https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 5 December 2021

احکام اسلامی میں عقل کادائرۂ کار

 حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے کہ شریعت کے اوامر و نواہی اور قرآن و سنت کے بیان کردہ احکام و فرائض کا عقل و مصلحت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں:

  • ایک گروہ کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ یہ محض تعبدی امور ہیں کہ آقا نے غلام کو اور مالک نے بندے کو حکم دے دیا ہے اور بس! اس سے زیادہ ان میں غور و خوض کرنا اور ان میں مصلحت و معقولیت تلاش کرنا کار لاحاصل ہے۔
  • جبکہ دوسرے گروہ کا موقف یہ ذکر کیا ہے کہ شریعت کے تمام احکام کا مدار عقل و مصلحت پر ہے اور عقل و مصلحت ہی کے حوالے سے یہ واجب العمل ہیں۔ شریعت ان میں سے کسی کام کی اصل حاکم نہیں ہے، بلکہ اس کا وظیفہ صرف یہ ہے کہ وہ اعمال کے حسن و قبح سے انسانوں کو آگاہ کر دے، اس لیے کسی عمل کے حسن و قبح تک رسائی ہوگی تو وہ وجوب، جواز یا حرمت کا درجہ اختیار کرے گا، اور حسن و قبح تک رسائی نہیں ہوگی تو اسے حکم کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکے گی۔

حضرت شاہ صاحبؒ نے ان دونوں گروہوں کے موقف کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اصل بات ان دونوں کے درمیان ہے کہ شریعت کا کوئی حکم عقل و مصلحت کے خلاف نہیں ہے، لیکن چونکہ تمام انسانوں کی عقل یکساں نہیں ہے اور ہر شخص کا عقل و فہم کی ہر بات تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے قرآن و سنت کے احکام و قوانین کا مدار انسانی عقل و فہم اور اس کی سمجھ کے دائرے میں آنے والی حکمت و مصلحت پر نہیں ہے بلکہ صرف امر الٰہی پر ہے، اور وہ اسی لیے واجب العمل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حکم دیا ہے۔

1 comment: