https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 31 December 2023

کفریہ کلمات

 جان بوجھ کر انکار دین کی مختلف صورتیں ہیں:

۱۔صراحۃً(واضح طور پر) انکار کرنا اور جھٹلانا۔

حقیقی انکار درجِ ذیل صورتوں میں ہوتا ہے:

الف۔رسول اللہ ﷺ کی رسالت ہی کو نہ مانے۔

ب۔آپ ﷺ کے کسی ایک بھی حکم کو صراحۃً غلط (خلافِ واقع یا خلاف حقیقت) قرار دے۔

ج۔کسی مسلمہ طور پر ثابت شدہ(اجماعی) حکم کا جان بوجھ کر انکار کرے۔

۲۔اپنے قول یا فعل سے دین کے کسی قطعی حکم(جس کا ثبوت کسی بھی درجے میں قطعی اور یقینی ہو یعنی مستحب یا سنت کے طور پر ہو یا فرض وواجب کے طور پر)کا مذاق اُڑانا،توہین و تحقیر کرنا۔

۳۔عمداً ایسا کام کرنا یا ایسی بات کہنا جو استخفاف (دین میں ثابت شدہ کسی مسلمہ امر کی تحقیر) کی واضح علامت ہو۔

۴۔اپنی مرضی واختیار سے ایسا اقدام کرناجو دین کی تکذیب (جھٹلانے) کی دلیل اور علامت ہو، مثلاً کافروں کی طرح بتوں کو سجدہ کرنا یا قرآن کو گندگی میں ڈالنا یا کافروں کے مذہبی شعار اپنانا۔

۵۔بغیر کسی جبر واکراہ کےکسی باطل فرقے کی طرف اپنی نسبت کرنا،مثلاً اپنے کوقادیانی کہنایا لکھنا،لکھوانا ۔

۶۔ضروریاتِ دین (قطعی و بدیہی احکام) میں سے کسی حکم کی ایسی تاویل کرنا جو اجماع امت کے خلاف اور کھلم کھلا بے بنیاد ہو۔

ان چھ صورتوں میں سے پہلی صورت حقیقی انکار و تکذیب کی ہے،جبکہ باقی پانچ صورتیں بھی انکار کے حکم میں ہیں، اگرچہ ان میں صاف انکار نہیں۔

قطعیات وضروریات میں تاویل وانکار کا حکم:

وضاحت: جن احکامِ شرعیہ کا انکار باعث ِ تکفیر ہے ان کی دو نوعیتیں ہیں:

1۔قطعی محض،2۔قطعی بدیہی

قطعی محض:

وہ احکامِ شرعیہ جن کا ثبوت قرآن و حدیث اور اجماعِ اُمت کے ایسے صریح واضح اور یقینی دلائل سے ہو جن میں کسی قسم کا شبہہ نہ ہو،لیکن اس قدر معروف ومشہور نہ ہوں جس سے ہر خاص و عام  واقف ہو۔

قطعی بدیہی:

وہ احکامِ شرعیہ جو مذکورہ بالا مفہوم کے مطابق قطعی ہونے کے علاوہ اس قدر معروف و مشہور ہوں کہ ہر عام و خاص اس سے واقف ہو جیسے: نماز، زکوٰۃ، اذان ، ختم نبوت وغیرہ۔

قطعی محض کا انکار اس وقت موجب ِ کفر بنتا ہے،جبکہ انکار کرنے والے کو اس کا حکم شرعی ہونا یقینی طور پر معلوم ہو(روح المعانی)اور کسی معتبرذریعے(شرعی دلیل )کے سہارےسےحاصل تاویل کے بغیر انکار کرے،(در مختار)لہذاکسی دلیل کی بنیادپرتاویل یاجہالت(ناواقفیت)غلطی اور بھول کی بناء پر انکار باعث ِ کفر نہ ہوگا،جبکہ قطعی بدیہی کا انکار بہر صورت (خواہ علم ہو نہ ہو) بالاتفاق باعث ِ کفر ہے،نیز قطعی بدیہی کی خلاف ِظاہر تاویل بھی بہر حال(خواہ بظاہرکسی دلیل کا سہارا لے یا کہ نہیں۔)باعث ِ کفر ہے جیسا کہ ختم نبوۃ کے مفہوم میں مرزاقادیانی کا تاویل کرنا۔

