https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 1 August 2021

یوم مسلم خواتین کی حقیقت

 تین طلاق کا قانون مسلم خواتین کے لئے سخت نقصاندہ


مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)  کا بیان


نئی دہلی، یکم اگست 2021ء

مرکزی حکومت نے آج تین طلاق قانون کے پس منظر میں یوم مسلم خواتین منانے کا اعلان کیا ہے، یہ چوری اور سینہ زوری کا مصداق ہے، اس قانون نے مسلمان عورتوں کی دشواریوں کو بڑھا دیا ہے؛ کیونکہ حکومت اس کو طلاق تسلیم نہیں کرتی اور مسلم سماج شریعت کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کو طلاق تصور کرتا ہے، اس کے نتیجہ میں ایسی عورتیں قانون کی رو سے دوسرا نکاح کرسکتی ہیں، اور مسلم سماج میں کوئی ان سے نکاح کے لیے تیار نہیں ہوتا اور کوئی بھی فرد اپنے سماج سے سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکتا، اس قانون میں مطلقہ عورت کو شوہر کی طرف سے نفقہ کا مستحق قرار دیا گیا ہے،  دوسری طرف مرد کے لیے تین سال جیل کی سزا رکھی گئی ہے، سوال یہ ہے کہ جب شوہر جیل میں ہوگا تو یہ بیوی کا نفقہ کیسے ادا کرے گا، پس یہ قانون تضاد سے بھرا ہوا ہے، اور عورتوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے؛ اسی لیے بڑے پیمانہ پر خواتین اس قانون کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں، اس لئے حکومت کو چاہیے کہ علماء کے مشورہ سے اس میں مناسب ترمیم کا بل لائے۔

Friday 30 July 2021

نذریامنت ماننا

 منت ماننا شرعاً جائز ہے اور منت کے  لازم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ:

1-   منت اللہ رب العزت کے نام کی مانی جائے، پس غیر اللہ کے نام کی منت صحیح نہیں۔

2- منت صرف عبادت کے کام کے لیے ہو، پس جو کام عبادت نہیں اس کی منت بھی صحیح نہیں۔

3- عبادت ایسی ہو  کہ اس طرح کی عبادت کبھی فرض یا واجب ہوتی ہو، جیسے: نماز، روزہ، حج، قربانی وغیرہ، پس ایسی عبادت کہ جس کی جنس کبھی فرض یا واجب نہیں ہوتی ہو اس کی منت بھی صحیح نہیں۔ اسی طرح جو عبادت پہلے سے فرض ہے (مثلاً پنج وقتہ نماز، صاحبِ نصاب کے لیے زکاۃ، رمضان کا روزہ اور صاحبِ استطاعت کے لیے حج)، اس کی نذر ماننا بھی صحیح نہیں، کیوں کہ یہ پہلے سے ہی فرض ہیں۔

اور منت کا حکم یہ ہے کہ جس کام کے ہونے پر منت مانی جائے اور وہ کام ہو جائے تو اس منت کا پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: {لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: {من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه}، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك؛ لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً."

(كتاب النذر، بيان ركن النذر وشرائطه، ج: 5، صفحہ: 82، ط: دار الكتب العلمية)

تعزیر بالمال یامالی جرمانہ لگاناجائز ہے کہ نہیں

 احناف کے نزدیک تعزیر بالمال یعنی مالی جرمانہ کسی پر لگانا یا کسی سے لینا جائز نہیں، خواہ وہ دینی علوم کا طالب علم ہو یا عصری علوم کا طالب علم ہو، اگر کسی نے ایسا جرمانہ وصول کیا ہے تو اسے واپس کرنا ضروری ہے: وفی شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ، والحاصل المذہب عدم التعزیر بالمال (شامي: ۳/۱۷۹)

Thursday 29 July 2021

ماسک نہ پہننے کا جرمانہ سودی رقم سے اداکرنا

 بصورتِ مسئولہ حکومت کی طرف سے ماسک نہ پہننے پر جو ہزار روپے بطور جرمانہ لیتے ہیں یہ تعزیر بالمال کہلاتا ہے، اور احناف کے نزدیک تعزیر بالمال جائز نہیں ہے، لہذا مذکورہ جرمانہ میں سودی رقم منہا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ سودی رقم کسی سرکاری بینک وغیرہ سے ملی ہو، البتہ اگر سود کی رقم سرکاری بینک وغیرہ سے وصول نہیں کی گئی،  بل کہ کسی پرائیویٹ بینک یا کسی عام انسان سے وصول کی گئی ہے، تو اس رقم سے مذکورہ جرمانہ دینا جائز نہیں ہے۔

واضح رہے کہ از روئے فتویٰ سودی اکاؤنٹ کھولنا یا سود وصول کرنا غیر مسلم ملک میں بھی جائز نہیں ہے، اور اگر مجبورًا یا غیر اختیاری طور پر سودی اکاؤنٹ کھول دیا جائے تو حکم یہ ہے کہ حتی الوسع یہ رقم اکاؤنٹ سے نہ نکالی جائے، تاکہ سود لینے کے گناہ سے بھی بچا جاسکے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط:ايج ايم سعيد)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

Tuesday 27 July 2021

غدیر خم کی حقیقت

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حجۃ الوداع‘‘سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جومکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام ہے)پر خطبہ ارشادفرمایاتھا، اوراس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشادفرمایاتھا:  "من کنت مولاه فعلي مولاه"یعنی جس کامیں دوست ہوں علی بھی اس کادوست ہے۔

اس کا پس منظر یہ تھا کہ ’’حجۃ الوداع‘‘ سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف والی/ عامل بناکر بھیجا تھا، وہاں کے محصولات وغیرہ وصول کرکے ان کی تقسیم اور بیت المال کے حصے کی ادائیگی کے فوراً بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے پاس حج کی ادائیگی کے لیے پہنچے۔ اس موقع پر محصولات کی تقسیم وغیرہ کے حوالے سے بعض حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  پر اعتراض کیا، اور یہ اعتراض براہِ راست نبی کریم ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوکر دوہرایا، آپ ﷺ نے انہیں اسی موقع پر انفرادی طور پر سمجھایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تصویب فرمائی، بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ علی کا اس سے بھی زیادہ حق تھا، نیز آپ ﷺ نے انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا حکم دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں دل میں کدورت اور میل رکھنے سے منع فرمایا، چناں چہ ان حضرات کے دل حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بالکل صاف ہوگئے، وہ خود بیان فرماتے ہیں کہ  نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے بعد ہمارے دلوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ محبوب ہوگئے۔ البتہ اسی حوالے سے کچھ باتیں سفرِ حج سے واپسی تک قافلے میں گردش کرتی رہیں،  آپ ﷺ نے محسوس فرمایا کہ اس حوالے سے آپ ﷺ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت اور ان کا حق ہونا بیان فرمائیں، چناں چہ سفرِ حج سے واپسی پر مقام غدیرِ خم میں نبی کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں بلیغ حکیمانہ اسلوب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق واضح فرمایا، اور جن لوگوں کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی شکوہ یا شبہ تھا اسے یوں ارشاد فرماکر دور فرمادیا: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ" یعنی اے اللہ! جو مجھے دوست رکھے گا وہ علی کو بھی دوست رکھے گا/میں جس کا محبوب ہوں گا علی بھی اس کا محبوب ہوگا، اے اللہ! جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ، اور جو علی سے دشمنی رکھے تو اس کا دشمن ہوجا۔ آپ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملے تو فرمایا: اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو! آپ صبح و شام ہر مؤمن مرد اور ہر مؤمنہ عورت کے محبوب بن گئے۔ حضراتِ شیخین سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پہلے سے تھی، جن چند لوگوں کے دل میں کچھ شبہات تھے آپ ﷺ  کے اس ارشاد کے بعد ان کے دل بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت سے سرشار ہوگئے۔ اس خطبہ سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامقصود یہ بتلاناتھاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اورمقرب بندے ہیں ، ان سے اورمیرے اہلِ بیت سے تعلق رکھنامقتضائے ایمان ہے،اوران سے بغض وعداوت یانفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے۔

