https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 18 July 2021

کن موذی جانوروں کامارناجائزہے

 احادیثِ مبارکہ میں جن موذی جانوروں کو قتل کرنے کی صراحت کے ساتھ اجازت ہے وہ یہ ہیں:

1:چھپکلی ،    2:چوہا ،    3:بچھو ،    4:سانپ ،     5:چیل ،     6:کوا ،     7:کتا۔

ان کے علاوہ فقہاءِ کرام رحمہم اللہ نے علتِ ایذاء کی وجہ سے بعض دیگر جانوروں اور حشرات الارض کو بھی اسی حکم میں داخل کیا ہے۔

فقہاء کرام کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ جو جانور طبعی طور پر موذی ہوں اور تکلیف پہنچانے میں عموماً ابتدا کرتے ہوں، انہیں قتل کرنا ہر حال میں جائز ہے، حتیٰ کہ حالتِ احرام میں بھی انہیں قتل کرنے سے محرم پر کوئی دم وغیرہ نہیں آتا، جیسے: شیر، بھیڑیا، تیندوا، چیتا، وغیرہ۔ اور جو جانور تکلیف پہنچانے میں ابتدا نہیں کرتے، جیسے: گوہ، لومڑی، وغیرہ، وہ جب کسی پر حملہ کریں تو ان کی ایذا  سے بچنے کے لیے انہیں قتل کرنا جائز ہے۔

لیکن موذی جانوروں کو قتل کرنے میں بھی ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ انہیں تکلیف کم سے کم ہو، مثلاً: گولی وغیرہ سے قتل کرنا یا تیز چھری سے ذبح کرنا۔ باقی انہیں جلانے، ان پر گرم پانی ڈالنے، یا ان کے اعضاء کاٹ کر تکلیف دے کرمارنے یا ضرورت سے زائد تکلیف دے کر مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر موذی جانوروں سے کسی اور طریقہ سے چھٹکارا ممکن نہ ہو یا مشکل ہو تو انہیں جلانے یا گرم پانی ڈالنے کی گنجائش ہوگی، لیکن شدید ضرورت کے بغیر ایسا کرنا درست نہیں ہے۔

صحیح مسلم (ج:4، ص:1758، ط: دار إحياء التراث العربي):

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: «من قتل وزغةً في أول ضربة فله كذا و كذا حسنة، و من قتلها في الضربة الثانية فله كذا و كذا حسنة، لدون الأولى، و إن قتلها في الضربة الثالثة فله كذا و كذا حسنة، لدون الثانية».‘‘

’’ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے پہلے وار میں چھپکلی کو قتل کیا اس کو اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی، اور جس نے دوسرے وار میں اسے قتل کیا اسے پہلی مرتبہ مارنے سے کم اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی، اور جس نے تیسرے وار میں اسے قتل کیا تو اسے دوسری مرتبہ مارنے سے کم اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی۔‘‘

صحيح البخاري (ج:4، ص:129، ط: دار طوق النجاة):

’’عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه و سلم، قال: «خمس فواسق، يقتلن في الحرم: الفأرة، و العقرب، و الحديا، و الغراب، و الكلب العقور».‘‘

’’ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پانچ موذی جانور ایسے ہیں جنہیں حرم میں بھی قتل کیا جائے گا: چوہا، بچھو، چیل، کوا اور کاٹنے والا کتا۔‘‘

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (ج:10، ص:179، 182، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت):

’’ذكر ما يستفاد منه: و هو على وجوه: الأول: أنه يستفاد من الحديث جواز قتل هذه الخمسة من الدواب للمحرم، فإذا أبيح للمحرم فللحلال بالطريق الأولى ...

قلت: أصحابنا اقتصروا على الخمس إلا أنهم ألحقوا بها: الحية لثبوت الخبر، و الذئب لمشاركته للكلب في الكلبية، و ألحقوا بذلك ما ابتدأ بالعدوان و الأذى من غيرها، و قال بعضهم، و تعقب بظهور المعنى في الخمس و هو: الأذى الطبيعي و العدوان المركب، و المعنى إذا ظهر في المنصوص عليه تعدى الحكم إلى كل ما وجد فيه ذلك المعنى. انتهى. قلت: نص النبي صلى الله عليه و سلم على قتل خمس من الدواب في الحرم و الإحرام، و بين الخمس ما هن، فدل هذا أن حكم غير هذا الخمس غير حكم الخمس، و إلا لم يكن للتنصيص على الخمس فائدة. و قال عياض: ظاهر قول الجمهور أن المراد أعيان ما سمى في هذا الحديث، و هو ظاهر قول مالك و أبي حنيفة، و لهذا قال مالك: لا يقتل المحرم الوزغ، و إن قتله فداه، و لايقتل خنزيرا و لا قردا مما لا ينطلق عليه اسم الكلب في اللغة إذ فيه جعل الكلب صفة لا إسما، و هو قول كافة العلماء، و إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (خمس) فليس لأحد أن يجعلهن ستا و لا سبعا، و أما قتل الذئب فلا يحتاج فيه أن نقول: إنه يقتل لمشاركته للكلب في الكلبية، بل نقول: يجوز قتله بالنص، و هو ما رواه الدارقطني عن نافع، قال: سمعت ابن عمر يقول: أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم بقتل الذئب و الفأرة. قال يزيد بن هارون، يعني: المحرم. و قال البيهقي: و قد روينا ذكر الذئب من حديث ابن المسيب مرسلا جيدا، كأنه يريد قول ابن أبي شيبة: حدثنا يحيى بن سعيد عن ابن عمر عن حرملة عن سعيد حدثنا وكيع عن سفيان عن ابن حرملة عن سعيد به، قال: و حدثنا وكيع عن سفيان عن سالم عن سعيد عن وبرة عن ابن عمر: يقتل المحرم الذئب، و عن قبيصة: يقتل الذئب في الحرم، و قال الحسن وعطاء: يقتل المحرم الذئب و الحية، و أما إذا عدا على المحرم حيوان، أي حيوان كان، و صال عليه فإنه يقتله، لأن حكمه حينئذ يصير كحكم الكلب العقور.‘‘

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (ج:12، ص:34، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت):

