی سورتیں) الگ الگ لکھی ہوئی تھیں؛ پس اس کو (حضرت ابوبکر کے حکم سے) جمع کرنے والے (زید بن ثابت) نے ایک جگہ (ساری سورتوں کو) جمع کر دیا، اور ایک دھاگا سے سب کی شیرازہ بندی کر دی۔

          قرآن مجید کا یہ متفق علیہ نسخہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، جب ان وفات ہو گئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، جب ان کی بھی وفات ہو گئی تو (وصیت کے مطابق) آپ کی بیٹی ام الموٴمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رکھا رہا (صحیح بخاری ۲/۷۴۶)

عہدِ عثمانی میں امت کی شیرازہ بندی

           جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ جمعِ قرآن ہے، اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ پوری امت کو قرآن مجید کے اس متفق علیہ نسخہ پر جمع کرنا ہے جو ”عہدِ صدیقی“ میں تیار کیا گیا تھا، اس طرح امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھرنے سے انہوں نے بچا لیا، اس کی تفصیل یہ ہے کہ:

          بالکل ابتداء میں مضمون و معنی کی حفاظت کرتے ہوئے الفاظ میں ادنی تبدیلی کے ساتھ پڑھنے کی اجازت بھی دی گئی تھی، (مناہل العرفان) جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا، تو جن لوگوں نے مذکوہ بالا رعایتوں کی بنیاد پر اپنے اپنے قبائلی اور انفرادی لہجوں یا مختلف متواتر تلفظ کے لحاظ سے قرآن مجید کے مختلف نسخے لکھے تھے، انکے درمیان شدید اختلاف رونما ہو گیا؛ حتی کہ ایک دوسرے کی تکفیر کی جانے لگی، تو صحابہٴ کرام کے مشورے سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ متفق علیہ نسخہ پر امت کو جمع کیا، اور اس کے علاوہ سارے نسخوں کو طلب کرکے نذرِ آتش کر دیا؛ تاکہ ”نہ رہے بانس نہ بجے بانسری“؛ چنانچہ اختلاف جڑ سے ختم ہو گیا (تفصیل کے لے دیکھئے: تدوینِ قرآن ۴۴، ۵۴، تحفة الالمعی ۷/۹۴،۹۵، مناہل العرفان وغیرہ)

کام کی نوعیت

          حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تیار کردہ نسخہ یہ کہہ کر منگوایا کہ ہم اس سے نقل تیار کرکے اصل آپ کو واپس کر دیں گے، چناں چہ حضرت حفصہ نے وہ نسخہ بھیج دیا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تین قریشی اور چوتھے انصاری صحابی کو پانچ یا سات نسخے لکھنے کا حکم فرمایا، قریشی صحابی میں، حضرت عبداللہ بن زبیر، سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنہم تھے اور انصاری صحابی سے مراد حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں۔

          ان سب کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ آپ حضرات کا اگر کسی جگہ رسم الخط میں حضرت زید سے اختلاف ہو تو اس لفظ کو قریش کے رسم الخط کے مطابق لکھیں؛ اس لیے کہ قرآن مجید قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے (فتح الباری ۹/۲۲)۔

          معتبر روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ: پورے قرآن مجید کے کسی لفظ میں بھی ان لوگوں کااختلاف نہیں ہوا، ہاں! سورہٴ بقرہ میں ایک لفظ ”التابوت“ ہے، اس کے بارے میں حضرت زید کی رائے گول ”ة“ سے لکھنے کی تھی، اور حضرت سعید بن العاص، لمبی ”ت“ سے لکھنا چاہتے تھے، جب یہ بات حضرت عثمان غنی کے پاس پہنچی تو آپ نے لمبی ”ت“ سے لکھنے کا حکم فرمایا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: سیر أعلام النبلاء مع حاشیہ ۲/۴۴۱،۴۴۲)۔

          واضح رہے کہ مذکورہ بالا چار حضرات ”مجلس کتابت“ کے اساسی رکن تھے، ان کے علاوہ دوسرے حضرات کو بھی ان کے ساتھ کیا گیا تھا، فتح الباری میں ہے کہ حضرت عثمان نے قریش اور انصار کے بارہ افراد کو اس کے لیے جمع فرمایا تھا، ان میں مذکورہ چاروں حضرات کے علاوہ اُبی بن کعب، مالک بن ابی عامر، کثیر بن افلح، انس بن مالک اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ (فتح الباری ۹/۲۳)۔

عہد عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی خصوصیات

          ۱۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جو نسخہ تیار ہوا تھا، اس میں ساری سورتیں الگ الگ لکھی گئی تھیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام سورتوں کو اسی ترتیب سے یکے بعد دیگرے ایک ہی مصحف میں لکھوایا۔ (فتح الباری ۹/۲۲)۔

          ۲۔قرآن مجید ایسے رسم الخط میں لکھا گیا کہ ممکن حد تک متواتر قرأتیں سما جائیں۔ (مناہل العرفان ۱/۲۵۳)

          ۳۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جن حضرات کو نسخہٴ قرآن تیار کرنے کے لیے مامور فرمایا تھا، ان حضرات نے اسی نسخہ کو بنیاد بنایا تھا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تیار کیا گیا تھا، اسی کے ساتھ مزید احتیاط کے لیے وہی طریقہ اختیار فرمایا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اختیار کیا گیا تھا؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی متفرق تحریریں جو مختلف صحابہٴ کرام کے پاس محفوظ تھیں، انھیں دوبارہ طلب کیا گیا اور ان کے ساتھ از سرنو مقابلہ کر کے یہ نسخے تیار کیے گئے۔ (علوم القرآن ص۱۹۱)

عہدِ عثمانی میں تیار کردہ نسخوں کی تعداد

          اس سلسلے میں دو اقوال ہیں، ایک قول یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پانچ نسخے تیار کرائے تھے، یہی قول زیادہ مشہور ہے۔ (فتح الباری ۹/۲۴)اور دوسرا اقوال یہ ہے کہ حضرت عثمان نے سات نسخے تیار کرائے تھے، ایک نسخہ مدینہ منورہ میں رکھا گیا، اور بقیہ مکہ، شام، یمن، بحرین، بصرہ ور کوفہ میں ایک ایک کرکے بھیج دیا گیا، یہ قول ابن ابی داؤد سے ابو حاتم سجستانی نے نقل کیا ہے۔ (فتح الباری۹/۲۵)۔

امت میں پائے جانے والے دیگر مصاحف

          حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کے پاس موجود سارے نسخوں کو نذرِ آتش کرنے کا حکم نافذ فرما دیا (فتح الباری ۹/۱۳) تاکہ امتِ مسلمہ ایک رسم الخط پر متفق ہوجائے اور امت کی شیرازہ بندی باقی رہے۔

          اس وقت موجود بلا استثناء سارے صحابہٴ کرام نے حضرت عثمان کے اس کارنامے کی تائید و حمایت کی اور خوب خوب سراہا۔

عہد صدیقی والا نسخہ

           حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ام الموٴمنین حضرت حفصہ سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ والا نسخہ واپسی کے وعدے سے منگوایا تھا (فتح الباری ۹/۱۹) ؛اس لیے اس سے نقلیں تیار کرکے حسبِ وعدہ واپس فرما دیا۔ (فتح الباری۱۳۹)۔

 

--------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 ، جلد: 95 ‏، شعبان  1432 ہجری مطابق جولائى 2011ء

بیری کی شاخ قبر میں دبانا

 میت کو قبر میں اتارنے کے بعد میت پر کیوڑہ چھڑکنے کو علما نے بے اصل اور بدعت لکھا ہے ، اسی طرح پٹرا ڈالنے کے بعد مٹی ڈالنے سے پہلے بیری کی شاخ ڈالنے کی بھی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے ، یہ دونوں چیزیں واجب الترک ہیں، میت کے ساتھ قبر میں کوئی چیز ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

وذکرابن الحاج فی المدخل أنہ ینبغی أن یجتنب ما أحدثہ بعضہم من أنہم یأتون بماء الورد فیجعلونہ علی المیت فی قبرہ ؛ فإن ذلک لم یرو عن السلف رضی اللہ عنہم فہو بدعة ، قال:ویکفیہ من الطیب ما عمل لہ وہو فی البیت فنحن متبعون لامبتدعون فحیث وقف سلفنا وقفنا اھ.(حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الإیضاح ص: ۶۰۸) نیز دیکھیں: تالیفات رشیدیہ،مع فتاوی رشیدیہ،(ص:240،ط: لاہور)

Wednesday 28 February 2024

خالق کائنات کے وجود کے دلائل

  •  موضوع کا آغاز کرنے والا


الله کےوجود اور ثبوت پر چار چیزیں دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور ان چار دلیلوں کی روشنی میں ہی دنیا اور بزم کون و مکان کے خالق حقیقی کا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے
١: انسانی فطرت و وجدان
٢: انسانی عقل
٣: مختلف الہامی شریعتیں
٤ : انسانی حس
انسانی فطرت کے وجود خدا کی دلیل ہونے کا مطلب : ہر مخلوق اپنے خالق پر ایمان لانے کے لیے کسی سابقہ تعلیم و فکر کی محتاج نہیں ہوتی ہے بلکہ فطری و طبعی طور پر اپنے خالق پر ایمان رکھتی ہے . اس فطری جذبے سے صرف وہی انسانی طبیعت انحراف کرتی ہے جس کے دل پر کوئی گہرا غبار آ جائے .
انسانی عقل کا وجود خدا کی دلیل ہونے کی تشریح : مخلوق کوئی بھی ہو پہلی ہو یا آخری مخلوق ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے کسی نہ کسی ایسے خالق کا ہونا لازمى اور ضروری ہے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا ہو کیونکہ
(١)کوئی بھی شئےخود کو خودبخود ایجاد کر لے یہ ناممکن ہے .
(٢) کوئی شے خودبخود کسی بھی طرح پیدا ہو جائے یہ بھی ناممکن ہے .
کوئی شے خود کو خودبخود پیدا نہیں کر سکتی ہے خود کو اس لیے پیدا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اپنے وجود سے پہلے معدوم اور بے نام و نشان تھی پس وہ خالق کیسے ہو سکتی ہے -
اور کوئی شئے اتفاقاً خود کو پیدا یا ایجاد نہیں کر سکتی کیونکہ ہر" حادثے کے لیے ایک حادث "یعنی حادثے کو وجود میں لانے والا ہونا چاہے اور چونکہ اس کائنات کا اتنا شاندار اور متوازی و مثالی انتظام اور ایک دوسرے سے میل جول اس بات کو ناممکن قرار دیتا ہے کہ اس کائنات کا وجود کسی اتفاقی دھماکے کا تتیجہ ہو اور اس کے بعد کائنات منظم انداز میں چل پڑی ہو.
ایک لمحہ کی خاطر غور کیجیے جس چیز کا وجود ہی اتفاقی ہو اور اصل وجود میں اس کا کوئی نظام موجود نا ہو تو وہ چیز اپنی بقاء و ارتقاء تبدیلی و ثابت قدمی وترقی کے لئے کس طرح اس قدر ترتیب و تنظیم یافتہ ہو سکتی ہے
تو جب یہ ثابت ہو گیا کہ :
١ ) مخلوقات دو عالم نے خود کو خود سے ایجاد وپیدا نہیں کیا
٢ ) نہ ہی یہ مخلوقات کسی اتفاقی دھماکے کے بعد پیدا ہو ئی
تو وہیں خود بخود یہ بھی ثابت ہو گیا کہ .
اس کائنات کا کوئی بنانے والا خالق وجود ہے اور وہ الله رب العلمین ہے
نوٹ :الله نے اس عقلی دلیل کو بطور مثالی انسانوں کو سمجھانے کے لیے قطعی برہان کے طور پر پیش کیا ہے جیسا کے فرمایا :-" ام خلقوا من غیر شئی ام ھم الخالقون ( الطور 35)
ترجمہ :--- کیا وہ بغیر کسی چیز کے پیدا کیے گے یا وہ خود ہی خالق ہیں.
آیت کا مطلب : یعنی وہ لوگ نا تو بغیر خالق کے پیدا ہوئے نا ہی خود کو خود سے پیدا کیا ہے تو ثابت ہو گیا کے ان کا خالق الله ہے

عقلی مثال ..
اگر کوئی شخص آپ کو کسی شاندار محل کے متعلق بتایے جسے چاروں طرف سے باغات نے گھیر رکھا ہو اور اس کے درمیان سے نہریں بہہ رہی ہو اور وہ محل چارپائیوں اور گدوں سے بھرا پڑا ہو اور طرح طرح کی زینت کے سامان سے جگ مگ کر رہا ہو اور کہے کے یہ محل اور جو کچھ اس میں ہے وہ خودبخود بغیر کسی بنانے والے موجد کے بن ہو گیا یا خود کو خود سے پیدا کر لیا تو آپ کا ردعمل اس بات کو سن کر یہی ہو گا کہ آپ فورا اس کا انکار اور کہنے والے کو جھوٹا قرار دیں گے اس کی دماغی حالت کو شک بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کی بات کو بکواس و مجنوں کی جڑ قرار دیں گے .
تو انصاف کریں کہ کیا یہ وسیع کائنات اپنی زمین و آسمان -افلاک و احوال شاندار سسٹم کے ساتھ خود کو خود سے کس طرح پیدا کر سکتی ہے کیا یہ بات عقل میں آتی ہے اورکیا غور و فکر ساتھ دیتے ہیں ؟
کیا یہ کائنات کسی بھی زاویے سے بغیر کسی بنانے والے کے اتفاقی حادثے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے .

الله کے وجود کی تیسری دلیل تمام آسمانى شريعتوں كا اس عقيده كو ثابت كرنا :
ساری الہامی کتابیں الله کے وجود کی دلیلیں ہیں اور عدل و انصاف پر مبنی احکامات بتا تے ہیں کہ یہ کسی حکیم ذات کی طرف سے ہے اور جو الہامی کتابوں کے اندر کائنات کے معاملات کے متعلق خبریں دی گئی ہیں یہ دلیلیں ہیں اس بات کی کہ یہ ایک اسے رب کی طرف سے ہے جو ہر اس چیز کو ہو بہو ویسے ہی ایجاد کرنے پر قادر ہے جیسا اس نے اپنی کتاب کے اندر خبر دے رکھی ہے ..
الله کے وجود پر چوتھی دلیل انسانى احساسات وجذبات ہيں :
یہ دو شکل میں موجود ہے .
١) ہم سنتے اور دیکھتے ہیں کہ دعا کرنے والوں کی دعا اور پریشان حال لوگوں کی مرادیں پوری ہو جاتی ہے یہ چیز بتاتی ہے کہ کہی نہ کہی كسى ايسى قادر مطلق ہستی کا وجود ہے جو دعاؤں فریادوں کو سنتی ہے اور اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق قبول يا رد کرتی ہے اور ہر زمانے میں یہ بات طے شدہ رہی ہے اور آج بھی ٹھیک وہی ماحول ہے کہ :
ہر اس بندے کی دعا قبول ہوتی ہے صدق دل سے الله کی طرف متوجہ ہو اور دعا کی قبولیت کی شرائط پوری کرے .
٢) انبیاء کی وہ نشانیاں جنہیں معجزات سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا لوگ مشاہدہ کرتے ہیں یا جسے سنتے ہیں . یہ سب الله کے وجود کے مطلق قطعی دلیل کا درجہ رکھتے ہیں جس نے ان رسولوں کو رسول بنا کر بھیجا ہے ..
کیونکہ معجزات ان امور سے ہوتے ہیں جو انسانی قدرت سے باہر ہوتی ہے اور معجزات کا ظہور الله کے حکم سے اپنے رسولوں کی تائید و نصرت کے لیے ہوتا ہے
خلاصہ کلام:- الله کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے انسانی فطرت ، انسانی عقل شرعی کتابیں اورحسی دلیلیں سب کے سب مخلوقات کے لیے موجود ہیں بس شرط ماننے کی ہے ضرورت تکبر و فریب نفس سے بلند ہوکر ایمان لانے کی ہے ۔۔


اللہ تعالی کا وجود اور اس دنیا کے بنانے والے (صانع عالم ) کا ثبوت ان چیزوں میں سے ہے جو ظاہری طور پر بالکل واضح ہیں جنہیں عربی زبان میں "اجلی البدیھیات "کہا جاتا ہے ۔۔ جب کہ تمام موجودات کا سرچشمہ اور تمام مخلوقات کی تخلیق کا منبع خود اس خالق کی ذات ہے تو اس پر بحث و مباحثہ کی نوبت بالکل نہیں آنی چاہئے تھی کیونکہ بقول غالب ۔۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ۔
لیکن کوتاہ نظری اور حد درجہ افسوسناک بات یہ ہے کہ خالق کائنات اللہ تعالى کی اپنی ذات كے متعلق سکون قلب کے لئے كوئى قابل ذكر علم(سورس) نا ہونے کے باوجود علم نا ہونے (عدم علم) سے ناہونے کے علم (علم بالعدم )کا دعوی اور چیلنج کیا جاتا ہے یعنی جس چیز کا ہمیں اپنی محدود عقل سے علم نا ہوسکا وہ موجود ہی نہیں یا اپنا وجود ہی نہیں رکھتی اس کا دعوی کیا جاتا ہے جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس غور و فکر میں خود کو محدود کردیا جاتا یہ کہ کر کہ تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں اتا بس جان گیا کہ تیری پہچان یہی ہے ۔۔

1۔اللہ تعالی کے وجود پر یا اس کائنات کے ایک خالق کے ہونے پردنیا کے انتہائی کمتر لامذہب طبقہ کے سوا تمام ہی دنیا کے اسمانی اور غیر آآسمانی مذاہب کا بالکلیہ اتفاق بذات خود خالق کے وجود کی ہستی پر ایک دلیل قاطع ہے۔۔
2 ۔ دنیا میں جتنے بھی مادہ ہیں مثلا مرغی یا انڈا اس کی مثال لے لیں ایک بحث کی جاسکتی ہے کہ مرغی پہلے آئی یا انڈا انڈے کے لئے مرغی اور مرغی کے لئے انڈا کا تسلیم کرنا ضروری ہوگا اور تقسیم کا انجام اور سوال کا نتیجہ یہاں آکر ختم ہوگا کہ اس انڈے کو یا اس مرغی کو کس نے بنایا جس کے بعد انڈے آئے یا جس کے بعد مرغی آئی ۔۔؟؟؟
کیونکہ دنیا میں فطری اصول عقل سلیم یہی مانتی ہے کہ ہر بنی ہوئی چیز کے لئے ایک بنانے والا ہونا چاہئے۔ گھڑی کے لئے گھڑی ساز کا ہونا اور کتاب کے لئے کتاب ساز کا ہونا اس کی مثالیں ہیں معلوم ہواکہ کسی بھی مادہ کی تخلیق خالق کے وجود کا پتہ دیتی ہے ۔
وفی کل شئی لہ آیۃ تدل علی انہ واحد
3 ۔ جب کچھ نا تھا تو اس نیستی اور کچھ نا ہونے سے کچھ چیزوں کا وجود میں آنا اور ظاہر ہونا اور ایک ہستی بن جانا دیکھ کر بھی عدم سے وجود میں لانے والے ایک خالق کا پتہ دیتا ہے ۔
کسی عرب دیہاتی نے کیا پتہ کی بات کہی تھی ۔
"یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر وان اثر القدم لتدل علی المسیر فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج وبحار ذات امواج الا یدل علی وجود اللطیف الخبیر >>>
یعنی مینگنی سے اونٹ کا پتہ چلتا ہے اور قدم کے نشان سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی اس راہ سے گزرا ہے کوئی کہے دیتی ہے شوخئ نقش پا کی تو کیا یہ برجوں والا اسمان راستوں والی زمین اور موجیں مارتا سمندر اللہ تعالی جیسے باریک بین اور خبردار کے وجود پر دلیل نہیں بن سکتے ۔۔؟؟
جو آللہ کو نہیں مانتے افسوس ان کی پرواز فکر اس بدو کی دماغی حدود سے بھی کم تر ہے ۔
4 ۔ اس دنیا میں طرح طرح کے رنگ دار نباتات و جمادات و چرند پرند ہیں ان سب کا قسم قسم کا ہونا یہ سرنگا رنگ بھری دنیا اور اس کا تنوع اور زندگی کا تضاددر اصل باری تعالی کے وجود پر دلیل ہے اسی طرح مظاہر عالم کی انسان کے ہاتھوں تسخیر اور اس کی محکم تدبیر خالق کے وجود کی دلیل ہے ۔۔
5 ۔اسی طرح موجودات عالم کا نظم و ترتیب کے ساتھ اس طرح سرگرم عمل اور رواں دواں رہنا بھی ہستی خالق کے وجود کی روشن دلیل ہے قران کریم میں اسی کا نقشہ کھینچتے ہوئے غور و فکر و تدبر کو كيا خوب حركت دی گئی ہے
"لا الشمس ینبغی ان تدرک القمر ولا اللیل سابق بالنھار وکل فی فلک یسبحون "
یسین نا تو سورج چاند سے آگے جاسکتا ہے نا ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے ہر ایک اپنے اپنے فلک و مدار میں چل رہے ہیں ۔۔
خالق کائنات کی ہستی کا انکار اس خود ساختہ انسانى وضع كرده فلسفہ كےلئے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہمیں دکھائی کیوں نہیں دیتا ۔۔ ؟؟؟ یہ اس لئے کہ دنیا میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جسے ہم نے دیکھا نہیں لیکن اسے محسوس کرتے ہیں اور اپنی قوت احساس کے بل بوتے پر مانتے ہیں اور یہ قوت احساس (فیلنگ پاور) ہی ہے جس سے انسان مختلف چیزوں کو مختلف حواس سے جانتا ہے اور یہ قوت حواس پانچ طرح کے ہیں ۔۔
1- کسی چیز کو چکھ کر (ذائقہ )
2- کسی چیز کو سن کر (سامعہ)
3- کسی چیز کو دیکھ کر (باصرہ)
4- کسی چیز کو سونگھ کر (شامہ)
5-عقل و دماغ سے جو انسان کی کھوپڑی میں موجود ہے ۔۔
اگر ان پانچوں حواس خمسہ کے ساتھ برعکس معاملہ کیا جائے مثلا کان سے دیکھنے کی بات کی جائے اور ناک سے چکھنے کی تو یہ سراسر بیوقوفی ہوگی آدمی جاہل کہلائے گا ۔ کیونکہ مٹھاس کا اپنا وجود ہے وہ نظر نہیں آتی لیکن ہم اسے ذائقہ سے پتہ کرتے ہیں اور یہ کام ووظیفہ ہماری زبان کا ہے ۔۔ آنکھ کا کام دیکھنا ہے اس سے آپ سونگھنے کام نہیں کرسکتے اسی طرح اندھا آدمی یہ نہیں کہ سکتا کہ دنیا حسین نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ نہیں اور اس سے وہ دنیا کو نہیں دیکھ سکتا ۔ دراصل انسان کا وجود ہی اسکے رب کو پہچاننے کے لئے بذات خود دلائل کی یونیورسٹی ہے قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ :
"وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ ( 20 ) وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (21)‘"
یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں کئی نشانیاں ہیں خود تمھارے نفسوں میں کئی نشانیاں ہیں کیا تم اپنی نگاہ نہیں دوڑاتے ۔۔؟؟
