https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 6 December 2021

علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جاناپڑے والی روایت کی تحقیق

 یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ ملتی ہے:

"اطلبوا العلم ولو بالصین".

یعنی "علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے".

اور اسے امام بیہقی رحمہ اللہ نے "شعب الایمان" میں اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے "کتاب الرحلۃ" میں اپنی سندوں کے ساتھ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا ذکر کیا ہے، لیکن اکابر محدثین نے ان سندوں کو ضعیف قرار دیا ہے، چنانچہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کو باطل قرار دیا اور امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے موضوع روایات سے متعلق اپنی کتاب میں اس روایت کو بھی ذکر کیا ہے، اس لیے محدثین کے بیان کردہ قواعد کی روشنی میں اس حدیث کو بیان کرنا درست نہیں۔ یاد رہے کہ بعض اہلِ علم نے تاریخی واقعات و قرائن سے اس روایت کی تائید پیش کرکے اسے حدیث ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن محدثین کے ہاں جب سندًا روایت کا ثبوت نہ ہو تو خارجی قرائن سے وہ ثابت قرار نہیں پاتی۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیں:

1- المقاصد الحسنة للسخاوي

2- کشف الخفاء للعجلوني

3- الموضوعات لابن الجوزي. وغیرہ۔

علماء کی زیارت مستحب ہے

 دینِ اسلام میں  اہلِ حق علماءِ کرام   کا بہت بڑا مرتبہ ہے؛  اس لیے کہ ہر مسلمان پر عبادات کے علاوہ، جن معاملات اور معاشرت سے اس کا زندگی بھر واسطہ پڑتا ہے، اس کا علم سیکھنا فرض ہے، اور  یہ فریضہ علماء سے پوچھ  پوچھ کر ہی ایک عام مسلمان ادا کرسکتا ہے۔ نیز اگر کسی علاقے  کے مسلمانوں کی دینی رہنمائی کے لیے کوئی عالم نہ ہو تو وہ علاقے والے گناہ گار ہوں گے؛ کیوں کہ دینی رہنمائی کرنے والے علماء کا ہونا فرضِ کفایہ ہے !

امام نووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی درج ذیل حدیث  سے حاصل شدہ فوائد میں علماء و فضلاء کی زیارت کا پسندیدہ ہونا بھی ذکر کیا ہے، صحیح مسلم کی روایت اور امام نووی رحمہ اللہ کی عبارت درج ذیل ہے: 

صحيح مسلم (1 / 61):

" عن أنس بن مالك، قال: حدثني محمود بن الربيع، عن عتبان بن مالك، قال: قدمت المدينة، فلقيت عتبان، فقلت: حديث بلغني عنك، قال: أصابني في بصري بعض الشيء، فبعثت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أحب أن تأتيني فتصلي في منزلي، فأتخذه مصلى، قال: فأتى النبي صلى الله عليه وسلم، ومن شاء الله من أصحابه، فدخل وهو يصلي في منزلي وأصحابه يتحدثون بينهم، ثم أسندوا عظم ذلك وكبره إلى مالك بن دخشم، قالوا: ودوا أنه دعا عليه فهلك، ودوا أنه أصابه شر، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة، وقال: «أليس يشهد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله؟» ، قالوا: إنه يقول ذلك، وما هو في قلبه، قال: «لا يشهد أحد أن لا إله إلا الله، وأني رسول الله، فيدخل النار، أو تطعمه» ، قال أنس: فأعجبني هذا الحديث، فقلت لابني: اكتبه فكتبه."

 ترجمہ : حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں میں کچھ خرابی ہوگئی تھی؛ اس لیے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں تشریف لا کر نماز پڑھیں؛ تاکہ میں اس جگہ کو اپنے نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں؛ کیوں کہ میں مسجد میں حاضری سے معذور ہوں،  پس آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے اور گھر میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگے،  مگر صحابہ کرام  رضی اللہ تعالی عنہم آپس میں گفتگو میں مشغول رہے،  دورانِ گفتگو مالک بن دخشم کا تذکرہ آیا، لوگوں نے اس کو مغرور اور متکبر کہا( کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر سن کر بھی حاضر نہیں ہوا معلوم ہوا وہ منافق ہے)، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کہا کہ ہم دل سے چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے  لیے بددعا کریں کہ وہ ہلاک ہو جائے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا وہ اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور میری رسالت کی گواہی نہیں دیتا؟!  صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا:  زبان سے تو وہ اس کا قائل ہے، مگر اس کے دل میں یہ بات نہیں،  فرمایا:  جو شخص اللہ تعالیٰ کی تو حید اور میری رسالت کی گواہی دے گا وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا، یا یہ فرمایا کہ اس کو آگ نہ کھائے گی۔  حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھے بہت اچھی لگی،  میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اس کو لکھ لو تو انہوں نے اس حدیث کو لکھ لیا۔

شرح النووي على مسلم (1 / 244):

"وفي هذا الحديث أنواع من العلم تقدم كثير منها، ففيه التبرك بآثار الصالحين و فيه زيارة العلماء و الفضلاء و الكبراء أتباعهم و تبريكهم إياهم."

اسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ نے علماء کی زیارت کو زندگی کے مقاصد میں شمار کیا ہے، جب کہ امام غزالی رحمہ اللہ نے علماء کی زیارت کے سفر کو مستحب اسفار میں شمار کیا ہے۔

البتہ علماءِ کرام کی زیارت  کے متعلق  لوگوں میں حدیث مشہور ہے کہ جس نے علماء کی زیارت کی گویا کہ اس نے نبی کریم ﷺ  کی زیارت کی۔ مذکورہ حدیث  سنداً درست نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 42):

"وأما فرض الكفاية من العلم، فهو كل علم لا يستغنى عنه في قوام أمور الدنيا كالطب والحساب والنحو واللغة والكلام والقراءات وأسانيد الحديث وقسمة الوصايا والمواريث والكتابة والمعاني والبديع والبيان والأصول ومعرفة الناسخ والمنسوخ والعام والخاص والنص والظاهر وكل هذه آلة لعلم التفسير والحديث، وكذا علم الآثار والأخبار والعلم بالرجال وأساميهم وأسامي الصحابة وصفاتهم، والعلم بالعدالة في الرواية، والعلم بأحوالهم لتمييز الضعيف من القوي، والعلم بأعمارهم وأصول الصناعات والفلاحة كالحياكة والسياسة والحجامة. اهـ."

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 589):

"(«كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها» ) . والحديث إنما ورد نهيا عن الشد لغير الثلاثة من المساجد لتماثلها، بل لا بلد إلا وفيها مسجد، فلا معنى للرحلة إلى مسجد آخر، وأما المشاهد فلا تساوي بل بركة زيارتها على قدر درجاتهم عند الله، ثم ليت شعري هل يمنع هذا القائل من شد الرحل لقبور الأنبياء كإبراهيم وموسى ويحيى، والمنع من ذلك في غاية الإحالة، وإذا جوز ذلك لقبور الأنبياء والأولياء في معناهم، فلا يبعد أن يكون ذلك من أغراض الرحلة، كما أن زيارة العلماء في الحياة من المقاصد."

إحياء علوم الدين (2 / 249):

"والمحمود ينقسم الى واجب كالحج وطلب العلم الذي هو فريضة على كل مسلم والى مندوب اليه كزيارة العلماء وزيارة مشاهدهم."

كشف الخفاء ت هنداوي (2 / 300):

من زار العلماء؛ فكأنما زارني، ومن صافح العلماء؛ فكأنما صافحني، ومن جالس العلماء؛ فكأنما جالسني، ومن جالسني في الدنيا؛ أجلس إلي يوم القيامة.قال في الذيل: في إسناده حفص؛ كذاب."

Sunday 5 December 2021

احکام اسلامی میں عقل کادائرۂ کار

 حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے کہ شریعت کے اوامر و نواہی اور قرآن و سنت کے بیان کردہ احکام و فرائض کا عقل و مصلحت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں:

  • ایک گروہ کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ یہ محض تعبدی امور ہیں کہ آقا نے غلام کو اور مالک نے بندے کو حکم دے دیا ہے اور بس! اس سے زیادہ ان میں غور و خوض کرنا اور ان میں مصلحت و معقولیت تلاش کرنا کار لاحاصل ہے۔
  • جبکہ دوسرے گروہ کا موقف یہ ذکر کیا ہے کہ شریعت کے تمام احکام کا مدار عقل و مصلحت پر ہے اور عقل و مصلحت ہی کے حوالے سے یہ واجب العمل ہیں۔ شریعت ان میں سے کسی کام کی اصل حاکم نہیں ہے، بلکہ اس کا وظیفہ صرف یہ ہے کہ وہ اعمال کے حسن و قبح سے انسانوں کو آگاہ کر دے، اس لیے کسی عمل کے حسن و قبح تک رسائی ہوگی تو وہ وجوب، جواز یا حرمت کا درجہ اختیار کرے گا، اور حسن و قبح تک رسائی نہیں ہوگی تو اسے حکم کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکے گی۔

حضرت شاہ صاحبؒ نے ان دونوں گروہوں کے موقف کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اصل بات ان دونوں کے درمیان ہے کہ شریعت کا کوئی حکم عقل و مصلحت کے خلاف نہیں ہے، لیکن چونکہ تمام انسانوں کی عقل یکساں نہیں ہے اور ہر شخص کا عقل و فہم کی ہر بات تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا مدار انسانی عقل و فہم اور اس کی سمجھ کے دائرے میں آنے والی حکمت و مصلحت پر نہیں ہے بلکہ صرف امر الٰہی پر ہے، اور وہ اسی لیے واجب العمل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حکم دیا ہے۔

Friday 3 December 2021

قرآن مجید کی جھوٹی قسم کھانا

 قسم کھانے کی دو صورتیں ہیں:

  1.  ماضی میں ہونے والے کسی کام یا واقعہ کے متعلق قسم کھانا
  2. مستقبل میں کسی کام کی قسم کھا لینا

صورت اول کی مزید دو قسمیں ہیں: (1) وہ قسم جو لاعلمی یا غلط فہمی کی وجہ سے کھائی گئی ہو‘ یعنی انسان ماضی کے کسی واقعہ کے متعلق غلط فہمی کی بنیاد پر قسم کھائے کہ فلاں کام ایسے ہوا تھا، لیکن حقیقت میں ویسا نہ ہو۔ اِسے یمینِ لَغْو یعنی غلط فہمی کی قسم کہا جاتا ہے اور اس پر نا گناہ ہے اور اس کا کوئی کفارہ ہے۔ (2) ماضی میں ہونے والے کسی کام کے متعلق قسم کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی گزرے ہوئے واقعہ کے متعلق جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوئے قسم کھائے، یہ یمینِ غَموس یعنی جھوٹی قسم کہلاتی ہے۔ یمینِ غموس حرام ہے، اس کا کوئی مالی کفارہ تو نہیں، البتہ اس پر توبہ و استغفار لازم ہے اور آئندہ ایسا کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

مستقبل کے کسی معاملے کے متعلق کھائی گئی قسم یمینِ منعقدہ کہلاتی ہے، ایسی قسم توڑنا منع ہے اور توڑنے کی صورت میں قسم کھانے والے پر کفارہ لازم آتا ہے۔ اس کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو یا غلام میسر نہ ہو تو پھر دس مسکینوں کو دو وقت کا پیٹ بھر درمیانے درجے کا کھانا کھلانا، اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو پھر دس مسکینوں کو اوسط درجے کا لباس فراہم کرنا ہے۔ اگر تینوں میں سے کسی صورت کو بھی اختیار کرنے کی مالی استطاعت نہ ہو تو مسلسل تین روزے رکھنا ہے۔

صورتِ مسئلہ میں جس شخص نے قسم اٹھائی ہے اسے اپنی صفائی دینے یا سچائی ثابت کرنے کیلئے قسم کھانے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ قسم کسی بات کے انکار کرنے کے لیے کھائی جاتی ہے ناکہ اپنا دعویٰ ثابت کرنے لے لیے۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دو شخص حاضر ہوئے، ایک مقام حضرموت سے اور دوسرا کندہ سے۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! اس شخص (کندی) نے میرے باپ کی طرف سے ملی ہوئی زمین کو مجھ سے چھین لیا، کندی نے کہا وہ میری زمین ہے اور میرے تصرف میں ہے میں اس میں زراعت کرتا ہوں، اس شخص کا اس میں کوئی حق نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فَلَکَ يَمِينُهُ قَالَ: يَا رَسُولَ ﷲِ إِنَّ الرَّجُلَ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي عَلَی مَا حَلَفَ عَلَيْهِ. وَلَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْئٍ فَقَالَ لَيْسَ لَکَ مِنْهُ إِلَّا ذَلِکَ فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ. فَقَالَ رَسُولُ ﷲِ، لَمَّا أَدْبَرَ أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَی مَالِهِ لِيَاْکُلَهُ ظُلْمًا، لَيَلْقَيَنَّ ﷲَ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ.

پھر اس (کندی) شخص کی قسم پر فیصلہ ہو گا۔ حضرمی نے کہا یا رسول اللہ! یہ جھوٹا ہے، جھوٹ پر قسم اٹھا لے گا، یہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے لیے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے۔ جب کندی قسم کھانے کے لیے مڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اس شخص نے اس کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو اللہ سے جب ملاقات کرے گا اور وہ اس سے ناراض ہو گا۔

  1. مسلم، الصحيح، كتاب الإيمان، باب وعيد من اقتطع حق المسلم بيمين فاجرة بالنار، 1: 123، الرقم: 139
  2. ابو داؤد، السنن، كتاب الأيمان والنذور، باب فيمن حلف يمينا ليقتطع بها مالا لأحد، 3: 221، الرقم: 3245

مذکورہ بالا تصریح سے ثابت ہوا کہ مدعی ثبوت پیش کرتا ہے، اگر اس کے جواب میں مدعیٰ علیہ کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو اپنی صفائی کے لیے قسم یا حلف دیتا ہے۔

قسم قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھ کر کھائی جائے، قرآنِ مجید سر پر رکھ کر کھائی جائے یا بغیر قرآن اٹھائے کھائی جائے، قسم یکساں ہی رہتی ہے۔ قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھنا یا قرآنِ مجید سر پر رکھنا محض اپنی قسم کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ کوئی شخص قرآنِ مجید سر پر رکھ کر صحیح بات کہے یا بغیر قرآن کو اٹھائے سچ کہے‘ برابر ہے، تاہم قرآنِ مجید سر پر رکھ کر یا قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانا‘ گناہ کی سنگینی کو بڑھا دیتا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قسم کھاتے ہوئے قرآنِ مجید سر پر رکھنا یا قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھنا‘ اپنی قسم اہمیت جتانے کے لئے کیا جاتا ہے، اسی طرح کسی سے قسم لیتے ہوئے اس کے سر پر قرآنِ مجید رکھنا یا قرآنِ پاک پر ہاتھ رکھوانا اسے ڈرانے کے لیے ہوتا ہے تاکہ وہ جھوٹی قسم نہ کھائے۔

انسانی بالوں کو دفنانا مستحب ہے

 سر یا داڑھی کے بال انسانی جسم کا حصہ ہونے کی وجہ سے قابلِ احترام ہیں،  نیز اجنبی مرد کے لیے عورت کے ٹوٹے ہوئے بالوں کو دیکھنا بھی جائز نہیں ہے، اس لیے سر میں کنگھی کرتے ہوئے عورتوں کے جو بال گر جائیں انہیں کسی جگہ دفنا دینا  چاہیے، اگر دفنانا مشکل ہو تو کسی کپڑے وغیرہ میں ڈال کر ایسی جگہ ڈال دیے جائیں  جہاں کسی اجنبی کی نظر نہ پڑے ۔

 نیز مردوں کو بھی ناخن اور بال وغیرہ کسی زمین میں دفنا دینا مستحب ہے، اگر دفنانے کی سہولت نہ ہو تو ایسی جگہ مٹی میں ڈال دیے جائیں جہاں گندگی اور ناپاکی نہیں ہو.
قال العلامة الحصکفي رحمه الله تعالی: "و کل عضو لا یجوز النظر إلیه قبل الانفصال، لا یجوز بعده و لا بعد الموت، کشعر عانة و شعر رأسها". ( الشامیة ٦ / ٣٧١ ) 

Thursday 2 December 2021

کھڑے ہوکر وضوکرنا

 بیٹھ کر وضو کرنامستحب اور آداب وضو میں سے ہے کھڑے ہو کر بھی وضو کرنا جائز ہے وضو ہو جاتا ہے۔

والجلوس فی مکان مرتفع.

(نور الايضاح,صفحہ44)

وضو کے لیے اونچی جگہ بیٹھنا مستحب ہے۔

افضل یہ ہے کہ بیٹھ کر وضو کیا جائے۔البتہ

کسی اونچی جگہ قبلہ رو بیٹھ کر وضو کرنا آداب میں سے ہے یعنی: اس کی رعایت میں ثواب ہے اور رعایت نہ کرنے پر کوئی گناہ، ملامت یا مذمت نہیں ہے، قال في الدر مع الرد کتاب الطہارة: ۱/۲۴۸، ۲۵۰، ۲۵۱، ط: مکتبہ زکریا دیوبند): ومن آدابہ․․․ استقبال القبلة، ․․․ والجلوس في مکان مرتفع․․․ إھ وقال في مراقي الفلاح (مع حاشیة الطحطاوي ص: ۷۵، ط دارالکتب العلمیہ، بیروت لبنان): وہي جمع أدب وعرف بأنہ وضع الأشیاء موضعہا وقیل: الخصلة الحمیدة،وقیل: الورع، وفي شرح الہدایة: ہو ما فعلہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم مرة أو مرتین ولم یواظب علیہ وحکمہ الثواب بفعلہ وعدم اللوم علی ترکہ إھ وانظر حاشیة الطحطاوي أیضًا۔

Wednesday 1 December 2021

غیرعالم دین کادرس قرآن دینا

 ”درسِ قرآن“ قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرنے کا نام ہے اور علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی کو بیان کیا جائے‘ اس کے احکام کی حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے۔ نیز مرادِ خداوندی کو متعین کیا جائے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ ”علم تفسیر“ کے اس توضیحی عنوان میں علم تفسیر کی حقیقت‘ نزاکت اور اس کے حصول کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو بہت ہی مختصر اور سادہ الفاظ میں تعبیر کیا گیا ہے‘ اس عنوان کی تفصیلات اور علمی ابحاث میں جائے بغیر یوں کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم‘ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ اس کی ترجمانی اور تفصیل وتوضیح کے لئے ایسی لیاقت اور اہلیت درکار ہے‘ جو اس کلام کی عظمت کے شایانِ شان ہو‘ ورنہ معمولی لغزش غلط ترجمانی کا مرتکب بناکر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے باغیوں میں شمار کروا دے گی اور تفسیر قرآن ودرس قرآن کا شوق دنیا وآخرت کی نجات وفلاح کی بجائے ہلاکت وبربادی کا ذریعہ بن جائے گا۔اسی خطرہ کے پیش نظر علماء کرام فرماتے ہیں اور دنیا کا عام اصول بھی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی علم وفن ایسا نہیں جو اس تک پہنچنے والے متعین راستوں اور واسطوں کے بغیر حاصل ہوتا ہو‘ یہی اصول قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے والوں کے بھی پیش نظر ہونا چاہئے‘ اگر کوئی انسان اس اصول اور ضابطہ سے ہٹ کر خدا کی کتاب کو تختہٴ مشق بناتا ہے تو ایسا کرنا نہ صرف یہ کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ ظلم وناانصافی ہے‘ بلکہ خود انسان اپنے اوپر بھی ظلم کرنے والا بن جاتا ہے۔ اسی عظیم خطرہ کی بنا پر علماء امت کے ایک طبقہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نبوی ارشادات سے آگے کوئی بھی لفظ زبان سے نکالا ہی نہ جائے‘ کیونکہ قرآن فہمی اور قرآن بیانی میں غلطی سرزد ہونے کی بناء پر انسان ان تمام وعیدات کا مصداق بن جاتا ہے‘ جو قرآن بیانی میں اپنی رائے اور مذاق ومزاج کی آلودگی شامل کرنے والوں کی بابت وارد ہوئی ہیں‘ لیکن علامہ جلال الدین سیوطی  (م‘۹۱۱ھ) فرماتے ہیں کہ جمہور علمأ امت کی رائے کے مطابق قرآنی اعجاز کے اسرار ورموز کو سمجھنے کے لئے مطلوبہ استعداد اور صلاحیت کے حاملین کے لئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنا جائز ہے اور یہ استعداد وصلاحیت علوم وفنون کی تقریباً ۱۵/ پندرہ گھاٹیاں سر کرنے کے بعد پیدا ہوتی ہے‘ جن میں لغت ‘ صرف‘ نحو‘ اشتقاق‘ معانی‘ بیان‘ بدیع‘ قرآء ات‘ اصول الدین‘ اصول فقہ‘ فقہ‘ حدیث‘ علم اسباب نزول‘ علم ناسخ ومنسوخ اور نور بصیرت ووہبی علم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ علوم وفنون چونکہ ہمارے ہاں درسِ نظامی کے درسی نصاب میں شامل ہیں اسی بنیاد پر کہا جاتاہے کہ درسِ قرآن دینے والے کے لئے کم از کم درسِ نظامی کا فاضل ہونا ضروری ہے‘ کیونکہ جس آدمی نے اپنی زندگی کے آٹھ‘ دس سال ان علوم وفنون کے سائے میں گزارے ہوں اسے ان علوم میں اعلیٰ درجہ کا کمال اور مہارت اگر حاصل نہ بھی ہو تو کچھ نہ کچھ مناسبت تو ضرور حاصل ہوجاتی ہے اور اس سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ درس نظامی کے فاضل کو اعجاز قرآن کے بیان کرنے میں اپنی علمی بے مائیگی کا احساس دامن گیر رہے گا اور وہ اپنی طرف سے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے اور الفاظ قرآنی میں مراد خداوندی متعین کرنے میں جاہلانہ بے باکی اور جرأت سے کم از کم محفوظ رہے گا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مستند عالم دین جو بات اور جتنی بات کہے گا وہ سلف صالحین پر اعتماد اور استناد کی روشنی میں کہے گا اور یہ تفسیر قرآن کا اہم بنیادی اصول ہے کہ تفسیر قرآن کا بار گراں اٹھانے والا اپنی طرف سے الفاظ وتعبیرات اور مراد ومعانی منتخب کرنے کی بجائے اسلاف پر اعتماد کرتے ہوئے ان ہی کے ارشادات کو سامنے رکھے‘ یعنی نبی اکرم ا کے اقوال وافعال‘ آپ ا کے صحابہ کرام  کے فرامین اور آراء کو تفسیر بیان کرتے ہوئے اساس وبنیاد سمجھے پھرحضور ا کے اسوہٴ حسنہ اور صحابہ کرام  کے طرز فکر وعمل پر کار بند رہنے والے فقہاء ملت اور علمأ حق کے عقائد واعمال اور اخلاق وعادات کو اپنا سرمایہ اور مأخذ سمجھے‘ اگر کوئی مفسر قرآن یا مدرس قرآن اس اصول سے پہلو تہی کرتے ہوئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنے کی ٹھان لے اور درس قرآن کے نام پر کتاب الٰہی کو تحتہٴ مشق بنائے تو ہم تک قرآن اور دین کی تشریحات پہچانے والے واسطوں اور ذریعوں کا کہنا ہے کہ وہ ناجائز کررہا ہے‘ اس کا یہ عمل ‘ دین یا قرآن کی خدمت نہیں‘ بلکہ امت میں فتنہ اور گمراہی کا ذریعہ ہے پھر ستم بالائے ستم یہ کہ یہ مفسر یا مدرس اپنے اعمال ونظریات کی وجہ سے سلف بیزاری اور الحاد سے متہم ہوچکا ہو۔ اگر ایسے شخص کو کتاب اللہ کا مفسر بناکر بٹھا دیا جائے اور مرادِ الٰہی کا ترجمان قرار دیا جائے تو پھر مسلمانوں کے عقائد ونظریات اور دینیات کا اللہ ہی حافظ ہے۔ چنانچہ حافظ جلال الدین سیوطی  نے ”الاتقان فی علوم القرآن“ میں امام ابوطالب الطبری کے حوالہ سے مفسر کے آداب کے ضمن میں مفسر کے لئے ضروری شرائط کا تذکرہ یوں فرمایا ہے:

”اعلم ان من شرطہ صحة الاعتقاد اولاً ‘ولزوم سنة الدین فان من کان مغموصاً علیہ فی دینہ لایؤتمن علی الدنیا فکیف علی الدین ثم لایؤتمن فی الدین علی الاخبار عن عالم فکیف یؤتمن فی الاخبار عن اسرار اللہ تعالیٰ ‘ولانہ لایؤمن ان کان متہماً بالالحاد ان یبغی الفتنة ویغر الناس بلیّہ وخداعہ کدأب الباطنیة وغلاة الرافضة․․․ الخ“۔(الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی النوع:۷۸‘ج:۲۰ ص:۱۷۶‘ ط:سہیل اکیڈمی لاہور)
ترجمہ:․․․”جاننا چاہئے کہ مفسر کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پہلے تو اس کا عقیدہ صحیح ہو‘ دوسرے وہ سنت دین کا پابند ہو‘ کیونکہ جو شخص دین میں مخدوش ہو‘ کسی دنیوی معاملہ میں بھی اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو دین کے معاملے میں اس پر کیا اعتماد کیا جائے گا‘ پھر ایسا شخص اگر کسی عالم سے دین کے بارے میں کوئی بات نقل کرے‘ اس میں بھی وہ لائق اعتماد نہیں تو اسرار الٰہی کی خبر دینے میں کس طرح لائق اعتماد ہوگا‘ نیز ایسے شخص پر اگر الحاد کی تہمت ہو تو اس کے بارے میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ تفسیر بیانی کے ذریعہ فتنہ کھڑا کردے اور لوگوں کو اپنی چرب زبانی ومکاری سے گمراہ کرے‘ جیساکہ فرقہٴ باطنیہ اور غالی رافضیوں کا طریقہ ٴ کار ہے“۔
مزید برآں جو شخص نظریاتی وفکری طور پر زیغ وضلال کا شکار ہو‘ عملی اعتبار سے بدعت وکجروی اور بے راہ روی کا علمبردار ہو اور روحانی لحاظ سے تکبر وغرور‘ نفس پرستی اور حب جاہ وحب مال کے علاوہ نفسانی خواہشات سے دوچار ہو تو حضرت لدھیانوی شہید کے بقول ایسا شخص جو تفسیر لکھے اور بیان کرے گا وہ قرآن کریم کی تفسیر نہیں ہوگی‘ بلکہ اس کے بدعت آلودذہن کا بخار اور بیمار دل کا تعفن ہوگا‘ ایسے فکری وروحانی مریضوں کے لئے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرنا یا درسِ قرآن دینا تو کجا‘ علمأ تفسیر کے بقول قرآن فہمی کی کوشش کرنا بھی حرام ہے‘ کیونکہ ان لوگوں کی بیمار ذہنیت اور نفسانی خواہش کے غلبہ کی وجہ سے انہیں ہر ہر موقع پر اپنی بیماری اور نفسانیت کا عکس نظر آئے گا اور اپنے فاسد افکار وخیالات ‘ خود ساختہ تعبیرات وتشریحات کو عوام الناس کے سامنے قرآنی طشت میں رکھ کر پیش کرے گا اور لوگ اس کی جہالت کو علم‘ اس کی فاسد آراء کو قرآن کی تفسیر خیال کرتے ہوئے اسے اپنا پیشوا اور مقتدیٰ کے درجہ پر بٹھا لیں گے‘ اس طرح معاشرہ میں ضلالت وگمراہی کا طوفان برپا ہوجائے گا‘ چنانچہ ”الاتقان“ میں امام زرکشی کی ”البرہان“ کے حوالہ سے مذکور ہے جو پورے سوالنامہ کے جواب کے لئے بھی کافی ہے:
”اعلم انہ لایحصل للناظر فہم معانی الوحی ولایظہر لہ اسرارہ وفی قلبہ بدعة او کبر او ہوی اوحب الدنیا او ہو مصر علی ذنب او غیر متحقق بالایمان او ضعیف التحقیق او یعتمد علی قول مفسر لیس عندہ علم او راجح الی معقولہ وہذہ کلہا حجب وموانع بعضہا آکد من بعض ․․․ الخ“۔ (الاتقان للسیوطی:نوع:۷۸‘ ۲/۱۷۶‘ ط:لاہور)
ترجمہ:․․․”جاننا چاہئے کہ قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے پر وحی کے معانی ظاہر نہیں ہوتے اور اس پر وحی کے اسرار نہیں کھلتے‘ جبکہ اس کے دل میں بدعت ہو‘ یا تکبر ہو‘ یا اپنی ذاتی خواہش ہو‘ دنیا کی محبت ہو یا وہ گناہ پر اصرار کرنے والا ہو‘ یا اس کا ایمان پختہ نہ ہو یا اس میں تحقیق کا مادہ کمزور ہو‘ یا وہ کسی ایسے مفسر کے قول پر اعتماد کرے جو علم سے کوراہو‘ یا وہ قرآن کریم کی تفسیر میں عقل کے گھوڑے دوڑاتاہو‘ یہ تمام چیزیں فہم قرآن سے حجاب اور مانع ہیں‘ ان میں بعض دوسری بعض سے زیادہ قوی ہیں“۔
الغرض جو شخص کسی بھی طور پر یعنی علمی‘ عملی‘ فکری واعتقادی‘ نیز دین ودیانت کے لحاظ سے قرآن کریم کی تفہیم وتشریح کا اہل اور حقدار نہ ہو‘ اگر وہ اس منصب پر بیٹھ کر تفسیر قرآن کے نام پر رائے زنی کرے گا تو وہ نہ صرف یہ کہ حرام کا مرتکب ہوگا‘ بلکہ ان تمام وعیدات کا مصداق ومستحق بھی ہوگا جو حضور ا نے ”رائے وتخمین“ کے ذریعہ تفسیر کرنے والوں کے بارے میں فرمائی ہیں‘ جن میں سرفہرست یہ ارشاد گرامی ہے:
”جس نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنائے اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے بغیر علم کے قرآن میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنائے“۔ (مشکوٰة:۳۵)

قرآنی آیات اوراحادیث پر مشتمل میسیج ڈیلیٹ کرنا جائز ہے یا نہیں

 دین کی نشرو اشاعت، تذکیر اور نصیحت کی غرض سے آیاتِ قرانیہ، احادیثِ مبارکہ، اور دینی پیغام بھیجنا فی نفسہ جائز ہے، تاہم اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا  نہایت ضروری ہے:

(۱) مذکورہ پیغامات معتبر اور مستند ہوں، کیوں کہ آج کل دین کے نام پر لاشعوری  میں لوگ غلط باتیں بھی پھیلاتے رہتے ہیں، اس لیے تحقیق اور تسلی کے بغیر مذکورہ  پیغامات نہ بھیجے جائیں، خاص کر  جب وہ قرآنِ مجید یا حدیثِ مبارکہ کی طرف منسوب ہوں۔