(مزیدتفصیل کے لیے رسالہ"ایمان اور کفر" تالیف مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ  اور رسالہ"ایمان و کفر کا معیار" تالیف مفتی رشید احمد رحمہ اللہ  ،مندرجہ احسن الفتاویٰ 1/70 ملاحظہ ہو۔)

حاصل یہ کہ کفر پورے دین اسلام کے صراحۃً انکار ہی کو نہیں کہا جاتا،بلکہ دین اسلام کے قطعی احکام میں سے کسی ایک حکم کا بھی جان بوجھ کر انکار یا استخفاف کرنا خواہ صراحۃً ہو یا دلالۃً یا کسی قطعی بدیہی حکم کی خلافِ ظاہر وبداہت تاویل کرنا یا کسی کافر فرقے کی طرف اپنا انتساب کرنا بھی کفر ہے اور اس سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔

لزومِ کفر:

لزومِ کفر یہ ہے کہ ان جانے میں ایسے قول یا فعل کا ارتکاب کیا جائے جس سے کفر لازم آئے۔

چنانچہ بعض دفعہ کفریہ کلمات کے زبان پر لانے سے بھی انسان نادانستہ طور پر شرعاً کافر قرار پاتا ہے۔

البتہ کسی کلمۂ کفر کو زبان پر لانے کی مختلف صورتیں ہیں،جن کے احکام بھی مختلف ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔حکم شرعی قطعی کا یقینی علم ہو اور عمداً (جان بوجھ کر) زبان پر کلمۂ کفر لایا جائے اور کفر کا ارادہ اور نیت بھی ہو، مثلاً جان بوجھ کر اپنے اختیار سے کلمۂ کفر کہنا۔(یہ در حقیت التزام کفر ہے۔)

۲۔حکم شرعی قطعی کا علم ہواورعمداً (جان بوجھ کر)زبان پرکلمۂ کفرلائے،اور کفر کا ارادہ نہ ہو،لیکن ساتھ ہی استخفاف کی واضح دلیل وعلامت پائی جائے،مثلاًمزاح یالہوولعب کے طورپرکلمۂ کفر کہنا،ان دونوں صورتوں میں بالاتفاق قائل کو کافر کہاجائے گا۔

۳۔نہ حکم شرعی قطعی کا علم ہو اور نہ ہی جان بوجھ کر زبان پر لایا اور نہ ہی کفر کا ارادہ ہو، مثلاً: بھول کر زبان سے کلمۂ کفر کہنا۔

۴۔علم تو تھا،لیکن نہ تو جان بوجھ کر زبان پر لایا ہو اور نہ ہی کفر کا قصد و ارادہ ہو، مثلاً: غلطی سے یا جبراً کسی کلمۂ کفر کا زبان پر لانا۔ ان دونوں صورتوں میں بالاتفاق قائل کو کافر نہیں کہا جائے گا۔

۵۔جان بوجھ کر زبان پر کلمۂ کفر لایا،لیکن کلمۂ کفر ہونے کا یا حکم ِ قطعی شرعی ہونے کا علم نہ ہو اور نہ ہی قصد اور ارادۂ کفر ہو، مثلاً: جہالت کی وجہ سے کلمۂ کفر بولنا۔

۶۔علم بھی ہواوربغیر کسی صحیح غرض ( نقل وحکایت)کےجان بوجھ کرزبان پربھی لایاہو،اور کفریہ معنی یاکافرہونے کاارادہ نہ ہویاکافرنہ ہونےکا ارادہ ہو،لیکن ساتھ ہی استخفاف کی کوئی واضح علامت بھی نہ پائی جائے۔مثلاً:صحیح اعتقاد کے باوجود،بلاضرورت جان بوجھ کر کلمۂ کفر بولنا۔

ان آخری دونوں صورتوں میں اختلاف ہے،بعض کے نزدیک قائل کو کافر کہا جائے گا اور بعض کے نزدیک کافر نہیں اور فتویٰ بھی اسی پر ہے کہ ان صورتوں میں قائل کو کافرتو نہیں کہا جائےگا، البتہ مرتکب کفر ضرور کہا جائے گا۔

لہٰذا جن صورتوں میں بالاتفاق تکفیر کی گئی ہے ان میں قائل کے لیے تجدید ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی ضروری ہے،جبکہ جن صورتوں میں تکفیر میں اختلاف ہے ان میں فقط توبہ و استغفار ضروری ہے، البتہ احتیاطاً تجدید ایمان اور نکاح بھی کر لینا چاہیے،کیا خبر کفر واقع ہونا درست ہو۔ اگر تجدید نکاح نہیں کرے گا تو احتیاط پر عمل نہ کرنے کا گناہ ہوگا،لیکن نکاح کو ختم نہیں سمجھا جائے گا۔