’’هذا باب في بيان قتل الخنزير: هل هو مشروع كما شرع تحريم أكله؟ أي: مشروع؟ و الجمهور على جواز قتله مطلقا إلا ما روي شاذا من بعض الشافعية أنه يترك الخنزير إذا لم يكن فيه ضراوة، و قال ابن التين: و مذهب الجمهور أنه إذا وجد الخنزير في دار الكفر و غيرها و تمكنا من قتله قتلناه. قلت: ينبغي أن يستثنى خنزير أهل الذمة لأنه مال عندهم، و نحن نهينا عن التعرض إلى أموالهم.‘‘

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:2، ص:197، ط: دار الكتب العلمية):

’’و أما غير المأكول فنوعان: نوع يكون مؤذيا طبعا مبتدئا بالأذى غالبا، و نوع لايبتدئ بالأذى غالبا، أما الذي يبتدئ بالأذى غالبا فللمحرم أن يقتله و لا شيء عليه، و ذلك نحو: الأسد، و الذئب، و النمر، و الفهد؛ لأن دفع الأذى من غير سبب موجب للأذى واجب فضلا عن الإباحة، و لهذا أباح رسول الله صلى الله عليه و سلم قتل الخمس الفواسق للمحرم في الحل و الحرم بقوله صلى الله عليه وسلم: «خمس من الفواسق يقتلهن المحرم في الحل و الحرم: الحية، و العقرب، و الفأرة و الكلب العقور، و الغراب و روي و الحدأة» و روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: «خمس يقتلهن المحل و المحرم في الحل و الحرم: الحدأة، و الغراب، و العقرب، و الفأرة و الكلب العقور» .

و روي عن عائشة - رضي الله عنها - قالت: «أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل خمس فواسق في الحل و الحرم: الحدأة، و الفأرة، و الغراب، و العقرب، و الكلب العقور» و علة الإباحة فيها هي الابتداء بالأذى و العدو على الناس غالبا فإن من عادة الحدأة أن تغير على اللحم و الكرش، و العقرب تقصد من تلدغه و تتبع حسه و كذا الحية، و الغراب يقع على دبر البعير و صاحبه قريب منه، و الفأرة تسرق أموال الناس، و الكلب العقور من شأنه العدو على الناس و عقرهم ابتداء من حيث الغالب، و لا يكاد يهرب من بني آدم، و هذا المعنى موجود في الأسد، و الذئب و الفهد، و النمر فكان ورود النص في تلك الأشياء ورودا في هذه دلالة قال أبو يوسف: "الغراب المذكور في الحديث هو الغراب الذي يأكل الجيف، أو يخلط مع الجيف إذ هذا النوع هو الذي يبتدئ بالأذى" و العقعق ليس في معناه؛ لأنه لا يأكل الجيف و لا يبتدئ بالأذى.

و أما الذي لا يبتدئ بالأذى غالبا كالضبع، و الثعلب و غيرهما فله أن يقتله إن عدا عليه و لا شيء عليه إذا قتله، و هذا قول أصحابنا الثلاثة و قال زفر: "يلزمه الجزاء"، وجه قوله: أن المحرم للقتل قائم و هو الإحرام فلو سقطت الحرمة إنما تسقط بفعله.‘‘

المبسوط للسرخسي (ج:4، ص:90، ط: دار المعرفة - بيروت):

’’(قال) محرم قتل سبعا فإن كان السبع هو الذي ابتدأه فآذاه فلا شيء عليه، و الحاصل أن نقول ما استثناه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من المؤذيات بقوله «خمس من الفواسق يقتلن في الحل و الحرم» ، و في حديث آخر «يقتل المحرم الحية، و الفأرة، و العقرب، و الحدأة، و الكلب العقور» فلا شيء على المحرم، و لا على الحلال في الحرم بقتل هذه الخمس لأن قتل هذه الأشياء مباح مطلقا، و هذا البيان من رسول الله صلى الله عليه وسلم كالملحق بنص القرآن فلا يكون موجبا للجزاء، و المراد من الكلب العقور الذئب فأما سوى الخمس من السباع التي لا يؤكل لحمها إذا قتل المحرم منها شيئا ابتداء فعليه جزاؤه عندنا، و قال الشافعي - رحمه الله تعالى - لا شيء عليه لأن النبي - صلى الله عليه و سلم - إنما استثنى الخمس لأن من طبعها الأذى فكل ما يكون من طبعه الأذى فهو بمنزلة الخمس مستثنى من نص التحريم فصار كأن الله تعالى قال لا تقتلوا من الصيود غير المؤذي.‘‘

الفتاوی الهندیة (ج:5، ص:361، ط: دار الفکر):

’’الهرة إذا كانت مؤذيةً لا تضرب و لا تعرك أذنها، بل تذبح بسكين حادٍّ، كذا في الوجيز للكردري. ‘‘

العرف الشذي للكشميري (ج:3 ص:180):
’’و الإحراق عن الصحابة أيضاً، و في الدر المختار، ص:334 : جواز إحراق اللوطي، و روي عن أحمد بن حنبل جواز إحراق الحيوانات المؤذية من القمل و الزنابير و غيرها و به أخذ عنه عدم البدّ منه.‘‘

عشرۂ ذی الحجہ میں بال ناخن نہ کا ٹنے میں حکمتیں

 ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ آپ  ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’جب ذوالحجہ کاپہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کسی کا قربانی دینے کا  ارادہ ہو تو وہ بال، ناخن یا کھال کا کچھ حصہ نہ کاٹے ، جب تک قر بانی نہ دے دے. ‘‘   ایک روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ ذو الحجہ کا چاند طلوع ہوتے ہی ان چیزوں سے رک جائے۔

اس حدیث کی روشنی میں فقہاءِ کرام نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے کہ جس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے اس کے لیے مستحب ہے کہ ماہِ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی کا جانور ذبح نہ کرے جسم کے کسی عضو سے بال اور ناخن صاف نہ کرے ، نیز بلاضرورت کھال وغیرہ بھی نہ کاٹے،   اور یہ استحباب صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کا ارادہ قربانی کرنے کا ہو۔

البتہ  بعض اکابر فرماتے  ہیں کہ قربانی نہ کرنے والے بھی قربانی کرنے والوں کی مشابہت اختیار کرکے  عام لوگوں کی قربانی کے بعد ناخن اور بال وغیرہ کاٹیں تو اللہ سے امید ہے کہ وہ بھی ثواب سے محرو م نہیں ہوں گے۔ نیز  اس میں یہ ملحوظ رہے کہ اگر زیر ناف بال اور ناخنوں کو چالیس دن یا زیادہ ہورہے ہوں تو  ایسی صورت میں ان کی صفائی کرنا ضروری ہے۔

مذکورہ حکم کی حکمتیں:

اور اس کی دو حکمتیں علماء ومحققین سے منقول ہیں:

1۔ پہلی حکمت:

بعض علماء نے اس کی حکمت یہ ذکر کی ہے کہ اس کی ممانعت حجاجِ بیت اللہ سے مشابہت کے لیے ہے کہ ان کے لیے حج کے ایام میں بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا منع ہوتا ہے، لہٰذا جو لوگ حج پر نہ جاسکے اور قربانی کررہے ہوں تو وہ بھی حجاج کرام کی کچھ مشابہت اختیار کرلیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس رحمت کا کچھ حصہ انہیں بھی عطا فرمادیں گے جو حجاج بیت اللہ پر نازل ہوتی ہیں۔ اور انہی کے ضمن میں قربانی نہ کرنے والے بھی مشابہت اختیار کرلیں تو وہ بھی رحمت کے حق دار بن جائیں۔

یہ توجیہ ہمارے بعض اکابر علماء سے منقول ہے، خصوصاً جو بیت اللہ اور شعائرِ حج کا عاشقانہ ذوق رکھتے ہیں، اور یہ توجیہ اپنی جگہ درست بھی ہے۔ لیکن محققین علماء کرام اور شراح حدیث نے اس  توجیہ پر کلام کیاہے، اس لیے کہ اگر مقصود حجاج کی مشابہت ہو تو حجاج کرام کے لیے تو سلا ہوا لباس اور خوشبو کا استعمال وغیرہ بھی ممنوع ہے، اگر مشابہت مقصود ہوتی تو تمام احکام میں ہوتی۔ اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ مشابہت کے لیے تمام امور میں مشابہت ضروری نہیں ہوتی، رحمتِ خداوندی متوجہ کرنے کے لیے ادنیٰ مناسبت بھی کافی ہے۔ لیکن اس پر پھر سوال ہوتا ہے کہ اگر بعض امور میں ہی مشابہت کافی تھی تو  بھی بال، ناخن اور جسم کی کھال وغیرہ کاٹنے کی ممانعت میں ہی کیوں مشابہت اختیار کی گئی؟ احرام کی چادروں اور خوشبو کی پابندی میں بھی مشابہت ہوسکتی تھی! اس لیے مذکورہ حکم کی ایک اور حکمت بیان کی گئی ہے، جو تحقیق کے زیادہ قریب اور راجح ہے، وہ درج ذیل ہے:

2۔ دوسری حکمت:

اس حکمت کو سمجھنے سے پہلے قربانی کی حقیقت اور فلسفہ سمجھنا ضروری ہے۔

قربانی کا فلسفہ:

درحقیقت قربانی تو جان کی قربانی ہی تھی، جیساکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے معلوم ہوتاہے، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی فرمایاہے کہ اصل قربانی تو جان نثاری اور جان سپاری کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے یہ قربانی جان سے ٹال کر مال کی طرف منتقل کی۔ پھر یہ بھی ہوسکتا تھا کہ مالی قربانی صدقے کی صورت میں مقرر کردی جاتی، لیکن اس طرح انسان کو اپنی جانی قربانی کی طرف توجہ اور اس کا استحضار نہ ہوتا۔ اس غرض کے لیے ایسی مالی قربانی مقرر کی گئی جس میں جانور قربان کیا جائے، تاکہ مالی قربانی میں بھی جانی  قربانی کی مشابہت موجود ہو، اور معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی بوقتِ قربانی یہ سوچے کہ اس بے زبان جاندار کو میں کس لیے قربانی کررہاہوں؟ اس کا خون کیوں بہا رہاہوں؟ جب یہ احساس اس کے اندر پیدا ہوگا تو اسے استحضار ہوگا کہ درحقیقت یہ میرے نفس اور میری جان کی قربانی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے میرے مال کی صورت قبول کرلیا، یوں اسے مقصدِ اصلی بھی یاد رہے گا اور نفس کی قربانی کے لیے یہ محرک بھی ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شکر گزاری کا جذبہ بھی بڑھے گا۔

یکم ذی الحجہ سے بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کی راجح حکمت:

اب جب کہ قربانی کا مقصد معلوم اور مستحضر ہوگا تو گویا قربانی کرنے والے نے اپنے آپ کو  گناہوں کی وجہ سے عذاب  کا مستحق سمجھا کہ میں اس قابل ہوں کہ ہلاک ہوجاؤں اور میری جان خدا کے لیے قربان ہوجائے، لیکن شریعت نے جان کے فدیہ میں  جانور کی قربانی مقرر کردی، سو یہ جانور انسان کی نیابت میں قربان ہورہاہے، تو  قربانی کے جانور کا ہر جزو قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے ۔ لہٰذا جس وقت جانور قربانی کے لیے خریدا جائے یا قربانی کے لیے خاص کیا جائے اس وقت انسانی جسم جس حالت میں ہو، مختص کردہ جانور اس انسانی جسم کے قائم مقام ہوجائے گا، اور جانور قربانی کے لیے خاص کرنے کے بعد جسم کا کوئی جز (نال، ناخن، کھال وغیرہ) کاٹ کر کم کردیا گیا تو گویا مکمل انسانی جسم کے مقابلے میں جانور کی قربانی نہیں ہوگی، جب کہ جانور انسانی جان کا فدیہ قرار پاچکاتھا۔ لہٰذا مناسب معلوم ہواکہ قربانی اور نزولِ رحمت کے وقت انسانی جسم کا کوئی عضو و جزو  کم ہو کر اللہ تعالیٰ کی  رحمت  اور فیضان الٰہی کی برکات سے محروم نہ رہے،تاکہ اس کو مکمل فضیلت حاصل ہو  اور وہ مکمل طور پر گناہوں سے پاک ہو ،  اس لیے آں حضرتﷺنے مذکور حکم دیا ہے ۔