(۲) قرآن مجید کی آیات کو اس کے   عربی رسم الخط  (رسمِ عثمانی ) میں لکھاجائَے، اس لیے کہ قرآنِ کریم کی کتابت میں  رسمِ عثمانی (جوکہ عام قرآن کا رسم الخط ہے) کی اتباع واجب ہے، لہذا کسی اور رسم الخط میں قرآنی آیت لکھ کر  پیغام بھیجنا جائز نہیں ہے، البتہ ترجمہ لکھ کر بھیجا جاسکتا ہے۔

          نیز میسج میں قرآنِ  کریم، احادیثِ مبارکہ، اور اسلامی کلمات موصول ہوں تو ان کو پڑھنے کے بعد یا ان سے نصیحت حاصل کرنے کے بعد  اگر ان کومٹانے (ڈیلیٹ) کرنے کی ضرورت درپیش ہو  تو اس کو مٹانے  میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،  اس لیے کہ فقہاءِ کرام نے  ضرورت کی صورت میں  کاغذ پر سے قرآنی آیات اور احادیث  کو مٹانے کی اجازت دی ہے، لہذا اس طرح کے پیغامات کو ڈیلیٹ کرنے کی بطریقِ اولیٰ گنجائش ہے۔

آپ نے جو روایت ذکر کی ہے، ان الفاظ کے ساتھ حدیث نہیں ملی، البتہ بعض میں روایات میں  قیامت کے  قریب قرآنِ مجید کے اٹھائے جانے کا ذکر ہے، اس کا مصداق یہ ہے کہ قرآنِ مجید اللہ تعالی کے حکم اور منشا سے  لوگوں کے سینوں اور مصاحف سے اٹھالیا جائے گا۔

باقی اس طرح کے پیغامات  اگر صحیح اور مستند ہوں تو  بہتر یہ ہے کہ انہیں پڑھنے سے پہلے ختم نہ کیا جائے، اس لیے کہ اس میں صورۃً اعراض پایا جاتا ہے، لہذا بلاعذر پڑھنے سے پہلے سے ختم (ڈیلیٹ) نہیں کرنا چاہیے۔

        حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كذب علي متعمداً، فليتبوأ مقعده من النار»". 

(صحیح مسلم ،1 / 10، باب في التحذير من الكذب على رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

مصنف عبد الرزاق الصنعانی میں ہے:

"عن الثوري، عن أبيه، عن المسيب بن رافع، عن شداد بن معقل، قال الثوري: وحدثني عبد العزيز بن رفيع، عن شداد، أن ابن مسعود قال: «لينتزعن هذا القرآن من بين أظهركم»، قال: قلت: يا أبا عبد الرحمن، كيف ينتزع وقد أثبتناه في صدورنا وأثبتناه في مصاحفنا؟ قال: "يسري عليه في ليلة فلايبقى في قلب عبد منه ولا مصحف منه شيء، ويصبح الناس فقراء كالبهائم، ثم قرأ عبد الله: {ولئن شئنا لنذهبن بالذي أوحينا إليك ثم لا تجد لك به علينا وكيلاً} [الإسراء: 86] ".

(3 / 362، رقم الحدیث: 5980،  باب تعاھد القرآن ونسیانہ، ط: المکتب الاسلامی ، بیروت)

     الاتقان فی علوم القرآن میں ہے:

"وقال ابن فارس: الذي نقوله: إن الخط توقيفي لقوله تعالى: {علم بالقلم علم الأنسان ما لم يعلم} {ن والقلم وما يسطرون} وإن هذه الحروف داخلة في الأسماء التي علم الله آدم. وقد ورد في أمر أبي جاد ومبتدأ الكتابة أخبار كثيرة ليس هذا محلها وقد بسطتها في تأليف مفرد. فصل : القاعدة العربية أن اللفظ يكتب بحروف هجائية مع مراعاة الابتداء والوقوف عليه وقد مهد النحاة له أصولا وقواعد وقد خالفها في بعض الحروف خط المصحف الإمام، وقال أشهب: سئل مالك: هل يكتب المصحف على ما أحدثه الناس من الهجاء؟ فقال: لا إلا على الكتبة الأولى رواه الداني في المقنع، ثم قال ولا مخالف له من علماء الأمة، وقال في موضع آخر: سئل مالك عن الحروف في القرآن الواو والألف، أترى أن يغير من المصحف إذا وجد فيه كذلك؟ قال: لا، قال أبو عمرو: يعني الواو والألف والمزيدتين في الرسم المعدومتين في اللفظ  نحو الواو في "أولوا"،وقال الإمام أحمد: يحرم مخالفة مصحف الإمام في واو أو ياء أو ألف أو غير  ذلك وقال البيهقي في شعب الإيمان: من كتب مصحفا فينبغي أن يحافظ على الهجاء الذي كتبوا به هذه المصاحف، ولا يخالفهم فيه ولا يغير مما كتبوه شيئا فإنهم كانوا أكثر علما وأصدق قلبا ولسانا وأعظم أمانة منا فلا ينبغي أن يظن بأنفسنا استدراكاً عليهم". (4 / 168، النوع السادس والسبعون: فی مرسوم الخط وآداب کتابتہ ، ط: مجلس العلمی، ہند)

      فتاوی شامی میں ہے:

"الكتب التي لا ينتفع بها يمحى عنها اسم الله وملائكته ورسله ويحرق الباقي". (6 / 422، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید)

      فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو محا لوحاً كتب فيه القرآن واستعمله في أمر الدنيا يجوز". (5 / 322، الباب الخامس في آداب المسجد والقبلة والمصحف وما كتب فيه شيء من القرآن،ط: رشیدیہ

عورت کامردڈاکٹرسے علاج کرانا

 علاج کی غرض سے عورت کا خواتین یا مرد ڈاکٹر کے پاس جانا جائز ہے، البتہ مرد ڈاکٹر کے سامنے پردہ کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اور اگر خواتین کے علاج یا آپریشن کے لیے خاتون ڈاکٹر میسر ہو تو اس صورت میں مرد ڈاکٹر سے علاج معا لجہ یا آپریشن کروانے کے لیے ستر کھولنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں اگر علاج یا آپریشن کے لیے ستر کھولنا ناگزیر ہو تو خاتون ڈاکٹر سے علاج یا آپریشن کروانا ضروری ہوگا، اورخاتون ڈاکٹر کے سامنے بقدرِ ضرورت ستر کھولنے کی اجازت ہوگی۔

البتہ اگر کسی جگہ خواتین ڈاکٹر موجود نہ ہوں یا موجود تو ہوں، لیکن وہ  ماہر نہ ہوں  اور مرد ڈاکٹر سے علاج معالجہ یا سرجری کروانا ناگزیرہو تو ضرورت کے بقدر مرد ڈاکٹر کے سامنے بھی  جسم کا وہ حصہ کھولنے کی  گنجائش ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب کہ آپ کے علاج کے لیے کوئی ماہر خاتون ڈاکٹر دست یاب نہیں ہے تو آپ اپنے بازو اور دانتوں کا کسی ماہر مرد ڈاکٹر سے علاج کرواسکتی ہیں ، شرعاً اس کی گنجائش ہے۔

الفتاوى الهندية (5/ 330):
"ويجوز النظر إلى الفرج للخاتن وللقابلة وللطبيب عند المعالجة ويغض بصره ما استطاع، كذا في السراجية. ... امرأة أصابتها قرحة في موضع لايحل للرجل أن ينظر إليه لايحل أن ينظر إليها لكن تعلم امرأة تداويها، فإن لم يجدوا امرأة تداويها، ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت وخيف عليها البلاء أو الوجع أو الهلاك، فإنه يستر منها كل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهن؛ لأن النظر إلى العورة لايحل بسبب المحرمية، كذا في فتاوى قاضي خان"
.

مسجد میں بھیک مانگنا

 وا ضح رہے کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو  اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو  کم جمع کرے یا زیادہ۔

اس کے علاوہ مسجد میں بھیک مانگنے کی صورت میں مسجد کے بہت سے آداب کی خلاف ورزی بھی لازم آتی ہے، مثلاً: مسجد میں شور و شغب ہونا، نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہونا، نمازیوں کی گردنیں پھلانگنا وغیرہ۔اس لیے  مسجد میں بھیک مانگنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے اور لوگوں کو بھی چاہیے  کہ  جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں، ایسے افراد کو بھیک نہ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ تاہم اگر کسی نے چندہ دے دیا تو یہ گناہ اور ناجائز نہیں ہے۔ 

اور اگر کوئی شخص انتہائی مجبور ہو تو اس  کے لیے کچھ شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں سوال کرلینے کی گنجائش ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔ (2) کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً گردن پھلانگنا وغیرہ (3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے (4) چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر  کسی کو عار نہ دلائی جائے۔ تاہم بہتر  یہی ہے کہ بوقتِ ضرورت بھی چندہ مسجد سے باہر  کیا جائے، اور ضرورت پر مسجد میں صرف اعلان کرلیا جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164):
"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.

(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم".

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

 ایصالِ ثواب  یا برکت کے حصول کے لیے قرآن خوانی جائز ہے، بشرطیکہ  اس میں چند اُمور کا لحاظ رکھا جائے:

اوّل:… یہ کہ جو لوگ بھی قرآن خوانی میں شریک ہوں، ان کا مطمحِ نظر محض رضائے الٰہی ہو، اہلِ میّت کی شرم اور دِکھاوے کی وجہ سے مجبور نہ ہوں، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی نکیر نہ کی جائے، بلکہ انفرادی تلاوت کو اجتماعی قرآن خوانی پر ترجیح دی جائے کہ اس میں اِخلاص زیادہ ہے۔

دوم:… یہ کہ قرآنِ کریم کی تلاوت صحیح کی جائے، غلط سلط نہ پڑھا جائے، ورنہ اس حدیث کا مصداق ہوگا کہ: ’’بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا ہے!‘‘

سوم:… یہ کہ قرآن خوانی کسی معاوضہ پر نہ ہو، ورنہ قرآن پڑھنے والوں ہی کو ثواب نہیں ہوگا، میّت کو کیا ثواب پہنچائیں گے؟ ہمارے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ قرآن خوانی کے لیے دعوت کرنا اور صلحاء و قراء کو ختم کے لیے یا سورہٴ انعام یا سورہٴ اِخلاص کی قرأت کے  لیے جمع کرنا مکروہ ہے۔ (فتاویٰ بزازیہ)(آپ کے مسائل اور ان کاحل4/429،مکتبہ لدھیانوی)

چہارم:...  قرآن خوانی کے لیے کوئی دن خاص کرکے (مثلاً سوئم، چہلم وغیرہ) اس کا التزام نہ کیا جائے، اگر خاص دن کا التزام کیا جائے تو بھی درست نہیں ہوگا۔

لہٰذا اگر مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کی جائے، اور  اجتماعی طور پر قرآن خوانی کو لازم نہ سمجھا جائے، بلکہ اگر اتفاقاً اکٹھے ہوجائیں یا  وہاں موجود لوگ مل کر قرآن خوانی کرلیں، یا اگر کوئی پڑھنے والا دست یاب نہ ہو تو جو پڑھنا جانتے ہیں ان سے پڑھوا لیا جائے  اور اس پر اجرت کا لین دین نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کے عوض میں دعوت کا التزام کیا جائے  تو  یہ جائز ہے۔ لیکن  جہاں ان شرائط کا لحاظ نہ کیا جائے تو وہاں اس طرح اجتماعی قرآن خوانی کرنا درست نہ ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 56):
" فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ".

مسبوق کے سامنے سے گزر نا

 اگر  امام کے  سامنے  سترہ رکھا ہوا ہو تو امام کا سترہ تمام مقتدیوں (چاہے مدرک ہوں یا مسبوق) کے لیے بھی کافی ہوگا،لہذا اگر کوئی شخص نماز کے دوران مقتدیوں  کی صف کے آگے سے گزرنا چاہے تو گزر سکتا ہے، اس سے وہ گناہ گار نہیں ہو گا، لیکن امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق جب اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مقتدی کے حکم میں نہیں ہوتا، بلکہ منفرد کے حکم میں ہوتا ہے، اس لیے امام کے سلام پھیرنے کے بعد مسبوق کے آگے سے سترے کے بغیر گزرنا جائز نہیں ہے،  چاہے امام کے آگے سترہ رکھا ہوا ہو یا نہیں۔

رد المحتار  (فتاوی شامی)  کی عبارت (حوالہ) کا خلاصہ بھی یہی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 638):

’’ (وكفت سترة الإمام) للكل.

(قوله: للكل) أي للمقتدين به كلهم؛ وعليه فلو مر مار في قبلة الصف في المسجد الصغير لم يكره إذا كان للإمام سترة وظاهر التعميم شمول المسبوق وبه صرح القهستاني، وظاهره الاكتفاء بها ولو بعد فراغ إمامه، وإلا فما فائدته؟ وقد يقال: فائدته التنبيه على أنه كالمدرك لايطلب منه نصب سترة قبل الدخول في الصلاة وإن كان يلزم أن يصير منفردا بلا سترة بعد سلام إمامه لأن العبرة لوقت الشروع وهو وقته كان مستترًا بسترة إمامه، تأمل.‘‘

Tuesday 30 November 2021

تعویذ کی شرعی حیثیت

 حضرت عبد اللہ  بن عمرو رضی اﷲ عنہما، "اللہ  تعالی کی قدرت وکبریائی پر مشتمل کلماتِ تعوذ اپنے سمجھ دار بچوں کو یاد کراتے تھےاور جو بچہ سمجھ دار نہ ہوتا تھا اُس کے گلے میں وہ کلمات لکھ کرتعویذ کی شکل میں ڈال دیتے تھے"۔

یہی تعویذ کی حقیقت  ہے۔اُن کے اِس عمل سے یہ معلوم ہوا کہ  ﷲ تعالیٰ کی عظمت پر مشتمل پر اثر کلمات  کاتعویذ میں استعمال جائز ہے۔ البتہ جو افراد مسنون دعائیں اور حفاظت کے اوراد وغیرہ خود پڑھ سکتے ہوں ان کے لیے بہتر یہ ہے کہ تعویذ کے بجائے وہ خود پڑھنے کا اہتمام کریں۔

باقی حدیث میں جن تعویذ کے استعمال کرنے کی ممانعت آئی ہے اس سے مراد وہ تعویذ ہیں جن میں شرکیہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہوں یا  اس کے مؤثر بالذات ہونے کا عقیدہ رکھاجاتا ہو یا کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم منتر اس میں ہوں۔

فقہاءِ کرام نے نصوص میں غور و فکر کرکے  تعویذات اور عملیات کے ذریعے علاج کرنے کو  چند شرائط کے ساتھ جائز  قرار دیا ہے :

(۱)  ان کا معنی  ومفہوم معلوم ہو،  (۲) ان میں  کوئی شرکیہ کلمہ نہ ہو، (۳)  ان کے مؤثر بالذات ہونے   کا اعتقاد نہ ہو ،  (۴)  عملیات کرنے ولا علاج سے واقف اور  ماہر ہو، فریب نہ کرتا ہو۔

 لہذا    ایسے تعویذ اور عملیات جو آیات  قرآنیہ ، ادعیہ ماثورہ یا کلمات صحیحہ پر مشتمل ہوں  ان کو لکھنا،  استعمال کرنا اور ان سے علاج کرنا شرعاً درست ہے؛ کیوں کہ اس کی حقیقت ایک جائز تدبیر سے زیادہ کچھ نہیں,  اور جن تعویذوں میں کلماتِ  شرکیہ یا  کلماتِ مجہولہ یا نامعلوم قسم کے منتر  لکھے جائیں یا ا نہیں مؤثر حقیقی  سمجھا جائے تو ان کا استعمال  شرعاً جائز نہیں ہے۔ 

مصنف ابن أبي شيبة (5/ 44):
"عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا فزع أحدكم في نومه فليقل: «بسم الله، أعوذ بكلمات الله التامات من غضبه وسوء عقابه، ومن شر عباده، ومن شر الشياطين وأن يحضرون». فكان عبد الله يعلمها ولده من أدرك منهم، ومن لم يدرك كتبها وعلقها عليه".
الصحیح لمسلم:
" عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله! كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى مالم يكن فيه شرك»".(4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا بأس بالرقی مالم یکن فیه شرك، ط:دار إحیاء التراث العربي)
سنن الترمذی:
"عن أبي سعيد الخدري قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فنزلنا بقوم، فسألناهم القرى فلم يقرونا، فلدغ سيدهم، فأتونا فقالوا: هل فيكم من يرقي من العقرب؟ قلت: نعم أنا، ولكن لا أرقيه حتى تعطونا غنماً، قالوا: فإنا نعطيكم ثلاثين شاةً، فقبلنا فقرأت عليه: الحمد لله سبع مرات، فبرأ وقبضنا الغنم، قال: فعرض في أنفسنا منها شيء، فقلنا: لا تعجلوا حتى تأتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما قدمنا عليه ذكرت له الذي صنعت، قال: «وما علمت أنها رقية؟ اقبضوا الغنم واضربوا لي معكم بسهم» : هذا حديث حسن صحيح".( 2/26 باب ما جاء  في أخذ الأجر علی التعویذ، ط: قدیمی)
وفیه أیضاً:
"عن ابن عباس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوذ الحسن والحسين يقول: «أعيذكما بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة، ومن كل عين لامة» ، ويقول: «هكذا كان إبراهيم يعوذ إسحاق وإسماعيل». حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا يزيد بن هارون، وعبد الرزاق، عن سفيان، عن منصور، نحوه بمعناه،: هذا حديث حسن صحيح". (2/26 باب ما جاء  في الرقیة من العین، ط: قدیمی)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:
"وأما ما كان من الآيات القرآنية، والأسماء والصفات الربانية، والدعوات المأثورة النبوية، فلا بأس، بل يستحب سواء كان تعويذاً أو رقيةً أو نشرةً، وأما على لغة العبرانية ونحوها، فيمتنع؛ لاحتمال الشرك فيها".(7 / 2880، رقم الحدیث:4553، الفصل الثاني، کتاب الطب والرقی، ط: دارالفکر بیروت)
وفیه أیضاً:
"(أو تعلقت تميمة) : أي: أخذتها علاقة، والمراد من التميمة ما كان من تمائم الجاهلية ورقاها، فإن القسم الذي اختص بأسماء الله تعالى وكلماته غير داخل في جملته، بل هو مستحب مرجو البركة، عرف ذلك من أصل السنة، وقيل: يمنع إذا كان هناك نوع قدح في التوكل، ويؤيده صنيع ابن مسعود -رضي الله عنه - على ما تقدم، والله أعلم".(7 / 2881، رقم الحدیث:4553، الفصل الثاني، کتاب الطب والرقی، ط: دارالفکر بیروت)
فتاوی شامی:
"[فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.
(قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم، وليس كذلك! إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً: إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولا يدرى ما هو، ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من  الدعوات فلا بأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه، وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة، وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمة فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى.وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه». قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار". (6 / 363، کتاب الحظر والاباحۃ، ط: سعید