https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 22 July 2021

نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگرمرحومین کی طرف سے قربانی کرنا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   کی جانب سے قربانی کرنادرست اورباعث ثواب ہے،روایات میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک دنبہ اپنی جانب سے اورایک دنبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے قربانی کرتے تھے۔ 


نیزصحابہ کرام اور اپنے مرحومین کی طرف سے قربانی کرنادرست ہے۔اس کی دوصورتیں ہیں:

۔اگرمیت کی طرف سے قربانی کرناچاہیں توہرایک مرحوم کے لیے ایک حصہ رکھناہوگا۔

۔اگراپنی طرف سے نفلی قربانی کرکے اس کاثواب تمام مرحومین کوپہنچاناچاہے تویہ بھی درست ہے۔

احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک قربانی کرکے اس کاثواب پوری امت کو بخشاتھا۔

بیہقی: جلد 9صفحہ268

2۔نابالغ اولادکی طرف سے قربانی والدپرواجب تونہیں البتہ مستحب ہے،اگرنابالغ اولادکی طرف سے قربانی کریں گے توثواب ملے گااورقربانی درست ہے۔

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :’’ بیشک رسول اللہ ﷺ نے سینگوں والا ایک مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کے ہاتھ پاؤں،پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں چنانچہ وہ آپؐ کے سامنے لایا گیا تاکہ آپؐ اس کی قربانی کریں ۔پھر آپؐ نے ان سے فرمایا: اے عائشہ! چھری لاؤ۔پھر آپؐ نے فرمایا: اس کو پتھر پر تیز کرو۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی،پھر آپؐ نے چھری کو تھاما اور مینڈھے کوذبح کرنے کے لیے لٹا دیا۔پھر آپؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ!اے اللہ!محمد،آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما۔پھر آپؐ نے جانور کو ذبح کیا۔‘‘(صحیح مسلم۔کتاب الاضاحی)
۰ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے: ’’رسول اللہﷺ کے پاس دو سینگوں والے، چتکبرے،بڑے بڑے،خصی مینڈھے لائے گئے۔آپؐ نے ان دونوں میں سے ایک کو پچھاڑا اور فرمایا:اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اور اللہ سب سے بڑا ہے،محمد کی طرف سے اور ان کی امت میں ہر اس شخص کی طرف سے جس نے تیری توحید کی گواہی دی اور میرے پیغام پہنچانے کی شہادت دی۔‘‘ (مجمع الزوائد،کتاب الاضاحی،حسن(
۰ حضرت ابو رافعؓ سے روایت ہے :’’جب رسول اللہ ﷺ قربانی کا ارادہ فرماتے تو دو فربہ سینگوں والے ،چت کبرے مینڈھے خریدتے۔جب آپؐ نماز اور خطبہ سے فارغ ہو جاتے تو عید گاہ ہی میں ان دو میں سے ایک مینڈھا لایا جاتا۔آپ ؐ اس کوذبح کرتے اور فرماتے: اے اللہ! یہ میری امت کے ان سب لوگوں کی طرف سے ہے جنہوں نے آپ کی توحید کی گواہی دی اور میرے پیغام پہنچانے کی شہادت دی۔پھر دوسرے کو لایا جاتا اور آپؐ اس کو ذبح کرتے اور فرماتے: اے اللہ یہ محمد اور آل محمد کی طرف سے ہے اور آپؐ ان دونوں مینڈھوں کے گوشت سے مسکینوں کو کھلاتے ،خود بھی اس سے تناول فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلاتے۔)مجمع الزوائد،کتاب الاضاحی،حسن)
۰ حضرت حنش ؒ سے روایت ہے :’’ حضرت علیؓ نے دو مینڈھوں کی قربانی کی ۔ایک مینڈھا نبی کریم ﷺ کی طرف سے اور ایک مینڈھا پنی طرف سے اور فرمایا: مجھے رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ میں ان کی طرف سے قربانی کروں لہذا میں ہمیشہ قربانی کرتا رہوں گا۔‘‘ (مسند احمد،سنن ابی داؤد،جامع الترمذی،مستدرک علی الصحیحین)
بعض علماء نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے البتہ امام حاکم،ذہبی،شیخ احمد شاکر نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
یہ روایت سنداً اگر ضعیف ہو تب بھی نبی اکرم ﷺ کا اپنی امت اور آل کی طرف سے قربانی کرنے والی روایات سندا بالکل صحیح ہیں۔ امت اور آل دونوں میں زندہ اور فوت شدگان سب شامل تھے۔
۰ امام ابن تیمیہؒ اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’جس طرح میت کی طرف سے حج اور صدقہ کرنا جائز ہے،اسی طرح اس کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے۔میت کی طرف سے قربانی گھر میں کی جائے گی۔اس کی قبر پر نہ تو قربانی کا جانور ذبح کرنا جائز ہے اور نہ ہی کوئی اور جانور۔‘‘
۰ کتب احادیث میں کثرت سے ایسی روایات بھی موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک ہی قربانی کرتے تھے۔ گھر والوں میں وہ افراد بھی شامل ہو سکتے ہیں جو زندہ نہ ہوں جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کی نیت کے الفاظ ملتے ہیں جو عام ہیں اور ان میں زندہ،مردہ سب شامل ہیں۔ 
۰ حضرت عطاء بن یسارؒ سے روایت ہے کہ ’’ میں نے حضرت ابو ایوبؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں لوگ قربانیاں کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آدمی اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی دیا کرتا تھا اور اس سے وہ کھاتے بھی تھے اور کھلاتے بھی تھے۔‘‘ (المؤطا امام مالک،صحیح)

دلائل:
لمافی الشامیة:

قَوْلُهُ وَعَنْ مَيِّتٍ) أَيْ لَوْ ضَحَّى عَنْ مَيِّتٍ وَارِثُهُ بِأَمْرِهِ أَلْزَمَهُ بِالتَّصَدُّقِ بِهَا وَعَدَمِ الْأَكْلِ مِنْهَا، وَإِنْ تَبَرَّعَ بِهَا عَنْهُ لَهُ الْأَكْلُ لِأَنَّهُ يَقَعُ عَلَى مِلْكِ الذَّابِحِ وَالثَّوَابُ لِلْمَيِّتِ،
( ج :6، ص:335)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 326)

'' وقد صح «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين: أحدهما عن نفسه والآخر عمن لم يذبح من أمته»، وإن كان منهم من قد مات قبل أن يذبح''۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 595)

'' الأصل أن كل من أتى بعبادة ما،  له جعل ثوابها لغيره وإن نواها عند الفعل لنفسه؛ لظاهر الأدلة. وأما قوله تعالى :﴿ وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى﴾ [النجم: 39] أي إلا إذا وهبه له، كما حققه الكمال، أو اللام بمعنى على كما في : ﴿وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ﴾ [غافر: 52]، ولقد أفصح الزاهدي عن اعتزاله هنا والله الموفق.

(قوله: بعبادة ما) أي سواء كانت صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءةً أو ذكراً أو طوافاً أو حجاً أو عمرةً، أو غير ذلك من زيارة قبور الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، والشهداء والأولياء والصالحين، وتكفين الموتى، وجميع أنواع البر، كما في الهندية، ط۔ وقدمنا في الزكاة عن التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلاً أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات؛ لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء.'' اهـ

2 comments: