https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 26 February 2024

نجاست غلیظہ و خفیفہ کی وہ مقدار جو معاف

 بدن یاکپڑےپر لگنے والی نجاست غلیظہ ہواور نجاست غلیظہ پتلی اور بہنے والی نجاست ہو، جیسے: آدمی کا پیشاب وغیرہ،تو ایسی صورتِ میں پھیلاؤ کا اعتبار ہے، لہذا اگر پھیلاؤ میں ہتھیلی کی گہرائی کے برابر ہے،اوروہ ایک درہم کی مقدار  (یعنی ہاتھ کی ہتھیلی کے گڑھے) سے کم یا ایک درہم کے برابر  ہو تو اگرچہ اس مقدارمیں بھی نجاست کو دھولینا چاہیے، تاہم  اگرکسی کےجسم پراس سےزیادہ ناپاکی لگی ہواوراسےعلم ہوتوناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے،لیکن اگراسےناپاکی کاعلم نہ تھااورنماز پڑھ لی توبلاکراہت نماز درست ہوگی،اوراگرایک درہم کی مقدار سے زائد ہوتو   نماز نہیں ہوگی،اگر نجاست غلیظہ گاڑھی ہے، جیسے: پاخانہ وغیرہ تو وزن کا اعتبار ہوگا، لہذا اگر وزن میں ساڑھے چار ماشہ یا اس سے کم ہو، تو معاف ہے، اگر اس مقدار سے زائد ہو، تو معاف نہیں ہے  اور اگربدن یاکپڑےپرلگنےوالی نجاست ِ خفیفہ ہو،جیسے:حرام پرندوں کی بیٹ وغیرہ،تو  بدن یاکپڑےکےجس حصے میں لگی ہو اگر اس حصے کے چوتھائی  سے کم ہو تو معاف ہے،یعنی لاعلمی میں نماز پڑھنے کی صورت میں نماز ہوجاۓ گی، ورنہ جان بوجھ کر پڑھنا مکروہ ہےاور اگر  چوتھائی یا اس سے زیادہ ہو تو معاف نہیں ، نماز توڑ کر نجاست کودھو کرنمازادا کرناواجب ہے،اور اگر اسی طرح نماز پڑھ لی تو  نماز واجب الاعادہ  ہوگی۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وهي نوعان (الأول) المغلظة وعفي منها قدر الدرهم واختلفت الروايات فيه والصحيح أن يعتبر بالوزن في النجاسة المتجسدة وهو أن يكون وزنه قدر الدرهم الكبير المثقال وبالمساحة في غيرها وهو قدر عرض الكف . هكذا في التبيين والكافي وأكثر الفتاوى والمثقال وزنه عشرون قيراطا وعن شمس الأئمة يعتبر في كل زمان بدرهمه والصحيح الأول. هكذا في السراج الوهاج ناقلا."

(كتاب الطهارة، الفصل الثاني في الأعيان النجسة، ج:1، ص:45، ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وعفا) الشارع (عن قدر درهم) وإن كره تحريما فيجب غسله وما دونه تنزيها فيسن وفوقه مبطل (وهو مثقال) عشرون قيراطا (في) نجس (كثيف) له جرم (وعرض مقعر الكف) وهو داخل مفاصل أصابع اليد (في رقيق من مغلظة كعذرة) آدمي وكذا كل ما خرج منه موجبا لوضوء أو غسل مغلظ."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1، ص:316، ط:سعید

No comments:

Post a Comment