یکم ذی الحجہ مقرر کرنے کی وجہ:

اس کے لیے قریب ترین کسی زمانے کی تعیین کی ضرورت تھی، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ ہر شخص جب اپنا جانور خریدے یا قربانی کے لیے خاص کرے اسی وقت سے اسے ناخن یا بال کاٹنا منع ہو۔ لیکن دینِ اسلام نے زندگی کے ہرمعاملے میں نظم وضبط اور نظام پر زور دیاہے، دین کی عبادات سے لے کر انفرادی اور اجتماعی احکام کو دیکھ لیاجائے، غور کرنے پر ہر حکم میں نظم واضح نظر آئے گا۔ لہٰذا نظام کا تقاضا تھا کہ قربانی کرنے والے تمام مسلمانوں کے لیے ایک وقت مقرر کرکے نظم قائم کردیا جائے ، اس کے لیے ایک قریب ترین مدت مقرر کی گئی۔

پھر یہ بھی ہوسکتاتھا کہ عیدالاضحی سے ایک آدھ دن پہلے وقت مقرر کردیاجاتا، لیکن اس کے لیے ذی الحجہ کا چاند مقرر کیا گیا، اس لیے کہ قربانی کی عبادت کا تعلق عید الاضحٰی اور حج کی عبادت سے ہے، جیساکہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد عیدالفطر ہے، اور اسلام نے شرعی احکام کو اوقات کے ساتھ جوڑا ہے، اور ان کا مدار قمری مہینے اور تاریخ پر رکھاہے، چناں چہ رمضان المبارک چاند دیکھ کر شروع اور چاند دیکھ کر ختم ہوتاہے، ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی حج کی تیاری تقریباً اختتام کو پہنچتی ہے، اور ذی الحجہ کے چاند سے عیدالاضحیٰ کا دن اور صحیح وقت متعین ہوتاہے، لہٰذا قربانی کی تعیین میں بھی ذی الحجہ کے چاند کو دخل ہوا۔ نیزضمنی طور پر اس بات کی ترغیب بھی دے دی گئی کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قربانی کا جانور کچھ ایام پہلے لے کر پالیں، تاکہ ان سے انسیت قائم ہونے کے بعد قربانی کرنے سے نفس کی قربانی اور جان نثاری کے جذبات مزید ترقی پائیں۔ اسی طرح جانور جلدی لے کر، اس کی خدمت کرنے، اور بال، ناخن وغیرہ نہ کاٹنے سے جو میل کچیل کی کیفیت ہوگی تو اس سے انسان کو اپنی حقیقت کی طرف بھی دھیان ہو اور تواضع وعاجزی کی ترقی بھی بنے۔

 صحيح مسلم (3/ 1565)

'سمع سعيد بن المسيب، يحدث عن أم سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا دخلت العشر، وأراد أحدكم أن يضحي، فلا يمس من شعره وبشره شيئاً»۔'

سنن النسائي (7/ 211)
'عن أم سلمة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من رأى هلال ذي الحجة، فأراد أن يضحي، فلا يأخذ من شعره، ولا من أظفاره حتى يضحي»۔'
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3/ 1081)
 ' قال التوربشتي: ذهب بعضهم إلى أن النهي عنهما للتشبه بحجاج بيت الله الحرام المحرمين، والأولى أن يقال: المضحي يرى نفسه مستوجبةً للعقاب وهو القتل، ولم يؤذن فيه، ففداها بالأضحية، وصار كل جزء منها فداءً كل جزء منه، فلذلك نهي عن مس الشعر والبشر ؛ لئلا يفقد من ذلك قسط ما عند تنزل الرحمة، وفيضان النور الإلهي، ليتم له الفضائل، ويتنزه عن النقائص. قال ابن حجر: ومن زعم أن المعنى هنا التشبه بالحجاج غلطوه بأنه يلزم عليه طلب الإمساك عن نحو الطيب ولا قائل به اهـ.وهو غلط فاحش من قائله ؛ لأن التشبه لا يلزم من جميع الوجوه، وقد وجه توجيهاً حسناً قي خصوص اجتناب قطع الشعر أو الظفر

قربانی کا طریقہ

 1۔ذبح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جانور کو قبلہ رو لٹانے کے بعد ’’بسم اللہ، و اللہ اکبر‘‘  کہتے ہوئے تیز دھار چھرے سے جانور کے حلق اور لبہ کے درمیان ذبح کیا جائے، اور گردن کو پورا کاٹ کر الگ نہ کیا جائے، نہ ہی حرام مغز تک کاٹا جائے، بلکہ ’’حلقوم‘‘  اور ’’مری‘‘  یعنی سانس کی نالی اور اس کے اطراف  کی خون کی رگیں جنہیں ’’اَوداج‘‘  کہا جاتا ہے کاٹ دی جائیں، اس طرح جانور کو شدید تکلیف بھی نہیں ہوتی اور سارا نجس خون بھی نکل جاتا ہے، اس طریقہ کے علاوہ باقی تمام طریقوں میں نہ ہی پورا خون نکلتا ہے اور جانور کو بلا ضرورت شدید تکلیف بھی ہوتی ہے۔

جانور کو قبلہ رخ لٹاتے ہوئے جانور کی بائیں کروٹ پر لٹانا پسندیدہ ہے، (یعنی ہمارے ملک میں جانور کی سر والی طرف جنوب میں اور دم والی جانب شمال میں ہو)، تاکہ دائیں ہاتھ سے چھری چلانے میں سہولت رہے۔ 

"عن أنس، قال: «ضحى النبي صلى الله عليه وسلم بكبشين أملحين أقرنين، ذبحهما بيده، وسمى وكبر، ووضع رجله على صفاحهما»".( صحيح مسلم:3/ 1556)

ترجمہ: حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھوں کی قربانی کی، آپ ﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ،اور ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ ، اللہ اکبر‘‘  پڑھا ،اور ان کے پہلو پر اپنا قدم مبارک رکھا ۔