گالی گلوچ کا اپنا وجود ہے جسے ہم نے دیکھا نہیں لیکن سننے کی قوت سے سمجھ جاتے ہیں کہ گالی کا وجود ہے تو معلوم ہواکہ عقل اور حافظہ اور روح اللہ فرشتہ تقدیر اور کائنات کی گردش وغیرہ ایسے اسرار ہیں جنہیں انسان اپنے دماغ سے نہیں سمجھ سکتا بلکہ اس معاملے میں وہ خالق کائنات کے بھیجے ہوئے پیغامبران و رسولوں کی رہنمائی اور آسمانی بادشاہ کی وحی کا محتاج ہے
اور یہ بھی معلوم ہواکہ جس چیز کو آنکھوں سے نا دیکھا جاسکے اور اوپر بیان کی گئی پانچ محسوس کرنے والی قوتوں سے محسوس ناکیا جاسکے تو ان وجوہات کی بنا پرضروری نہیں کہ ان کا انکار بھی کردیا جائے اس بات کو سبب بنا کر کہ یہ ہماری عقل میں کیوں نہیں آیا ۔۔؟؟؟ اسے میں دیکھ کیوں نا سکا ۔۔؟؟ یا اس کا مجھے یا میرے وجود میں احساس و ادراک کیوں نہیں ہوتا ۔۔؟؟ کیونکہ ہر وہ چیز جو نگاہ و حواس کی گرفت میں نا سما سکے تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وجود بھی نا ہو ۔۔
علم تاریخ کے بانی مبانی علامہ ابن خلدون نے "مقدمہ ابن خلدون" میں ایک بات بڑی پیاری لکهی ہے کہ "امور اخرت ومعاملات حشر ونشر وتقدیرات الھیہ اور کنہئہ نبوت کو میزان عقل میں نہیں تولا جاسکتا کیونکہ یہ عظیم الشان امور ہیں اور میزان عقل اتنی قوی نہیں کہ ان میں یہ سب امور وزن ہوسکیں -"
ایک صاحب علم نے کیا بہترین لکھا ہے کہ " خدا کی ذات (کی معرفت) میں عقل کوئی میزان نہیں ہے کیونکہ جس طرح مادی اشیاء کے وزن کے لئےمیزان و پیمائش کے اندر اختلاف ہوتا ہے اسی طرح خود عقل میں بھی اختلاف و تفاوت ہوتا ہے - سو جس قدر دور اندیش اور دور رس نگاہیں انبیاء و عارفین کی ہوتی ہیں وہ کسی عام و جاہل کی نہیں ہوسکتی ایک منصوبہ بند اور تجربہ کار آدمی کی وسعت عقل اور تخیلات کی اڑان ۔ جتنی بڑی اور دور بین ہوگی اور اس کی علم کی پہنچ جہاں تک ہوگی وہاں ایک دودھ پیتا بچہ یا طفل مکتب کی پرواز کا دائرہ تو قطعا بھی نہیں آسکتا ۔۔
اسی طرح آپ دیکھیں کہ ایک انسان کی زندگی میں اس کی سوچ و فکر میں ہی کتنے اتارو چڑھاؤ اور موڑ آتے ہیں کسی چیز کو وہ ابتدائی عمر میں صحیح سمجھتا ہے اور اس کے اثبات کے لئے لڑتا ہے جوانی میں اسے نظر انداز کرنا شروع کردیتا ہے اور بڑھاپے میں بالکل اس کا انکار ہی کردیتا ہے جب انسان کی عقل کی رفتار ایک جیسی نہیں کہ وہ مسلسل اپنی ہی مفروضات و مسلمات کی نفی و اثبات کی کشمکش میں الجھی ہوئی رہتی ہے تو اسے اللہ کی معرفت کے لئے بطور حجت و رہنما کلید مطلق کس طرح بنادیا جائے ۔۔
معلوم ہواکہ کائنات کے پیدا کرنے والے کو اس کی ذات و صفات و مرضی اور کائنات کے بنانے کا مقصد اور اس کی غرض و غایت انسانی تقدیر کا اختلاف یہ تصادم و کشمکش اور حق و باطل کے معرکے اور موسموں کی امد و رفت اور موت و حیات کا تسلسل اور روح کی آمد و رفت یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو صحیح طرح سمجھنے کے لئے انسانی محدود عقل کو اس خلاق کائنات مالک ارض و سماوات کے بھیجے ہوئےرسولوں اور پیغمبروں کی لائی ہوئی رہنمائی اور وحی کی سخت ضرورت ہے ۔
امام ابن القیم رحمه الله نے اپنی کتاب" اقسام القران" کے اندر بڑی پیاری عبارت لکھی ہے لکھتے ہیں کہ :
""ان المعاد انما يعلمه عامة الناس بأخبار الانبياء وان كان من الناس من قد يعلمه على انه لا يعلم بالنظر بخلاف العلم بالصانع فان الناس متفقون على انه لا يعلم بالعقل وأن كان ذالك مما نبهت الرسل عليه واما صفاته فقد تعلم بالعقل وقد تعلم بأخبار الانبياء (اقسام القرآن 1/ 3)
کہ آخرت کو لوگ انبیاء کے خبر دینے کے بعد ہی جان پاتے ہیں اور اگرچہ ایسے لوگ پائے جاسکتے ہیں جنھیں اس بات کو علم ہوکہ آخرت کو نظر سے نہیں جانا جاسکتا لیکن کائنات کے بنانے والے کا علم مسئلہ ایسا ہے کہ لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ خالق کائنات کو عقل سے نہیں جانا جاسکتا -اگرچہ یہ ان چیزوں سے ہے جس پر انبیائے کرام نے آگاہی کردی ہے رہی بات خالق کی صفات و خوبیوں کو جاننے کی تو ان صفات وخوبیوں کو کبھی عقل سے بھی جانا جاسکتا ہے اور کبھی انبیاء کے خبر دینے سے جانا جاسکتا ہے ۔
غرض یہ کہ ہر انسان کے اندر ایک چبھن اور ایسی لگن ہے جو اسے اپنے پیداکرنےوالے کی تلاش پر مجبور کرتی رہی ہے اور اسے پانے کے لئے مذاہب میں راستے الگ الگ ضرور ہوئے ہیں لیکن اسکا انکار نہیں کیا جاسکا ۔۔
بقول علامہ الطاف حسين حالى :
مسلم نے حرم میں راگ گایا
تیرا ہندو نے صنم میں جلوہ چاہا تیرا
دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے
انکار کسی سے بن ناآیا تیرا

اور ماہر طنز ومزاح شاعر اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ
کانٹا ہے ہر اک دل میں اٹکا تیرا
آویزہ ہے ہر گوش میں لٹکا تیرا
مانا نہیں جس نے تجھ کو جانا ضرور
بھٹکے ہوئے دل میں ہے کھٹکا تیرا



Tuesday 27 February 2024

قرآن مجید کے کلام الہی ہونے کے عقلی دلائل


اللہ کی کتاب ہونے کے دلائل

  •  موضوع کا آغاز کرن


اللہ کی کتاب ہونے کے دلائل

کیا قرآن واقعی اللہ تعالی کی کتاب ہے؟ اس دعوی کی کیا دلیل ہے؟ اس حیران کن سوال کے بے شمار جواب اور دلائل ہیں جو یقینی شہادت دیتے ہیں کہ قرآن کریم واقعی اللہ تعالی کی کتاب ہے۔آئیے ان دلائل کو دیکھتے ہیں:

دلائل:
قرآن کہتا ہے اور اہل عرب بھی جانتے تھے کہ ہمارے رسول ﷺ امی تھے۔ آپ ﷺ نہ سکول وکالج گئے اور نہ ہی کسی استاذ کے آگے زانوئے ادب تہہ کئے۔عبرانی وسریانی زبانیں سیکھنا تو کجا آپ ﷺ کی کسی عیسائی یا عجمی سے دوستی تک نہ تھی کہ اس سے آپ ﷺ کی مذہبی معلومات میں اضافہ ہوتا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ غیر عرب عجمی شخص سے آپ ایسی فصیح زبان اورنظریہ سیکھیں جو مقامی عرب خطباء کو بے بس کردے اور عقیدہ توحید ، آل یعقوب وآل عمران کے حقائق اس طرح منکشف کرے جو سابقہ مذاہب کی جڑ کاٹتے ہوں؟ کسی مشرک وکافر نے اسے بطور ہتھیاربھی آپ ﷺ کے خلاف پروپیگنڈہ نہیں بنایا۔ بارہا چیلنجز بھی دئے گئے کہ اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ مگروہ بھی نہ لا سکے۔آپ ﷺ نے بھی اس کتاب کو اپنی طرف منسوب نہ کیا۔

٭… کیا یہ ممکن ہے کہ ایک امی نبی ورسول اپنے کلام میں سائنسی باتیں کرے، پیشین گوئیاں دے، اور کائنات وحضرت انسان کے آغاز ونشوونما کے چھپے پردوں سے راز اٹھائے؟۔اُمی ہوکر ایسے کلام کو پیش کرنا عظیم معجزہ نہیں؟۔

{وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ۴۸بَلْ ہُوَاٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ} (العنکبوت:۴۹،۴۸)
آپ اس کتاب کے نزول سے پہلے نہ تو کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ ہی اپنے داہنے ہاتھ سے کچھ قلمبند کیا کرتے تھے ورنہ یہ باطل پرست تو شک میں رہتے۔ بلکہ یہ روشن آیات 
٭… حاسد خود متذبذب تھے کہ آخر ہم اس کتاب کو کیا کہیں۔کیونکہ وہ کبھی اسے شعر کہتے اور کبھی کہانت، کبھی جادو ، تو کبھی مجنونانہ باتیں کہہ کے ٹرخاتے۔ مگر قرآن کریم اپنی لطیف وٹھوس گفتگو سے انہیں یہ قائل کرتا رہا کہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے۔

٭۔ رسول اکرم ﷺ کو یہ اجازت نہیں تھی کہ آپ ﷺ ا قرآن میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی کریں۔
{وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍ۰ۙقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۰ۭقُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاۗيِ نَفْسِيْ۰ۚاِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۰ۚاِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ۱۵ }(یونس: ۱۵)
اور جب ان پر ہماری روشن آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آئیے یا اس کو بدل دیجیے۔ آپ فرما دیجیے کہ میرے لئے جائز نہیں کہ میں اس کو اپنی طرف سے بدل دوں ۔

٭…ا گرآپﷺ تبدیلی کرتے تو یہ انتہائی سنگین جرم ہوتا۔ کیونکہ دین میں معمولی سی تبدیلی سارے منصوبہ کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ اللہ تعالی نے اس کی بھی ضمانت دی اور فرمایا:
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ۴۴ۙلَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِيْنِ۴۵ۙثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِيْنَ۴۶ۡۖفَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِـزِيْنَ۴۷وَاِنَّہٗ لَتَذْكِرَۃٌ لِّلْمُتَّقِيْنَ۴۸} (الحاقۃ:۴۸،۴۴ )
اور اگر یہ رسول ہم پر کوئی بات گھڑ لے تو ہم اس کے دائیں ہاتھ کو پکڑلیں پھر اس کی رگ جان کاٹ دیں تب تم میں کوئی نہ ہو جو اسے بچاسکے۔ اور بلاشبہ اس میں اللہ کی نافرمانی سے بچنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے۔

دین میں معمولی ہیر پھیر کی اجازت جب رسول اللہ ﷺ کو نہیں تو علماء ربانی کو بھی نہیں۔کیونکہ ایسا کردار یہودی رِبی اور عیسائی پوپ کا ہے۔جس کی مذمت قرآان کریم کرچکا ہے۔
٭… جبریل ؑ امین سے بھی اسے پہنچانے میں کوئی بھول چوک نہیں ہوئی۔
{اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ۱۹ۙذِيْ قُوَّۃٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ۲۰ۙمُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ۲۱ۭ} (التکویر:۱۹۔۲۱)
بے شک وہ معزز قاصد کا کلام ہے جو قوت والا ہے۔ خدائے عرش کے نزدیک مرتبے والا ہے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور وہ وہاں امین و معتبرہے۔

٭…قرآن کو تھوڑا تھوڑا نازل کیا گیا۔ جس کا مقصد اصحاب رسول کو بآسانی یاد کرانا تھا۔ آپ ﷺ ہی پہلے فرد تھے جنہوں نے قرآن پاک کو حفظ کیا اور آپ ﷺ ہی پہلے فرد تھے جنہوں نے صحابہ کرام کو اس کی حفاظت کی ترغیب دی۔
{وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَي النَّاسِ عَلٰي مُكْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِيْلًا۱۰۶ } (بنی اسرائیل: ۱۰۶)
اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اس لئے نازل کیا ہے تا کہ تم ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو سناؤ۔

٭…قرآن مجیدعرب ماحول میں نازل ہوا تھا۔ عرب اگرچہ لکھناپڑھنا نہ جانتے تھے مگر پختہ قوت حافظہ کے مالک ضرور تھے۔ انہیں اپنی تاریخ، جنگوں کے حالات، نہ صرف اپنے نسب نامے بلکہ اونٹوں کے نسب بھی سات پشتوں تک یاد ہوتے تھے۔ جب قرآن نازل ہواتو انہوں نے اس کی قدر ومنزلت جانی اور اسے یاد کرنے کا خاص اہتمام کیا۔
٭…قرآن کی حفاظت کتابت کے ذریعے بھی ہوئی۔ کاتبین وحی گو کم تھے لیکن ہر وقت نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے۔ پھر جونہی کوئی وحی نازل ہوتی آپ ﷺ انہیں بلوا کر وہ آیات لکھوا لیتے۔ یہ کاتب انتیس۔۔ اور بعض علماء کے نزدیک۔۔ انچاس تھے۔ ان کاتبین میں مرد حضرات کے علاوہ خواتین بھی شامل ہیں۔ جن میں سیدہ عائشہ، سیدہ حفصہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہن بھی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

