https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 4 March 2022

پشاور مسجد میں دھماکہ, انسانیت کاخون

 آج جمعہ کی نماز میں پشار کی ایک شیعہ مسجد میں خودکش دھماکہ ہواجس میں کسی سرپھرے نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا جس  کے نتیجے میں تقریبا پچاس نمازی شہید ہوگئے. پچاس سے زیادہ نمازی  زخمی  ہوگئے .

یہ حکومت پاکستان کی کھلی ناکامی ہے. جوحکومت اپنے شہریوں کی حفاظت نہ کرسکے اسے کسی بھی طرح اقتدار میں رہنے کا حق شرعی واخلاقی حاصل نہیں .سبھی مسلک کے علماء کایہ فرض منصبی ہے کہ وہ عوام کواسلام کی صحیح تعلیمات سے روشناس کرائیں اور اس غنڈہ گردی سے معصوم عوام کوچھٹکارادلائیں. اللہ تعالیٰ خودکش حملہ آوروں کے سبھی معاونین مددگار بہی خواہ اورچاہنے والوں کوسخت ترین عذاب دنیاوآخرت میں گرفتار فرمائے اورپسماندگان شہداء کوبہترین نعم البدل, صبرجمیل اوردنیاوآخرت کی کامیابی وسرخروئی سے نوازے. 

1۔ ایک مومن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بڑا گناہ ہے

اپنے گھنائونے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پُر اَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کا دین اِسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دین جو حیوانات و نباتات تک کے حقوق کا خیال رکھتا ہے وہ اَولادِ آدم کے قتل عام کی اِجازت کیسے دے سکتا ہے! اِسلام میں ایک مومن کی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگالیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ اِس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضی اللہ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَی اللهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ.

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘

  1. ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن، 4: 16، رقم: 1395

  2. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، رقم: 3987

  3. ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب التغليظ في قتل مسلم ظلما، 2: 874، رقم: 2619

2. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : قَتْلُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا.

’’حضرت عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے۔‘‘

  1. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، 83، رقم: 3988-3990

  2. طبراني، المعجم الصغير، 1: 355، رقم: 594

  3. بيهقي، السنن الکبری، 8: 22، رقم: 15647

امام طبرانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔

3۔ ایک روایت میں کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا حادثہ قرار دیا گیا ہے۔

عَنِ الْبَرَاء بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَزَوَالُ الدُّنْيَا جَمِيْعًا أَهْوَنُ عِنْدَ اللهِ مِنْ سَفْکِ دَمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ.

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔‘‘

  1. ابن أبي الدنيا، الأهوال: 190، رقم: 183

  2. ابن أبي عاصم، الديات: 2، رقم: 2

  3. بيهقي، شعب الإيمان، 4: 345، رقم: 5344

اِن روایات سے متحقق ہوتا ہے کہ ایک جان کو ناحق تلف کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے ایک نفس کو نہیں بلکہ پوری کائنات کی حُرمت پر حملہ کیا ہے، اور اس کا گناہ اس طرح ہے جیسے کسی نے پوری کائنات کو تباہ کردیا ہے۔

2۔ انسانی جان کا قتل مثلِ کفر ہے

عقائد میں اہل سنت کے اِمام ابو منصور ماتریدی آیت مبارکہ - مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ - کے ذیل میں انسانی قتل کو کفر قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

من استحل قتل نفس حَرَّمَ اللہ قتلها بغير حق، فکأنّما استحل قتل الناس جميعًا، لأنه يکفر باستحلاله قتل نفس محرم قتلها، فکان کاستحلال قتل الناس جميعًا، لأن من کفر بآية من کتاب اللہ يصير کافرًا بالکل. ... وتحتمل الآية وجها آخر، وهو ما قيل: إنه يجب عليه من القتل مثل ما أنه لو قتل الناس جميعًا. ووجه آخر: أنه يلزم الناس جميعا دفع ذلک عن نفسه ومعونته له، فإذا قتلها أو سعی عليها بالفساد، فکأنما سعی بذلک علی الناس کافة. ... وهذا يدل أن الآية نزلت بالحکم في أهل الکفر وأهل الإسلام جميعاً، إذا سعوا في الأرض بالفساد.

’’جس نے کسی ایسی جان کا قتل حلال جانا جس کا ناحق قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر رکھا ہے، تو گویا اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ ایسی جان جس کا قتل حرام ہے، وہ شخص اس کے قتل کو حلال سمجھ کر کفر کا مرتکب ہوا ہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ جو شخص کتاب اللہ کی ایک آیت کا انکار کرتا ہے وہ پوری کتاب کا انکار کرنے والا ہے۔ ... یہ آیت ایک اور توجیہ کی بھی حامل ہے اور وہ یہ کہ کہا گیا ہے کہ کسی جان کے قتل کو حلال جاننے والے پر تمام لوگوں کے قتل کا گناہ لازم آئے گا (کیونکہ عالم انسانیت کے ایک فرد کو قتل کرکے گویا اس نے پوری انسانیت پر حملہ کیا ہے)۔ ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ تمام لوگوں پر لازم ہے کہ اجتماعی کوشش کے ساتھ اس جان کو قتل سے بچائیں اور اس کی مدد کریں۔ پس جب وہ اس کو قتل کر کے فساد بپا کرنے کی کوشش کرے گا تو گویا وہ پوری انسانیت پر فساد بپا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ... اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یہ آیت اس حکم کے ساتھ تمام اہل کفر اور اہل اسلام کے لئے نازل ہوئی ہے جبکہ وہ فساد فی الارض کے لئے سرگرداں ہو۔‘‘

  1. أبومنصور الماتُريدی، تأويلات أهل السنة، 3: 501

علامہ ابوحفص الحنبلی اپنی تفسیر اللباب في علوم الکتاب میں اللہ تعالیٰ کے فرمان فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا کی تفسیر میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتے ہوئے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

1. قال مُجَاهِد: من قتل نَفْساً محرَّمة يَصْلَي النَّار بقتلها، کما يصلاها لو قتل النَّاس جميعاً،

2. وقال قتادة: أعْظَم اللہ أجرَها وعظَّم وزرَها، معناه: من استَحَلَّ قتل مُسْلِمٍ بغير حَقّه، فکأنّما قتل النَّاس جميعاً،

3. وقال الحسن: {فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا}، يعني: أنّه يَجِبُ عليه من القِصَاص بِقَتْلِهِا، مثل الذي يجب عليه لو قتل النَّاسَ جَمِيعًا.

قوله تعالی: {إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلاَفٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌo إِلاَّ الَّذِينَ تَابُواْ مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُواْ عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌo}

(1) المائدة، 5: 33، 34

وقوله: {يُحَارِبُونَ اللهَ}، أي: يُحَارِبُون أولِيَاء هکذا قدَّرَه الجمهور.

وقال الزَّمَخْشَريُّ: ’’يُحَارِبُون رسول اللہ، ومحاربة المُسْلِمِين في حکم مُحَارَبَتِه.‘‘

نزلت هذه الآية في قطَّاع الطَّريق من المُسْلِمين (وهذا قول) أکثر الفقهاء.

  1. بغوی، معالم التنزيل، 2: 33

  2. رازي، التفسير الکبير، 11: 169

أنَّ قوله تعالی: {الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا} يتناول کل من يُوصَف بهذه سوائً کان مُسْلِمًا أو کافراً، ولا يُقالَ: الآية نزلت في الکُفَّار، لأن العبرة بعُمُوم اللفْظ لا خُصوص السَّبَب، فإن قيل: المُحَارِبُون هم الذين يَجْتَمِعُون ولهم مَنَعَةٌ، ويَقصدون المُسْلِمِين في أرواحهم ودِمَائهم، واتَّفَقُوا علی أنّ هذه الصِّفَة إذا حصلت في الصَّحراء کانوا قُطَّاع الطَّريق، وأما إن حصلت في الأمصار، فقال الأوزَاعِيُّ ومالِکٌ والليْثُ بن سَعْد والشَّافِعِيُّ: هم أيضاً قُطُّاع الطَّريق، هذا الحدُّ عليهم، قالوا: وإنّهم في المُدُن يکونون أعظَم ذَنْباً فلا أقَلّ من المساواة، واحتجوا بالآية وعمومها، ولأنّ هذا حدّ فلا يختلف کسائر الحدود.

’’1۔ حضرت مجاہد نے فرمایا: جس شخص نے ایک جان کو بھی نا حق قتل کیا تو وہ اس قتل کے سبب دوزخ میں جائے گا، جیسا کہ وہ تب دوزخ میں جاتا اگر وہ ساری انسانیت کو قتل کر دیتا (یعنی اس کا عذابِ دوزخ ایسا ہو گا جیسے اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا ہو)۔

  1. أبو حفص الحنبلي، اللباب في علوم الکتاب، 7: 301

2۔ حضرت قتادہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا بڑھا دی ہے اور اس کا بوجھ عظیم کردیا ہے یعنی جو شخص ناحق کسی مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتا ہے گویا وہ تمام لوگوں کو قتل کرتا ہے۔

3۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے {فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا} کی تفسیر میں فرمایا کہ (جس نے ناحق ایک جان کو قتل کیا) اس پر اس کے قتل کا قصاص واجب ہوگا، اس شخص کی مثل جس پر تمام انسانیت کو قتل کرنے کا قصاص واجب ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے: {بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہےo مگر جن لوگوں نے، قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پا جاؤ، توبہ کرلی سو جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہےo}

’’اللہ تعالیٰ کے فرمان {يُحَارِبُونَ اللهَ} سے مراد ہے: یحاربون اولیاء ہ (وہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء سے جنگ کرتے ہیں)۔ یہی معنی جمہور نے بیان کیا ہے۔ اور علامہ زمخشری نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرتے ہیں؛ اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنا دراصل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ساتھ جنگ کے حکم میں ہے۔

’’یہ آیت - {اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللهَ} مسلمان راہزنوں کے بارے میں اتری ہے، اور یہ اکثر فقہاء کا قول ہے۔

’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہر وہ شخص شامل ہے جو ان صفات سے متصف ہو خواہ وہ مسلم ہو یا کافر۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ آیت کفار کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوگا نہ سبب کے خاص ہونے کا۔ اور اگر کہا جائے کہ محاربون وہ ہیں جو مجتمع ہوتے ہیں اور ان کے پاس طاقت و قوت بھی ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی جانوں کا قصد کرتے ہیں تو فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر یہ وصف صحراء میں پایا جائے تو ایسے لوگ راہزن کہلائیں گے، اور اگر دہشت گردی و قتل و غارت گری کا یہ عمل شہروں میں پایا جائے تو امام اوزاعی، مالک، لیث بن سعد اور شافعی کا قول ہے کہ وہ (قاتل ہونے کے علاوہ) راہزن اور ڈاکو بھی ہیں، ان پر بھی یہی حد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ شہروں میں ہوں تو ان کا گناہ بہت ہی زیادہ ہو جائے گا۔‘‘

کسی ایک مومن کو قصداً قتل کرنے والے کی ذلت آمیز سزا کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک ہی آیت میں نہ صرف ایسے قاتل کے لیے دوزخ کی سزا کا ذکر کیا ہے بلکہ خَالِدًا، غَضِبَ، لَعَنَہ اورعَذَابًا عَظِیْمًا فرما کر اس کی شدّت و حدّت میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًاo

’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہےo‘‘

(1) النساء، 4: 93

3۔ مسلمانوں کا قتلِ عام کفریہ فعل ہے

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کا خون بہانے، اُنہیں قتل کرنے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کو نہ صرف کفر قرار دیا ہے بلکہ اِسلام سے واپس کفر کی طرف پلٹ جانا قرار دیا ہے۔ اسے اصطلاحِ شرع میں ارتداد کہتے ہیں۔

امام بخاری حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَا تَرْتَدُّوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ

’’تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : لا ترجعوا بعدي کفارا يضرب بعضکم رقاب بعض، 6: 2594، رقم: 6668

  2. طبراني، المعجم الأوسط، 4: 269، رقم: 4166

گویا کلمہ گو مسلمانوں کا آپس میں قتل عام صریح کفریہ عمل ہے جسے ارتداد سے لفظی مماثلت دی گئی ہے۔

4۔ قتل، شرک کی طرح ظلمِ عظیم ہے

حافظ ابن کثیر (م774ھ) آیت وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا النساء، 4: 93 کی تفسیر میں قتلِ عمد کو گناہِ عظیم اور معصیتِ کبریٰ قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ناحق کسی مسلمان کو قتل کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ عزوجل نے اسے شرک جیسے ظلمِ عظیم کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

وہذا تہدید شدید ووعید اکید لمن تعاطی ہذا الذنب العظیم، الذی ہو مقرون بالشرک باللہ فی غیر ما آیۃ فی کتاب اللہ، حیث یقول سبحانہ فی سورۃ الفرقان:

{وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ}

(1) الفرقان، 25: 68

وقال تعالی: {قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا} إلی أن قال: {وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَo

(2) الأنعام، 6: 151

’’اس (قتل عمد جیسے) گناہ عظیم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے یہ شدید دھمکی اور موکد وعید ہے کہ قتل عمد کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ شرک جیسے گناہ کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے سورہ فرقان میں ارشاد فرمایا ہے: {اور یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ ہی کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیر حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ ہی بدکاری کرتے ہیں۔} اور ارشاد فرمایا: {فرما دیجئے! آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ ... اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے بجز حق (شرعی) کے۔ یہی وہ امور ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔}۔‘‘

(3) ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1: 535

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر انسانی جان ومال کے تلف کرنے اور قتل و غارت گری کی خرابی و ممانعت سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وأعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا، فِی شَهْرِکُمْ هَذَا، فِی بَلَدِکُمْ هَذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ. أَلَا، هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوْا: نَعَمْ. قَالَ: اللهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ، فَلاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.

’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں (مقرر کی گئی)ہے اُس دن تک جب تم اپنے رب سے ملو گے۔ سنو! کیا میں نے تم تک (اپنے رب کا) پیغام پہنچا دیا؟ لوگ عرض گزار ہوئے: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔ اب چاہیے کہ (تم میں سے ہر) موجود شخص اِسے غائب تک پہنچا دے کیونکہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جن تک بات پہنچائی جائے تو وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں (اور سنو!) میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ ہو جانا.‘‘

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة أيام مني، 2: 620، رقم: 1654

  2. بخاري، کتاب العلم، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : رب مبلغ أوعی من سامع، 1: 37، رقم: 67

  3. مسلم، الصحيح، کتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات، باب تغليظ تحريم الدماء والأعراض والأموال، 3: 1305، 1306، رقم: 1679

اس متفق علیہ حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ جو لوگ آپس میں خون خرابہ کریں گے، فتنہ و فساد اور دہشت گردی کی وجہ سے ایک دوسرے پر اسلحہ اٹھا ئیں گے اور مسلمانوں کا خون بہائیں گے وہ مسلمان نہیں بلکہ کفر کے مرتکب ہیں۔ لہٰذا انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے جبر و تشدد کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فَـلَا تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا فرما کر کفر قرار دے دیا۔

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کے قاتل کی سزا جہنم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَأَهْلَ الْأَرْضِ اشْتَرَکُوْا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَکَبَّهُمُ اللهُ فِي النَّارِ.

’’اگر تمام آسمانوں و زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تب بھی یقینا اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔‘‘

  1. ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب الحکم في الدماء، 4: 17، رقم: 1398

  2. ربيع، المسند، 1: 292، رقم: 757

  3. ديلمي، مسند الفردوس، 3: 361، رقم: 5089

5۔ خون خرابہ تمام جرائم سے بڑا جرم ہے

قتل و غارت گری، خون خرابہ، فتنہ و فساد اور نا حق خون بہانا اِتنا بڑا جرم ہے کہ قیامت کے دن اللہ سبحانہ و تعالیٰ ایسے مجرموں کو سب سے پہلے بے نقاب کرکے کیفرِ کردار تک پہنچائے گا۔

1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خونریزی کی شدت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

أَوَّلُ مَا يُقْضَی بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاء.

’’قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون ریزی کا فیصلہ سنایا جائے گا۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الديات، باب ومن يقتل مؤمنا متعمدا، 6: 2517، رقم: 6471

  2. مسلم، الصحيح، کتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات، باب المجازاة بالدماء في الآخرة وأنها أول ما يقضي فيه بين الناس يوم القيامة، 3: 1304، رقم: 1678

  3. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 83، رقم: 3994

  4. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 442

2۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نے باہمی خون خرابہ اور لڑائی جھگڑے کے تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ قتل وغارت گری اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر کوئی فرد یا طبقہ اس میں ایک مرتبہ ملوث ہو جائے تو پھر اسے اس سے نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ امام بخاری کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

إِنَّ مِنْ وَرَطَاتِ الْأُمُوْرِ الَّتِي لَا مَخْرَجَ لِمَنْ أَوْقَعَ نَفْسَهُ، فِيْهَا سَفْکَ الدَّمِ الْحَرَامِ بِغَيْرِ حِلِّهِ.

’’ہلاک کرنے والے وہ اُمور ہیں جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کی کوئی سبیل نہ ہو، اِن میں سے ایک بغیر کسی جواز کے حرمت والا خون بہانا بھی ہے۔‘‘

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الديات، باب ومن قتل مؤمنا متعمدًا فجزاؤه جهنم، 6: 2517، رقم: 6470

  2. بيهقي، السنن الکبری، 8: 21، رقم: 15637

3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ و فساد کے ظہور، خون خرابہ اور کثرت سے قتل و غارت گری سے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيَنْقُصُ العِلْمُ وَيُلْقَی الشُّحُّ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ. قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَيُمَا هُوَ؟ قَالَ: الْقَتْلُ، الْقَتْلُ.

’’ زمانہ قریب ہوتا جائے گا، علم گھٹتا جائے گا، بخل پیدا ہو جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہو جائے گی۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟ فرمایا کہ قتل، قتل (یعنی ہرج سے مراد ہے: کثرت سے قتلِ عام)۔‘‘

  1. بخاری، الصحيح، کتاب الفتن، باب ظهور الفتن، 6: 2590، الرقم: 6652

  2. مسلم، الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب إذا تواجه المسلمان بسيفيهما،4: 2215، الرقم: 157

4۔ جب ایک مرتبہ پُرامن شہریوں اور سول آبادیوں کو ظلم و ستم، جبرو تشدد اور وحشت و بربریت کا نشانا بنایا جائے اور معاشرے کی دیگر مذہبی و سیاسی شخصیات کی محض فکری و نظریاتی اختلاف کی بنا پر target killing کی جائے تو اس دہشت گردی کا منظقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سماج افراتفری، نفسا نفسی ، بد امنی اور لڑائی جھگڑے کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ انہی گھمبیر اور خطرناک حالات کی طرف امام ابو داؤد سے مروی درج ذیل حدیث مبارکہ اشارہ کرتی ہے:

عَنْ عَبْد اللهِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنهما قَالَ: کُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَذَکَرَ الْفِتَنَ، فَأَکْثَرَ فِي ذِکْرِهَا حَتَّی ذَکَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ. فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ؟ قَالَ: هِيَ هَرَبٌ وَحَرْبٌ.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کا ذکر فرمایا۔ پس کثرت سے ان کا ذکر کرتے ہوئے فتنہ احلاس کا ذکر فرمایا۔کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! فتنہ احلاس کیا ہے؟ آپ Aنے فرمایا کہ وہ افراتفری، فساد انگیزی اور قتل و غارت گری ہے۔‘‘

  1. أبوداود، السنن،کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن، 4: 94، رقم: 4242

6۔ مسلمانوں کو (بم دھماکوں یا دیگر طریقوں سے) جلانےوالے جہنمی ہیں

سورۃ البروج کی آیت نمبر دس (10) -اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِo (بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہےo) - کی تفسیر میں بعض مفسرین نے فتنے میں مبتلا کرنے سے آگ میں جلانا بھی مراد لیا ہے۔ اس معنی کی رُو سے خود کش حملوں، بم دھماکوں اور بارود سے عامۃ الناس کو خاکستر کر دینے والے فتنہ پرور لوگ عذابِ جہنم کے مستحق ہیں۔ مفسرین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:

1. وقال ابن عباس ومقاتل: {فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ} حرقوهم بالنار.

’’حضرت ابن عباس اور مقاتل نے فرمایا: فَتَنُوا الْمُوْمِنِیْنَ کا مطلب ہے: (ان فتنہ پروروں نے) انہیں (یعنی مومنین کو) آگ سے جلا ڈالا.‘‘

(1) رازی، التفسير الکبير، 31: 111

گانے باجے والی شادی یامجلس میں شرکت کا حکم

 دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں غمی و خوشی ہر طرح کے حالات کے  لیے مستقل احکامات دیےگئے ہیں ، اور ایک مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی اپنے دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ اپنی ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے، چنانچہ شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر شرعی پردے کا خیال نہ رکھنا، مخلوط اجتماع کرنا، موسیقی اور شور ہنگامہ کرنا وغیرہ یہ سب ناجائز امور ہیں ۔ ایسی تقریبات جو فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ ) کا ارتکاب کیا جارہا ہو ان میں شرکت کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوگا تو اس صورت میں ہرگز اس تقریب میں شرکت کے لیےنہیں جانا چاہیے، البتہ اگر مدعو شخص کوئی عالم و مقتدا ہو اور اسے امید ہو کہ وہ اس تقریب میں جاکر معصیت کے ارتکاب کو روک سکتا ہے تو اسے جانا چاہیے؛ تاکہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گناہ سے بچ جائیں۔

 اور اگر پہلے سے معلوم نہ ہو کہ وہاں کسی معصیت کا ارتکاب ہورہا ہے، بلکہ وہاں جاکر معلوم ہو تو اگر اندر جانے سے پہلے معلوم ہوجائے تو واپس لوٹ آئے،اندر نہ جائے، البتہ اگر اندر جاکر اس معصیت کو بند کرنے پر قادر ہو تو اندر جاکر اس معصیت کو بند کروادے۔

اور اگر اندر داخل ہونے کے بعد معصیت کے ارتکاب کا علم ہو اور معصیت کو بند کرنے پر قدرت بھی نہ ہو تو مدعوشخص اگر عالم و مقتدا ہو تو وہ وہاں نہ بیٹھے، بلکہ اٹھ کر واپس چلا جائے، کیوں کہ اس کے وہاں بیٹھنے میں علم اور دین کا استخفاف (اہانت اور توہین) ہے، البتہ اگر مدعو شخص عام آدمی ہو تو وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کی گنجائش ہے۔

چوں کہ صلہ رحمی اور قطع رحمی شرعی اصطلاحات ہیں، اس لیے صلہ رحمی وہ ہوگی جو شریعت کی نظر میں صلہ رحمی ہو اور قطع رحمی بھی وہی کہلائے گی جو شریعت کی نظر میں قطع رحمی ہو، لہٰذا اگر کوئی شخص شرعی حکم کے پیشِ نظر اس طرح کی کسی تقریب یا رسوم میں شرکت نہ کرے تو اسے قطع رحمی نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی اسے قطع رحمی کا گناہ ملے گا ، بلکہ ایمان کا تقاضہ ہونے کی وجہ سے اسے اس پر ثواب بھی ملے گا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 128):

"رجل دعي إلى وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لايخلو من أحد وجهين إما أن يكون عالماً أن هناك ذاك وإما إن لم يكن عالماً به فإن كان عالماً فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب لأن إجابة الدعوى مسنونة قال النبي عليه الصلاة والسلام: «إذا دعي أحدكم إلى وليمة فليأتها» وتغيير المنكر مفروض فكان في الإجابة إقامة الفرض ومراعاة السنة وإن كان في غالب رأيه أنه لا يمكنه التغيير لا بأس بالإجابة لما ذكرنا أن إجابة الدعوة مسنونة ولا تترك السنة لمعصية توجد من الغير ألا ترى أنه لا يترك تشييع الجنازة وشهود المأتم وإن كان هناك معصية من النياحة وشق الجيوب ونحو ذلك؟ كذا ههنا.

وقيل: هذا إذا كان المدعو إماماً يقتدى به بحيث يحترم ويحتشم منه فإن لم يكن فترك الإجابة والقعود عنها أولى وإن لم يكن عالما حتى ذهب فوجد هناك لعباً أو غناءً فإن أمكنه التغيير غير وإن لم يمكنه ذكر في الكتاب، وقال: لا بأس بأن يقعد ويأكل قال أبو حنيفة - رضي الله عنه -: ابتليت بهذا مرةً لما ذكرنا أن إجابة الدعوة أمر مندوب إليه فلايترك لأجل معصية توجد من الغير هذا إذا لم يعلم به حتى دخل فإن علمه قبل الدخول يرجع ولا يدخل، وقيل: هذا إذا لم يكن إماماً يقتدى به، فإن كان لايمكث بل يخرج؛ لأن في المكث استخفافاً بالعلم والدين وتجرئةً لأهل الفسق على الفسق، وهذا لايجوز، وصبر أبي حنيفة - رحمه الله - محمول على وقت لم يصر فيه مقتدى به على الإطلاق ولو صار لما صبر، ودلت المسألة على أن مجرد الغناء  معصية وكذا الاستماع إليه وكذا ضرب القصب والاستماع إليه، ألا ترى أن أبا حنيفة - رضي الله عنه - سماه ابتلاء".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 347):

"(دعي إلى وليمة وثمة لعب أو غناء قعد وأكل) لو المنكر في المنزل، فلو على المائدة لاينبغي أن يقعد بل يخرج معرضا لقوله تعالى: {فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين} [الأنعام: 68] (فإن قدر على المنع فعل وإلا) يقدر (صبر إن لم يكن ممن يقتدى به فإن كان) مقتدى (ولم يقدر على المنع خرج ولم يقعد) لأن فيه شين الدين والمحكي عن الإمام كان قبل أن يصير مقتدى به (وإن علم أولا) باللعب (لا يحضر أصلاً) سواء كان ممن يقتدى به أو لا لأن حق الدعوة إنما يلزمه بعد الحضور لا قبله ابن كمال. وفي السراج ودلت المسألة أن الملاهي كلها حرام ويدخل عليهم بلا إذنهم لإنكار المنكر، قال ابن مسعود: صوت اللهو والغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء النبات. قلت: وفي البزازية: استماع صوت الملاهي كضرب قصب ونحوه حرام لقوله عليه الصلاة والسلام: «استماع الملاهي معصية والجلوس عليها فسق والتلذذ بها كفر» أي بالنعمة فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة لا شكر فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لا يسمع لما روي «أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه»، وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره اهـ أو لتغليظ الذنب كما في الاختيار أو للاستحلال كما في النهاية.

وفي التتارخانية عن الينابيع: لو دعي إلى دعوة فالواجب الإجابة إن لم يكن هناك معصية ولا بدعة والامتناع أسلم في زماننا إلا إذا علم يقيناً أن لا بدعة ولا معصية اهـ والظاهر حمله على غير الوليمة لما مر ويأتي تأمل (قوله: وثمة لعب) بكسر العين وسكونها والغناء بالكسر ممدوداً السماع ومقصوراً اليسار (قوله: لاينبغي أن يقعد) أي يجب عليه، قال في الاختيار: لأن استماع اللهو حرام والإجابة سنة والامتناع عن الحرام أولى اهـ وكذا إذا كان على المائدة قوم يغتابون لايقعد، فالغيبة أشد من اللهو واللعب تتارخانية، (قوله: ولو على المائدة إلخ) كان عليه أن يذكره قبيل قول المصنف الآتي: وإن علم كما فعل صاحب الهداية، فإن قول المصنف: فإن قدر إلخ فيما لو كان المنكر في المنزل لا على المائدة ففي كلامه إيهام لايخفى (قوله: بعد الذكرى) أي تذكر النهي ط.

(قوله: فعل) أي فعل المنع وجوباً إزالة للمنكر (قوله: صبر) أي مع الإنكار بقلبه قال عليه الصلاة والسلام: «من رأى منكم منكراً فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان» اهـ أي أضعف أحواله في ذاته: أي إنما يكون ذلك إذا اشتد ضعف الإيمان، فلايجد الناهي أعواناً على إزالة المنكر اهـ ط وهذا لأن إجابة الدعوة سنة فلايتركها لما اقترن به من البدعة من غيره كصلاة الجنازة واجبة الإقامة وإن حضرتها نياحة، هداية، وقاسها على الواجب لأنها قريبة منه لورود الوعيد بتركها كفاية، (قوله: والمحكي عن الإمام) أي من قوله: ابتليت بهذا مرةً فصبرت، هداية.

(قوله: وإن علم أولاً) أفاد أن ما مر فيما إذا لم يعلم قبل حضوره (قوله: لايحضر أصلاً) إلا إذا علم أنهم يتركون ذلك احتراماً له فعليه أن يذهب، إتقاني (قوله: ابن كمال) لم أره فيه نعم ذكره في الهداية قال ط: وفيه نظر والأوضح ما في التبيين حيث قال: لأنه لايلزمه إجابة الدعوة إذا كان هناك منكر اهـ. قلت: لكنه لايفيد وجه الفرق بين ما قبل الحضور وما بعده، وساق بعد هذا في التبيين ما رواه ابن ماجه «أن علياً - رضي الله عنه - قال: صنعت طعاماً فدعوت رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء فرأى في البيت تصاوير فرجع» اهـ. قلت: مفاد الحديث أنه يرجع ولو بعد الحضور وأنه لاتلزم الإجابة مع المنكر أصلاً، تأمل".ف

Thursday 3 March 2022

کن موذی جانوروں کو مارناجائزہے

 احادیثِ مبارکہ میں جن موذی جانوروں کو قتل کرنے کی صراحت کے ساتھ اجازت ہے وہ یہ ہیں:

1:چھپکلی ،    2:چوہا ،    3:بچھو ،    4:سانپ ،     5:چیل ،     6:کوا ،     7:کتا۔

ان کے علاوہ فقہاءِ کرام رحمہم اللہ نے علتِ ایذاء کی وجہ سے بعض دیگر جانوروں اور حشرات الارض کو بھی اسی حکم میں داخل کیا ہے۔

فقہاء کرام کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ جو جانور طبعی طور پر موذی ہوں اور تکلیف پہنچانے میں عموماً ابتدا کرتے ہوں، انہیں قتل کرنا ہر حال میں جائز ہے، حتیٰ کہ حالتِ احرام میں بھی انہیں قتل کرنے سے محرم پر کوئی دم وغیرہ نہیں آتا، جیسے: شیر، بھیڑیا، تیندوا، چیتا، وغیرہ۔ اور جو جانور تکلیف پہنچانے میں ابتدا نہیں کرتے، جیسے: گوہ، لومڑی، وغیرہ، وہ جب کسی پر حملہ کریں تو ان کی ایذا  سے بچنے کے لیے انہیں قتل کرنا جائز ہے۔

لیکن موذی جانوروں کو قتل کرنے میں بھی ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ انہیں تکلیف کم سے کم ہو، مثلاً: گولی وغیرہ سے قتل کرنا یا تیز چھری سے ذبح کرنا۔ باقی انہیں جلانے، ان پر گرم پانی ڈالنے، یا ان کے اعضاء کاٹ کر تکلیف دے کرمارنے یا ضرورت سے زائد تکلیف دے کر مارنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر موذی جانوروں سے کسی اور طریقہ سے چھٹکارا ممکن نہ ہو یا مشکل ہو تو انہیں جلانے یا گرم پانی ڈالنے کی گنجائش ہوگی، لیکن شدید ضرورت کے بغیر ایسا کرنا درست نہیں ہے۔

صحیح مسلم (ج:4، ص:1758، ط: دار إحياء التراث العربي):

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: «من قتل وزغةً في أول ضربة فله كذا و كذا حسنة، و من قتلها في الضربة الثانية فله كذا و كذا حسنة، لدون الأولى، و إن قتلها في الضربة الثالثة فله كذا و كذا حسنة، لدون الثانية».‘‘

’’ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے پہلے وار میں چھپکلی کو قتل کیا اس کو اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی، اور جس نے دوسرے وار میں اسے قتل کیا اسے پہلی مرتبہ مارنے سے کم اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی، اور جس نے تیسرے وار میں اسے قتل کیا تو اسے دوسری مرتبہ مارنے سے کم اتنی اتنی نیکیاں ملیں گی۔‘‘

صحيح البخاري (ج:4، ص:129، ط: دار طوق النجاة):

’’عن عائشة رضي الله عنها، عن النبي صلى الله عليه و سلم، قال: «خمس فواسق، يقتلن في الحرم: الفأرة، و العقرب، و الحديا، و الغراب، و الكلب العقور».‘‘

’’ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پانچ موذی جانور ایسے ہیں جنہیں حرم میں بھی قتل کیا جائے گا: چوہا، بچھو، چیل، کوا اور کاٹنے والا کتا۔‘‘

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (ج:10، ص:179، 182، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت):

’’ذكر ما يستفاد منه: و هو على وجوه: الأول: أنه يستفاد من الحديث جواز قتل هذه الخمسة من الدواب للمحرم، فإذا أبيح للمحرم فللحلال بالطريق الأولى ...

قلت: أصحابنا اقتصروا على الخمس إلا أنهم ألحقوا بها: الحية لثبوت الخبر، و الذئب لمشاركته للكلب في الكلبية، و ألحقوا بذلك ما ابتدأ بالعدوان و الأذى من غيرها، و قال بعضهم، و تعقب بظهور المعنى في الخمس و هو: الأذى الطبيعي و العدوان المركب، و المعنى إذا ظهر في المنصوص عليه تعدى الحكم إلى كل ما وجد فيه ذلك المعنى. انتهى. قلت: نص النبي صلى الله عليه و سلم على قتل خمس من الدواب في الحرم و الإحرام، و بين الخمس ما هن، فدل هذا أن حكم غير هذا الخمس غير حكم الخمس، و إلا لم يكن للتنصيص على الخمس فائدة. و قال عياض: ظاهر قول الجمهور أن المراد أعيان ما سمى في هذا الحديث، و هو ظاهر قول مالك و أبي حنيفة، و لهذا قال مالك: لا يقتل المحرم الوزغ، و إن قتله فداه، و لايقتل خنزيرا و لا قردا مما لا ينطلق عليه اسم الكلب في اللغة إذ فيه جعل الكلب صفة لا إسما، و هو قول كافة العلماء، و إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (خمس) فليس لأحد أن يجعلهن ستا و لا سبعا، و أما قتل الذئب فلا يحتاج فيه أن نقول: إنه يقتل لمشاركته للكلب في الكلبية، بل نقول: يجوز قتله بالنص، و هو ما رواه الدارقطني عن نافع، قال: سمعت ابن عمر يقول: أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم بقتل الذئب و الفأرة. قال يزيد بن هارون، يعني: المحرم. و قال البيهقي: و قد روينا ذكر الذئب من حديث ابن المسيب مرسلا جيدا، كأنه يريد قول ابن أبي شيبة: حدثنا يحيى بن سعيد عن ابن عمر عن حرملة عن سعيد حدثنا وكيع عن سفيان عن ابن حرملة عن سعيد به، قال: و حدثنا وكيع عن سفيان عن سالم عن سعيد عن وبرة عن ابن عمر: يقتل المحرم الذئب، و عن قبيصة: يقتل الذئب في الحرم، و قال الحسن وعطاء: يقتل المحرم الذئب و الحية، و أما إذا عدا على المحرم حيوان، أي حيوان كان، و صال عليه فإنه يقتله، لأن حكمه حينئذ يصير كحكم الكلب العقور.‘‘

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (ج:12، ص:34، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت):

’’هذا باب في بيان قتل الخنزير: هل هو مشروع كما شرع تحريم أكله؟ أي: مشروع؟ و الجمهور على جواز قتله مطلقا إلا ما روي شاذا من بعض الشافعية أنه يترك الخنزير إذا لم يكن فيه ضراوة، و قال ابن التين: و مذهب الجمهور أنه إذا وجد الخنزير في دار الكفر و غيرها و تمكنا من قتله قتلناه. قلت: ينبغي أن يستثنى خنزير أهل الذمة لأنه مال عندهم، و نحن نهينا عن التعرض إلى أموالهم.‘‘

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (ج:2، ص:197، ط: دار الكتب العلمية):

’’و أما غير المأكول فنوعان: نوع يكون مؤذيا طبعا مبتدئا بالأذى غالبا، و نوع لايبتدئ بالأذى غالبا، أما الذي يبتدئ بالأذى غالبا فللمحرم أن يقتله و لا شيء عليه، و ذلك نحو: الأسد، و الذئب، و النمر، و الفهد؛ لأن دفع الأذى من غير سبب موجب للأذى واجب فضلا عن الإباحة، و لهذا أباح رسول الله صلى الله عليه و سلم قتل الخمس الفواسق للمحرم في الحل و الحرم بقوله صلى الله عليه وسلم: «خمس من الفواسق يقتلهن المحرم في الحل و الحرم: الحية، و العقرب، و الفأرة و الكلب العقور، و الغراب و روي و الحدأة» و روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم  أنه قال: «خمس يقتلهن المحل و المحرم في الحل و الحرم: الحدأة، و الغراب، و العقرب، و الفأرة و الكلب العقور» .

و روي عن عائشة - رضي الله عنها - قالت: «أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتل خمس فواسق في الحل و الحرم: الحدأة، و الفأرة، و الغراب، و العقرب، و الكلب العقور» و علة الإباحة فيها هي الابتداء بالأذى و العدو على الناس غالبا فإن من عادة الحدأة أن تغير على اللحم و الكرش، و العقرب تقصد من تلدغه و تتبع حسه و كذا الحية، و الغراب يقع على دبر البعير و صاحبه قريب منه، و الفأرة تسرق أموال الناس، و الكلب العقور من شأنه العدو على الناس و عقرهم ابتداء من حيث الغالب، و لا يكاد يهرب من بني آدم، و هذا المعنى موجود في الأسد، و الذئب و الفهد، و النمر فكان ورود النص في تلك الأشياء ورودا في هذه دلالة قال أبو يوسف: "الغراب المذكور في الحديث هو الغراب الذي يأكل الجيف، أو يخلط مع الجيف إذ هذا النوع هو الذي يبتدئ بالأذى" و العقعق ليس في معناه؛ لأنه لا يأكل الجيف و لا يبتدئ بالأذى.

و أما الذي لا يبتدئ بالأذى غالبا كالضبع، و الثعلب و غيرهما فله أن يقتله إن عدا عليه و لا شيء عليه إذا قتله، و هذا قول أصحابنا الثلاثة و قال زفر: "يلزمه الجزاء"، وجه قوله: أن المحرم للقتل قائم و هو الإحرام فلو سقطت الحرمة إنما تسقط بفعله.‘‘

المبسوط للسرخسي (ج:4، ص:90، ط: دار المعرفة - بيروت):

’’(قال) محرم قتل سبعا فإن كان السبع هو الذي ابتدأه فآذاه فلا شيء عليه، و الحاصل أن نقول ما استثناه رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من المؤذيات بقوله «خمس من الفواسق يقتلن في الحل و الحرم» ، و في حديث آخر «يقتل المحرم الحية، و الفأرة، و العقرب، و الحدأة، و الكلب العقور» فلا شيء على المحرم، و لا على الحلال في الحرم بقتل هذه الخمس لأن قتل هذه الأشياء مباح مطلقا، و هذا البيان من رسول الله صلى الله عليه وسلم كالملحق بنص القرآن فلا يكون موجبا للجزاء، و المراد من الكلب العقور الذئب فأما سوى الخمس من السباع التي لا يؤكل لحمها إذا قتل المحرم منها شيئا ابتداء فعليه جزاؤه عندنا، و قال الشافعي - رحمه الله تعالى - لا شيء عليه لأن النبي - صلى الله عليه و سلم - إنما استثنى الخمس لأن من طبعها الأذى فكل ما يكون من طبعه الأذى فهو بمنزلة الخمس مستثنى من نص التحريم فصار كأن الله تعالى قال لا تقتلوا من الصيود غير المؤذي.‘‘

الفتاوی الهندیة (ج:5، ص:361، ط: دار الفکر):

’’الهرة إذا كانت مؤذيةً لا تضرب و لا تعرك أذنها، بل تذبح بسكين حادٍّ، كذا في الوجيز للكردري. ‘‘

العرف الشذي للكشميري (ج:3 ص:180):
’’و الإحراق عن الصحابة أيضاً، و في الدر المختار، ص:334 : جواز إحراق اللوطي، و روي عن أحمد بن حنبل جواز إحراق الحيوانات المؤذية من القمل و الزنابير و غيرها و به أخذ عنه عدم البدّ منه.‘‘

اسلام میں موذی جانور کو اس کی ایذا سے بچنے کے لیے مارنا جائز ہے؛ البتہ کسی جانور کو تڑپاتڑپاکرنہیں مارنا چاہیے۔ آپ چھچھوندر یاچوہے کو تیز چھری یا چاقو سے ذبح کردیا کریں یا کسی لاٹھی یا لکڑی وغیرہ سے ایسی تیز مار ماریں کہ وہ فوراً مرجائے۔ اور اگر پانی میں ڈالنے سے جلد مرجاتی ہو تو پانی میں ڈال کر بھی مارسکتے ہیں۔اوراگرپانی میں ڈوبونے سے وہ جلدی نہ مرے توایساکرنامکروہ ہے بلکہ وہ طریقہ اختیارکرناچاہئے جس سے جلدمرجائیں تاکہ زیادہ دیراذیت نہ سہنی پڑے. 

مستفاد: والھرة الموٴذیة لا تضرب ولا تعرک أذنھا بل تزبح بسکین حاد (رد المحتار، کتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغیرہ، ۹: ۵۵۸، 

Sunday 27 February 2022

نمازکے ممنوع اوقات

 زوالِ آفتاب کا مطلب ہے سورج کا ڈھلنا، جس کو ہمارے عرف میں دوپہر ڈھلنا کہا جاتا ہے، پورا سورج  32 دقیقہ ہے اور اسے خط سے گزرنے میں 2 منٹ اور 8 سیکنڈ لگتے ہیں، اصل مکروہ وقت  یہی ہے جس کو ’’وقتِ استواء‘‘  کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد زوالِ شمس کا وقت شروع ہوجاتا ہے جو کہ ظہر کی نماز کا ابتدائی وقت ہے۔ تاہم اس وقت کا مشاہدہ سے اندازا  لگانا عام طور پر مشکل ہے،  اس لیے احتیاطاً  جنتریوں میں موجود وقتِ استواء سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد تک کوئی سی نماز  پڑھنا جائز نہیں ہوتی، وقتِ استواء کے بعد  پانچ منٹ گزرتے ہی ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ ان اوقات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔

آپ

’’اوقات کے نقشوں میں جو زوال کا وقت  لکھا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد نماز جائز ہے، زوال میں تو زیادہ منٹ نہیں لگتے، لیکن احتیاطاً نصف النہار سے ۵ منٹ قبل اور ۵ منٹ بعد نماز میں توقف کرنا چاہیے‘‘۔ 

 (جلد3صفحہ 207آپ کے مسائل اور ان کا حل  )

درحقیقت نماز پڑھنا جو منع ہے وہ استوائے شمس (نصف النہار) کے وقت منع ہے، احتیاطاً پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد جب سورج دوسری طرف ڈھل جائے تو زوال کا وقت ہوجاتا ہے، زوال کے وقت نماز پڑھنا منع نہیں ہے، ممانعت نصف النہار کے وقت ہے، مگر لوگ زوال بول کر نصف النہار مراد لیتے ہیں، یہ از قبیل اغلاط العوام ہے۔ ٹھیک استواء کے وقت نماز فرض، نفل کسی قسم کی حتی کہ کوئی بھی سجدہ کرنا منع ہے، ذکر اور تلاوت استواء کے وقت منع نہیں ہے اور زوال کے وقت تو نماز ہرقسم کی اور ذکر تلاوت وغیرہ سب جائز ہے

مذکورہ ممنوعہ اوقاتِ نماز کی وجہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ ہے کہ مشرکین و مجوس ان اوقات میں آفتاب کی پرستش کرتے تھے اور اس کو سجدہ کرتے تھے؛ چناں چہ ان کی مشابہت سے بچنےکے لیے اس سے منع کیا گیا۔ (حجۃ اللہ البالغہ 2/21، کتب خانہ رشیدیہ دہلی)

 مزید یہ کہ ان تین اوقات میں شیطان بھی سورج کے قریب ہو جاتا ہے اور  بزعمِ خود اپنے آپ کے معبود اور مسجود ہونے پر خوش ہوتا ہے۔

لیکن واضح رہے کہ اس حکمت کا اعتبار  تشریعِ اَحکام کے وقت کیا گیا، لہٰذا اسے دیکھ  کر اِس دور میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آج سورج کی پرستش کرنے والے مشرکین فلاں فلاں وقت بھی عبادت کرتے ہیں یا مذکورہ اوقات میں نہیں کرتے تو اب ان اوقات میں نماز کی اجازت دی جائے، اور جن اوقات میں کرتے ہوں ان میں منع کردیا جائے، اب شرعی منصوص اَحکام میں تبدیلی کا کسی کو حق نہیں ہے، خواہ وہ ایسی حکمت کی روشنی میں ہو جو منصوص ہو، کیوں کہ شریعت کے اَحکام مقرر ہوجانے کے بعد کسی کو ان میں تبدیلی کا حق نہیں ہے۔

صحيح البخاري (4 / 122):
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا طلع حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتى تبرز، وإذا غاب حاجب الشمس فدعوا الصلاة حتى تغيب،

3273 - ولاتحينوا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها، فإنها  تطلع بين قرني شيطان، أو الشيطان».

ترجمہ : رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دیکھو! جب آفتاب کا کنارہ طلوع ہو تو نماز ترک کردو یہاں تک کہ وہ پورا طلوع ہوجائے اور جب آفتاب کا کنارہ غروب ہو تو نماز ترک کردو یہاں تک کہ پورا غروب ہوجائے اور تم اپنی نماز آفتاب کے طلوع اور غروب کے وقت نہ پڑھا کرو؛ کیوں کہ وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 370، 374):

(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملا فلا يتأدى ناقصا، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة.

الفتاوى الهندية (1/ 52):

ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع. كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولايجوز فيها قضاء الفرائض والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي.

الفتاوى الهندية (1/ 52):

تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر.... ومنها ما بعد صلاة الفجر قبل طلوع الشمس. هكذا في النهاية والكفاية ... ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير. هكذا في النهاية والكفاية.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 375):

(لا) يكره (قضاء فائتة و) لو وترا أو (سجدة تلاوة وصلاة جنازة وكذا) الحكم من كراهة نفل وواجب لغيره لا فرض وواجب لعينه (بعد طلوع فجر سوى سنته) لشغل الوقت به، (قوله: أو سجدة تلاوة) لوجوبها بإيجابه تعالى لا بفعل العبد كما علمته فلم تكن في معنى النفل.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 296):

 فالنبي صلى الله عليه وسلم  نهى عن الصلاة في هذه الأوقات من غير فصل فهو على العموم والإطلاق، ونبه على معنى النهي، وهو طلوع الشمس بين قرني الشيطان وذلك؛ لأن عبدة الشمس يعبدون الشمس، ويسجدون لها عند الطلوع تحية لها، وعند الزوال لاستتمام علوها، وعند الغروب وداعا لها فيجيء الشيطان فيجعل الشمس بين قرنيه ليقع سجودهم نحو الشمس له، فنهى النبي - صلى الله عليه وسلم - عن الصلاة في هذه الأوقات لئلا يقع التشبيه بعبدة الشمس.