’’عن عائشة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد، ويبرك في سواد، وينظر في سواد، فأتي به ليضحي به، فقال لها: «يا عائشة، هلمي المدية»، ثم قال: «اشحذيها بحجر»، ففعلت: ثم أخذها، وأخذ الكبش فأضجعه، ثم ذبحه، ثم قال: «باسم الله، اللهم تقبل من محمد، وآل محمد، ومن أمة محمد، ثم ضحى به»‘‘. ( صحيح مسلم:3/ 1557)

ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلتا ہو، سیاہی میں بیٹھتا ہو اور سیاہی میں دیکھتا ہو (یعنی پاؤں، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں)۔ پھر ایک ایسا مینڈھا قربانی کے لیے لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! چھری لاؤ۔ پھر فرمایا کہ اس کو پتھر سے تیز کر و ، تو میں نے تیز کرکے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا، پھر ذبح کرتے وقت فرمایا کہ ’’بسم اللہ‘‘، اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آل کی طرف سے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی امت کی طرف سے اس کو قبول کر، پھر اس کی قربانی کی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أَمَّا الِاخْتِيَارِيَّةُ، فَرُكْنُهَا الذَّبْحُ فِيمَا يُذْبَحُ مِنْ الشَّاةِ وَالْبَقَرِ، وَالنَّحْرُ فِيمَا يُنْحَرُ وَهُوَ الْإِبِلُ عِنْدَ الْقُدْرَةِ عَلَى الذَّبْحِ وَالنَّحْرِ، وَلَايَحِلُّ بِدُونِ الذَّبْحِ أَوِالنَّحْرِ، وَالذَّبْحِ هُوَ فَرْيُ الْأَوْدَاجِ وَمَحَلُّهُ مَا بَيْنَ اللَّبَّةِ وَاللَّحْيَيْنِ، وَالنَّحْرُ فَرْيُ الْأَوْدَاجِ وَمَحَلُّهُ آخِرُ الْحَلْقِ، وَلَوْ نَحَرَ مَا يُذْبَحُ أَوْ ذَبَحَ مَا يُنْحَرُ يَحِلُّ لِوُجُودِ فَرْيِ الْأَوْدَاجِ لَكِنَّهُ يُكْرَهُ لِأَنَّ السُّنَّةَ فِي الْإِبِلِ النَّحْرُ وَفِي غَيْرِهَا الذَّبْحُ، كَذَا فِي الْبَدَائِعِ ... وَالْعُرُوقُ الَّتِي تُقْطَعُ فِي الذَّكَاةِ أَرْبَعَةٌ: الْحُلْقُومُ وَهُوَ مَجْرَى النَّفَسِ، وَالْمَرِيءُ وَهُوَ مَجْرَى الطَّعَامِ، وَالْوَدَجَانِ وَهُمَا عِرْقَانِ فِي جَانِبَيْ الرَّقَبَةِ يَجْرِي فِيهَا الدَّمُ، فَإِنْ قُطِعَ كُلُّ الْأَرْبَعَةِ حَلَّتْ الذَّبِيحَةُ، وَإِنْ قُطِعَ أَكْثَرُهَا فَكَذَلِكَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -، وَقَالَا: لَا بُدَّ مِنْ قَطْعِ الْحُلْقُومِ وَالْمَرِيءِ وَأَحَدِ الْوَدَجَيْنِ، وَالصَّحِيحُ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - لِمَا أَنَّ لِلْأَكْثَرِ حُكْمَ الْكُلِّ، كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ". (كِتَابُ الذَّبَائِحِ وَفِيهِ ثَلَاثَةُ أَبْوَابٍ، الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي رُكْنِهِ وَشَرَائِطِهِ وَحُكْمِهِ وَأَنْوَاعِهِ، ٥ / ٢٨٥ - ٢٨٧)

2۔ جب قربانی کا جانور قبلہ رخ لٹائے تو پہلے درج ذیل  آیت پڑھنا بہتر ہے:

"إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ".

اور ذبح کرنے سے پہلے درج ذیل دعا اگر یاد ہو تو پڑھ لے:

"اللّٰهُم َّمِنْكَ وَ لَكَ" پھر ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘  کہہ  کر ذبح کرے ، اور ذبح کرنے کے بعد اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو پڑھ لے:

"اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْهُ مِنِّيْ كَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِيْبِكَ مُحَمَّدٍ وَ خَلِيْلِكَ إبْرَاهِيْمَ عليهما السلام". 

اگر کسی اور کی طرف سے ذبح کر رہا ہو تو "مِنِّيْ" کی جگہ " مِنْ "  کے بعد اس شخص کا نام لے لے

قربانی کس پر واجب ہے

 قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

قربانی  واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال ، رقم یا ضرورت سے  زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے  اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی  واجب ہے۔

ضرورتِ اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو جان اور آبرو سے متعلق ہو یعنی اس کے پورا نہ ہونے سے  جان یا عزت وآبرو جانے کا اندیشہ ہو، مثلاً: کھانا ، پینا، پہننے کے کپڑے، رہنے کا مکان، اہلِ صنعت وحرفت کے لیے ان کے پیشہ کے اوزار ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں۔

اور ضرورت سے زائد سامان سے مراد یہ ہے کہ وہ چیزیں انسان کی استعمال میں نہ ہوں، اور  ہر  انسان کی ضروریات اور حاجات عموماً دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں ، اور راجح قول کے مطابق ضروریات کو پوری کرنے کے لیے  اشیاء کو جائز طریقہ سے اپنی ملکیت میں رکھنے کی کوئی خاص  تعداد شریعت کی طرف سے مقرر نہیں ہے، بلکہ جو چیزیں انسان کے استعمال میں ہوں اور انسان کو اس کے استعمال کی حاجت پیش آتی ہو اور وہ اشیاء تجارت کے لیے نہ ہوں تو  ضرورت اور حاجت کے سامان میں داخل ہے۔

لہذا جو چیزیں ان انسان کے استعمال میں نہ ہوں اور اس کو ان کی حاجت بھی نہ ہوتی ہو تو وہ ضرورت سے زائد سامان میں شامل ہے، قربانی کے نصاب میں اس کی مالیت کو شامل کیا جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312)
'' وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)،