۱۵۔ بلاغت سے مراد ایسے جامع کلمات ہیں جو اپنی معنی ومفہوم سمیت سواد دل میں اتر جائیں۔ آواز کا ترنم اس پر مستزاد ہو۔ الفاظ کی ترکیب و سجاوٹ، اعلی قوت خیال، دل میں اس کے گہرے اثرات اور پھر ان سب الفاظ کا محسوسات کے مماثل ہونا ہے۔اسی بلاغت نے ہر عرب کو حیران و ششدر کر دیا تھاکہ ایسا عمدہ کلام جو دل کی کایا پلٹ دے مگرجو نہ نثرلگے اور نہ ہی نظم حیران کن ہے۔جس میں جگہ جگہ موضوعات بدلتے ہیں مگر بلاغت یکساں طور پرپائی جاتی ہے۔ ایک کلمہ ایسا نہیں جو کان پر بوجھل محسوس ہو۔اس میں مختلف مسائل ہیں مگر ہر مسئلہ کے مطابق احکام بیان ہوتے ہیں حالانکہ یہ سب احکام وقفہ وقفہ سے نازل ہوئے۔ یہ سب انداز انسانی حواس کے لئے بڑی جاذبیت رکھتے ہیں۔مثلاً یہ آیات بلاغت کے جمال کا عمدہ نمونہ ہے:
{وَالشَّمْسِ وَضُحٰىہَا۱۠ۙوَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىہَا۲۠ۙوَالنَّہَارِ اِذَا جَلّٰىہَا۳۠ۙوَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰـىہَا۴۠ۙوَالسَّمَاۗءِ وَمَا بَنٰىہَا۵۠ۙوَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىہَا۶۠ۙ} (الشمس: ۱۔۶ )
قسم ہے سورج کی اور قسم ہے اس کی روشنی کی، قسم ہے چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آئے۔ قسم ہے دن کی جب وہ ظاہر کرے اسے۔ اور قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لے اس کو۔اور آسمان کی اور اس کی جو اس نے بنایا۔اور قسم ہے زمین کی اور اس کی جو اس نے بچھایا۔

ان آیات کا حسن اور الفاظ میں کلام الٰہی کی شان او ر کبریائی، ان کے ایک ایک جملے اور ان کی مخصوص ترتیب سے عیاں ہیں۔کائنات میں پھیلی قدرت کی شاہکار رنگینیوں کی طرف ذہن کو لے جاتی ہیں۔۔قوت حواس کے لئے کتنا مرعوب کن یہ اسلوب ہے جس سے اللہ تعالی کی عظمت کا عقیدہ دل میں مزید مضبوطی پکڑتا ہے۔ اور یہ سب قسمیں نفس انسانی میں خیر اور شر کے مادے کو ودیعت کرنے کی عظیم شہادتیں ہیں۔حاکم مطلق کا ہر انداز اسی کو بھاتا ہے
٭… پیش آنے والے واقعات کے بارے میں قرآن مجید نے بڑے واضح اشارے دیے جوحرف بحرف ثابت ہوئے اور ہو رہے ہیں مثلاً:
{ الم ﴿١﴾ غُلِبَتِ الرُّ‌ومُ ﴿٢﴾ فِي أَدْنَى الْأَرْ‌ضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ ﴿٣﴾ فِي بِضْعِ سِنِينَ۔۔۔} (الروم :۱۔۴)
الم ۔اہل روم مغلوب ہوگئے اس ملک میں جو حجاز سے متصل ہے اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غلبہ حاصل کرلیں گے چند برسوں میں۔

٭… قرآن مجید نے بعض ایسی قوموں کے حالات بیان کئے جن کا نام ونشان مٹ چکا تھا اور قصہ پارینہ بن چکے تھے۔ عرب بھی انہیں بھول چکے تھے۔ ان کے حالات کی طرف قرآن مجید نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے:
{تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا ۖ۔۔۔} (ہود: ۴۹)
یہ واقعات غیب کی خبروں میں سے ہیں جنہیں ہم آپ کو وحی کے ذریعے پہنچا رہے ہیں۔ وحی سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے نہ آپ کی قوم۔

٭… جدید سائنس نے کائنات کے بارے میں جن حقائق کا انکشاف کیا ہے یہ ابھی ابتداء ہے مگر اس متأخر سائنسی تحقیق سے کہیں آگے کے گہرے اشارے قرآن کریم نے ڈیڑھ ہزار سال قبل دے دئے تھے۔ جن کا پہلے کسی کو علم تھا اور نہ ان کی حقیقت سائنس دانوں پر منکشف ہوسکی ۔ ان آیات میں یہ اشارے ملتے ہیں:
{أَوَلَمْ يَرَ‌ الَّذِينَ كَفَرُ‌وا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ كَانَتَا رَ‌تْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ﴿٣٠﴾} (الأنبیاء:۳۰ )
کیا ان کافروں کو یہ بات معلوم نہیں کہ آسمان وزمیں دونوں باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے ان کو الگ الگ کیاہم نے ہی ہر شے کو پانی سے زندگی عطا کی کیا اس پر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔

پہلی آیت میں لفظ رَتْقٌ اور فَتْقٌ کے الفاظ پر غور کریں تو ساری سائنس سمجھ آجاتی ہے۔مگر موجودہ سائنسی تعبیرات کی علمی کم مائیگی وعاجزی بھی۔ رتق کسی چیز کا باہم گڈمڈ اور باہم گتھا ہوا ہونا۔ اور فتق کسی چیز میں بڑا سا شگاف ڈال کر اسے کھول دینا یا دومتصل چیزوں کو علیحد ہ علیحدہ کرنا۔Big Bang یا Little Bang جیسی بدلتی تھیوریزمیں ابھی یہ پخت
{وَأَرْ‌سَلْنَا الرِّ‌يَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ ﴿٢٢﴾} (الحجر:۲۲)
ہم ہی بھیجتے ہیں بارآور بوجھل ہوائیں، پھر آسمان سے پانی برسا کر وہ تمہیں پلاتے ہیں۔جب کہ تم اس کو سٹور کرنے والے نہیں ہو۔

اس آیت میں لفظ اَرْسَلْنَا الرِّيٰحَ لَوَاقِحَ قابل غور ہیں کہ ایک مرتب نظام کے تحت ہوائیں بن کر آتی ہیں اور بیجوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا (Pollinate) کر چلی جاتی ہیں۔نیزہرقطرہ بارش Y, Xکا بھی حامل ہے جو اس بیج میں جا مؤثر ہوتا ہے۔

گو قرآن مجید سائنسی کتاب نہیں مگر جدید سائنس کے کائناتی انکشافات کے اشارے اس میں موجود ہیں ۔ جن سے حضرت ِ انسان صدیوں لا علم رہا۔ مثلا:
٭… قرآن کریم نے زمین کے گردش کرنے اور اس کے گول ہونے کا دعوی کیا ہے۔ {وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىہَا۳۰ۭ}(النازعات:۳۰)
اس کے بعد اس نے زمین کو پھیلا دیا
دحوۃ: شتر مرغ کے انڈے کو کہتے ہیں۔جو بیضوی شکل کا مگر گول زیادہ ہوتا ہے۔گولائی میں زمین کو دور دور تک پھیلانے کو عربی میں دَحٰی کہتے ہیں۔
٭… بارش کیسے ہوتی ہے؟ قرآن کریم اس کی تفاصیل دیتا ہے:
{۔۔۔اَنَّ اللہَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَہٗ ثُمَّ يَجْعَلُہٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ۔۔۔} (النور:۴۳)
بے شک اللہ تعالی بادلوں کو چلاتا ہے پھر انہیں آپس میں ملاتا ہے۔پھر ان بادلوں کو تہہ در تہہ کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو بادل میں سے مینہ برس رہا ہے۔

٭… تمام اشیاء میں نرو مادہ کا وجود ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے:

{وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ} (الذاریات :۴۹)
اور ہر شے سے ہم نے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

زوج کا لفظ نر ومادہ کے وجود یا شعور کے لئے ہے۔

٭…چاند، سورج ، گلیکسیز، بلیک ہولزاور سیاروں کے مقررہ راستے ہیں اور وہ گردش کررہے ہیں:
{كُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ} (الأنبیاء : ۳۳)
ہر ایک اپنے اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔

٭…سورج کی اپنی روشنی ہے اور چاند اس کی روشنی سے منور ہوتاہے۔
{ھُوَالَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا}(یونس: ۵) ۔
وہی تو ہے جس نے سورج کو ضیاء دی اور چاند کو روشن بنایا۔

ضیاء اس روشنی کو کہتے ہیں جو اپنی ہو اور نور دوسرے سے مستعار روشنی کو کہتے ہیں۔
٭… مادہ مکھی ہی شہد جمع کرتی اور بناتی ہے نیز اس کی طرزِ معاشرت بھی عجیب ہے:
{وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا} (النحل : ۶۸)
تمہارے رب نے مادہ مکھی کو الہام کیا کہ وہ پہاڑوں پہ اپنے گھر بنائے۔

٭… بچہ رحمِ مادر میں کن تدریجی مراحل سے گذر تا ہے۔ اس کی تشکیل کیسے ہوتی ہے؟ اور کتنے پردوں میں اس کی حفاظت کی جاتی ہے؟ قرآن مجید آگاہ کرتا ہے کہ
{فِیْ ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ} (الزمر:۶ )
تین پردوں میں رہتا ہے۔ اور بالآخر ایک نئی اٹھان کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔

٭… خلاء میں ٹوٹ پھوٹ کا ہیبت ناک نظام ہے اور اس سے جتنا پھیلاؤ ہو رہا ہے حضرت انسان ابھی تک حیرت زدہ ہے۔ قرآن کہتا ہے : {وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ} (الذاریات :۴۷)
ہم کائنات کو وسعت دیتے اور پھیلاتے جارہے ہیں۔
اب وہ خود کو اور اپنے (Planet) کو اس (Cosmos)کا حصہ تو ضرور سمجھنے لگا ہے۔

٭…یہ بھی حقیقت ہے کہ زمین کا قطرکم ہورہا ہے۔
{نَنْقُصُہَا مِنْ اَطْرَافِہَا}(الرعد :۴۱)
ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے جارہے ہ
٭…مادہ مچھر کے اوپر کیا چیز ہوتی ہے جس کی مثال قرآن میں دی گئی ہے:
{ مَثَلاً مَّا بَعُوْضَۃ فَمَا فَوْقَہَا}(البقرۃ: ۲۶)
مائیکرو سکوپ بتاتی ہے کہ وہ اس کی جوں ہے۔ کتنی حیران کن ہے۔

ان کے علاوہ قرآن مجیدمیں ان گنت بیان شدہ حقائق ہیں جن کے سامنے حیاتیات(Biology) ارضیات(geology) اور طبیعیات(Physics) اور دیگر علوم و سائنسز ابھی طفل مکتب ہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔مگر کیا ان حقائق کا انکشاف آج کے مسلمان سائنس دان نے کیا؟ اور کیا سائنس دانوں نے اللہ تعالی کی عظمت وکبریائی کو تسلیم 
٭… قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو تورات وانجیل میں کی گئی تحریف وتبدیلی سے آگاہ کرتی ہے اورانبیاء ورسل پر تھوپے گئے بے سروپاواقعات والزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔بلکہ ان کی عصمت واحترام اور رب کریم کے ہاں ان کے مقام عالی کو واشگاف الفاظ میں بیان کرتی ہے۔اسی وجہ سے اسے مہیمن کہا گیا ہے۔ عورت کو الزام دینا کہ وہی گناہ کی جڑ ہے اور جنت سے آدم کے اخراج کا سبب بنی ہے جس کی سزا اسے اللہ تعالی نے حیض کی تکلیف میں ڈال کر دی ہے۔ ان نامعقول باتوں کا جواب انتہائی معقول انداز میں دیا ہے۔ یہ کتاب عصمت انبیاء اور احترام خاتون کی محافظ ہے۔ اقوام کے عروج وزوال کے اسباب کھل کر بیان کرتی ہے تاکہ مجرم اپنی حرکتوں کو معصومیت کا یا نسلی تفاخر کا درجہ نہ دے دیں۔ اور جرائم کی دنیا میں انہیں کوئی ملامت کرنے والا نہ رہے۔ ایسا انکشاف اللہ تعالی کا کلام ہی کرسکتا ہے۔