تنبیہ:

گزشتہ بالا تفصیل اس کلمۂ کفر کے بارے میں ہے جس کا کلمۂ کفر ہونے میں علماء کا اختلاف نہ ہو،لہٰذا اگر کسی کلمہ کے کفریہ ہونے میں اختلاف ہو یا کفریہ ہونا واضح نہ ہو بلکہ صحیح معنی اور مفہوم بھی اس کا بن سکتا ہو اور اس کا قائل کسی قسم کے کفریہ معنی و مفہوم کا ارادہ بھی نہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں اہل فتویٰ کا اتفاق ہے کہ قائل کی تکفیر نہیں کی جائے گی،البتہ ایسے الفاظ سے اجتناب کے ساتھ احتیاطا تجدید نکاح وایمان کی تلقین کی جائے گی۔

البتہ اگر قائل خود ہی کفریہ معنی کے ارادے کا اقرار کرے تو ایسی صورت میں ایسے قائل کی تکفیر میں کوئی تأمل نہ کیا جائے گا۔

مذکورہ تفصیل صرف نفس مسئلہ اور اس کی حساسیت کو سمجھانے کے لیے لکھی گئی ہے،لہذا کسی کے قول یا فعل پر اس کی تطبیق صرف ماہر ومستنداہل فتوی ہی کا کام ہے،عوام کےلیےاز خود کوئی فیصلہ کرنا درست نہیں،نیزآپ اپنے گھر والوں کی دینی حوالےسے ذہن سازی کی کوشش کریں،جس کا بنیادی وبہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں کسی مستند عالم وبزرگ کی مجلس میں باقاعدگی سے شریک کرانے کی کوشش کریں یا کم از کم تبلیغ کے عمل سے انہیں وابستہ کرانے کی کوشش کریں اور گھر میں فضائل اعمال اوردیگربزرگوں کے اصلاحی مواعظ کے کتابچوں کی تعلیم کا بھی اہتمام کریں اوردینی مسائل میں بحث ومباحثہ سے قطعی اجتناب رکھیں۔


الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 224)

(قوله والطوع) أي الاختيار احترازا عن الإكراه ودخل فيه الهازل كما مر لأنه يعد مستخفا لتعمده التلفظ به، وإن لم يقصد معناه وفي البحر عن الجامع الأصغر: إذا أطلق الرجل كلمة الكفر عمدا، لكنه لم يعتقد الكفر قال بعض أصحابنا: لا يكفر لأن الكفر يتعلق بالضمير ولم يعقد الضمير على الكفر، وقال بعضهم: يكفر وهو الصحيح عندي لأنه استخف بدينه. اهـ. ثم قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلا أو لاعبا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده كما صرح به في الخانية ومن تكلم بها مخطئا أو مكرها لا يكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدا عالما كفر عند الكل ومن تكلم بها اختيارا جاهلا بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/344)

 (الایمان) ھو تصدیق محمد صلی اﷲ علیہ وسلم فی جمیع ما جاء بہ عن اﷲ تعالیٰ مما علم مجیئہ ضرورۃً۔

والکفر لغۃ الستروشرعاً تکذیبہ صلی اﷲ علیہ وسلم فی شیء مما جاء بہ من الدین ضرورۃ۔

 و فی الشامیۃ: قلت وقد حقق فی المسایرۃ أنہ لا بد فی حقیقۃ الإیمان من عدم ما یدل علی الاستخفاف من قول أو فعل ویأتی بیانہ۔

وفیھا أیضًا: قال فی المسایرۃ واتفق القائلون بعدم اعتبار الإقرار علی أنہ یلزم المصدق أنہ یعتقد أنہ حتی طولب بہ أتی بہ فإن طولب بہ فلم یقر بہ فہو أی کفر عن الإقرار کفر عناد، وھذا ما قالوا: إن ترک العناد شرط وفسروہ بہ … اقول: الظاھر أن المراد بالاشتراط المذکور نفی اعتقاد عدمہ ای أن لا یعتقد أنہ متی طولب بہ لا یقر الخ۔

تفسير الألوسي = روح المعاني (1/ 129)

No comments:

Post a Comment