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم''

قرضدار پر قربانی کا مسئلہ

 اگر قرضدار کے پاس سونا، چاندی وغیرہ یا گھر کا کوئی ایسا سامان ہے جسے بیچ کر قربانی کا جانور خرید سکتا ہے یا بڑے جانور میں حصہ لے سکتا ہے تو اس پر قربانی کرنا لازم وضروری ہوگا، اور اگر اس کے پاس ان میں سے کچھ نہ ہو لیکن جن کے پاس اس کا پیسہ ادھار ہے اگر یہ ان سے قربانی کے بقدر پیسے مانگے تو ظن غالب یہ ہو کہ وہ دیدیں گے تو ایسی صورت میں ان سے قربانی کے بقدر پیسے لے کر قربانی کرنا لازم ہوگا، اسی طرح اگر قرضہ ایسا ہے کہ جب چاہے قرض خواہوں سے مانگ سکتا ہے تو قربانی کے لیے ان سے ادائیگی قرض کا مطالبہ لازم ہوگا ”لہ دین حال علی مقر ملئ ولیس عندہ ما یشتریہا بہ لا یلزمہ الاستقراض ولا قیمة الأضحیة إذا وصل الدین إلیہ ولکن یلزمہ أن یسأل منہ ثمن الأضحیة إذا غلب علی ظنہ أنہ یعطیہ، لہ مال کثیر غائب في ید مضاربہ أو شریکہ ومعہ من الحجرین أو متاع البیت ما یشتری بہ الأضحیة تلزم“ (فتاوی بزازیہ برہامش ہندیہ ۶: ۲۸۷، ۲۸۸ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) اور اگر ان میں سے کوئی صورت نہ ہو تو اس پر قربانی واجب نہ ہوگی۔

Thursday 15 July 2021

زناسے حاملہ لڑکی کاغیرزانی سے نکاح

 اگر کسی لڑکی سے نادانی میں زنا ہوگیا (العیاذ باللہ) تو اسے صدقِ دل سے توبہ کرنا چاہیے، نیز زانیہ کا نکاح زانی کے علاوہ کسی اور مرد سے بھی جائز ہے، البتہ اگر زنا کی وجہ سے حمل ٹھہر جائے اور زانی کے علاوہ کسی اور سے اس کا نکاح ہو تو  شوہر کے لیے اس وقت تک ہم بستری کی اجازت نہیں ہے جب تک وضع حمل (بچہ) نہ ہو جائے۔

"لاتجب العدة علی الزانیة". (الفتاوی الهندية، 526-1)

"وإن حرم وطؤها و دواعیه حتی تضع ... لو نکح الزاني حل له وطؤها اتفاقاً". (الشامیة، 141-4)

چنانچہ  فتاویٰ عالمگیری میں مذکور ہے:

"وقال ابو حنيفه ومحمد يجوز ان يتزوج امراة حاملا من الزنا ولايطاها حتيٰ تضع،وقال ابو يوسف لا يصح،والفتویٰ علی قولهما ،کذا فی المحيط،وفی مجموع النوازل:اذا تزوج امراۃ قد زنیٰ هو بها فظهر بها حبل فالنكاح جائز عند الكل‘وله ان يطاها عند الكل ‘وتستحق النفقة عند الكل ‘كذا في الذخيرة "انتهي

گجرات میں لاقانونیت کا جنگل راج

 گجرات کی کالول تحصیل ضلع پنچ محل میں گؤ رکشکوں کے ذریعہ معمر شخص محمد حنیف ابراہیم پٹیل کی ظالمانہ پٹائی کے بعد پیدا شدہ صورت حال میں پولس مسلمانوں کے گھروں میں گھس گئی، مارپیٹ کی۔سوسے زائد مردو خواتین جیل میں بند، مقامی لوگوں نے انصاف کی فریاد کے لیے جمعیۃ علماء ہند کو خط لکھا ہے۔

نئی دہلی۔14/جولائی: جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے گجرات کے وزیر اعلی وجے روپانی کو خط لکھ کرکالول ضلع پنچ محل میں رونما ہوئے واقعات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار کیے گئے بے قصور مردو خواتین کو بلاتاخیر رہا کیا جائے اور مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر جس طرح پولس عملہ نے زیادتی کی ہے، اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔مولانا مدنی نے اس سلسلے میں پولس اعلی افسران کو ہدایت دینے کی بھی اپیل کی ہے کہ وہ وہاں کی مسلم اقلیت کے تشویش کو فوری طور سے ایڈریس کرے۔

واضح ہو کہ گزشتہ ہفتہ گائے گوشت لے جانے کی ایک افواہ کی بنیاد پر گؤ رکشک (بجرنگ دل) کے کارکنان نے معمر شخص محمد حنیف ابراہیم پٹیل کی بے رحمی سے پٹائی کی اور ان کو پولس کے حوالے کردیا اور پھر شہر کے امن و امان کو بگاڑتے ہوئے ۱۰/جولائی کو سو افراد پر مشتمل ایک ریلی نکالی، جس میں اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے، پولس نے ان کے جلوس کو اجازت دی اور ان کے کہنے پر تین نوجوانوں کو تھانہ طلب کیا، تھانے میں پولس کی موجودگی میں بجرنگ دل کارکنان نے ان نوجوانوں کو مارنا شروع کردیا۔ مقامی مسلمانوں نے پولس تھانہ پہنچ کر ان نوجوانوں کو رہا کرنے کی اپیل کی، جس کی وجہ سے پولس اور مقامی لوگوں میں تصادم کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ بعد میں پولس نے ا س کا بدلہ لیتے ہوئے کالول تحصیل میں گھروں میں گھس کر عورتوں او ربچوں سے مار پیٹ کی، یہاں تک کہ عدت گزار رہی خواتین کے ساتھ بھی مار پیٹ کی اور جبرا ان کو پولس اسٹیشن اٹھا کر لے گئی، ایک اپاہج شخص کو سات بار بے رحمی سے پیٹا گیا، پولس نے فحش کلمات کہے اور کھلم کھلا خواتین کو گالیاں دیں، حاملہ عورتوں پر زیادتی کی،خواتین کے سامنے کھلے میں کھڑ ے ہو کر پیشاب کیا، عورتوں کے کپڑے پھاڑ دیے۔مقامی لوگوں کی رپورٹ کے مطابق پولس نے عورتوں پر جنسی حملے بھی کئے اور ان کے مردوں کو 'باولے' اور'نامرد' کہا اور ان کے گھروں میں توڑ پھوڑ کیے۔