مذکورہ پس منظر سے یہ بات بخوبی واضح ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا  غدیرخُم  میں "من کنت مولاه فعلي مولاه"ارشادفرمانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لیے نہیں، بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدرومنزلت بیان کرنے اور معترضین کے شکوک دور کرنے کے لیے تھا نیز  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قراردینے کے لیے تھا ۔ اورالحمدللہ!اہلِ سنت والجماعت اتباعِ سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کواپنے ایمان کاجز سمجھتے ہیں، اور بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اہلِ ایمان ہی محبت رکھتے ہیں۔

مذکورہ خطبے اور ارشاد کی حقیقت یہی تھی جو بیان ہوچکی۔ باقی  ایک گم راہ فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت بلافصل ثابت کرتاہے، اور چوں کہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشادفرمایاتھا، اس لیے ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتاہے، اوراسے ’’عید غدیر‘‘ کانام دیاجاتاہے۔اس دن عید کی ابتدا  کرنے والاایک حاکم معزالدولۃ گزراہے، اس شخص نے 18ذوالحجہ 351ہجری کو بغدادمیں عیدمنانے کا حکم دیاتھا اوراس کانام"عید خُم غدیر" رکھا۔

اولاً تو اس عیدِ غدیر کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ہے، دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے۔ ان کی مخالفت میں بھی بعض بدنصیب لوگ اس دن اپنے بغض کا اظہار کرتے ہیں۔ اہلِ ایمان و اسلام کو چاہیے کہ اس طرح کی خرافات سے دور رہیں۔ 

الغرض! دینِ اسلام میں صرف دوعیدیں ہیں:  ایک عیدالفطر اوردوسری عیدالاضحیٰ ۔  ان دوکے علاوہ دیگرتہواروں اورعیدوں کاشریعت میں کوئی ثبوت نہیں ، اس لیے نہ مناناجائزہے اورنہ ان میں شرکت درست ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ ابْنِ سَابِطٍ وَهُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ، فَذَكَرُوا عَلِيًّا، فَنَالَ مِنْهُ، فَغَضِبَ سَعْدٌ، وَقَالَ: تَقُولُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي» ، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: «لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»". (رقم الحديث: ١٢١، فضل علي بن أبي طالب رضي الله عنه ١/ ٤٥)

"فضائل الصحابة لأحمد ابن حنبل" میں ہے:

"حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، نا عَفَّانُ قال: ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: أنا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ، فَنُودِيَ فِينَا: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، وَكُسِحَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ وَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالِاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ»، قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: هَنِيئًا لَكَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ". ( رقم الحديث: ١٠١٦، فضائل علي رضي الله عنه ، ٢/ ٥٩٦،ط: مؤسسة الرسالة بيروت)

"المعجم الكبير للطبراني" میں ہے:

"حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ غَنَّامٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ح وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: ثنا شَرِيكٌ، عَنْ حَنَشِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ رِيَاحِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: بَيْنَا عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ جَالِسٌ فِي الرَّحَبَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ وَعَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَايَ، فَقِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: أَبُو أَيُّوبَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»". (رقم الحديث: ٤٠٥٢، ٤/ ١٧٣، ط: مكتبة ابن تيمية)

"شرح ابن ماجة للسيوطي" میں ہے:

"«من كنت مَوْلَاهُ فعلي مَوْلَاهُ» قَالَ فِي النِّهَايَة: الْمولى اسْم يَقع على جمَاعَة كَثِيرَة، فَهُوَ الرب الْمَالِك، وَالسَّيِّد، والمنعم، وَالْمُعتق، والناصر، والمحب التَّابِع، وَالْجَار، وَابْن الْعم، والحليف، والصهر، وَالْعَبْد، وَالْمُعتق، والمنعم عَلَيْهِ. وَهَذَا الحَدِيث يحمل على أَكثر الْأَسْمَاء الْمَذْكُورَة، وَقَالَ الشَّافِعِي: عَنى بذلك وَلَاء الْإِسْلَام، كَقَوْلِه تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾،[محمد:١١] وَقيل: سَبَب ذَلِك أن أُسَامَة قَالَ لعَلي رَضِي الله عنه: لستَ مولَايَ، إنما مولَايَ رَسُول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك". ( باب اتباع السنة، ١/ ١٢ ،ط: قديمي)

"قوت المقتذي علي جامع الترمذي"میں ہے :

"من كُنْتُ مَوْلاَهُ فعَليٌّ مَوْلاهُ". أراد بذلك ولاء الإسلام، كقوله تعالى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِينَ اٰمَنُوا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ [محمد:١١]وقيل: سبب ذلك أن أسَامة قال لعَلي: لسْتَ مولاي، إنما مولاي رسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقال صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذلك''. (أبواب المناقب 2/1002 ط: رسالة الدكتوراة بجامعة أم القري)

"مرقاة المفاتيح"میں ہے:

