https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 1 January 2024

اشاعرہ اور ماتریدیہ میں اختلاف

  اشاعرہ اور ماتریدیہ علم کلام کے دومکتب فکر کے نام ہیں اور یہ دونوں جماعتیں اہل حق میں سے ہیں، اور اس کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ اشعریہ وہ حضرات ہیں کہ جو شیخ ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ (۲۶۰--۳۲۴ھ) کی پیروی کرتے ہیں، امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ چوکہ شافعی تھے اس لیے یہ مکتب فکر شوافع میں مقبول ہوا، یعنی حضرات شوافع عام طور پر کلامی مسائل میں اشعری ہوتے ہیں۔ (۲) ماتریدیہ وہ حضرات ہیں کہ جو شیخ ابومنصور ماتریدی رحمہ اللہ (متوفی ۳۳۳ھ) کی پیروی کرتے ہیں، امام ماتریدی چونکہ حنفی تھے اس لیے یہ مکتب فکر احناف میں مقبول ہوا، احناف عام طور پر کلامی مسائل میں ماتریدی ہوتے ہیں، اشعریہ اور ماتریدیہ کے درمیان بارہ مسائل میں ا ختلاف ہے جو سب فروعی (غیراہم) مسائل ہیں، بنیادی کسی مسئلہ میں اختلاف نہیں ہے، ان بارہ مسائل کو علامہ احمد بن سلیمان المعروف ب ”ابن کمال پاشا“ رحمہ اللہ نے ایک رسالہ میں جمع کردیا ہے، یہ رسالہ مطبوعہ ہے۔ مثلا اشاعرہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی ذاتی اور ازلی صفات سات ہیں یعنی حیات، علم، قدرت، ارادہ، کلام، سمع، بصر جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک یہ آٹھ ہیں۔ اور ماتریدیہ نے تکوین کو بھی ذاتی اور ازلی صفات میں شمار کیا ہے جبکہ اشاعرہ کے نزدیک تکوین صفات فعلیہ میں سے ہے اور ان کے نزدیک صفات فعلیہ کل کی کل حوادث میں سے ہیں۔ ان صفات کو صفات معانی بھی کہا جاتا ہے۔

دوسرا بڑا فرق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اشاعرہ کے نزدیک کسی فعل کا حسن وقبح شرعی ہے جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک عقلی ہے۔ اشاعرہ یہ کہتے ہیں کہ کوئی کام اچھا اس لیے ہے کہ شرع نے اسے اچھا کہا ہے اور برا اس لیے ہے کہ شرع نے اسے برا کہا ہے یعنی خیر وشر میں خیر کا خیر ہونا اور شر کا شر ہونا شرع سے معلوم ہوا ہے۔ اس کے برعکس ماتریدیہ کا کہنا یہ ہے کہ خیر کا خیر ہونا اور شر کا شر ہونا عقلی بھی ہے البتہ ہم اس خیر کے اختیار کرنے اور شر سے بچنے کے مکلف شرع کے حکم سے بنتے ہیں۔
صفت کلام میں ان کا معروف اختلاف یہ ہے کہ اشاعرہ کے نزدیک جب قاری صاحب قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو جو ہم قاری صاحب سے سنتے ہیں، وہ کلام الہی ہے یعنی صفت باری تعالی ہے جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک جو ہم قاری صاحب سے سنتے ہیں، وہ کلام الہی نہیں ہے بلکہ اس پر دلالت کرنے والی عبارت ہے۔ پس ماتریدیہ کے نزدیک مخلوق کے لیے کلام الہی کو سننا ممکن نہیں ہے یا دوسرے الفاظ میں مسموع، کلام الہی نہیں ہوتا بلکہ اس پر دال ہوتا ہے۔
اسی طرح اشاعرہ کے نزدیک تکلیف ما لا یطاق یعنی اللہ عزوجل کا مخلوق کو ایسی چیز کا مکلف بنانا کہ جس کی وہ طاقت نہ رکھتے ہوں، جائز ہے جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک تکلیف ما لا یطاق جائز نہیں ہے۔ اور تحمیل ما لا یطاق دونوں کے نزدیک جائز ہے۔ اسی طرح ماتریدیہ کے نزدیک نبی کے لیے مرد ہونا شرط ہے جبکہ اشاعرہ کے نزدیک مرد ہونا شرط نہیں ہے۔
اسی طرح ماتریدیہ کے نزدیک اسم اور مسمی، یعنی جس کا اسم ہے، ایک ہی شیء ہیں جبکہ اشاعرہ دونوں میں فرق کے قائل ہیں۔ ماتریدیہ کے نزدیک اہل ایمان کا ہمیشہ جہنم میں رہنا اور کافروں کا ہمیشہ جنت میں رہنا نقلا اور عقلا ممکن نہیں ہے جبکہ اشاعرہ کے نزدیک یہ ممکن ہے۔ ماتریدیہ کے نزدیک کفر کا گناہ معاف نہیں ہو سکتا جبکہ اشاعرہ کے بزدیک عقلا معاف ہو سکتا ہے۔ ماتریدیہ کے نزدیک اللہ کی رضا اور محبت، اس کے ارادے کی طرح، معاصی کو شامل 
نہیں ہے جبکہ اشاعرہ کے نزدیک شامل ہے۔



No comments:

Post a Comment