https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Wednesday 31 July 2024

بالوں میں براؤن کلر لگانا

  داڑھی یا بالوں کو براؤن کلر لگانا جائز ہے البتہ خالص کالا کلر لگانا جائز نہیں ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے: 

"اتفق المشايخ رحمهم الله تعالى أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة وأنه من سيماء المسلمين وعلاماتهم وأما الخضاب بالسواد فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه".

(الفتاوى العالمكيرية ، كتاب الكراهية، الباب العشرون في الزينة واتخاذ الخادم للخدمة، 5/ 359،ط: دار الفكر)

عورت کا قبرستان کے راستہ سے گزرنا

 عورت   قبرستان کے درمیان بنے ہوئے راستے سے گزر سکتی ہے۔

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

"وسئل أيضا عمن له بقعة مملوكة بين المقابر يريد أن يتصرف في تلك البقعة ولا طريق له إلا على المقابر هل له أن يتخطى المقابر فقال إن كان الأموات في التوابيت فلا بأس قال رضي الله عنه وكذلك إن كانوا في غير التوابيت كذا في التتارخانية."

( الفتاوی الھندیة، کتاب الکراهية، الباب السادس عشر في زیارۃ القبور وقراۃ القرآن فیھا، ج:5، ص:351، ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"والمشي في المقابر بنعلين لا يكره عندنا، كذا في السراج الوهاج."

(الفتاوی الهندیة، الباب السادس عشر في زیارۃ القبور وقراۃ القرآن فیھا، ج:5، ص:350، ط:دار الفکر)

عورت گھر میں دوپٹہ اتار سکتی ہے ؟

 عورت كےستر اور  پردے سےمتعلق آیات و روایت اور وعیدوں کاتعلق اجنبی، نامحرم مردوں اور غیرمسلم عورتوں سےہیں ، چاہےیہ لوگ گھرمیں ہوں،یاگھرکےباہر۔ عورت کے وہ رشتہ دارجن سے نکاح کرنا ہمیشہ کےلیےحرام  ہے، ان کے سامنے جس طرح چہرہ  کھلا رکھنا جائز ہے، اسی طرح کام کاج کے وقت ان کے سامنے سرکھلا رکھنا بھی جائزہے؛ لہٰذا گھرمیں اگر اجنبی مردوں کے آنے کا احتمال نہ ہو تو  عورت اپنادوپٹہ گھرمیں اتارسکتی ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ گھر میں بھی سرپردوپٹہ موجود رہے؛  تا کہ کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ رہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"فأما نظره إلى ذوات محارمه فنقول: يباح له أن ينظر إلى موضع الزينة الظاهرة والباطنة لقوله تعالى {ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن} [النور: 31] الآية ولم يرد به عين الزينة فإنها تباع في الأسواق ويراها الأجانب ولكن المراد منه موضع الزينة وهي الرأس والشعر والعنق والصدر والعضد والساعد والكف والساق والرجل والوجه فالرأس موضع التاج والإكليل والشعر موضع القصاص والعنق موضع القلادة والصدر كذلك فالقلادة والوشاح قد ينتهي إلى الصدر والأذن موضع القرط والعضد موضع الدملوج والساعد موضع السوار والكف موضع الخاتم والخضاب والساق موضع الخلخال والقدم موضع الخضاب وجاء في الحديث أن الحسن والحسين رضي الله عنهما دخلا على أم كلثوم وهي تمتشط فلم تستتر ولأن المحارم يدخل بعضهم على بعض من غير استئذان ولا حشمة والمرأة في بيتها تكون في ثياب مهنتها عادة ولا تكون مستترة فلو أمرها بالتستر من ذوي محارمها أدى إلى الحرج."

(كتاب الاستحسان،نظرالرجل الی المرأة،  ج: 10، ص: 149، ط:مطبعة السعادة)

عورت پر کس عمر کے بچوں سے پردہ فرض ہے

 پردے کا اصل مدار شہوت کی حد کو پہنچنے پر ہے،  بچے جب اتنی عمرکے ہوجائیں، جس میں ان میں شہوت پیدا ہوتی ہو یاان کو دیکھنے سے عورت کو شہوت پیدا ہوتی ہو تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہے ، فقہاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے  دس سال کے لڑ کوں کو مراہق ومشتہی قرار دیا ہے،لہذا دس سال کے لڑکے سے عورت کو پردہ کرنا ضروری ہے،البتہ اگر کسی لڑکے میں دس سال کی عمر سے پہلے ہی لڑکیوں کی طرف میلان محسوس کیا جائے تو  اسی عمر سے پردہ کرنا چاہیے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع سنين واضربوهم عليها وهم أبناء عشر سنين ‌وفرقوا ‌بينهم ‌في ‌المضاجع"

(کتاب الصلوۃ،ج:1، ص:181، رقم الحدیث:572،ط:المکتب الأسلامی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

" لأنهم بلغوا أو قاربوا البلوغ ۔۔لأن بلوغ العشر مظنة الشهوة "

(کتا ب الصلوۃ،ج:2،ص:512،رقم الحدیث:572،ط:دار الفکر)

قرآنِ کریم میں ہے:

"قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذلِكَ أَزْكى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِما يَصْنَعُونَ(30)وَقُلْ ‌لِلْمُؤْمِناتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَا مَا ظَهَرَ مِنْها وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبائِهِنَّ أَوْ آباءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنائِهِنَّ أَوْ أَبْناءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَواتِهِنَّ أَوْ نِسائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلى عَوْراتِ النِّساءِ وَلا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور:31)."

تلاوت قرآن پر داد دینا

 قران کریم کی تلاوت کے دوران داد دینے کے لیے زور سے چلانا یا زور سے کچھ کلمات ادا کرنا کسی بھی حال میں پسندیدہ نہیں ، دورانِ تلاوت  ایسا کرنا قرآنِ کریم کے ادب کے خلاف ہے، جس سے بچنا لازم ہے،البتہ  تلاوت کے دوران  جب  قاری صاحب کچھ دیر کے لیے خاموش ہوتے ہیں اس وقت  وقار کے ساتھ آہستہ آواز میں کلام اللہ کی عظمت کا اظہار کرتے ہوئے، اللّٰه أكبریا  سبحان اللّٰه وغیرہ کہا جائے تو اس میں حرج بھی نہیں۔

قرآن مجیدمیں ہے:

(وَإِذَا قُرِيَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَانْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ)(الاعراف، 204)

یعنی جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگایا کرو اور خاموش رہا کرو، امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔(بیان القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"سئل الفقيه أبو جعفر - رحمه الله تعالى - عن قوم قرءوا قراءة ورد وكبروا بعد ذلك جهرا؟ . قال: إن أرادوا بذلك الشكر لا بأس به...رفع الصوت عند سماع القرآن والوعظ مكروه، وما يفعله الذين يدعون الوجد والمحبة لا أصل له، ويمنع الصوفية من رفع الصوت وتخريق الثياب، كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن، 319/5، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ورفع صوت بذكر إلخ) أقول: اضطرب كلام صاحب البزازية في ذلك؛ فتارة قال: إنه حرام، وتارة قال إنه جائز. وفي الفتاوى الخيرية من الكراهية والاستحسان: جاء في الحديث به اقتضى طلب الجهر به نحو " «وإن ذكرني في ملإ ذكرته في ملإ خير منهم» رواه الشيخان. وهناك أحاديث اقتضت طلب الإسرار، والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال كما جمع بذلك بين أحاديث الجهر والإخفاء بالقراءة ولا يعارض ذلك حديث «خير الذكر الخفي» لأنه حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام، فإن خلا مما ذكر؛ فقال بعض أهل العلم: إن الجهر أفضل لأنه أكثر عملا ولتعدي فائدته إلى السامعين، ويوقظ قلب الذاكر فيجمع همه إلى الفكر، ويصرف سمعه إليه، ويطرد النوم، ويزيد النشاط. اهـ. ملخصا، وتمام الكلام هناك فراجعه. وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 660/1، ط: سعید)