"(وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ) ذِكْرُهُ تَقَدَّمَ (أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» ") . قِيلَ: مَعْنَاهُ: مَنْ كُنْتُ أَتَوَلَّاهُ فَعَلِيٌّ يَتَوَلَّاهُ، مِنَ الْوَلِيِّ ضِدِّ الْعَدُوِّ أَيْ: مَنْ كُنْتُ أُحِبُّهُ فَعَلِيٌّ يُحِبُّهُ، وَقِيلَ مَعْنَاهُ: مَنْ يَتَوَلَّانِي فَعَلِّيٌّ يَتَوَلَّاهُ، كَذَا ذَكَرَهُ شَارِحٌ مِنْ عُلَمَائِنَا. وَفِي النِّهَايَةِ: الْمَوْلَى يَقَعُ عَلَى جَمَاعَةٍ كَثِيرَةٍ، فَهُوَ الرَّبُّ، وَالْمَالِكُ، وَالسَّيِّدُ، وَالْمُنْعِمُ، وَالْمُعْتِقُ، وَالنَّاصِرُ، وَالْمُحِبُّ، وَالتَّابِعُ، وَالْخَالُ، وَابْنُ الْعَمِّ، وَالْحَلِيفُ، وَالْعَقِيدُ، وَالصِّهْرُ، وَالْعَبْدُ، وَالْمُعْتَقُ، وَالْمُنْعَمُ عَلَيْهِ، وَأَكْثَرُهَا قَدْ جَاءَتْ فِي الْحَدِيثِ، فَيُضَافُ كُلُّ وَاحِدٍ إِلَى مَا يَقْتَضِيهِ الْحَدِيثُ الْوَارِدُ فِيهِ، وَقَوْلُهُ: « مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ» يُحْمَلُ عَلَى أَكْثَرِ هَذِهِ الْأَسْمَاءِ الْمَذْكُورَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: يَعْنِي بِذَلِكَ وَلَاءَ الْإِسْلَامِ كَقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ مَوْلَى الَّذِينَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْكٰفِرِيْنَ لَا مَوْلٰى لَهُمْ﴾ [محمد:١١] وَقَوْلِ عُمَرَ لِعَلِيٍّ: أَصْبَحْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ [أَيْ: وَلِيَّ كُلِّ مُؤْمِنٍ]، وَقِيلَ: سَبَبُ ذَلِكَ أَنَّ أُسَامَةَ قَالَ لِعَلِيٍّ: لَسْتَ مَوْلَايَ إِنَّمَا مَوْلَايَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ». " قُضِيَ " قَالَتِ الشِّيعَةُ: هُوَ مُتَصَرِّفٌ، وَقَالُوا: مَعْنَى الْحَدِيثِ أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَسْتَحِقُّ التَّصَرُّفَ فِي كُلِّ مَا يَسْتَحِقُّ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّصَرُّفَ فِيهِ، وَمِنْ ذَلِكَ أُمُورُ الْمُؤْمِنِينَ فَيَكُونُ إِمَامَهُمْ. أَقُولُ: لَا يَسْتَقِيمُ أَنْ تُحْمَلَ الْوِلَايَةُ عَلَى الْإِمَامَةِ الَّتِي هِيَ التَّصَرُّفُ فِي أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ، لِأَنَّ الْمُتَصَرِّفَ الْمُسْتَقِلَّ فِي حَيَاتِهِ هُوَ هُوَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا غَيْرُ، فَيَجِبُ أَنْ يُحْمَلَ عَلَى الْمَحَبَّةِ وَوَلَاءِ الْإِسْلَامِ وَنَحْوِهِمَا. وَقِيلَ: سَبَبُ وُرُودِ هَذَا الْحَدِيثِ كَمَا نَقَلَهُ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّينِ الْجَزَرِيُّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ عَلِيًّا تَكَلَّمَ فيه بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهُ بِالْيَمَنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّهَ، خَطَبَ بِهَا تَنْبِيهًا عَلَى قَدْرِهِ، وَرَدًّا عَلَى مَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ كَبُرَيْدَةَ، كَمَا فِي الْبُخَارِيِّ. وَسَبَبُ ذَلِكَ كَمَا رَوَاهُ الذَّهَبِيُّ، وَصَحَّحَهُ أَنَّهُ خَرَجَ مَعَهُ إِلَى الْيَمَنِ، فَرَأَى مِنْهُ جَفْوَةَ نَقْصِهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يَتَغَيَّرُ وَجْهُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَيَقُولُ: «يَا بُرَيْدَةُ أَلَسْتُ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟» قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَفِي الْجَامِعِ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ : عَنِ الْبَرَاءِ، وَأَحْمَدُ عَنْ بُرَيْدَةَ، وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالضِّيَاءُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. فَفِي إِسْنَادِ الْمُصَنِّفِ الْحَدِيثَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ إِلَى أَحْمَدَ وَالتِّرْمِذِيِّ مُسَامَحَةٌ لَاتَخْفَى، وَفِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ وَالنَّسَائِيِّ وَالْحَاكِمِ عَنْ بُرَيْدَةَ بِلَفْظِ: «مَنْ كُنْتُ وَلِيُّهُ». وَرَوَى الْمَحَامِلِيُّ فِي أَمَالِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَفْظُهُ: «عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ مَوْلَى مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ». وَالْحَاصِلُ أَنَّ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ لَا مِرْيَةَ فِيهِ، بَلْ بَعْضُ الْحُفَّاظِ عَدَّهُ مُتَوَاتِرًا؛ إِذْ فِي رِوَايَةٍ لِأَحْمَدَ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثُونَ صَحَابِيًّا، وَشَهِدُوا بِهِ لِعَلِيٍّ لَمَّا نُوزِعَ أَيَّامَ خِلَافَتِهِ، وَسَيَأْتِي زِيَادَةُ تَحْقِيقٍ فِي الْفَصْلِ الثَّالِثِ عِنْدَ حَدِيثِ الْبَرَاءِ". (باب مناقب علي بن أبي طالب، ج:٩ ط: دار الفكر)

"شرح أصول اعتقاد أهل السنة و الجماعة"میں ہے:

" أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: أنا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: نا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ، قَالَ: نا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، قَالَ: نا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: نا هِلَالُ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّمْلِيُّ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي بِسْطَامٍ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ: أَرَأَيْتَ قَوْلَ النَّاسِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ» ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَقَعَ بَيْنَ أُسَامَةَ وَبَيْنَ عَلِيٍّ تَنَازُعٌ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: «يَا عَلِيُّ، يَقُولُ هَذَا لِأُسَامَةَ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّهُ» . وَقَالَ لِأُسَامَةَ: «يَا أُسَامَةُ، يَقُولُ هَذَا لِعَلِيٍّ، فَمَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ»". (رقم الحديث: ٢٦٤٠، ٨/ ١٤٥٩، ط: دار طيبة)

"الاعتقاد للبيهقي"میں ہے:

"فَقَدْ ذَكَرْنَا مِنْ طُرُقِهِ فِي كِتَابِ الْفَضَائِلِ مَا دَلَّ عَلَى مَقْصودِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ أَنَّهُ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيمَنِ كَثُرَتِ الشَّكَاةُ عَنْهُ، وَأَظْهَرُوا بُغْضَهُ، فَأَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَذْكُرَ اخْتِصَاصَهُ بِهِ وَمَحبَّتَهُ إِيَّاهُ، وَيَحُثُّهُمْ بِذَلِكَ عَلَى مَحَبَّتِهِ وَمُوَالِاتِهِ وَتَرْكِ مُعَادَاتِهِ، فَقَالَ: «مِنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ فَعَلِيٌّ وَلِيَّهُ»، وَفِي بَعْضِ الرُّوَايَاتِ: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمْ وَالِ مِنْ وَالِاهُ وَعَادِ مِنْ عَادَاهُ». وَالْمُرَادُ بِهِ وَلَاءُ الْإِسْلَامِ وَمَودَّتُهُ، وَعَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يوَالِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَلَا يُعَادِي بَعْضُهُمْ بَعْضًا، وَهُوَ فِي مَعْنَى مَا ثَبَتَ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ «أَنَّهُ لَا يُحِبُّنِي إِلَا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُنِي إِلَّا مُنَافِقٌ» . وَفِي حَدِيثِ بُرَيْدَةَ شَكَا عَلِيًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَبْغِضُ عَلِيًّا؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: لَا تُبْغِضْهُ، وَأَحْبِبْهُ وَازْدَدْ لَهُ حُبًّا، قَالَ بُرَيْدَةُ: فَمَا كَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إليَّ مِنْ عَلِيٍّ بَعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"

اس روایت کی صحت و ضعف کو لیکر علماء اہل سنت میں اختلاف رہا ہے جبکہ اہل تشیع اس کے تمام مندرجات کے ساتھ متواتر گردانتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے . إمام زیلعی حنفی رحمہ اللہ اور علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ وغیرہما نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، امام زیلعی فرماتے ہیں " وكم من حديث كثرت رواته و تعددت طرقه وهو حديث ضعيف كحديث" من كنت مولاه فعلي مولاه "( نصب الراية في تخريج الهداية :1/189) یعنی کتنی ہی ایسی احادیث ہیں جن کے راوی اور سندیں بہت ہیں حالانکہ وہ ضعیف ہیں جیسے حدیث" من کنت مولاہ......... ،
علامہ إبن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛ ( وأما قوله من كنت مولاه فعلي مولاه فليس هو في الصحاح لكن هو مما رواه العلماء وتنازع الناس في صحته فنقل عن البخاري وإبراهيم الحربي وطائفة من أهل العلم بالحديث انهم طعنوا فيه... وأما الزيادة وهي قوله اللهم وال من والاه وعاد من عاداه الخ فلا ريب انه كذب) منهاج السنة 7/319) اور جہاں تک بات ہے " من کنت مولاہ فعلی مولاہ" کی تو یہ صحیح روایات میں سے نہیں ہے لیکن یہ علماء کی ان روایات میں سے ہے جن کی صحت کے سلسلے میں لوگوں نے کافی اختلاف کیا ہے پس امام بخاری، ابراہیم حربی اور حدیث کے ماہرین  علماء کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ اس میں طعن کرتے ہیں، اور جہاں تک بات" أللهم وال من والاه و عاد من عاداه" کی ہے تو یہ جھوٹ ہے،
ان اقوال کے علاوہ بعض دوسرے علماء اہل سنت نے اس روایت کے اوپر منقول الفاظ کو صحیح قرار دیا ہے علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں "له طرق يصدق بعضها بعضاً" ( تاريخ الإسلام:3/632 ) یعنی اس کئی طرق ہیں جو ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سندوں پر بحث کرنے کے بعد فرمایا " ذكرت وخرجت ما تيسر لي منها مما يقطع الواقف عليها بعد تحقيق الكلام على أسانيدها بصحة الحديث يقينا، وإلا فهي كثيرة جدا، وقد استوعبها ابن عقدة في كتاب مفرد، قال الحافظ ابن حجر: منها صحاح ومنها حسان. وجملة القول أن حديث الترجمة حديث صحيح بشطريه، بل الأول منه متواتر عنه صلى الله عليه وسلم كما ظهر لمن تتبع أسانيده وطرقه، وما ذكرت منها كفاية. (السلسلة الصحيحة :4/343) یعنی اس حدیث کے طرق میں سے جو مجھے میسر ہوئے ان کو میں نے ذکر کر دیا ہے جن کی اسانید پر واقفیت رکھنے والے پر تحقیق کے بعد قطعی یقین ہو جاتا ہے کہ ان کی اسانید صحیح ہیں، ورنہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے إبن عقدہ نے ان کو تفصیلاً ایک مستقل کتاب میں ذکر کیا ہے اور ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے ان اسانید میں کچھ صحیح جبکہ کچھ حسن بھی ہیں، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اپنے دونوں مضمون (من کنت مولاہ...... اور اللہم وال من والا...........) کے اعتبار سے صحیح ہے بلکہ پہلا مضمون تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ہے جیسا کہ اسانید کا تتبع کرنے والے پر ظاہر ہے اور جو میں نے ذکر کیا وہ کافی ہے.