بعد میں ایک سو دس لوگوں کو گرفتار کرکے نذر زنداں کردیا گیا جن میں کئی خواتین یہاں تک کہ دودھ پیتا ایک سال کا بچہ بھی شامل ہے، گرفتاری سے متعلق سارے قوانین کو توڑتے ہوئے خواتین کو رات کے وقت گرفتار کیا گیا۔ ان تمام واقعات کو لکھ کر مقامی مسلمانوں کے ایک وفد نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کو خط ارسال کیا ہے اور ان سے انصاف دلانے کی درخواست کی ہے، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا مدنی نے ان کا خط موصول ہوتے ہی گجرات کے وزیر اعلی کو خط لکھا ہے اور ریاستی جمعیۃ علماء گجرات کو ہدایت دی ہے کہ ان معاملا ت پر نگاہ رکھیں اور بے قصور افراد کو انصاف دلانے میں ہر ممکن مدد کریں۔اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی نے کالول کے مقامی مسلمانوں سے فون پر بات چیت کی ہے اور ان کو صبر کی تلقین اور امن و امان بنائے رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔

Tuesday 13 July 2021

مزنیہ کی سوتیلی بیٹی سے نکاح کاحکم


سوال

ایک شخص نے معاذاللہ کسی عورت سے زنا کرلیا، اس عورت کی ایک سوتیلی بیٹی ہے، اب اس زانی شخص کے لیے اس عورت کی سوتیلی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

زانی کے لیے مزنیہ عورت کی سوتیلی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس لڑکی نے مزنیہ عورت کاد ودھ نہ پیا ہو۔

حوالہ جات

الدر المختار (3/ 32)

( و ) حرم أيضا بالصهرية ( أصل مزنيته ) أراد بالزنى الوطء الحرام ( و ) أصل ( ممسوسته بشهوة ) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة ( وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها ) المدور ( الداخل ) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه ( وفروعهن) مطلقا.

رد المحتار (3/ 32)

قوله ( وحرم أيضا بالصهرية أصل مزيته ) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع: حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال.

Monday 12 July 2021

نفل نماز بیٹھ کر پڑھنا

 نوافل کھڑے ہوکر پڑھنا اور بیٹھ کر پڑھنا دونوں درست ہے، لیکن بیٹھ کر نفل پڑھنے کی بجائے  کھڑے ہوکر پڑھنے میں دوگنا ثواب ہے، یعنی جتنا ثواب کھڑے ہو کرنوافل  پڑھنے والے کو ملتا  ہے ،  بیٹھ کر پڑھنے والے کو اس کا آدھا ثواب ملتا ہے

کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :

صلاة الرجل قاعدا نصف الصلاة.

بیٹھ کر نماز ادا کرنا آدھی نماز ہے۔

(المختصر قدوری شريف)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم تہجد میں وتر کے بعد کی دو نفلیں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا پورا ثواب ملتا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسروں کو بیٹھ کر نفل نماز پڑھنے میں آدھا ثواب ملتا ہے کذا في الدر والرد (کتاب الصلاة باب الوتر والنوافل: ۲/۴۸۴، ۴۸۵، ط: مکتبہ زکریا دیوبند) ہاں اگر کوئی شخص اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت سے بیٹھ کر پڑھے گا تو اس کو دو ثواب ملیں گے: نفلوں کا آدھا اور اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علیحدہ، اور ہوسکتا ہے کہ یہ مجموعہ کھڑے ہوکر نفل پڑھنے کے ثواب سے زیادہ ہوجائے کذا قال الإمام الکنکوہی رحمہ اللہ تعالی (تحفة الألمعي: ۲/۳۲۷، ۳۲۸)۔ 

بیری کادرخت کاٹنا

 بیر کا درخت کسی کی ملکیت ہو تو بوقتِ ضرورت اسے کاٹ سکتے ہیں، ایک حدیث شریف میں بیری کے درخت کے کاٹنے پر جو وعید آئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن حبیش کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص بیری کا درخت کاٹے گا اللہ تعالیٰ اسے الٹے سر دوزخ میں ڈالے گا ۔

 اس حدیث سے متعلق بذل المجہود میں یہ وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص حدود حرم میں بیری کا درخت کاٹے گا اس کے لیے یہ وعید ہے، بعضوں نے کہا ہے کہ یہاں مدینہ کی بیری کا درخت مراد ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جنگل میں وہ بیری کا درخت مراد ہے جس کے سائے میں مسافر اور جانور راحت پاتے ہیں، اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو کسی دوسرے شخص کا بیری کا درخت ازراہِ ظلم وزیادتی کاٹ ڈالے۔لہذا اپنی ملکیت میں جو بیری کا درخت ہو اسے اپنی ضرورت کے لیے کاٹنا جائز ہے۔

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (13/ 627):
(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع سدرةً صوب الله رأسه في النار") (1) وفي نسخة: سئل أبو داود عن معنى هذا الحديث، قال: معناه: من قطع سدرة في فلاة يستظل بها ابن السبيل والبهائم عبثًا وظلمًا بغير حق يكون فيها، صوّب الله رأسه في النار، أي: نكّسه.
وقال البيهقي في "سننه": قال أبو ثور: سألت أبا عبد الله الشافعي عن قطع السدرة، قال: لا بأس به، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: اغسلوه بماء وسدر، وقيل: أراد به سدرة مكة لأنها حرم، وقيل: سدرة المدينة،نهى عن قطعها فيكون أنسًا وظلالًا لمن يهاجر إليها، قال: وقرأت في كتاب أبي سليمان الخطابي أن المزني سئل عن هذا فقال: وجهه أن يكون صلى الله عليه وسلم سئل عمن هجم على قطع سدر لقوم أو ليتيم أو لمن حرم الله أن يقطع عليه [فتحامل عليه] بقطعه فاستحق ما قاله، فتكون المسألة سبقت السامع، فسمع الجواب ولم يسمع السؤال، ونظيره

زکوۃ اور صدقات واجبہ کا مصرف

 صدقاتِ واجبہ جیسے زکوٰة وغیرہ غیر مسلم کو دینا جائز نہیں؛ البتہ صدقاتِ نافلہ غیر مسلم کو دے سکتے ہیں لیکن مسلمان کو دینا اولیٰ و بہتر ہے اور احادیث میں صدقہ کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں ، ایک حدیث میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ گناہ کو بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے ۔(ترمذی)ایک دوسری حدیث میں ہے :حضرت ا بو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پوشیدہ صدقہ اللہ تعالی کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے ۔ (بیہقی ) (ولا) تدفع (إلی ذمی) لحدیث معاذ (وجاز) دفع (غیرہا وغیر العشر) والخراج (إلیہ) أی الذمی ولو واجبا کنذر وکفارة وفطرةخلافا للثانی وبقولہ یفتی حاوی القدسی وأما الحربی ولو مستأمنا فجمیع الصدقات لا تجوز لہ اتفاقا بحر عن الغایة وغیرہا، لکن جزم الزیلعی بجواز التطوع لہ.( رد المحتار

Sunday 11 July 2021

یوم الترویہ یعنی 8ذوالحج

 آٹھویں ذی الحجہ کو یوم الترویہ کہا جاتا ہے۔

ترویہ کے لغوی معنی

اس کے لغوی معنی سیراب کرنے اور پانی فراہم کرنے کے ہیں اسے یوم النقلہبھی کہتے ہیں کیونکہ اس دن حجاج منی کی طرف کوچ کرتے ہیں۔

وجہ تسمیہ

خواب میں ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ اپنے فرزند اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کریں۔ اس حکم کی صورت یہ ہوئی کہ ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کی شب میں انھوں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ نے اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ صبح کو اٹھے تو سوچ میں پڑ گئے (کہ کیا یہ حکم خداوندی تھا) صبح سے شام تک اسی سوچ میں رہے کہ یہ خواب رحمانی ہے یا شیطانی، اسی لیے ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو یوم الترویہ (سوچ کا دن) کہا جاتا ہے۔

وجہ آخر

دوسری وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قدیم زمانے میں جب حجاج آٹھ ذی الحجہ کو منی جاتے تھے تو وہاں پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو تکلیف ہوتی تھی، چنانچہ منی روانگی سے قبل مکہ سے زمزم کا پانی بھر لیتے تھے اور پھر منی جاتے تھے۔ چنانچہ اس دن کا نام یوم الترویہ (پانی بھرنے کا دن) پڑ گیا۔

عقیقہ کب کیاجائے

 کسی کو جب اللہ تعالیٰ بچے سے نوازے تو ولادت کے ساتویں روز یا چودہویں یا اکیسویں دن، اگر ان دونوں میں نہ ہوسکے تو عمر بھر جب بھی موقع میسر آئے (ساتویں دن کی رعایت کے سات) بچہ کی طرف سے اللہ کے نام جانور ذبح کرنے کا نام شریعت میں ”عقیقہ“ ہے، عقیقہ سنت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ فرمایا تھا، ایک حدیث میں ہے کہ ”عقیقہ“ کی برکت سے بچہ کے اوپر سے بلائیں ٹلتی ہیں، اگر لڑکا پیدا ہو تو دو بکرے (یا بڑے جانور میں دو حصے) اور لڑکی پیدا ہو تو ایک بکرا (یا بڑے جانوروں میں ایک حصہ) ذبح کرنا مستحب ہے۔ ”عقیقہ“ کا کوئی خاص طریقہ نہیں ہے جس طرح بہ طور قربانی جانور ذبح کیا جاتا ہے اسی طرح عقیقہ میں بھی ذبح کیا جائے گا، عقیقہ میں بھی انھیں جانور کو ذبح کرنا درست ہے جنھیں قربانی میں ذبح کرنا درست ہے، یعنی اونٹ، گائے، بھینس، بکری، بھیڑ اور دنبہ، عقیقے کا سب سے اچھا وقت پیدائش سے ساتویں دن ہے، پھر چودہویں پھر اکیسویں، اگر ان دونوں میں بھی نہ کرسکے تو عمر بھر میں کسی بھی دن عقیقہ کیا جاسکتا ہے؛ البتہ بہتر ہے جب بھی عقیقہ کیا جائے پیدائش سے ساتویں دن کا لحاظ کیا جائے ”عن ابن عباس أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عقّ عن الحسن والحسین کبشًا کبشًا” (ابوداود، رقم: ۲۸۴۱) ثم إن الترمذي أجاز بہا إلی یوم أحدے وعشرین، قلت بل یجوز إلی أن یموت لما رأیت في بعض الروایات أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم عقّ عن نفسہ بنفسہ (فیض الباري: ۴/ ۳۳۷، کتاب العقیقة، ط: اشرفی)

المستدرک  میں ہے: 

’’عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ". ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم(4/ 266) رقم الحدیث: 7595،  کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)

اعلاء السنن میں ہے:

’’ أنها إن لم تذبح في السابع ذبحت في الرابع عشر، وإلا ففي الحادي والعشرین، ثم هکذا في الأسابیع‘‘. (17/117، باب العقیقہ، ط: ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

’’يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه ويحلق رأسه ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقة إباحة على ما في الجامع المحبوبي، أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية تذبح للذكر والأنثى سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها مع كسر عظمها أو لا، واتخاذ دعوة أو لا، وبه قال مالك. وسنها الشافعي وأحمد سنةً مؤكدةً شاتان عن الغلام، وشاةً عن الجارية، غرر الأفكار ملخصاً، والله تعالى أعلم‘‘.(6/ 336، کتاب الاضحیۃ، ط: سعید)

نوٹ: عقیقہ کے ساتھ یہ بھی مسنون ہے کہ اس دن بچے کا کوئی مناسب اسلامی نام رکھا جائے ، نیز اس کے سر کا بال صاف کئے جائیں  اور ان بالوں کے وزن کے برابر سونا چاندی صدقہ کیا جائے۔