افیون اور بھنگ کی کاشت اور اس کے عشر کا حکم

 .افیون اور بھنگ کا چونکہ جائز استعمال بھی ہوتا ہے، جیسے: ادویات و دیگر جائز امور  میں استعمال، لہذا  افیون    کی کاشت جائز ہے۔ اور دوا ساز  ادارے  یا کسی ایسے شخص کو فروخت کرنا جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ وہ اس سے کیا بنائے گا  جائز ہے، البتہ کسی  ایسے شخص کو فروخت کرنا  جس کے بارے میں فروخت کنندہ کو معلوم  ہو کہ  خریدار  افیون یا بھنگ ناجائز مقصد میں استعمال کرے گا، مکروہ تحریمی ہے۔

2.افیون اور بھنگ کی فصل پر بھی  عشر / نصف عشر لازم ہوگا۔

3. افیون اور بھنگ کی فصل کا عشر / نصف عشر کسی بھی مستحق ِ زکاۃ (عالم ہو یا غیر عالم ہو) کو دیا جاسکتا ہے،نیز قیمت کی صورت میں بھی عشر / نصف عشر   ادا کیا جاسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون.  قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لايجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل."

(كتاب الحظروالإباحة،ج:6،ص:554،ط:سعيد)

وفیه أیضاً:

"(و) جاز (بيع عصير) عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمراً)؛ لأن المعصية لاتقوم بعينه بل بعد تغيره، وقيل: يكره؛ لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة والباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق.
(قوله: ممن يعلم) فيه إشارة إلى أنه لو لم يعلم لم يكره بلا خلاف، قهستاني، (قوله: لاتقوم بعينه إلخ) يؤخذ منه أن المراد بما لاتقوم المعصية بعينه ما يحدث له بعد البيع وصف آخر يكون فيه قيام المعصية وأن ما تقوم المعصية بعينه ما توجد فيه على وصفه الموجود حالة البيع كالأمرد والسلاح ويأتي تمام الكلام عليه (قوله: أما بيعه من المسلم فيكره) لأنه إعانة على المعصية، قهستاني عن الجواهر.
أقول: وهو خلاف إطلاق المتون وتعليل الشروح بما مر وقال ط: وفيه أنه لايظهر إلا على قول من قال: إن الكفار غير مخاطبين بفروع الشريعة، والأصح خطابهم، وعليه فيكون إعانة على المعصية، فلا فرق بين المسلم والكافر في بيع العصير منهما، فتدبر اهـ ولايرد هذا على الإطلاق والتعليل المار."

(كتاب الحظر والإباحة،ج:6،ص:391،ط:سعيد)

جانوروں کا ڈاکٹر بننا

  جس طرح انسانوں  کی بیماریوں کے علاج کے لیےڈاکٹر بننا جائز اور ضروری ہے اسی طرح جانوروں کی صحت کی حفاظت کے لیےجانوروں کا ڈاکٹر  بننا  جائز ہے،اور  کتے کاعلاج معالجہ کرنابھی جائز ہے ، کیوں کہ حدیث میں ہے کہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے سے پانی پلانے والی عورت کو جنت ملی ہے، تو اس سے معلوم ہوا کہ علاج کرنا بھی جائز ہے۔

فتح الباری میں ہے:

" ولا شك أن ‌علم ‌الطب من أكثر العلوم احتياجا إلى التفصيل حتى أن المريض يكون الشيء دواءه في ساعة ثم يصير داء له في الساعة التي تليها لعارض يعرض له من غضب يحمي مزاجه مثلا فيتغير علاجه ومثل ذلك كثير فإذا فرض وجود الشفاء لشخص بشيء في حالة ما لم يلزم منه وجود الشفاء به له أو لغيره في سائر الأحوال والأطباء مجمعون على أن المرض الواحد يختلف علاجه باختلاف السن والزمان والعادة والغذاء المتقدم والتأثير المألوف وقوة الطباع ثم ذكر نحو ما تقدم قالوا وعلى تقدير أن يرد التصريح بالاغتسال في جميع الجسد."

(باب الحمی من فیح الجہنم ، 176/10، ط، بیروت)

شرم گاہ کو سہلانا

 مجامعت کی غرض سے بیوی کی شرم گاہ کو شہوت ابھارنے کے لیے سہلانے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے، جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وعن أبي يوسف سألت أبا حنيفة عن الرجل ‌يمس ‌فرج امرأته، وهي تمس فرجه ليتحرك عليها هل ترى بذلك بأسا قال: لا وأرجو أن يعظم الأجر ذخيرة."

(كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في النظر والمس، 6/ 367، ط: سعید)

موذی کیڑے مکوڑوں کو مارنا

 جو کیڑے مکوڑے موذی ہو ں  ایسے کیڑوں کو مارنے میں شرعًا کوئی  حرج نہیں  ہے ، لیکن اگر موذی نہ ہو تو ایسے کیڑے سے گھبرانا نہیں  چاہیے،  وہ اللہ  کی مخلوق ہے، اس کو جھاڑو یا کسی چیز سے ہٹا دیا  جائے، اور اگر پھر بھی  گھبراہٹ نہ جاتی ہو تو   "أَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللّٰهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ"   پڑھا  كریں، حديث شريف ميں مذكور ہے كہ جو شخص یہ دعا پڑھے گا   اس کو اللہ کے حکم سے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاسکتی۔

موطا امام  مالک میں ہے : 

 أخبرنا أبو مصعب، قال: حدثنا مالك، عن سهيل بن أبي صالح، عن أبيه، عن أبي هريرة: أن رجلا من أسلم، قال: ما نمت هذه الليلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أي شيء؟ قال: لدغتني عقرب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أما إنك لو قلت حين أمسيت: ‌أعوذ ‌بكلمات ‌الله ‌التامات ‌من شر ما خلق، لم يضرك إن شاء الله

(كتاب الشعر، باب ما يؤمر به من التعوذ، ج: 2 ص: 951 ط: دار احياء التراث العربي )

فتاوی ھندیہ میں ہے:

"قتل االزنبور والحشرات، هل يباح في الشرع ابتداء من غير ايذاء؟ و هل يثاب علي قتلهم؟ قال: لايثاب على ذلك و إن لم يوجد منه الإيذاء، فالأولى أن لايتعرض بقتل شيء منه، كذا في جواهر الفتاوى."

(کتاب الكراهية، باب فيما يسع من جراحات بني آدم و الحيوانات و قتل الحيوانات و ما لايسع من ذلك، ج: 5 ص: 441 ط: دار الكتب العلمية)

شادی کے موقعہ پر دلھن کے سر پر قرآن رکھنا

 شادی کے موقع پر دلہن کے سر پر قرآن رکھنے کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ہے، محض ایک رسم ہے، نیز اگر ثواب سمجھ کر رکھا جائے تو  بدعت ہے اس  سے بچنا ضروری ہے۔

كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم میں ہے :

"وفي شرح النخبة وشرحه: ‌البدعة ‌شرعا هي اعتقاد ما أحدث على خلاف المعروف عن النبي صلى الله عليه وسلم لا بمعاندة، بل بنوع شبهة. وفي إشارة إلى أنه لا يكون له أصل في الشرع أيضا، بل مجرد إحداث بلا مناسبة شرعية أخذا من قوله صلى الله عليه وسلم "من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد" حيث قيده بقوله ما ليس منه. وإنما قيل لا بمعاندة لأن ما يكون بمعاندة فهو كفر."

(حرف الباء، ج : 1، ص : 313، ط : مكتبة لبنان ناشرون - بيروت)

بیوی کا عض تناسل کو منھ میں لینا

 یہ حرکت مکروہِ تحریمی  اور بہیمانہ عمل ہے۔ لہٰذا اس سے احتراز کیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في النوازل إذا أدخل الرجل ذكره في فم امرأته قد قيل يكره وقد قيل بخلافه كذا في الذخيرة."

(کتاب الكراهية، باب المتفرقات، 5/ 453، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

Tuesday 30 July 2024

کھڑے ہوکر پانی پینا

 کھڑے ہو کر پانی پینے کے متعلق کتبِ حدیث میں  دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں، اُن میں سے بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی ممانعت  وارد ہوئی ہے، اور بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی اجازت موجود ہے، لہٰذا دونوں جانب  کی احادیث کو  مدِ نظر رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے یہ حکم بیان فرمایا ہے  کہ  اگر کوئی مجبوری ہو (مثلاً رش ہو  یا جگہ کیچڑوالی ہو، یابیٹھنے کے لیے جگہ میسر نہ ہو) تو ایسی صورت میں  کھڑے ہوکر پانی پینا بلا کراہت جائز ہے، لیکن   بغیر کسی مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پینا  اور اس کی عادت بنا لینا مکروہِ تنریہی (یعنی خلافِ ادب) ہے؛ کیوں  کہ اس سے انسان کے جسم میں بیماریاں پیدا ہونے اور اس كو  ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے؛لہٰذا    بیٹھ کر پانی پینا ہی باعثِ خیر و ثواب ہے، لیکن  اگر کسی نے  بغیر مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پی لیا  تب بھی وہ گناہ گار نہیں کہلائے گا اور نہ ہی  اُس کی پکڑ ہوگی، بلکہ صرف بیٹھ کر پانی پینے  سے جو ثواب ملتا ہے،  اس سے محروم ہوجاۓگا۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب کھڑے ہوکر پانی پینے کا واقعہ کتبِ حدیث میں سنداًومتناً صراحت کےساتھ موجودہے، لیکن اس عمل کو  عمومی اَحوال پر محمول نہیں کیا جاسکتا، دراصل  اہلِ کوفہ  کھڑے ہوکر پانی پینے کو  ناجائز  امر سمجھتے تھے،  صرف ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پانی پی کر دکھایا؛ تاکہ  ان کے دل و دماغ سے یہ خلجان دور ہوسکے۔ اور  آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس لیے تھا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ جائز ہے، عادت کے طور پر نہیں تھا۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا أبو نعيم: حدثنا مسعر، عن عبد الملك بن ميسرة عن النزال قال: أتى علي رضي الله عنه على باب الرحبة بماء فشرب قائما، فقال: إن ناسا يكره أحدهم أن يشرب و هو قائم، وإني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فعل كما رأيتموني فعلت."

(كتاب الأشربة، باب: الشرب قائما، ج:5، ص:2130، ط: دار ابن كثير)

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا بأس بالشرب قائما، ولا يشرب ماشيا ورخص للمسافرين، ولا يشرب بنفس واحد، ولا من فم السقاء والقربة؛ لأنه لا يخلو عن أن يدخل حلقه ما يضره، كذا في الغياثية."

(کتاب الکراهیة، الباب الحادي عشر فی الکراهة فی الأکل و مایتصل به، ج:5 ص:341 ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وأما المكروه كراهة تنزيه فإلى الحل أقرب اتفاقا

(قوله: فإلى الحل أقرب) بمعنى أنه لا يعاقب فاعله أصلا، لكن يثاب تاركه أدنى ثواب تلويح، وظاهره أنه ليس من الحلال، ولا يلزم من عدم الحل الحرمة ولا كراهة التحريم، لأن المكروه تنزيها كما في المنح مرجعه إلى ترك الأولى."

(کتاب الحظر و الإباحة، ج:6، ص:337 ط: دارالفکر)

مردہ مرغی سے نکلے انڈے کا حکم

 مردہ مرغی سے صحیح سالم انڈہ نکلےتواس کا کھانا درست ہے۔

مبسوط سرخسی ميں  ہے:

"لو ‌ماتت ‌دجاجة، فوجد في بطنها بيضة، فلا بأس بأكل البيضة عندنا."

(كتاب الأشربة، ج :24، ص: 28، ط: دار المعرفة)

المحیط البرھانی میں ہے:

"إذا ‌ماتت ‌دجاجة وخرج منها بيضة؛ جاز أكلها عند أبي حنيفة رضي الله عنه اشتد قشرها أو لم يشتد."

(كتاب الاستحسان والكراهية، الفصل الثاني عشر في الكراهية في الأكل، 353/5، ط: دار الكتب العلمية)