مسجد کی زمین پردوکانیں بنانا

 واضح رہے کہ اگر وقف زمین پر مسجد  کی تعمیر  سے  پہلے سے  نیچے والے حصے میں مسجد کے تقدس و احترام اور اَحکام کو ملحوظ رکھتے ہوئے مسجد کے مصالح اور آمدنی کے لیے دکانیں بنائی جائیں تو اس کی  گنجائش ہے، اور ایسی صورت میں اوپر والی جگہ شرعی مسجد کے حکم میں ہوگی۔

 اور اگر  نیچے اور اوپر مسجد کی  تعمیر مکمل  ہوجائے تو بعد میں دوبارہ جدید تعمیر  یا کسی اور صورت کے تحت نچلے حصہ میں (جو مسجد بن چکاتھاوہاں)  دکانیں نہیں بنائی جاسکتی ہیں،  اور نہ ہی وضوخانہ بنایا جاسکتا ہے، مسجد میں  جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص  کی جائے وہ  ہمیشہ کے لیے "تحت الثریٰ"  (زمین کی تہہ) سے  آسمان تک سب مسجد کے حکم میں ہو تی ہے، اس میں کوئی اور چیز تعمیر نہیں کی جاسکتی۔

جب وقف زمین پر  مطلق مسجدتعمیر شدہ تھی اور وہ جگہ  نماز پڑھنے کے لیے متعین ہوگئی تھی وہ ہمیشہ کے لیے "تحت الثری" سے  آسمان تک ہمیشہ کے لیے مسجد بن گئی تھی، اب جدید تعمیر میں وہاں  کسی قسم کی اور چیز بنانا جائز نہیں ہے، لہذ ا اگر مسجد کی نئی تعمیر میں مذکورہ دکانیں  پرانی مسجد کی نماز کے لیے مخصوص کی گئی جگہ کی حدود میں یا اس کے نیچے بنائی گئی ہے تو شرعاً ایسا کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ اس حصہ کو بھی  مسجد میں شامل کرنا ضروری ہے۔

البحر الرائق  میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لايضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح.

فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره، هل له ذلك؟  قلت: قال في التتارخانية: إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده، فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لايتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لايصدق". اهـ (  کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد ـ. 5/ 271 ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

''وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً. (قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح. وشرط في المصباح أن يكون ضيقاً، نهر (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفاً عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية.((4/ 357، کتاب الوقف، ط: سعید)

Sunday 25 July 2021

تکبیرات تشریق ایک بار پڑھنی ہیں یاتین بار

 تکبیر تشریق نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کی عصر تک ہرفرض نماز کے بعد ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے، تین بار کا قول بھی ہے، لیکن وہ ضعیف ہے، مشہور قول ایک بار ہی کا ہے: [ویجب تکبیرُ التشریق في الأصح للأمر بہ مرةً وإن زاد علیھا یکن فضلاً، وفي رد المحتار: أفاد أن قولہ : [مرةً] بیان للواجب، لکن ذکر أبو السعود أن الحموي نقل عن القراحصاري أن الإتیان بہ مرتین خلاف السنة إھ قلت: وفي الأحکام عن البرجندي ثم المشہور من قول علمائنا أنہ یکبر مرة، وقیل ثلاث مرات](شامي: زکریا:۳/۶۱)

شہرآشوب یاآشوب قیامت

آج کل

حرم تقریباً خالی، حج تقریباً معطل، مقاماتِ مقدّسہ جانے پر 10 ہزار ریال جرمانہ اور عمرہ بھی بند ۔۔۔۔۔ 

《 لیکن 》

سینما ہالز فُل۔۔۔فلم فیسٹیوَل شروع۔۔۔ (7 جولائی تک جاری رہا) ۔ کورونا کے دوران 20 نئے سینما کھل گئے۔۔۔ 

صرف ایک میٹا(META)مستند ذرائع کے مطابق  40 ہفتوں میں 73 ملین ڈالر کے سینما ٹکٹس فروخت ہونے کا ریکارڈ قائم ہوا

جبکہ اس دوران 

2020 پوری دنیا کی فلمی صنعت زبوں حالی کا شکار رہی۔ لیکن سرزمینِ وحی میں اسے عروج حاصل ہورہا۔۔

اناللہ و انا الیہ راجعون 

،● گزشتہ ماہ جدہ میں پندرہ دن کے وقفے سے دو بڑے میوزیکل کنسرٹ Musical۔Concerts ہوئے جن میں سعودی مرد و خواتین بغیر کسی قسم کے ایس۔او۔پیز  کے ناچ گانے کے مخلوط پروگرام میں شریک رہے۔۔۔۔

👈🏻 *ایک لاکھ سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوکر سٹیڈیم میں فٹ بال کا میچ دیکھ سکتے ہیں لیکن حرمین شریفین  میں نہیں آ سکتے*‼️

سعودی حکمراں طبقہ پر *وَھَنْ* مسلّط ہے تو ہم پر کس بات کا جبر ؟؟ 

ہم ان یکطرفہ بندشی قوانین کی بھر پور مذمّت کرتے ہیں ۔ تمہارا یہ رعب و دبدبہ تمہیں مبارک۔۔۔

*تمام مسلم ممالک مل کر  حج و عمرہ کھلوائیں۔۔ عوام اپنے اپنے ملکوں پر دباؤ بڑھائیں*

*خانۂ کعبه و مدینةالرسول(ص) آل سعود کی جاگیر نہیں۔۔پوری امتِ مسلمہ کا ورثہ ہے* ۔۔۔

پہلے بھی ایسے مواقع پر بین الاقوامی کانفرنسیں اور عالمی علما کی نشستیں ہوتی رہی ہیں ،،، اب کیا مصیبت یا مُردَنت مسلّط ہوگئی ہے کہ سب فیصلے  اسلام دشمن طاقتوں سے کروائے جارہے ہیں اور اربوں مسلمان صرف رو پیٹ رہے ہیں یا بس سو رہے ہیں ⁉️

لوگ حج کو بھولتے جارہے ہیں :

موذی کرونا سے پہلے لوگ سال بھر حج اور عمرہ کی باتوں اور کوشش میں مصروف رہتے  تھے ، ایام حج میں لوگوں کا شوق و ذوق مزید بڑھ جاتا تھا۔ 

کرونا کی اڑ  میں پرنس "ایم بی ایس" کا غلط اور غلیظ فیصلہ ۔۔۔۔۔۔ عالم اسلام رفتہ رفتہ قبول کرتا جارہا ہے ، سعودی کے اس "کافرانہ اور ظالمانہ"  فیصلے کیخلاف دنیا کے کسی بھی حصے سے احتجاج بلند نہیں ہورہا ہے ،   سعودی کے سینما ھال کھل گئے ہیں جہاں کوئی "ایس او پیز"  لاگو نہیں  ، کیسینوز میں وہی چہل پہل ہیں ، ہوٹلز اور شاپنگ مالز میں وہی رونقیں ہوتی ہیں مگر حرمین بند پڑے ہیں ۔

 تعجب کی بات ہے ، یورپ بھر میں  "یوروکپ فٹ بال ٹورنمنٹ" کے دوران  وہی پرانی جوش وخروش دیکھنے میں اتی ہے لیکن حرمین پر ابھی تک کویڈ 19 کی نخوست کا سایہ ہے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ کرونا نہیں ہے یا ویکسین ضروری نہیں ہے لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ 

جب یورپ و امریکہ میں کھیل کے میدانوں میں عوام کا ھجوم دیکھتے ہیں ، دوسری طرف سعودی اور امارات میں کاروباری ، تفریحی اور "انٹرٹینمنٹ" والی مقامات پر وہی پرانی سرگرمیاں ، وہی رونقیں ، وہی نظارے اور وہی چہل پہل نظر اتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ، 

تو ۔۔۔۔۔  "حرمین" کی بے بسی اور بیکسی پر رونا آتا ہے ۔۔۔۔۔۔ !!

 روایت ہے کہ 

" خانہ کعبہ بنانے کے بعد جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی آئی کہ اب اعلان کرو تو آپ نے تعجب سے فرمایا اس صحرا سے میری  آواز دنیا تک کیسے پہنچے گی تو جبریل نے  فرمایا ، یہ آپکا کام نہیں ہے آپ صرف اعلان کریں آواز پہنچانا "ہمارا"  کام ہے"-

Saturday 24 July 2021

عیدین میں چھ تکبیرات کے دلائل

 

  • تکبیراتِ عیدین پر مختلف روایات کتبِ احادیث میں موجود ہیں، دنیا میں موجود مسلمانوں کی اکثریت "احناف" عید الفطر اور عید الأضحى کی دو رکعات نماز چھہ زائد تکبیرات سے اداکرتی ہے. پہلی رکعت میں ثنا کے بعد قرأت سے پہلے تین (٣) زائد تکبیرات کہی جاتی ہیں، اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین (٣) زائد تکبیرات کہہ کر رکوع کی تکبیر کہتے رکوع میں چلے جاتے ہیں.

    پہلی رکعت میں تین (٣) زائد تکبیرات چونکہ تکبیرِ تحریمہ کہہ کر ثناء کے متصل بعد کہی جاتی ہیں اور دوسری رکعت میں یہ تکبیرات کہہ کر متصل رکوع کی تکبیر کہی جاتی ہے، اس لئے اس اتصال کی وجہ سے پہلی رکعت میں رکوع کی تکبیر سے مل کر چار. گویا ہر رکعت میں چار تکبیرات شمار ہوں گی.

    پہلی روایات میں پہلی رکعت میں تکبیرِ تحریمہ تین زائد تکبیرات اور رکوع کی تکبیر کو ملا کر پانچ (٥) اور دوسری رکعت میں تین زائد تکبیرات اور رکوع کی تکبر ملا کر چار بتایا گیا ہے اور مجموئی طور پر نو (٩) تکبیرات شمار کی گئی ہیں.

    1) أَنَّ الْقَاسِمَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " صَلَّى بِنَا ، النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ، وَأَرْبَعًا ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ حِينَ انْصَرَفَ ، قَالَ : لا تَنْسَوْا ، كَتَكْبِيرِ الْجَنَائِزِ ، وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ ، وَقَبَضَ إِبْهَامَهُ " .

    [شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الزِّيَادَاتِ » بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا ...، رقم الحديث: 4820]

    خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
    [نخب الافكار (العيني) -الصفحة أو الرقم: 16/440 ، السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 6/1259 : 2997]

    ترجمہ : ابو عبدالرحمٰن قاسم فرماتے ہیں کہ مجھے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھائی تو چار چار (4،4) تکبیریں کہیں، جب نماز سے فارغ ہوۓ تو ہماری طرف متوجہ ہوکر فرمایا : بھول نہ جانا عید کی تکبیرات جنازہ کی طرح (چار) ہیں. آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں کا اشارہ فرمایا اور انگوٹھا بند کرلیا.
    [شرح معانی الآثار، لطحاوی : ٢/٣٧١، بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا]
2) عَنْ مَكْحُولٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو عَائِشَةَ جَلِيسٌ لِأَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ سَأَلَ أَبَا مُوسَى الْأَشْعَرِيَّ ، وَحُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ : كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ ؟ فَقَالَ أَبُو مُوسَى : " كَانَ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا تَكْبِيرَهُ عَلَى الْجَنَائِزِ " ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ : صَدَقَ ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : كَذَلِكَ كُنْتُ أُكَبِّرُ فِي الْبَصْرَةِ حَيْثُ كُنْتُ عَلَيْهِمْ ، وقَالَ أَبُو عَائِشَةَ : وَأَنَا حَاضِرٌ سَعِيدَ بْنَ الْعَاصِ .
[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ » بَاب التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ، رقم الحديث: 975]

خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة] تخريج مشكاة المصابيح (ابن حجر العسقلاني) - الصفحة أو الرقم: 2/121

السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 6/1260 صحيح أبي داود (الألباني) - الصفحة أو الرقم: 1153

ترجمہ : حضرت مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک ہم نشین ابوعائشہ نے بتایا کہ میں نے حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح تکبیر کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ (ہر رکعت میں) چار تکبیریں کہتے تھے جیسا کہ آپ نماز جنازہ میں کہتے تھے۔ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں. حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے (مزید) بتایا کہ جب میں بصرہ والوں پر حاکم (گورنر) بنایا گیا تو میں وہاں بھی اسی طرح تکبیریں کہا کرتا تھا. ابوعائشہ نے کہا کہ (اس سوال و جواب کے موقع پر) سعید بن العاص کے ساتھ موجود تھا۔
[سنن ابوداؤد: جلد اول: حدیث نمبر 1150، نماز کا بیان : عیدین کی تکبیرات کا بیان]
تخريج الحديث
م طرف الحديث الصحابي اسم الكتاب أفق العزو المصنف سنة الوفاة
1 يكبر أربعا تكبيره على الجنائز حذيفة بن حسيل مسند أحمد بن حنبل 19294 19234 أحمد بن حنبل 241
2 كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى أربعا كتكبيره على الجنائز حذيفة بن حسيل شرح معاني الآثار للطحاوي 4821 4830 الطحاوي 321
3 في التكبير على الجنائز خمسا حذيفة بن حسيل إتحاف المهرة 4125 --- ابن حجر العسقلاني 852
4 يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى كان يكبر أربع تكبيرات كتكبيره على الجنائز حذيفة بن حسيل مسند أبي حنيفة لابن يعقوب 579 --- عبد الله بن محمد بن يعقوب بن البخاري 340
5 يكبر في الأضحى والفطر أربعا كتكبيره على الجنائز حذيفة بن حسيل مسند الشاميين للطبراني 3526 3573 سليمان بن أحمد الطبراني 360
6 يكبر أربعا تكبيره على الجنائز حذيفة بن حسيل السنن الكبرى للبيهقي 5707 3:289 البيهقي 458
7 الصلاة في العيدين كالتكبير على الجنائز أربع وأربع سوى تكبيرة الافتتاح والركوع حذيفة بن حسيل معرفة السنن والآثار للبيهقي 1694 1901 البيهقي 458
8 كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الفطر والأضحي فقال أبو موسى كان يكبر أربع تكبيرات تكبيرة على الجنائز وصدقه حذيفة حذيفة بن حسيل تاريخ دمشق لابن عساكر 25895 67 : 26 ابن عساكر الدمشقي 571
9 كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى كان يكبر أربعا تكبيره على الجنائز وصدقه حذيفة حذيفة بن حسيل تاريخ دمشق لابن عساكر 25896 67 : 26 ابن عساكر الدمشقي 571
10 كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يكبر في الأضحى والفطر فقال أبو موسى أربعا كتكبيره على الجنائز فصدقه حذيفة حذيفة بن حسيل تاريخ دمشق لابن عساكر 25897 67 : 27 ابن عساكر الدمشقي 571
=========================
3) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، " أَنَّهُ صَلَّى خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي الْعِيدِ ، فَكَبَّرَ أَرْبَعًا ، ثُمَّ قَرَأَ ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ ، ثُمَّ قَامَ فِي الثَّانِيَةِ فَقَرَأَ ، ثُمَّ كَبَّرَ ثَلاثًا ، ثُمَّ كَبَّرَ فَرَفَعَ " . حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : ثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، مِثْلَهُ .
[شرح معاني الآثار للطحاوي » كِتَابُ الزِّيَادَاتِ » بَابُ صَلاةِ الْعِيدَيْنِ كَيْفَ التَّكْبِيرُ فِيهَا ..., رقم الحديث: 4825]
خلاصة حكم المحدث: [ورد] من طريقين صحيحين [نخب الافكار (العيني) - الصفحة أو الرقم:16/447]

ترجمہ : حضرت عبدالله بن حارث رح نے حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ کے پیچھے نماز پڑھی. حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ نے پہلے چار تکبیریں کہیں، پھر قرأت کی، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کیا. پھر جب آپ دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوۓ تو پہلے قرأت کی پھر تین تکبیریں کہیں، پھر (چوتھی) تکبیر کہہ کر رکوع کیا.[سنن الطحاوی]
كبَّرَ ابنُ عبَّاسٍ يومَ العيدِ في الرَّكعَةِ الأولى أربعَ تَكْبيراتٍ ، ثمَّ قرأَ ثمَّ رَكَعَ ، ثمَّ قامَ فقَرأَ ثمَّ كبَّرَ ثلاثَ تَكْبيراتٍ سِوى تَكْبيرةِ الصَّلاةِ
الراوي: عبدالله بن الحارث بن نوفل المحدث: ابن حزم - المصدر: المحلى - الصفحة أو الرقم: 5/83
خلاصة حكم المحدث: إسناده في غاية الصحة
المحدث: ابن حجر العسقلاني - المصدر: الدراية - الصفحة أو الرقم: 1/220
[إرواء الغليل (لألباني) - الصفحة أو الرقم: 3/111 ، السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 6/1262]

ترجمہ : تکبیر کہتے حضرت ابن عباس عید کے دن پہلی رکعت میں (پہلی تکبیر تحریمہ کے ساتھ) چار تکبیرات ، پھر (قرآن کی) قرأت کرتے پھر رکوع کرتے ، پھر (جب دوسری رکعت کو) کھڑے ہوتے تو (پہلے قرآن کی) قرأت کرتے پھر تکبیر کہتے تین تکبیرات سواۓ نماز کی (بقیہ) تکبیرات کے. 
تشریح : یعنی رکوع و سجدہ کو جاتے اور اٹھتے وقت کی تکبیرات علیحدہ ہوتیں.
===========================
4) عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ : كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ جَالِسًا ، وَعِنْدَهُ حُذَيْفَةُ ، وَأَبُو مُوسَى الأَشْعَرِيُّ ، فَسَأَلَهُمَا سَعِيدُ بْنُ الْعَاصِ عَنِ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالأَضْحَى ، فَجَعَلَ هَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، وَهَذَا يَقُولُ : سَلْ هَذَا ، فَقَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ : سَلْ هَذَا ، لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، فَسَأَلَهُ ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ " يُكَبِّرُ أَرْبَعًا ، ثُمَّ يَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْكَعُ ، ثُمَّ يَقُومُ فِي الثَّانِيَةِ فَيَقْرَأُ ، ثُمَّ يُكَبِّرُ أَرْبَعًا بَعْدَ الْقِرَاءَةِ " .
[مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِرقم الحديث: 5528] خلاصة حكم المحدث: إسناده في غاية الصحة
[المحلى (ابن حزم) - الصفحة أو الرقم: 5/83 ، السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم:6/1261]

ترجمہ : علقمہ اور اسود بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالله بنِ مسعودؓ بیٹھے ہوۓ تھے، ان کے پاس حضرت حذیفہؓ اور حضرت ابو موسیٰؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے. تو ان سے حضرت سعید بن العاصؓ نے عید الفطر اور عید الأضحى کے متعلق سوال کیا، حضرت ابو موسیٰ رضی الله عنہ نے کہا : ان (حضرت حذیفہؓ) سے پوچھو، پھر حضرت حذیفہؓ نے کہا : یہ مسئلہ حضرت عبدالله بنِ مسعودؓ سے پوچھو، چناچہ انہوں نے پوچھا تو حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا : نمازی چار تکبیریں (ایک تکبیرِ تحریمہ اور تین تکبیراتِ زائد کہے، پھر قرأت کرے، پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرے، دوسری رکعت میں تکبیر کہے، پھر قرأت کرے، پھر قرأت کے بعد چار تکبیریں کہے. (تین تکبیراتِ زائد اور ایک تکبیر رکوع کے لئے)
[المعجم الکبیر للطبرانی : ٤/٥٩٣، رقم : ٩٤٠٢؛ مصنف عبد الرزاق : ٣/١٦٧، باب تكبير في الصلاة يوم العيد، رقم : ٥٧٠٤]
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد » أبواب العيدين » باب التكبير في العيد والقراءة فيه, مسألة: 3249]

فتح القدير » كتاب الصلاة » باب صلاة العيدين, ص: 75- 76
المحلى بالآثار » الأعمال المستحبة في الصلاة وليست فرضا » صلاة العيدين » مسألة العمل والبيع في العيدين, ص: 296
نصب الراية في تخريج أحاديث الهداية » كتاب الصلاة » باب صلاة العيدين, ص: 257

===========================
5) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ: " فِي الأُولَى خَمْسَ تَكْبِيرَاتٍ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ ، وَبِتَكْبِيرَةِ الاسْتِفْتَاحِ ، وَفِي الرَّكْعَةِ الأُخْرَى أَرْبَعَةٌ بِتَكْبِيرَةِ الرَّكْعَةِ " .

[ مصنف عبد الرزاق » كتاب صلاة العيدين » بَابُ التَّكْبِيرِ فِي الصَّلاةِ يَوْمَ الْعِيدِ , رقم الحديث: 5526 ]
ترجمہ : حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نمازِ عید کی پہلی رکعت میں رکوع اور تحریمہ کی تکبیر کو ملاکر پانچ (٥) تکبیریں ہوتی ہیں اور دوسری رکعت میں رکوع والی تکبیر کو ملاکر چار (٤) تکبیریں بنتی ہیں. [خلاصہ یہ کہ ہر رکعت میں زائد تکبیروں کی تعداد تین (٣) ہے]
عن ابنِ مسعودٍ : أنَّه كان يعلِّمهُم التَّكبيرَ في العيدَينِ تِسعَ تكبيراتٍ : خمسٌ في الأولَى ، وأربعٌ في الثَّانية ، ويُوالي بين القراءتَينِ الراوي: - المحدث: ابن عبدالبر - المصدر: الاستذكار - الصفحة أو الرقم: 2/384 خلاصة حكم المحدث: ثابت
==================
6) عن أنسِ بنِ مالِكٍ أنه قالَ: تِسعُ تَكْبيراتٍ، خَمسٌ في الأولى، وأربعٌ في الآخرةِ، معَ تَكْبيرةِ الصَّلاةِ
الراوي: محمد المحدث: العيني - المصدر: نخب الافكار - الصفحة أو الرقم: 16/454 خلاصة حكم المحدث: طريقه صحيح
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ : نو (٩) تکبیرات، پانچ (٥) پہلی میں ، اور چار (٤) دوسری میں ، تکبیرات_نماز کے ساتھ
تشریح : یعنی نماز کی پہلی تکبیر_تحریمہ اور رکوع کی تکبیر کے ساتھ زائد تین (٣) تکبیرات سے پہلی رکعت میں پانچ (٥) تکبیرات ہوں ، اور دوسری رکعت میں زاید تین (٣) تکبیرات کے ساتھ نماز کی دوسری رکعت میں رکوع میں جانے والی تکبیر کے ساتھ دوسری رکعت میں چار

Friday 23 July 2021

عید کے دن اورشب برات میں قبرستان جانا

 عید کا دن خوشی اور مسرت کا موقع ہوتا ہے، بسااوقات انسان  خوشی میں مصروف ہوکر آخرت سے غفلت ہوجاتاہےزیارتِ قبور سے آخرت یاد آتی ہے، اس لیے اگرکوئی شخص عید کے دن  قبرکی زیارت کرے تومناسب ہے، کچھ مضائقہ نہیں؛ لیکن اس کو لازم اور ضروری سمجھنا   خواہ یہ  التزام  عملاً ہی سہی جس سے دوسروں کو یہ شبہ ہو کہ یہ چیز لازمی اور ضروری ہے، درست نہیں؛ نیز اگر کوئی شخص اس دن زیارتِ قبور نہ کرے تو اس پرطعن کرنا یا اس کو حقیر سمجھنا درست نہیں، اس حوالے سے احتیاط لازم ہے۔

پندرہ شعبان کی رات جسے شب برات کہاجاتاہے،قبرستان جانادرست ہے،مقصود مرحومین کے لیے ایصال ثواب اوردعائے مغفرت ہو،البتہ یہ یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری حیات مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ اس شب میں قبرستان جاناثابت ہے،اس لیے اگوکوئی شخص زندگی میں صرف ایک مرتبہ بھی اتباع سنت کی نیت سے اس رات میں قبرستان چلاجائے تواتباع سنت کاثواب حاصل ہوگا۔ہرسال اسے لازم نہ سمجھاجائے۔نیزپھول پتیاں ،چراغاں اورپٹاخے وغیرہ ان امورکااس شب سے اورشریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن جابر - رضي الله عنه - قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان يوم عيد خالف الطريق» . رواه البخاري.
 أي: رجع في غير طريق الخروج، قيل: والسبب فيه وجوه منها: أن يشمل أهل الطريقين بركته وبركة من معه من المؤمنين. ومنها: أن يستفتي منه أهل الطريقين ... ومنها: أن يزور قبور أقاربه".
(3/ 1066)

وفیه أیضًا:

"قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال ، فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟"

(3/31،  کتاب الصلاۃ،  الفصل الأول، ط: رشیدیة)


تکبیرتشریق کاحکم

 تکبیراتِ تشریق کا حکم یہ ہے کہ 9 ذوالحجہ کی فجر کی نماز سے لے کر 13 ذوالحجہ کی عصر کی نماز تک (23 نمازوں میں) ہر فرض نماز کے بعد مردوں کے لیے باآوازِ بلند اور عورتوں کے لیے آہستہ آواز سے ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔

2۔ عید الاضحیٰ کی نماز کے لیے جاتے ہوئے راستے میں باآوازِ بلند تکبیر پڑھنا مستحب ہے۔ اور بعض فقہاءِ احناف کی تصریح کے مطابق عیدالاضحیٰ میں نمازِ عید شروع ہونے (اور جن علاقوں میں نماز سے پہلے اردو یا کسی اور زبان میں بیان ہوتاہو وہاں امام کے منبر پر آنے ) سے پہلے تک یہ تکبیرات پڑھنی چاہییں۔

3۔ اور حنفیہ کے ہاں راجح اور مفتی بہ قول کے مطابق عید الفطر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے یاعیدگاہ میں پہنچ کر بلند آواز سے تکبیر  پڑھنے کا حکم نہیں ہے، بلکہ دل دل میں پڑھنا مستحب ہے۔ 

لہٰذا سعودی عرب میں عید الفطر کی نماز سے پہلے جو تکبیراتِ تشریق پڑھی جاتی ہیں ان کا دہرانا واجب نہیں ہے۔ واضح رہے کہ عیدین کی نماز کے بعد خطبہ دینا سنت ہے، اور سعودی عرب میں بھی عیدین کی نماز کے بعد خطبہ دیا جاتاہے، البتہ عید کی نماز سے پہلے لاؤڈ اسپیکر پر بلند آواز میں تکبیراتِ تشریق اور دیگر کلماتِ ذکر پڑھے جاتے ہیں۔

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 93)
'(قوله: ولا يكبر في طريق المصلى عند أبي حنيفة) يعني جهراً أما سراً فمستحب، وهذا في عيد الفطر؛ لأن الأصل في الثناء الإخفاء، قال الله تعالى: ﴿وَاذْكُرْ رَّبَّكَ فِيْ نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَّخِيْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ﴾ [الأعراف: 205] وقال عليه الصلاة والسلام : «خير الذكر الخفي» .
(قوله: ويكبر في طريق المصلي عندهما) يعني جهراً ويقطع التكبير إذا انتهى إلى المصلى في رواية . وفي رواية: حتى يفتتح الصلاة

Thursday 22 July 2021

نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگرمرحومین کی طرف سے قربانی کرنا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی جانب سے قربانی کرنادرست اورباعث ثواب ہے،روایات میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک دنبہ اپنی جانب سے اورایک دنبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے قربانی کرتے تھے۔ 


نیزصحابہ کرام اور اپنے مرحومین کی طرف سے قربانی کرنادرست ہے۔اس کی دوصورتیں ہیں:

۔اگرمیت کی طرف سے قربانی کرناچاہیں توہرایک مرحوم کے لیے ایک حصہ رکھناہوگا۔

۔اگراپنی طرف سے نفلی قربانی کرکے اس کاثواب تمام مرحومین کوپہنچاناچاہے تویہ بھی درست ہے۔

احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک قربانی کرکے اس کاثواب پوری امت کو بخشاتھا۔

بیہقی: جلد 9صفحہ268

2۔نابالغ اولادکی طرف سے قربانی والدپرواجب تونہیں البتہ مستحب ہے،اگرنابالغ اولادکی طرف سے قربانی کریں گے توثواب ملے گااورقربانی درست ہے۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :’’ بیشک رسول اللہ ﷺ نے سینگوں والا ایک مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کے ہاتھ پاؤں،پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں چنانچہ وہ آپؐ کے سامنے لایا گیا تاکہ آپؐ اس کی قربانی کریں ۔پھر آپؐ نے ان سے فرمایا: اے عائشہ! چھری لاؤ۔پھر آپؐ نے فرمایا: اس کو پتھر پر تیز کرو۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی،پھر آپؐ نے چھری کو تھاما اور مینڈھے کوذبح کرنے کے لیے لٹا دیا۔پھر آپؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ!اے اللہ!محمد،آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما۔پھر آپؐ نے جانور کو ذبح کیا۔‘‘(صحیح مسلم۔کتاب الاضاحی)
۰ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہﷺ کے پاس دو سینگوں والے، چتکبرے،بڑے بڑے،خصی مینڈھے لائے گئے۔آپؐ نے ان دونوں میں سے ایک کو پچھاڑا اور فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اور اللہ سب سے بڑا ہے،محمد کی طرف سے اور ان کی امت میں ہر اس شخص کی طرف سے جس نے تیری توحید کی گواہی دی اور میرے پیغام پہنچانے کی شہادت دی۔‘‘ (مجمع الزوائد،کتاب الاضاحی،حسن(
۰ حضرت ابو رافعؓ سے روایت ہے :’’جب رسول اللہ ﷺ قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو فربہ سینگوں والے ،چت کبرے مینڈھے خریدتے۔جب آپؐ نماز اور خطبہ سے فارغ ہو جاتے تو عید گاہ ہی میں ان دو میں سے ایک مینڈھا لایا جاتا۔آپ ؐ اس کوذبح کرتے اور فرماتے: اے اللہ! یہ میری امت کے ان سب لوگوں کی طرف سے ہے جنہوں نے آپ کی توحید کی گواہی دی اور میرے پیغام پہنچانے کی شہادت دی۔پھر دوسرے کو لایا جاتا اور آپؐ اس کو ذبح کرتے اور فرماتے: اے اللہ یہ محمد اور آل محمد کی طرف سے ہے اور آپؐ ان دونوں مینڈھوں کے گوشت سے مسکینوں کو کھلاتے ،خود بھی اس سے تناول فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتے۔)مجمع الزوائد،کتاب الاضاحی،حسن)
۰ حضرت حنش ؒ سے روایت ہے :’’ حضرت علیؓ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی ۔ایک مینڈھا نبی کریم ﷺ کی طرف سے اور ایک مینڈھا پنی طرف سے اور فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں لہذا میں ہمیشہ قربانی کرتا رہوں گا۔‘‘ (مسند احمد،سنن ابی داؤد،جامع الترمذی،مستدرک علی الصحیحین)
بعض علماء نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے البتہ امام حاکم،ذہبی،شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
یہ روایت سنداً اگر ضعیف ہو تب بھی نبی اکرم ﷺ کا اپنی امت اور آل کی طرف سے قربانی کرنے والی روایات سندا بالکل صحیح ہیں۔ امت اور آل دونوں میں زندہ اور فوت شدگان سب شامل تھے۔
۰ امام ابن تیمیہؒ اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جس طرح میت کی طرف سے حج اور صدقہ کرنا جائز ہے،اسی طرح اس کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔میت کی طرف سے قربانی گھر میں کی جائے گی۔اس کی قبر پر نہ تو قربانی کا جانور ذبح کرنا جائز ہے اور نہ ہی کوئی اور جانور۔‘‘
۰ کتب احادیث میں کثرت سے ایسی روایات بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کرتے تھے۔ گھر والوں میں وہ افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں جو زندہ نہ ہوں جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کی نیت کے الفاظ ملتے ہیں جو عام ہیں اور ان میں زندہ،مردہ سب شامل ہیں۔ 
۰ حضرت عطاء بن یسارؒ سے روایت ہے کہ ’’ میں نے حضرت ابو ایوبؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں لوگ قربانیاں کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی دیا کرتا تھا اور اس سے وہ کھاتے بھی تھے اور کھلاتے بھی تھے۔‘‘ (المؤطا امام مالک،صحیح)

دلائل:
لمافی الشامیة:

قَوْلُهُ وَعَنْ مَيِّتٍ) أَيْ لَوْ ضَحَّى عَنْ مَيِّتٍ وَارِثُهُ بِأَمْرِهِ أَلْزَمَهُ بِالتَّصَدُّقِ بِهَا وَعَدَمِ الْأَكْلِ مِنْهَا، وَإِنْ تَبَرَّعَ بِهَا عَنْهُ لَهُ الْأَكْلُ لِأَنَّهُ يَقَعُ عَلَى مِلْكِ الذَّابِحِ وَالثَّوَابُ لِلْمَيِّتِ،
( ج :6، ص:335)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 326)

'' وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح''۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 595)

'' الأصل أن كل من أتى بعبادة ما،  له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه؛ لظاهر الأدلة. وأما قوله تعالى :﴿ وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ [النجم: 39] أي إلا إذا وهبه له، كما حققه الكمال، أو اللام بمعنى على كما في : ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ﴾ [غافر: 52]، ولقد أفصح الزاهدي عن اعتزاله هنا والله الموفق.

(قوله: بعبادة ما) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، والشهداء والأولياء والصالحين، وتكفين الموتى، وجميع أنواع البر، كما في الهندية، ط۔ وقدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء.'' اهـ

Wednesday 21 July 2021

عیدین کی نماز کے بعد دعاء کریں یاخطبہ کے بعد

 عید کی نماز کے بعد بھی باقی نمازوں کی طرح ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا جائز ہے، عید کے دن دعا کا ذکر تو صحیح احادیث میں موجود ہے، لیکن روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یہ دعا عید کی نماز کے بعد خطبہ سے پہلے ہوتی تھی یا خطبہ کے بعد، اس لیے اس میں دونوں  باتوں کا اختیار ہے کہ امام اور مقتدی مل کر کسی ایک موقع پر دعا مانگ لیں، خواہ نماز کے بعد یا خطبہ کے بعد، اور جس بھی موقع پر  مانگیں اس کو دعا کے لیے مخصوص اور مسنون نہ سمجھیں، اور نماز کے بعد دعا مانگنے والے خطبہ کے بعد دعا مانگنے والوں  کو ملامت نہ کریں اور نہ ہی  خطبہ کے بعد دعا مانگنے والے نماز کے بعد دعا کرنے والوں پر طعن وتشنیع کریں۔

 بخاری اور دیگر  صحاح ستہ کی اس حدیث میں جو عورتوں  کے لیے عیدگاہ آنے سے متعلق ہے یہ الفاظ ہیں:

” فلیشهدن الخیر ودعوة المسلمین، ولیعتزلن المصلی“۔

یعنی حائضہ  عورتیں بھی جائیں اور نیکی اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوجائیں، ہاں نماز سے علیحدہ رہیں۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں  :

 ”واقعی بعد نماز عید یاخطبہ دعا مانگنا بالخصوص منقول تو نہیں دیکھا گیا اور دعوتهم سے  استدلال ناتمام ہے، کیوں کہ اس میں کسی محل کی تصریح نہیں کہ یہ دعا کس وقت ہوتی ہے، پھر محل خاص میں ان کے ہونے پر استدلال کرنا ظاہر ہے کہ غیر تمام ہے، ممکن ہے کہ یہ دعا وہ ہو جو نماز کے اندریاخطبہ کے اندر عام صیغوں سے کی جاتی ہے جو سب مسلمانوں کوشامل ہوتی ہے اور حاضرین پر اس کے برکات اول فائض ہوتے ہیں، لیکن بالخصوص منقول نہ ہونے سے حکم ابتداع کا بھی مشکل ہے؛ کیوں کہ عموماتِ نصوص سے فضیلت دعا بعد الصلاۃ کی ثابت ہے، پس اس عموم میں اس کے داخل ہونے کی گنجائش ہے، اوراگرکوئی شخص بالخصوص منقول نہ ہونے کے سبب اس کو ترک کرے اس پر بھی ملامت نہیں ۔ بہرحال یہ مسئلہ ایسا مہتم بالشان نہیں ہے دونوں جانب میں توسع ہے۔ (امداد الفتاوی، 1/405، ط: دارالعلوم کراچی)

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

”(سوال )  عیدین کے بعد دعا مانگنا ثابت ہے یا نہیں ؟  اگر نہیں تو الدعاء مخ العبادات کا کیا مطلب ہوا؟  المستفتی نمبر ۷۹۱ محمد نور صاحب (ضلع جالندھر) ۷ ذی الحجہ ۱۳۵۴؁ھ م ۲ مارچ ۱۹۳۶؁ء  
(جواب ۴۷۶)  عیدین کے بعد دعا مانگنے کا فی الجملہ تو ثبوت ہے، مگر تعین موقع کے ساتھ ثبوت نہیں کہ نماز کے بعد یا خطبہ کے بعد دونوں موقعوں میں سے کسی ایک موقع پر دعا مانگنے میں مضائقہ نہیں ہے “ (کفایت المفتی 3/251، ط: مکتبہ حقانیہ)فقط واللہ اعلم