المبسوط للسرخسي (1/ 151):

 والأصل فيه حديث «عقبة بن عامر - رضي الله تعالى عنه - قال ثلاث ساعات نهانا رسول الله  صلى الله عليه وسلم  أن نصلي فيهن وأن نقبر فيهن موتانا عند طلوع الشمس حتى ترتفع وعند زوالها حتى تزول وحين تضيف للغروب حتى تغرب».
وفي حديث الصنابحي «أن النبي صلى الله عليه وسلم  نهى عن الصلاة عند طلوع الشمس وقال إنها تطلع بين قرني الشيطان كأن الشيطان يزينها في عين من يعبدونها حتى يسجدوا لها فإن ارتفعت فارقها فإذا كان عند قيام الظهيرة قارنها فإذا مالت فارقها فإذا دنت للغروب قارنها فإذا غربت فارقها فلا تصلوها في هذه الأوقات»

Wednesday 23 February 2022

فرض نماز ہورہی ہواس وقت سنتیں پڑھنا.فجرکی سنتوں کا حکم

 فجر کے  علاوہ دوسری کوئی بھی فرض نماز شروع ہوچکی ہو تو سنت شروع کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ آں حضرت ﷺ کا  ارشاد  ہے :"  جب جماعت شروع ہوجائے تو سوائے اس نماز کے کوئی اور نماز نہ پڑھی جائے ۔ ہاں اگر سنتیں شروع کردی ہوں، پھر فرض نماز شروع ہوجائے تو دو  رکعت مکمل کرکے سلا م پھیردے، اور اگر چار رکعت والی سنت پڑھ رہا ہو  اور تیسری رکعت شروع کردی تو جلدی سے چار مکمل کرکے جماعت میں شامل ہوجائے۔

''عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة»'' .(صحيح مسلم ۔1/ 493)
 البتہ فجر کی سنتوں کی چوں کہ  خصوصی تاکید آئی ہے ، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد  فرمایا ہے : "فجر کی سنت دو گانہ کو نہ چھوڑو ، اگرچہ  گھوڑے تمہیں روند ڈالیں"۔ اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ  "فجر کی دو رکعت دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہے"۔

 اسی لیے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ انہوں نے فجر کی اقامت ہونے کے بعد بھی سنتِ فجر کو ادا فرمایا ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے جماعتِ فجر شروع ہونے کے بعد یہ دو رکعتیں ادا کی ہیں ،حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جماعت شروع ہونے کے بعد سنتِ فجر ادا کرنا ثابت ہے۔  حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہم سے بھی اسی طرح ثابت ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ارشادات اور ان کا عمل در اصل سنتِ رسول کی تشریح و توضیح کا درجہ رکھتے ہیں ؛ کیوں کہ صحابہ کے بارے میں یہ بات ناقابلِ تصور ہے کہ وہ سنتِ رسول کی خلاف ورزی کریں، اسی پس منظر میں ائمہ اربعہ میں سے امام ابوحنیفہ  اور امام مالک رحمہما اللہ کے نزدیک فجر کی جماعت کھڑی ہونے کے بعد بھی یہ فجر کی دو سنتیں ادا کی جائیں گی ۔

حنفیہ کے مسلک کی تفصیل یہ ہے کہ اگر فجر کی سنتوں کی ادائیگی کے بعد امام کے ساتھ فرض نماز کا قعدہ اخیرہ مل سکتا ہے تو  بھی سنت نہ چھوڑے۔ اگر اس کی بھی  امید نہ ہو تو پھر سنت اس وقت نہ پڑھے .

شرح مشكل الآثار (10/ 320،321)
'' عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها۔

 عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تتركوا ركعتي الفجر وإن طردتكم الخيل۔ "
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 444)

4021 - ''عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن أبي موسى قال: «جاءنا ابن مسعود والإمام يصلي الفجر، فصلى ركعتين إلى سارية، ولم يكن صلى ركعتي الفجر»۔ عبد الرزاق۔

4022 - عن معمر، عن أبي إسحاق، عن عبد الله بن أبي موسى، عن ابن مسعود مثله، عبد الرزاق۔

4023 - عن معمر قال: وكان الحسن يفعله ، عبد الرزاق۔

4024 - عن الثوري، عن الأعمش، عن أبي الضحى، وعاصم، عن الشعبي: «أن مسروقاً كان يصليهما والإمام قائم يصلي في المسجد»۔''

شرح مشكل الآثار (10/ 322)
'' عن أبي عبد الله، قال: حدثنا أبو الدرداء، قال: " إني لأجيء إلى القوم وهم في الصلاة صلاة الفجر، فأصلي ركعتين، ثم أضطم إلى الصفوف۔ " وذلك عندنا -والله أعلم- على ضرورة دعته إلى ذلك، لا على اختيار منه له، ولا على قصد قصد إليه، وهو يقدر على ضده، وهكذا ينبغي أن يمتثل في ركعتي الفجر في المكان الذي يصليان فيه، ولا يتجاوز فيهما ما قد رويناه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم مما صححنا عليه هذه الآثار''۔

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 445)
''عن هشام بن حسان، عن الحسن قال: «إذا دخلت المسجد والإمام في الصلاة، ولم تكن ركعت ركعتي الفجر، فصلهما ثم ادخل مع الإمام»، قال هشام: «وكان ابن عمر، والنخعي يدخلان مع الإمام ولا يركعان حينئذٍ»''۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 377)
''(وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه ؛ لحديث: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلاً۔

(قوله: إلا سنة فجر)؛ لما روى الطحاوي وغيره عن ابن مسعود: أنه دخل المسجد وأقيمت الصلاة فصلى ركعتي الفجر في المسجد إلى أسطوانة، وذلك بمحضر حذيفة وأبي موسى، ومثله عن عمر وأبي الدرداء وابن عباس وابن عمر، كما أسنده الحافظ الطحاوي في شرح الآثار، ومثله عن الحسن ومسروق والشعبي شرح المنية.
(قوله: ولو بإدراك تشهدها) مشى في هذا على ما اعتمده المصنف والشرنبلالي تبعاً للبحر، لكن ضعفه في النهر، واختار ظاهر المذهب من أنه لا يصلي السنة إلا إذا علم أنه يدرك ركعة، وسيأتي في باب إدراك الفريضة، ح. قلت: وسنذكر هناك تقوية ما اعتمده المصنف عن ابن الهمام وغيره''.
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (2/ 437)
'' عن ابن جريج، عن عطاء قال: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة، فإن خرج الإمام وأنت راكع، فاركع إليها ركعةً أخرى خفيفةً، ثم سلم»'

Tuesday 22 February 2022

اعلان مفقودالخبرئ زوج

 

مقدمہ 48/931.1443

سلطانہ بنت مرحوم رشیدساکن سی. 4/246.قدسیہ اپارٹمنٹ لال ڈگی علی گڑھ. یوپی 

بنام 

محمد صغیراحمدولدبشیراحمدساکن مکان 980گھوڑے والی گلی جلی کوٹھی میرٹھ .یوپی پن 250001

اعلان مفقود الخبرئ زوج 

مدعیۂ مقدمہ ہذانے دارالقضاء علی گڑھ میں اپنے شوہر محمدصغیراحمدولدبشیراحمد پردعوی دائرکیا ہے کہ میری شادی مدعلیہ سے تقریباً سترہ اٹھارہ سال پہلے ہوئی تھی مدعاعلیہ عرصہ آٹھ سال سے لاپتہ ہے. کافی تلاش کیا  کوئی پتہ نہیں چل سکا. لہذااس اعلان کے ذریعہ مدعاعلیہ کوآگاہ کیاجاتاہے کہ محمد صغیراحمد ولدبشیراحمد جہاں بھی ہوں فورا اپنی موجودگی کی اطلاع دارالقضاء میں کریں اور15ذوالقعد 1443ھ مطابق 15جون 2022روزبدھ تک دارالقضاء می حاضر ہوکراپنے مقدمہ کی پیروی کریں بصورت عدم حاضری وعدم پیروی بعدثبوت وشواہد نکاح فسخ کردیا جائے گا. فقط. محمدعامرالصمدانی 

قاضئ شریعت دارالقضاء  علی گڑھ

Monday 21 February 2022

اجنبی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرناجائز ہے کہ نہیں

 عاقل بالغ دولہا  اور دلہن میں سے جو بھی مجلس نکاح میں موجود ہو اور خود ایجاب و قبول کرے یا اس کا وکیل اس کی طرف اشارہ کر کے ایجاب و قبول کرے تو اس صورت میں گواہوں کے لیے ان کا نام اور ولدیت محلہ پتہ جاننا ضروری نہیں،  اسی طرح  دلہا اور دلہن کے لیے گواہوں کے نام اور ولدیت پتہ  جاننا ضروری نہیں، اجنبی مسلمان  آدمی بھی گواہ بن سکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر دونوں (مرد اورعورت) نے اپنے نکاح کا خود  دو اجنبی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کیا اور وہ دونوں گواہ مسلمان تھے تو یہ نکاح منعقد ہوگیا، لیکن شریعت نے نکاح میں اعلان اور عام لوگوں کے مجمع میں اس مجلس کے انعقاد کو پسند کیاہے؛ اس لیے اب اس نکاح کا اعلان اور تشہیر کردی جائے تاکہ تہمت سے بچا جاسکے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 15)

'' (قوله: ولا المنكوحة مجهولة)، فلو زوج بنته منه وله بنتان لا يصح إلا إذا كانت إحداهما متزوجةً، فينصرف إلى الفارغة، كما في البزازية، نهر۔ وفي معناه ما إذا كانت إحداهما محرمةً عليه، فليراجع، رحمتي۔ وإطلاق "قوله: لايصح" دال على عدم الصحة، ولو جرت مقدمات الخطبة على واحدة منهما بعينها؛ لتتميز المنكوحة عند الشهود فإنه لا بد منه، رملي.

قلت: وظاهره أنها لو جرت المقدمات على معينة وتميزت عند الشهود أيضاً يصح العقد وهي واقعة الفتوى؛ لأن المقصود نفي الجهالة، وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود، وإن لم يصرح باسمها كما إذا كانت إحداهما متزوجةً، ويؤيده ما سيأتي من أنها لو كانت غائبةً وزوجها وكيلها، فإن عرفها الشهود وعلموا أنه أرادها كفى ذكر اسمها، وإلا لا بد من ذكر الأب والجد أيضاً، ولا يخفى أن "قوله: زوجت بنتي" وله بنتان أقل إبهاماً من "قول الوكيل: زوجت فاطمة"، ويأتي تمام ذلك عند "قوله: وحضور شاهدين حرين" وعند "قوله :غلط وكيلها" إلخ''.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 21)

'' (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معاً) على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب، بحر، (مسلمين لنكاح مسلمة ولو فاسقين أو محدودين في قذف۔''

وفي الشامیة:  ''[تنبيه] أشار بقوله فيما مر "ولا المنكوحة مجهولة" إلى ما ذكره في البحر هنا بقوله: ولا بد من تمييز المنكوحة عند الشاهدين؛ لتنتفي الجهالة، فإن كانت حاضرةً منتقبةً كفى الإشارة إليها، والاحتياط كشف وجهها. فإن لم يروا شخصاً وسمعوا كلامها من البيت، إن كانت وحدها فيه جاز، ولو معها أخرى فلا؛ لعدم زوال الجهالة، وكذا إذا وكلت بالتزويج، فهو على هذا. اهـ.
أي إن رأوها أو كانت وحدها في البيت يجوز أن يشهدوا عليها بالتوكيل إذا جحدته، وإلا فلا؛ لاحتمال أن الموكل المرأة الأخرى، وليس معناه: أنه لايصح التوكيل بدون ذلك، وأنه يصير العقد عقد فضولي فيصح بالإجارة بعده قولاً أو فعلاً؛ لما علمته آنفاً، فافهم. 

قال في البحر: وإن كانت غائبةً ولم يسمعوا كلامها بأن عقد لها وكيلها فإن كان الشهود يعرفونها كفى ذكر اسمها إذا علموا أنه أرادها، وإن لم يعرفوها لا بد من ذكر اسمها واسم أبيها وجدها. وجوز الخصاف النكاح مطلقاً، حتى لو وكلته فقال بحضرتهما: زوجت نفسي من موكلتي أو من امرأة جعلت أمرها بيدي فإنه يصح عنده. قال قاضي خان: والخصاف كان كبيراً في العلم يجوز الاقتداء به۔ وذكر الحاكم الشهيد في المنتقى كما قال الخصاف. اهـ.

قلت: في التتارخانية عن المضمرات أن الأول هو الصحيح، وعليه الفتوى، وكذا قال في البحر في فصل الوكيل والفضولي: إن المختار في المذهب خلاف ما قاله الخصاف، وإن كان الخصاف كبيراً. اهـ. وما ذكروه في المرأة يجري مثله في الرجل، ففي الخانية: قال الإمام ابن الفضل: إن كان الزوج حاضراً مشاراً إليه جاز، ولو غائباً فلا مالم يذكر اسمه واسم أبيه وجده، قال: والاحتياط أن ينسب إلى المحلة أيضاً، قيل: له فإن كان الغائب معروفاً عند الشهود؟ قال: وإن كان معروفاً لا بد من إضافة العقد إليه، وقد ذكرنا عن غيره في الغائبة إذا ذكر اسمها لا غير وهي معروفة عند الشهود وعلم الشهود أنه أراد تلك المرأة يجوز النكاح. اهـ.

والحاصل: أن الغائبة لا بد من ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وإن كانت معروفةً عند الشهود على قول ابن الفضل، وعلى قول غيره يكفي ذكر اسمها إن كانت معروفةً عندهم، وإلا فلا، وبه جزم صاحب الهداية في التجنيس، وقال: لأن المقصود من التسمية التعريف وقد حصل، وأقره في الفتح والبحر. وعلى قول الخصاف يكفي مطلقاً، ولا يخفى أنه إذا كان الشهود كثيرين لا يلزم معرفة الكل بل إذا ذكر اسمها وعرفها اثنان منهم كفى، والظاهر أن المراد بالمعرفة أن يعرفها أن المعقود عليها هي فلانة بنت فلان الفلاني لا معرفة شخصها، وإن ذكر الاسم غير شرط، بل المراد الاسم أو ما يعينها مما يقوم مقامه لما في البحر: لو زوجه بنته ولم يسمها وله بنتان لم يصح للجهالة، بخلاف ما إذا كانت له بنت واحدة إلا إذا سماها بغير اسمها ولم يشر إليها فإنه لا يصح، كما في التنجيس. اهـ.

 (قوله: حرين إلخ) قال في البحر: وشرط في الشهود: الحرية، والعقل، والبلوغ، والإسلام، فلا ينعقد بحضرة العبيد والمجانين والصبيان والكفار في نكاح المسلمين؛ لأنه لا ولاية لهؤلاء''۔  

اقلِّ مہر کی مقدار:

2۔ مہر کی کم سے کم مقدار۱۰  درہم کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت ہے ۔  اور۱۰  درہم کا وزن۲  تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے، اور موجودہ وزن کے مطابق  اُس کی مقدار ۳۰  گرام۶۱۸  ملی گرام ہوتی ہے ۔(مستفاد از مفتاح الاوزان

میت کو دفن کرنے کے بعد اجتماعی دعاء بہ آواز کرناکیساہے

 نماز جنازہ خوددعا ہے ، اس کے بعد دعا کا اہتمام والتزام عہد رسالت، عہد صحابہ ، عہد تابعین و تبع تابعین کے دور سے ثابت نہیں، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں متعدد جنازے پڑھائے اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ علیہ السلام کے نماز جنازہ پڑھانے کا طریقہ کار، اس کی تکبیرات وغیرہ نقل فرمائیں ؛لیکن انھوں نے جنازہ کے بعد دعا کا معمول نقل نہیں کیا، اگر آپ علیہ الصلاة والسلام کسی ایک جنازے کے بعد بھی دعامانگنے کا اہتمام فرماتے ، تو اتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کم از کم کوئی ایک صحابی تواس کو ذکر کرتا جبکہ اس بارے میں احادیث طیہ اور آثارصحابہ میں کوئی ایک روایت بھی مذکور نہیں؛ لہذا یہ بدعت ہے جس کا ترک کرنا واجب ہے۔

 لا یقوم بالدعاء بعد صلاة الجنازة؛ لأنہ دعا مرّةً؛ لأن أکثرہا دعاء (البزازیة علی ہامش الہندیة: ۸۰/۴، ط: زکریا) ولا یدعو للمیت بعد صلاة الجنازة؛لأنہ یشبہ الزیادة فی صلاة الجنازة(مرقاة المفاتیح، ۴: ۱۴۹، رقم الحدیث: ۱۶۸۷، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

البتہ قبرستان میں میت کی تدفین سے فارغ ہوکر قبلہ رو ہوکر اور ہاتھ اٹھاکر میت کے لیے دعائے مغفرت وغیرہ کرنا جائز ودرست ؛ بلکہ مستحب ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ؛لیکن دعا میں کوئی ایسی ہیئت یا طریقہ اختیار نہ کیا جائے کہ کسی دیکھنے والے کو صاحب قبر سے مانگنے کا شبہ ہو۔

عن عثمان قال: کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل، رواہ أبو داود (مشکاة المصابیح، کتاب الإیمان، باب إثبات عذاب القبر ، الفصل الثانی، ص ۲۶، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، وفی حدیث ابن مسعود:رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی قبر عبد اللہ ذی النجادین الحدیث، وفیہ: فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلة رافعاً یدیہ ، أخرجہ أبو عوانة فی صحیحہ (فتح الباری، کتاب الدعوات، باب الدعاء مستقبل القبلة، ۱۱: ۱۷۳

Sunday 20 February 2022

Give them their Hijab back and education :Greater Kailash

Anyone who thinks that the anti-hijab campaign is about discipline and dress code needs to have his or her head examined. And anyone who thinks it's about the emancipation of Muslim women needs to have a frontal lobotomy without any further loss of time.

 For it's clear as crystal that this is just the latest provocation in the right wing tool-kit for the de-identification of the Muslim community- to deprive them of their visible symbols, rituals and practices that define their identity. The attack on the hijab, remember, has been preceded by the various jihads ( love, covid, spitting), and contrived agitations against public Namaz, abattoirs and beef, non-vegetarian food stalls, alleged conversions, birth rates, immigration of "termites" and of course the eternal mandir-masjid binary.

As usual, our Prime Minister has not spoken on the subject. Is it because he realises the pathetic ironies implicit in this latest demonstration of double-speak? That to deprive young girls of education while preaching Beti Bachao, Beti Padhao is nothing but chicanery of the highest order? That victimising this most vulnerable section of society while proclaiming empathy for them via the triple talaq law is not just a contradiction but an unscrupulous betrayal?

The hijab is not so much about religion as it is about a woman's modesty and choice, like the ghunghat or the dupatta. It has been worn by generations of girls without stirring up dormant religious fervour in society. It has quietly merged with school uniforms without inviting any undue attention, just like the Sikh turban has with army and police uniforms.

It is permitted in the Central govt's own Kendriya Vidyalaya's dress code which prescribes it in so many words: "scarf with red hemmings for Muslim girls, matching with the lower." And that makes eminent sense to any one but a lumpen- let the head scarf match the colour of the uniform and become a part of it, rather than what it is falsely being made out to be- a defiance of the uniform.

One would have expected the courts to appreciate this simple truth and reality. Sadly, the Karnataka High Court has not; in its quest for a deeper constitutional meaning and interpretation of the hijab it has only strengthened the position of the Hindutva fundamentalists. Its interim order of 11th February 2022 prohibiting the wearing of any religious dress- hijab or saffron scarf- is unfortunate, and misconceived on many counts, as per my humble opinion. It has only made a bad situation worse.

Before this particular order, many colleges were permitting the hijab in classrooms, even after the campaign against it was started in the first week of January. Now, according to an NDTV report of 16th February, even they have stopped it, fearing charges of contempt of court !

The order has strengthened the hands of a state govt. which has made Karnataka the new laboratory of Hindutva, and vigilantes for whom such agitations are bread and butter, for they can now legitimately piggy- back on this order to do what they wanted to do in the first place. Their ulterior motive has now acquired judicial legitimacy, till the final order comes, only the good Lord knows when.

The interim order also ignores a basic principle of jurisprudence- that unequals cannot be treated as equals in law. It accords the same status to the saffron scarf as to the hijab, which is unjustified: the hijab has been a standard and traditional dress for Muslim girls for centuries and they have been wearing it for decades, including in educational institutions and in public. It has been practically de rigueur for them, whether out of religious dictat or modesty or sense of safety is irrelevant.

The wide use of the saffron scarf outside of religious institutions or occasions, on the other hand, is a recent innovation as an assertion of Hindu identity, it is not intrinsic wear for members of the community, and certainly not in schools or colleges. By treating both on par, the court has diminished one and elevated the other, considering them equal in tradition and usage, which cannot be correct.

Equally disappointing is the court's decision to hold that the hijab is a religious accessory, and to therefore examine in depth whether it is an essential part of Islam. The whole issue has now been given a constitutional dimension, and will be examined as such. The last time this happened, in the Ram Janambhoomi case, it took more than fifty years for a verdict to be delivered. The same time frame is likely in this case, and in the meantime the status quo ( as directed by the interim order of the court) will mean that Muslim girls can no longer wear the hijab in schools and colleges.

This is patently unfair as the enforced status quo suits the anti- hijabists and the state govt. The hijab is a form of dress, not a religious talisman, just like the salwar kameez or the sari or the ghaghra- why, in God's name, should Muslim girls be prevented from wearing it ?

By imparting a religious hue to the issue the court is falling into the trap set by the right wing fanatics who would like nothing better than everything to be viewed through a religious prism. Ironically, by doing so the court is also pushing these young Muslim girls into the embrace of the Islamic fundamentalists, adding more grist to their " Islam is in danger" mill. Surely, our judges could not be blind to this?

Quite often we miss the woods for the trees, and get entangled in undergrowth of no consequence. It must be remembered that the statue of the Goddess Justitia, which is the universal symbol of justice, holds a sword, not a scalpel. It is time our judges used the former, to slash through the thicket of obfuscations, jabberwocky, fabrications, mendacity and duplicity which comprise the tool-kit to harass minorities today, rather than using the ineffective scalpel to probe for a chimera that exists nowhere but in the politics of a certain party. Give them back their hijab, their education and their sense of dignity.

( A retired IAS officer, Avay Shukla blogs at View From Greater Kailash

Friday 18 February 2022

Refusing to Divorce in a failed marriage amounts to cruelty :Kerala HC

 A division bench of Justice A Muhamed Mustaque and Justice Sophy Thomas pronounced the order while hearing appeals filed by a husband and wife.

While one appeal was filed by the wife challenging the order by Nedumangad Family Court, which allowed divorce plea by husband (respondent) on the ground of cruelty, another one was filed by the husband challenging the dismissal of his petition seeking permanent custody of their five-year-old child. The husband referred to her alleged quarrelsome attitude as the reason for divorce and the wife denied such sort of behaviour from her side. She also contended that the husband had failed to offer care and emotional support even during her pregnancy.

The court said that after hearing both sides, and examining the evidence, it is of the opinion that the two "never developed any emotional bond or intimacy."

"When both the parties are unable to lead a meaningful matrimonial life due to inherent differences of opinion and one party is willing for separation and the other party is withholding consent for mutual separation, that itself would cause mental agony and cruelty to the spouse who demands separation," the court said.

Emphasising that no one can force another person to continue in a 'legal tie and relationship' if the relationship is deteriorated beyond repair, the bench observed, "The portrayal of such conduct through manifest behaviour of the spouse in a manner understood by a prudent as 'cruelty' is the language of the lawyer for a cause before the court."

The judges also said, "If one of the spouses is refusing to accord divorce on mutual consent after having been convinced of the fact that the marriage failed, it is nothing but cruelty to spite the other spouse."

After perusing the evidence, email communications and oral evidence of the parties, the judges also observed that they could not completely blame the wife for the deteriorated relationship. "All that would go to show that the parties never had a peaceful relationship," they said

The husband had submitted to the court that his wife had been 'obsessively' charting her daily plans and scheduled works in writing, and a slight variation from these disturbed her immensely. Though the husband said that this conduct was a behavioural disorder, 'in the absence of any medical evidence', the court refused to classify it as a personality disorder.

Noting that the husband found this behaviour unbearable, the judges acknowledged the fact that this might have contributed to the destruction of their already deteriorating relationship. "If the conduct and character of one party causes misery and agony to the other spouse, the element of cruelty to the spouse would surface, justifying grant of divorce. If the parties cannot mend their ways, the law cannot remain oblivious to those who suffer in that relationship."

Saying that both of them are young and have been living separately since 2017, the judges upheld the divorce given to the couple. With respect to the custody petition filed by the husband, the court said that while the custody shall remain with the wife, its order will not stand in the way of the husband's option to move family court with a fresh petition for visitorial rights or contact rights.

Wednesday 16 February 2022

بغیر نکاح خواں اورنکاح نامہ اوردستخط کے محض ایجاب وقبول سے نکاح

 اگر مجلس نکاح میں ایجاب وقبول کرنے والوں کے علاوہ کم از کم دو مسلمان مرد یا ایک مسلمان مرد اور دو مسلمان عورتیں موجود تھیں اور انہوں اپنے کانوں سے دونوں کا ایجاب وقبول سنا تو شریعت کی نظر میں یہ نکاح منعقد ودرست ہوگیا اگرچہ نکاح کا کوئی کاغذ تیار نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس پر کسی کے دستخط لیے گئے ؛ کیوں کہ نکاح نامہ محض استحبابی چیز ہے ، صحت نکاح کے لیے لازم وضروری نہیں ہے۔ وأما الکتابة ففي عتق المحیط: یستحب أن یکتب للعتق کتاباً ویشھد علیہ صیانة عن التجاحد کما فی المداینة بخلاف سائر التجارات للحرج؛لأنھا مما یکثر وقوعھا اھ، وینبغي أن یکون النکاح کالعتق؛لأنہ لا حرج فیہ اھ (رد المحتار، أول کتاب النکاح، ۴:۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔

Monday 14 February 2022

کیاحضرت فاطمہ رضی اللہُ تعالیٰ عنہا حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے عمربھرناراض رہیں

 امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پیش کرتے ہیں۔

حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة والعباس عليهما السلام أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما من رسول الله صلی الله عليه وسلم وهما حينئذ يطلبان أرضيهما من فدک وسهمهما من خيبر فقال لهما أبو بکر سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد من هذا المال قال أبو بکر والله لا أدع أمرا رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم يصنعه فيه إلا صنعته قال فهجرته فاطمة فلم تکلمه حتی ماتت

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ کے (ترکہ میں سے) اپنے میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے تو ان دونوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑتا ہوں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے گفتگو چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1645 ،- فرائض کی تعلیم کا بیان :
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ماننےسے انکار کیوں کیا؟؟؟ اور ساتھ ہی یہ اعتراض بھی نقل کرتے ہیں کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان پر بھی چوٹ پڑتی ہے ۔کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہم نے مرتے دم تک ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور نہ ہی ملاقات کی۔
جواب:-
دراصل یہاں صرف اور صرف مغالطوں سے کام لینے کی کوشش کی جارہی ہے،کیونکہ اگر تمام طرق احادیث اسی مسئلہ پر جمع کیے جائیں تو یہ سارے اعتراضات کا لعدم ہوجاتے ہیں۔رہی بات اس مسئلے کی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث مانے سے انکار کیوں کیا؟؟تو اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی تب تو انہوں نے وراثت مانگی لیکن جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کبھی بھی وراثت کا سوال نہیں کیا۔اور نی ہی کسی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ انہوں نے حدیث سننے کے بعد حدیث کی مخالفت کی ہو۔لہذا یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماں رسولصلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل طور پر عاملہ تھیں۔
جن احادیث میں یہ ذکر ہو ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگواس امر پر محمل ہے کہ وراثت کے مسئلے کے لیے گفتگو نہ فرمائی لیکن ملاقات ترک نہ کی اور نہ اس کی کوئی واضح دلیل ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
{فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر{فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}فتح الباری ،ج 6 ،ص164
ترجمہ:-{فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ } فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی۔"
یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مرادلے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں زکر فرماتے ہیں۔
"امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھزا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا"{السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735
ترجمہ:-"جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے ؟؟تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔"
سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے ہوا کرتے تھے ۔الحمدللہ اس حدیث نے واضح کردیا کہ ان میں کو ئی بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں تھا اور نہ ہی ناراضی تھی بلکہ احا دیث ہی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت کی نجات بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں ہی سمجھتے تھے۔