https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 27 August 2022

شوہرطلاق کاانکارکرےاوربیوی تین طلاق کادعوی کرے توکس کاقول معتبر ہوگا

فقہاء نے صراحتاًلکھا ہے کہ: اگرکسی عورت کو اس کا شوہر تین طلاقیں دے دے اور پھر انکارکرے تواس صورت میں یاعورت اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے اس صورت میں عورت کے حق میں فیصلہ کردیاجائے گااور شوہر کاانکار معتبر نہ ہوگا۔ اگر عورت کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو شوہرسے حلف لیاجائے گا،اگرشوہرحلف سے انکار کردے تو بھی فیصلہ عورت کے حق میں ہوگا، اور اگر شوہر حلف اٹھاتاہے توظاہری فیصلہ اسی کے حق میں ہوگا،البتہ جب عورت کوتین طلاق کایقین ہوتوشوہرکواپنے اوپرقدرت نہ دے اور چھٹکارے کی کوئی صور ت بنائے۔شریعت کایہ مسئلہ صاف اورواضح ہے۔لہذا ۱۔اگر بیوی کے پاس گواہ موجودہوں یاشوہرنے تحریری طلاق دی ہوتواس کاانکار معتبر نہیں۔ ۲۔اگر گواہ نہ ہوں اور شوہرحلف اٹھاتاہے تو ظاہری طورپراسی کے حق میں فیصلہ کیاجائے گا،اور اس صورت میں عورت بقدرامکان شوہرکواپنے اوپرقدت نہ دے،اگرشوہرزبردستی تعلقات قائم کرتاہے تواس کاگناہ شوہرپرہی ہوگا۔ ۳۔قدرت نہ دینے کاحکم اس بناپرہے کہ عورت کویقین ہے کہ اس نے تین طلاقیں سنی ہیں، لیکن وہ شرعی ضابطے کے مطابق گواہ نہیں رکھتی ،لہذا یہ نشو ز کی تعلیم نہیں، بلکہ دیانۃً چوں کہ جدائی ہوچکی ہے، اس لیے یہ حکم دیاگیاہے۔ ۴۔جب ظاہری فیصلہ شوہرکے حق میں ہے توعدت نہیں گزار سکتی ،اس لیے کہ ظاہراً نکاح برقراہے،اورجب تک عورت اس کے گھرمیں ہے تونان ونفقہ بھی شوہرپرہی ہے۔اور ظاہرہے کہ جب عدت نہیں کرسکتی توکسی اور سے نکاح بھی جائزنہیں۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’...اگرشوہراس (مطلقہ)کواپنے پاس رکھے گاتوہمیشہ نزاع اور شک وشبہ رہے گا، اور شوہرگناہ گارہوگا،اگرخدانخواستہ شوہرنہ طلاق کااقرار کرے ،نہ اب طلاق دے ،اور طلاق کے شرعی گواہ بھی موجود نہ ہوں، توایسی صورت میں عورت شوہرسے خلع کرے،کچھ دے دلاکررہائی حاصل کرے،جماعت اور برادری کے سمجھ دار دین دارحضرات شوہر کوسمجھاکر طلاق کااقراریاطلاق دینے یاخلع کرلینے پرآمادہ کریں، طلاق کااقرار یا طلاق حاصل کیے یاخلع کے بغیر عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی....ایک صورت یہ ہے کہ شوہرسے جبراً واکراہاً طلاق بائن کہلوائی جائے یہ بالکل آخری درجہ ہے‘‘۔(فتاویٰ رحیمیہ8/283،ط:دارالاشاعت) ففي مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية صالح: وسألته عن امرأة ادعت أن زوجها طلقها وليس لها بينة، وزوجها ينكر ذلك. قال أبي: القول قول الزوج، إلا أن تكون لا تشك في طلاقه قد سمعته طلقها ثلاثا، فإنه لا يسعها المقام معه، وتهرب منه، وتفتدي بمالها. اهـ. وعلى من سمع الطلاق من الرجل، أن يشهد في المحكمة بما سمعه، حتى تفرق المحكمة بينه وبين امرأته. قال الخرشي المالكي -رحمه الله-: (وفي محض حق الله تجب المبادرة بالإمكان، إن استديم تحريمه كعتق، وطلاق، ووقف، ورضاع) ، يعني أن الحق إذا تمحض لله -تعالى- وكان مما يستدام تحريمه، فإنه يجب على الشاهد المبادرة بالشهادة إلى الحاكم بحسب الإمكان، كمن علم بعتق عبد, وسيده يستخدمه ويدعي الملكية فيه, وكذلك الأمة، أو علم بطلاق امرأة ومطلقها يعاشرها في الحرام... " اگر واقعی بیوی نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ اس کے شوہر نے اسے تین طلاقیں دی ہیں تو تین طلاقیں واقع ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہو چکی ہے اور اگر شوہر طلاق کا انکار کرتا ہے تو اس صورت میں بیوی اپنے شوہر کے پاس ہرگز نہ جائے اور اس کو عذابِ الٰہی سے ڈرائے اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو خلع کرنے کو کہے یعنی اپنی طرف سے مہر معاف کر کے اس سے خلع کر لے یا کسی اور مال کی پیش کش کر کے اس سے جان چھڑا لے اس پر بھی اگر وہ راضی نہ ہو اور زبردستی اپنے ساتھ لے جائے تو الگ رہنے کی پوری کوشش کرے۔ پھر بھی شوہر قریب آئے اور اس کی طاقت میں روکنا مشکل ہو تو عدالت میں تین طلاق کا دعویٰ دائر کر دے پھر اگر شوہر کے قسم کھانے پر قاضی نے بیوی کے خلاف فیصلہ کر دیا تو اب گناہ شوہر پر ہوگا لیکن اس کے بعد بھی عورت علیحدگی کی کوشش جاری رکھے البتہ مذکورہ صورت میں چونکہ عورت کے پاس شرعی شہادت موجود نہیں اور شوہر تین طلاق کا منکر ہے لہٰذا عدالت کے فیصلے کے بغیر مذکورہ عورت کے لیے آگے نکاح جائز نہیں۔ وفی الشامیۃ والمرأۃ کالقاضی اذا سمعتہ أواخبرھا عدل لایحل لھا تمکینہ والفتویٰ علی انہ لیس لھا قتلہ ولا تقتل نفسھا بل تفدی نفسھا بمال او تھرب کما انہ لیس لہ قتلھا اذا حرمت علیہ وکلما ھرب ردتہ بالسحر وفی البزاریۃ عن الاوزجندی انھا ترفع الامر للقاضی فان حلف ولا بینۃ لھا فالاثم علیہ الخ۔ (ص ۲/۴۶۸، رشیدیہ) ہندیہ میں ہے: "وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (3/473، ط: ماجدية) بدائع الصنائع میں ہے: "وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر". (كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن 3/187، ط: سعيد

Friday 26 August 2022

اللہ کووجودعرضی سے متصف کرنا

اللہ تعالیٰ جسم واعضاء سے منزہ ہے، یعنی اس کے آنکھ ناک کان ہمارے آنکھ ناک کان کی طرح نہیں ہیں، سننا، دیکھنا اس کی ذاتی صفت ہے جس کے لیے نہ کسی عضو کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی قابل سماعت یا قابل روٴیت چیز کا ہونا ضروری ہے۔ (۲) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے لیے بہت سی صفات ذاتیہ اور فعلیہ وارد ہوئی ہیں ان میں سے بعض صفات صفات متشابہات کہلاتی ہیں، یعنی ان کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے مثلاً لفظ ید (ہاتھ) کما في قولہ تعالی: ید اللہ فوقَ أیدِیہم، قولہ تعالی: ما منعک أن تسجد لما خلقتُ بیديَّ اور مثلاً نفس کما فی قولہ تعالی حکایة عن عیسی -علیہ السلام- تعلم ما في نفسي ولا أعلم ما في نفسک․ وفي الحدیث، وفي الحدیث الشریف: أنت کما أثنیتَ علی نفسک․ اور مثلاً لفظ عین (آنکھ) کما في قولہ تعالی: ولتصنع علی عیني وغیرہ۔ اب اہل سنت والجماعت اور ائمہ اربعہ کہتے ہیں کہ یہ صفات چونکہ صراحةً قرآن وحدیث میں وارد ہیں اس لیے بلاشبہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں؛ لیکن کما یلیق بشانہ ، مخلوقات کی صفت کی طرح نہیں، لأنہ قال تعالی: لا لیس کمِثْلہ شیءٌ یعنی اللہ تعالی اپنی ذات وصفات میں مخلوقات کی طرح نہیں، چنانچہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فقہ اکبر میں فرماتے ہیں: ولہ ید ووجہ ونفس، فما ذکر اللہ في القرآن من ذکر الوجہ․․․ والید․․․ والنفس․․․ فہو صفات متشابہات بلاکیف․ یعنی اللہ تعالی کے لیے یہ ساری صفات ثابت ہیں؛ لیکن کنہ اور حقیقت معلوم نہیں، اسی طرح علی بن علی بن ابی العز الحنفی شرح الطحاویہ میں فرماتے ہیں: والواجب أن ینظر في ہذا الباب أعني في باب الصفات فما أثبتہ اللہ ورسولہ أثبتناہ وما نفاہ اللہ ورسولہ نفیناہ (شرح الطحاویة: ۱۶۸، ط: سعودی) اسی طرح ملا علی قاری شرح الفقہ الأکبر میں اہل سنت والجماعت کے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: والمشہور عند الجمہور من أہل السنة وا لجماعة أنہم لا یریدون بنفي التشبیہ نفي الصفات بل یریدون أنہ سبحانہ لا یشبہ المخلوق في أسمائہ وصفاتہ وأفعالہ (شرح الفقہ الاکبر ص:۱۷ ط: اشرفی) یعنی اہل سنت والجماعت باری تعاری کی ذات سے اس صفات کی نفی نہیں کرتے بلکہ صفات مخلوقات کے ساتھ مشابہت کی نفی کرتے ہیں، الغرض ائمہ اربعہ اور جمہور اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے کہ نصوص میں وارد صفات اللہ تعالی کے لیے بلاکیف ثابت ہیں، پس یہی عقیدہ رکھنا چاہیے اور اس میں زیادہ غور خوض کرنا مناسب نہیں۔

قصيده برده پڑھنا

قصیدہ بُردہ کا پڑھنا اور سننا درست ہے۔ لہٰذا اس کے پڑھنے اور سننے میں کوئی حرج نہیں۔ علماء مصر کاطویل فتوی اس سلسلہ میں جومعلومات افزااورمدلل ومحقق ہے درج ذیل ہے : مدح الأمة للنبي -صلى الله عليه وآله وسلم- دليل على محبتها له، وهذه المحبة تعد أصلا من أصول الإيمان، قال تعالى: ﴿قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ[٢٤]﴾ [التوبة: 24]. وقال -صلى الله عليه وآله وسلم-: «فوالذي نفسي بيده لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده». رواه البخاري من حديث أبي هريرة -رضي الله عنه- وقال أيضا: «لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده والناس أجمعين». رواه البخاري ومسلم من حديث أنس بن مالك رضي الله عنه. ومحبة النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- مظهر محبة الله سبحانه، فمن أحب ملكا أحب رسوله، ولله المثل الأعلى، ورسول الله حبيب رب العالمين، وهو الذي جاء لنا بالخير كله، وتحمل المتاعب من أجل إسلامنا، ودخولنا الجنة؛ كما ورد في قوله تعالى: ﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ[١٢٨]﴾ [التوبة: 128]. وقد وصفه ربنا في مواضع كثيرة من القرآن بصفات تدل على فضله، منها قوله تعالى: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ[٤]﴾ [القلم: 4]. وقد عرف العلماء المديح النبوي بأنه: هو الشعر الذي ينصب على مدح النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- بتعداد صفاته الخلقية والخلقية، وإظهار الشوق لرؤيته، ولزيارة قبره والأماكن المقدسة التي ترتبط بحياته -صلى الله عليه وآله وسلم- مع ذكر معجزاته المادية والمعنوية، ونظم سيرته، والإشادة بغزواته وصفاته المثلى، والصلاة عليه تقديرا وتعظيما، فهو شعر صادق بعيد عن التزلف والتكسب، ويرجى به التقرب إلى الله عز وجل، ومهما وصفه الواصفون فلن يوفوه حقه -صلى الله عليه وآله وسلم-. قال الشيخ الباجوري -رحمه الله- في مقدمة شرحه للبردة ص5- 6: "إن كمالاته -صلى الله عليه وآله وسلم- لا تحصى، وشمائله لا تستقصى، فالمادحون لجنابه العلي، والواصفون لكماله الجلي، مقصرون عما هنالك، قاصرون عن أداء ذلك، كيف وقد وصفه الله في كتابه بما يبهر العقول، ولا يستطاع إليه الوصول، فلو بالغ الأولون والآخرون في إحصاء مناقبه، لعجزوا عن ضبط ما حباه مولاه من مواهبه". اهـ. وقد أحسن من قال: أرى كل مدح في النبي مقصرا ... ولو صيغ فيه كل عقد مجوهرا وهل يقدر المداح قدر محمد ... وإن بالغ المثني عليه وأكثرا إذا الله أثنى بالذي هو أهله ... على من يراه للمحامد مظهرا وخصصه في رفعة الذكر مثنيا ... عليه فما مقدار ما تمدح الورى فما يظن غلوا في حقه -صلى الله عليه وآله وسلم- هو على الحقيقة تقصير، ولا يبلغ البليغ إلا قليلا من كثير. ولم يبدأ مدحه -صلى الله عليه وآله وسلم- بعد انتشار الإسلام وظهوره، بل إنه قد مدح أيضا في الجاهلية، فقد مدحه عمه أبو طالب فقال: وأبيض يستسقى الغمام بوجهه ... ثمال اليتامى عصمة للأرامل يلوذ به الهلاك من آل هاشم ... فهم عنده في رحمة وفواضل ومدحه أيضا بعض شعراء الكفار مثل الأعشى، حيث يقول في مدحه -صلى الله عليه وآله وسلم-: نبي يرى ما لا ترون وذكره ... أغار لعمري في البلاد وأنجدا له صدقات ما تغب ونائل ... وليس عطاء اليوم مانعه غدا والمديح النبوي مشروع بعموم أدلة القرآن الكريم؛ كقوله تعالى: ﴿إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا[٨] لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا[٩]﴾ [الفتح: 8 - 9]. والتعزير هو التعظيم. ومدحه -صلى الله عليه وآله وسلم- من مظاهر تعظيمه وحبه، وبمشروعية مدح رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- جاءت السنة النبوية نصا وإقرارا: فروى الإمام أحمد في مسنده عن الأسود بن سريع -رضي الله عنه- قال: «قلت: يا رسول الله، إني قد مدحت الله بمدحة ومدحتك بأخرى، فقال النبي -صلى الله عليه وآله وسلم-: هات وابدأ بمدحة الله عز وجل». وروى الطبراني في المعجم الكبير عن خريم بن أوس بن حارثة بن لام قال: «كنا عند النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- فقال له العباس بن عبد المطلب رحمه الله: يا رسول الله، إني أريد أن أمدحك، فقال له النبي -صلى الله عليه وآله وسلم-: هات، لا يفضض الله فاك»، فأنشأ العباس يقول شعرا، منه قوله: وأنت لما ولدت أشرقت الأر ... ض وضاءت بنورك الأفق فنحن في ذلك الضياء وفي النـ ... ـور وسبل الرشاد نخترق فقد أمر النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- بتلاوة المديح عليه، ودعا لعمه -رضي الله عنه- فهذا دليل على مشروعية مدحه -صلى الله عليه وآله وسلم-. وممن مدح النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- من الصحابة: حسان بن ثابت، وكعب بن مالك، وكعب بن زهير، وعبد الله بن رواحة رضي الله عنهم، وقد أقرهم النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- بل وأحب ذلك ودعا لمادحه، وكسا كعب بن زهير بن أبي سلمى بردته الشريفة مكافأة له على مدحه، ولم ينهه عن ذلك ولا عن إنشاده في المسجد. فالمدائح النبوية سنة نبوية كريمة درج عليها المسلمون سلفا وخلفا، وليس صحيحا ما يروج له من أن المديح النبوي فن مستحدث لم يظهر إلا في القرن السابع الهجري مع الإمام البوصيري رحمه الله تعالى، والقول بأنه بدعة قول مبتدع لم يعرفه المسلمون إلا في هذا العصر، بل المديح النبوي سنة هجرها كثير من أهل هذا الزمان، والساعي في إحيائها داخل في قول النبي -صلى الله عليه وآله وسلم-: «من أحيا سنتي فقد أحبني، ومن أحبني كان معي في الجنة»، وفي نسخة: «من أحيا سنتي فقد أحياني، ومن أحياني كان معي في الجنة». أخرجه الترمذي وحسنه من حديث أنس بن مالك رضي الله عنه. وأما قول النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- فيما رواه الإمام البخاري في صحيحه وغيره: «لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم؛ فإنما أنا عبده، فقولوا: عبد الله ورسوله»، فالإطراء هو المدح بالباطل، قال الزبيدي في "تاج العروس" في مادة طرأ: "وقال الأزهري: أطرأه مدحه بما ليس فيه، وقال الهروي وابن الأثير: الإطراء مجاوزة الحد في المدح والكذب فيه، وبه فسر الحديث: «لا تطروني كما أطرت النصارى المسيح ابن مريم»؛ لأنهم مدحوه بما ليس فيه فقالوا: ثالث ثلاثة، وأنه ابن الله، وشبه ذلك من شركهم وكفرهم". اهـ بتصرف. وعلى ذلك فقوله: «كما أطرت النصارى ابن مريم» أي: في دعواهم فيه الإلهية وغير ذلك. فنهاهم رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- عن المدح بالباطل فقط، بأن يمدح بما هو من خصائص الله؛ كأن يرفع إلى مقام الألوهية، أو يعطى بعض صفات الله، ولم ينههم عن المدح مطلقا؛ «كما قالت امرأة في زمنه: وفينا نبي يعلم ما في غد، فقال لها النبي -صلى الله عليه وآله وسلم-: دعي هذه، وقولي بالذي كنت تقولين». رواه البخاري وغيره، فنهاها النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- عن هذا القول؛ لأن علم الغيب من خصائص الله تعالى وصفاته، فلا يعلم أحد شيئا من الغيب استقلالا، ولا يعلم منه إلا ما علمه الله، كما قال سبحانه: ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا[٢٦] إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا[٢٧]﴾ [الجن: 26 - 27]. ولم ينهها النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- عن ذات المدح، بل أمرها أن تقول ما يشتمل على المدح الجائز. قال العلامة ابن بطال المالكي في "شرح البخاري" -7/ 263، ط: مكتبة الرشد-: "وفيه جواز مدح الرجل في وجهه بما فيه، وإنما المكروه من ذلك مدحه بما ليس فيه". اهـ. وقال الحافظ ابن حجر العسقلاني في "فتح الباري" -9/ 203، ط: دار المعرفة-: "قوله: فقال: «دعي هذه» أي: اتركي ما يتعلق بمدحي الذي فيه الإطراء المنهي عنه، زاد في رواية حماد بن سلمة: «لا يعلم ما في غد إلا الله» فأشار إلى علة المنع. قوله: «وقولي بالذي كنت تقولين» فيه إشارة إلى جواز سماع المدح والمرثية مما ليس فيه مبالغة تفضي إلى الغلو". اهـ. وقصيدة الكواكب الدرية في مدح خير البرية للإمام البوصيري -رضي الله عنه- والمعروفة باسم البردة تعد من عيون الشعر العربي، ومن أروع قصائد المدائح النبوية، ودرة ديوان شعر المديح في الإسلام الذي جادت به قرائح الشعراء على مر العصور. وقد ذهب معظم الباحثين إلى أنها أفضل قصيدة في المديح النبوي إذا استثنينا لامية كعب بن مالك: البردة الأم، حتى قيل: إنها أشهر قصيدة في الشعر العربي بين العامة والخاصة. وقد ذكر الإمام البوصيري في هذه القصيدة سيرة النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- من مولده إلى وفاته، وتكلم على معجزاته وخصائصه. وذكر المؤرخ الصفدي في "الوافي بالوفيات" -3/ 93، 94، ط: دار إحياء التراث-: أنه يروي البردة ضمن شعر البوصيري عن الشيخ أبي حيان النحوي عنه، وذكر عن الإمام البوصيري أنه قال: "كنت قد نظمت قصائد في مدح رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- ثم اتفق أن أصابني فالج أبطل نصفي، ففكرت في عمل قصيدتي هذه البردة، فعملتها واستشفعت بها إلى الله تعالى في أن يعافيني، وكررت إنشادها وبكيت ودعوت وتوسلت، ونمت فرأيت النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- فمسح على وجهي بيده المباركة، وألقى علي بردة فانتبهت، ووجدت في نهضة، فخرجت من بيتي ولم أكن أعلمت بذلك أحدا، فلقيني بعض الفقراء فقال: أريد أن تعطيني القصيدة التي مدحت بها رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- فقلت: أيها؟ فقال: التي أنشأتها في مرضك، وذكر أولها، وقال: والله لقد سمعنا البارحة وهي تنشد بين يدي رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- ورأيته -صلى الله عليه وآله وسلم- يتمايل وأعجبته وألقى على من أنشدها بردة، فأعطيته إياها، وذكر الفقير ذلك فشاع المنام". اهـ. قال شيخ الشافعية في زمنه العلامة ابن حجر الهيتمي -رحمه الله تعالى- في "شرح الهمزية" -1/ 105-: "وإن أبلغ ما مدح به النبي -صلى الله عليه وعلى آله وسلم- من النظم الرائق البديع، وأحسن ما كشف عن شمائله من الوزن الفائق المنيع، وأجمع ما حوته قصيدة من مآثره وخصائصه ومعجزاته، وأفصح ما أشارت إليه منظومة من بدائع كمالاته، ما صاغه صوغ التبر الأحمر، ونظمه نظم الدر والجوهر، الشيخ الإمام العارف الهمام الكامل المفنن المحقق، والبليغ الأديب المدقق، إمام الشعراء، وأشهر العلماء، وبليغ الفصحاء، وأفصح البلغاء الحكماء، الشيخ شرف الدين أبو عبد الله محمد بن سعيد، ثم اشتهر بالبوصيري، وكان من عجائب الدهر في النظم والنثر، ولو لم تكن إلا قصيدته المشهورة بـ "البردة" التي ازدادت شهرتها إلى أن صار الناس يتدارسونها في البيوت والمساجد، لكفاه شرفا وتقدما". اهـ. وقد اهتم المسلمون بالبردة سلفا وخلفا منذ أن نظمها صاحبها -رضي الله عنه- ولم يحظ نص شعري بمثل ما حظيت به من الاهتمام؛ فتنافس الخطاطون في كتابتها في أمشقهم وعلى جدران المساجد؛ حتى كتبت على جدران المسجد النبوي الشريف، واعتاد الناس قراءتها في المحافل والمواسم الشريفة، كمولد النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- وتبارى المنشدون في الابتهال بها، ورأوا من بركاتها أمورا عظيمة في دينهم ودنياهم، وسارت بها الركبان، وعلمت الناس حب رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- وأنه ركن الإيمان وأساس الإسلام. قال العلامة حاجي خليفة في "كشف الظنون" -2/ 1331-: "وهذه القصيدة الزهراء والمديحة الغراء بركاتها كثيرة ولا يزال الناس يتبركون بها في أقطار الأرض". اهـ. وهذه القصيدة المباركة قد نهج على منوالها الناس عبر القرون، وعارضها الشعراء، وشطروها، وخمسوها، وسبعوها، حتى ذكر الحافظ السخاوي في "الضوء اللامع" -10/ 337- في ترجمة جمال الدين الكرماني الشافعي أنه جمع من تخاميس البردة ما ينيف على ستين، ومع ذلك كله فلم تأت قصيدة في مثل جمالها وقبولها التام في الأمة الإسلامية، حتى قال أمير الشعراء أحمد شوقي في قصيدته "نهج البردة": المادحون وأرباب الهوى تبع ... لصاحب "البردة" الفيحاء ذي القدم مديحه فيك حب خالص وهوى ... وصادق الحب يملي صادق الكلم الله يشهد أني لا أعارضه ... من ذا يعارض صوب العارض العرم واهتم بها الشراح والمصنفون؛ فشرحها كبار علماء الأمة على اختلاف مذاهبهم الفقهية، حتى فاقت شروحها المائة، وممن شرحها: الإمام أبو شامة المقدسي الشافعي المقرئ ت 665هـ صاحب كتاب الباعث على إنكار البدع والحوادث، والإمام العلامة جمال الدين بن هشام النحوي ت 761هـ، والعلامة شمس الدين بن الصائغ الحنفي ت 776هـ، وسماه "الرقم على البردة"، والعلامة السعد التفتازاني ت 791هـ، والإمام بدر الدين الزركشي الشافعي ت 794هـ، والعلامة المؤرخ عبد الرحمن بن خلدون ت 808هـ، والعلامة المحقق شيخ الشافعية الجلال المحلي ت 864هـ، والشيخ خالد الأزهري ت 905هـ، وسماه "الزبدة في شرح قصيدة البردة"، والحافظ شهاب الدين القسطلاني ت 923هـ شارح البخاري، وسماه ""مشارق الأنوار المضية في شرح الكواكب الدرية"، وشيخ الإسلام زكريا الأنصاري الشافعي ت 926هـ، وسماه "الزبدة الرائقة في شرح البردة الفائقة"، والعلامة محيي الدين شيخ زاده الحنفي ت 951هـ صاحب الحاشية المشهورة على تفسير البيضاوي، والعلامة الإمام شيخ الشافعية في زمنه ابن حجر الهيتمي ت 973هـ، وسماه "العمدة في شرح البردة"، والعلامة علي القاري الحنفي ت 1014هـ ووصفها بالقصيدة المباركة الميمونة المرضية الشريفة، والشيخ القاضي بحر بن الهاروني المالكي، وشيخ الإسلام إبراهيم الباجوري شيخ الأزهر ت 1277هـ، وغيرهم كثير. كما رواها الأئمة وأثبتوها في كتبهم، وسمعوها مع سماعهم للكتب الشرعية المختلفة، واجتهدوا في حفظها اجتهادهم في حفظ متون العلوم. قال العلامة ابن حجر الهيتمي الشافعي في "شرح الهمزية" -1/ 105-: "وأما من روى هذه القصيدة و"الهمزية" من العلماء الأعلام، ومصابيح الظلام، فخلق لا يحصون، منهم ما ذكره ابن مرزوق شارح البردة بمجلدين كبيرين". اهـ. ثم ذكر عن ابن مرزوق من العلماء الذين رووا البردة عن ناظمها مباشرة: العلامة قاضي القضاة عز الدين بن جماعة الكناني المصري الشافعي، والإمام المفسر أبو حيان محمد بن يوسف الأندلسي الغرناطي صاحب تفسير "البحر المحيط"، والإمام المحدث محمد بن جابر الوادي آشي. ثم قال ابن حجر الهيتمي: وقد حصلت رواية هذه القصيدة وغيرها من شعر الناظم من طرق متعددة، منها بل أعلاها: أرويها عن شيخنا شيخ الإسلام وخاتمة الحفاظ أبي يحيى زكريا الأنصاري الشافعي، عن العز بن الفرات، عن العز بن البدر بن جماعة، عن ناظمها. وعن حافظ العصر ابن حجر العسقلاني، عن الإمام المجتهد السراج البلقيني، والسراج بن الملقن، والحافظ زين الدين العراقي، عن العز بن جماعة عن ناظمها. وأرويها أيضا عن مشايخنا، عن الحافظ السيوطي، عن جماعة، منهم: الشمني الحنفي، بعضهم قراءة، وبعضهم إجازة، عن عبد الله بن علي الحنبلي كذلك، عن العز بن جماعة، عن الناظم. اهـ. وقال الشيخ العلامة داود بن سليمان الخالدي الشافعي ت 1299هـ في كتابه القيم "نحت الحديد الباطل وبرده، بأدلة الحق الذابة عن صاحب البردة": "وقد اشتمل هذان الإسنادان على جملة من أساطين العلماء الأعلام المقتدى بهم في أمور الدين. وأما غير هؤلاء فمما لا يحصى كثرة؛ لأنها من زمان مؤلفها إلى هذا الآن، من رواها ألوف مؤلفة لا يدخلون تحت الحصر من أكابر العلماء وغيرهم". اهـ. والطعن على هذه القصيدة المباركة أو وصفها بأنها من القصائد الشركية أو أنها تحتوي على شرك أو غلو في النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- إلى مقام الألوهية هو في الحقيقة اتهام لعلماء الأمة وصالحيها بالترويج للشرك وحفظه وروايته ومدح النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- به، بل فيه مخالفة لإجماع علماء المسلمين عبر القرون، فإن أحدا من العلماء لم يصفها بذلك منذ ألفها ناظمها في القرن السابع الهجري إلى هذه العصور المتأخرة، بل وصفوها بكل وصف سني شريف، وأنها الجوهرة اليتيمة في عقد المدائح النبوية التي ألفها المسلمون عبر القرون، ففي هذا الاتهام جمع بين سوء الفهم للشرع وسوء الأدب مع السلف وعلماء الأمة وانتهاج لمنهج الخوارج في تكفير نقلة الشرع وحملة الدين الذين قال فيهم النبي -صلى الله عليه وآله وسلم-: «يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله؛ ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين». رواه البيهقي. وقد صنف العلماء المحققون في رد هذه الاتهامات الظالمة التي يحلو لبعضهم توجيهها لقصائد المديح النبوي عامة وقصيدة البردة خاصة، وممن صنف في ذلك فأجاد وأفاد: العلامة الشيخ داود بن سليمان الخالدي الشافعي في كتابه السابق ذكره. ونقول في رد هذه الشبه إجمالا: إن الأصل في الألفاظ التي تجري على ألسنة الموحدين أن تحمل على المعاني التي لا تتعارض مع أصل التوحيد، ولا ينبغي أن نبادر برمي المسلم بالكفر والفسق والضلال والابتداع؛ فإن إسلامه قرينة قوية توجب علينا ألا نحمل ألفاظه على معناها الظاهر إن احتملت كفرا أو فسقا، وتلك قاعدة عامة يجب تطبيقها في كل ما يصدر عن المسلم من العبارات، فكيف إذا كان لهذه العبارات معان شرعية صحيحة، وكانت مع ذلك صادرة عن العلماء والصالحين من أهل الله تعالى. قال حجة الإسلام الغزالي الشافعي: "ينبغي الاحتراز عن التكفير ما وجد إليه سبيلا، فإن استباحة دماء المصلين المقرين بالتوحيد خطأ، والخطأ في ترك ألف كافر في الحياة أهون من الخطأ في سفك دم لمسلم واحد". اهـ. نقلا عن فتح الباري للحافظ ابن حجر 12/ 300، ط: دار المعرفة. وقال الشيخ ملا علي القاري في مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 7/ 81: "عبارة آحاد الناس إذا احتملت تسعة وتسعين وجها من الحمل على الكفر ووجها واحدا على خلافه، لا يحل أن يحكم بارتداده، فضلا عما ورد على لسان من هو أفضل". اهـ. والأبيات التي اتهمت بالغلو أبيات صحيحة لا مطعن فيها، وإنما أتي هؤلاء الذين وصفوها بالشرك من جهلهم بمعاني الألفاظ ومجازات اللغة، فهي تهم باطلة قامت على أساس الجهل وإساءة الظن بالمتكلم. فمن الأبيات التي اتهمت بالغلو، وهي من ذلك براء، قول صاحب البردة: محمد سيد الكونين والثقليـ ... ـن والفريقين من عرب ومن عجم والمعنى المقصود من هذا البيت هو بيان مكانة رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- بأنه سيد أهل الدنيا والآخرة، وسيد الإنس والجن، وسيد العرب والعجم، وهذا أمر مجمع عليه بين المسلمين، قال -صلى الله عليه وآله وسلم-: «أنا سيد الناس يوم القيامة». متفق عليه. ومنها قوله: يا أكرم الرسل ما لي من ألوذ به ... سواك عند حلول الحادث العمم والمقصود بالحادث العمم هنا هو يوم القيامة، حين يتجه الناس إلى الأنبياء لطلب الشفاعة، كما ورد في حديث الشفاعة المتفق على صحته: «فيأتون آدم ونوحا وإبراهيم وموسى عليهم وعلى نبينا الصلاة والسلام، فيعتذرون وكلهم يحيل على غيره، حتى يأتوا سيدنا عيسى عليه السلام فيقول: ائتوا محمدا -صلى الله عليه وآله وسلم- عبدا قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر. قال رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم-: فيأتوني، فأستأذن على ربي فيؤذن لي، فإذا أنا رأيته وقعت ساجدا، فيدعني ما شاء الله، فيقال: يا محمد، ارفع رأسك، قل تسمع، سل تعطه، اشفع تشفع، فأرفع رأسي، فأحمده بتحميد يعلمنيه، ثم أشفع، فيحد لي حدا، فأدخلهم الجنة، ثم أعود إليه فإذا رأيت ربي مثله ثم أشفع، فيحد لي حدا، فأدخلهم الجنة، ثم أعود الرابعة فأقول: ما بقي في النار إلا من حبسه القرآن ووجب عليه الخلود». متفق عليه. ومنها قوله: فإن من جودك الدنيا وضرتها ... ومن علومك علم اللوح والقلم حيث اعترض على هذا البيت بأنه جعل الدنيا والآخرة من جود النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- وجعل اللوح والقلم بعض علومه -صلى الله عليه وآله وسلم- فماذا بقي لله عز وجل من الجود والعلم وهذا الاعتراض ناشئ عن الجهل بالله تعالى؛ فإن جود الله تعالى لا ينحصر؛ لأنه لا نهاية لكرمه وجوده سبحانه ولا حد لهما، ولا ينكر كون الدنيا والآخرة من جوده صلى الله عليه وآله وسلم؛ فإنه الدال على الخير فيهما، لا على أنه خالق الجود، فإن هذا لا يقول به مسلم، وإنما على أن الله أجراه على يديه، فهو مقسمه والله معطيه، كما جاء في الصحيحين عنه -صلى الله عليه وآله وسلم- من حديث معاوية -رضي الله عنه-: «إنما أنا قاسم والله يعطي»، وفي صحيح البخاري من حديث أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وآله وسلم-: «ما أعطيكم ولا أمنعكم؛ إنما أنا قاسم أضع حيث أمرت». فصح على هذا المعنى أنهما من جوده عليه الصلاة والسلام. وفي هذا المعنى يقول الإمام الشافعي -رضي الله عنه- في "الرسالة" ص: 16، 17: "فلم تمس بنا نعمة ظهرت ولا بطنت نلنا بها حظا في دين ودنيا أو دفع بها عنا مكروه فيهما وفي واحد منهما، إلا ومحمد -صلى الله عليه- سببها، القائد إلى خيرها، والهادي إلى رشدها، الذائد عن الهلكة وموارد السوء في خلاف الرشد، المنبه للأسباب التي تورد الهلكة، القائم بالنصيحة في الإرشاد والإنذار فيها، فصلى الله على محمد وعلى آل محمد كما صلى على إبراهيم وآل إبراهيم إنه حميد مجيد". اهـ. قال شيخ الإسلام إبراهيم الباجوري الشافعي عند هذا البيت من شرحه على البردة ص132: "وفي كلامه تقدير مضاف، أي: خيري الدنيا هدايته -صلى الله عليه وآله وسلم- للناس، ومن خير الآخرة شفاعته -صلى الله عليه وآله وسلم- فيهم". اهـ. كما أن علم الله تعالى أزلي أبدي، وهو صفة من صفات ذاته، لا حد له ولا نهاية، وتعالى أن يحيط به مخلوق: لوحا كان أو قلما، فمن المحال إحاطة المخلوق بالخالق سبحانه أو بصفة من صفاته. كما أن علمه تعالى غير متوقف على وجود اللوح أو القلم، فقد علمهما قبل أن يوجدهما، والذي ورد في الحديث أن الله تعالى أمر القلم أن يكتب ما هو كائن إلى يوم القيامة، أي أن معلوماته مع كثرتها متناهية محصورة، فلو كانت "من" في كلام الناظم رحمه الله تعالى هنا للتبعيض وكان مراده أن اللوح والقلم بعض علومه -صلى الله عليه وآله وسلم- التي علمها إياه الله تعالى، فليس في هذا مساواة للمخلوق بالخالق أو وصف النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- بما يختص به الله تعالى، ويمكن أن يستدل لهذا القول بالأحاديث التي أخبر فيها النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- بما هو كائن إلى يوم القيامة: فمنها ما رواه البخاري في صحيحه معلقا بصيغة الجزم عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- قال: «قام فينا النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- مقاما فأخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل أهل الجنة منازلهم وأهل النار منازلهم، حفظ ذلك من حفظه ونسيه من نسيه». قال الحافظ ابن حجر في "فتح الباري" 6/ 291، ط: دار المعرفة: "ودل ذلك على أنه أخبر في المجلس الواحد بجميع أحوال المخلوقات منذ ابتدئت إلى أن تفنى إلى أن تبعث؛ فشمل ذلك الإخبار عن المبدأ والمعاش والمعاد". اهـ. ومنها ما رواه البخاري عن أسماء بنت أبي بكر -رضي الله عنهما- «أن النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- حمد الله وأثنى عليه ثم قال: ما من شيء لم أكن أريته إلا رأيته في مقامي هذا؛ حتى الجنة والنار». ومنها ما رواه البخاري ومسلم عن حذيفة -رضي الله عنه- قال: «لقد خطبنا النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- خطبة ما ترك فيها شيئا إلى قيام الساعة إلا ذكره؛ علمه من علمه وجهله من جهله». ومنها ما رواه أحمد بسند صحيح من حديث سمرة -رضي الله عنه- قال: «كسفت الشمس فصلى النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- ثم قال: إني والله لقد رأيت منذ قمت أصلي ما أنتم لاقوه من أمر دنياكم وآخرتكم». ومنها حديث رؤية النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- رب العزة جل وعلا في المنام، والذي جاء فيه قول النبي -صلى الله عليه وآله وسلم-: «فرأيته وضع كفه بين كتفي، حتى وجدت برد أنامله بين ثديي، فتجلى لي كل شيء وعرفت». رواه الإمام أحمد والترمذي وابن خزيمة والحاكم وصححه الإمام أحمد والبخاري والترمذي وابن خزيمة والحاكم من حديث معاذ بن جبل -رضي الله عنه-، ورواه الترمذي من حديث ابن عباس -رضي الله عنهما- مرفوعا بلفظ: «فعلمت ما بين المشرق والمغرب»، ولفظ الدارقطني في كتاب "الرؤية" من حديث ابن عباس -رضي الله عنهما-: «فعلمت ما بين السماء والأرض»، ورواه الدارقطني في "الرؤية" أيضا والطبراني في "الدعاء" من حديث عبد الرحمن بن عائش الحضرمي -رضي الله عنه- مرفوعا بلفظ: «فعلمت ما في السماء والأرض». قال الحافظ ابن رجب الحنبلي في كتابه "اختيار الأولى في شرح حديث اختصام الملأ الأعلى" -ص: 40 ط: مكتبة دار الأقصى-: "وفيه دلالة على شرف النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- وتفضيله بتعليمه ما في السماوات والأرض وتجلي ذلك له مما تختصم فيه الملائكة في السماء وغير ذلك، كما أري إبراهيم ملكوت السماوات والأرض. وقد ورد في غير حديث مرفوعا وموقوفا أنه أعطي علم كل شيء خلا مفاتيح الغيب الخمس التي اختص الله عز وجل بعلمها". اهـ. وفي شرح هذه البيت من البردة يقول الإمام العلامة الجلال المحلي في شرحه على البردة مخطوط ق: 23 أ، ب: "ومن علومك علم اللوح والقلم يقال: إن الله تعالى أطلعه على ما كتب القلم في اللوح المحفوظ، وعلى علوم الأولين والآخرين، وهذا من جاهه عند الله تبارك وتعالى". اهـ. ويقول شيخ الشافعية في زمنه العلامة ابن حجر الهيتمي في "العمدة في شرح البردة" -ص669، ط: دار الفقيه بالإمارات-: "ووجه كون علم اللوح والقلم من بعض علومه -صلى الله عليه وآله وسلم- أن الله تعالى أطلعه ليلة الإسراء على جميع ما في اللوح المحفوظ وزاده علوما أخر؛ كالأسرار المتعلقة بذاته سبحانه وتعالى وصفاته". اهـ. ولو نازع منازع في ذلك فغاية ما هنالك نقل هذه المسألة من حيز القطعية إلى الظنية، فلا يكفر المخالف فيها، وليس للمنازع أن ينقل المسألة من حيز الخلاف في ثبوت هذا المعنى في الكتاب والسنة أو عدم ثبوته إلى كونه شركا أو كفرا أو غلوا، على أنه يمكن أن تكون من هنا للجنس؛ أي: وعلم اللوح والقلم من جنس علومك، أي: أنهما علوم لدنية لا كسبية، ومصدرهما واحد وهو الحضرة الربانية، وحينئذ فلا ورود للاعتراض أصلا. ومنها قوله: وكيف تدعو إلى الدنيا ضرورة من ... لولاه لم تخرج الدنيا من العدم وهذا المعنى قد ورد فيه جملة أحاديث، منها: ما رواه الحاكم في المستدرك والبيهقي في دلائل النبوة من حديث عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم-: «لما اقترف آدم الخطيئة قال: يا رب، أسألك بحق محمد لما غفرت لي، فقال الله: يا آدم، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه؟ قال: يا رب لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا: لا إله إلا الله محمد رسول الله، فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك، فقال الله: صدقت يا آدم؛ إنه لأحب الخلق إلي، ادعني بحقه فقد غفرت لك، ولولا محمد ما خلقتك». قال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد، وحسنه الإمام التقي السبكي في "شفاء السقام". وروى الديلمي في "الفردوس بمأثور الخطاب" عن ابن عباس -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- قال: «أتاني جبريل فقال: قال الله: يا محمد، لولاك ما خلقت الجنة، ولولاك ما خلقت النار». ورواه ابن عساكر في "تاريخ دمشق" من حديث سلمان الفارسي -رضي الله عنه- بلفظ: «ولقد خلقت الدنيا وأهلها لأعرفهم كرامتك ومنزلتك عندي، ولولاك يا محمد ما خلقت الدنيا». وروى الحاكم في المستدرك وأبو الشيخ في طبقات الأصفهانيين عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- موقوفا عليه: «أوحى الله إلى عيسى عليه السلام: يا عيسى، آمن بمحمد، وأمر من أدركه من أمتك أن يؤمنوا به؛ فلولا محمد ما خلقت آدم، ولولا محمد ما خلقت الجنة ولا النار، ولقد خلقت العرش على الماء فاضطرب فكتبت عليه: لا إله إلا الله محمد رسول الله، فسكن». قال الحاكم: هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه. وهذه الأحاديث والآثار وإن كان فيها أو في بعضها ضعف إلا أن معناها صحيح، فمعنى القول بأنه لولا سيدنا محمد -صلى الله عليه وآله وسلم- ما خلق الله الخلق هو أن الله سبحانه وتعالى قال في كتابه العزيز: ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ[٥٦]﴾ [الذاريات: 56]. فتحقيق العبادة هي حكمة الخلق، والعبادة لا تتحقق إلا بالعابدين، فالعبادة عرض قائم بالعابد نفسه، وأفضل العابدين هو سيدنا محمد صلى الله عليه وآله وسلم، فهو عنوان العبادة، وعنوان التوحيد، كما أن الآية تتكلم عن الجن والإنس ولا تتكلم عن الخلق أجمعين. أما باقي ما في السماوات والأرض فهو مخلوق لخدمة الإنسان، قال تعالى: ﴿وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ[١٣]﴾ [الجاثية: 13]. وسيدنا محمد -صلى الله عليه وآله وسلم- هو عنوان الإنسانية، بل هو الإنسان الكامل. وقد نص على صحة هذه المقولة كثير من العلماء؛ كالعلامة ملا علي القاري والعجلوني وغيرهما من الأئمة، وممن ذكر أنها مقبولة إذا فسرت بهذه المعاني الصحيحة في الكتاب والسنة الشيخ ابن تيمية الحنبلي رحمه الله؛ حيث يقول في "مجموع الفتاوى" 11/ 96 98: "وقد ظهر فضل نبينا -صلى الله عليه وآله وسلم- على الملائكة ليلة المعراج لما صار بمستوى يسمع فيه صريف الأقلام، وعلا على مقامات الملائكة. ومحمد سيد ولد آدم، وأفضل الخلق وأكرمهم عليه؛ ومن هنا قال من قال: إن الله خلق من أجله العالم، أو: إنه لولا هو لما خلق الله عرشا ولا كرسيا ولا سماء ولا أرضا ولا شمسا ولا قمرا. ويمكن أن يفسر بوجه صحيح. فإذا كان الإنسان هو خاتم المخلوقات وآخرها، وهو الجامع لما فيها، وفاضله هو فاضل المخلوقات مطلقا، ومحمد إنسان هذا العين، وقطب هذه الرحى، وأقسام هذا الجمع كان كأنها غاية الغايات في المخلوقات، فما ينكر أن يقال: إنه لأجله خلقت جميعها، وإنه لولاه لما خلقت، فإذا فسر هذا الكلام ونحوه بما يدل عليه الكتاب والسنة قبل ذلك". اهـ. والقول بأن قصيدة البردة للإمام البوصيري فيها أمور شركية تخل بالعقيدة هو في حد ذاته خلل في العقيدة؛ لأن فيه سلوكا لمنهج الخوارج الذي يقوم على أساس حمل الآيات التي نزلت في المشركين على المسلمين، وقد وضح ابن عمر -رضي الله عنهما- أن هذا هو مدخل ضلالتهم فقال: "إنهم انطلقوا إلى آيات نزلت في الكفار فجعلوها على المؤمنين" علقه البخاري في صحيحه ووصله ابن جرير الطبري في "تهذيب الآثار" بسند صحيح، كما أن فيه خللا في المنهج وفقدانا للمعايير الإسلامية الصحيحة حيث خلط أصحابه بين دائرة الشرك ودائرة الوسيلة، فحب رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- ومدحه والتوسل به من الوسائل الشرعية التي تعبد الله تعالى بها عباده المسلمين، بنص الكتاب والسنة وعمل سلف الأمة، فنقلها إلى دائرة الشرك دليل على افتقاد المعيار السليم الذي يفرق به بين الإيمان والكفر، وقد أنكر الله تعالى على أصحاب هذا المسلك الفاسد بقوله سبحانه: ﴿أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ[٣٥] مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ[٣٦]﴾ [القلم: 35 - 36]. وهذا المنهج الفاسد الكاسد هو الذي سفكت به دماء المسلمين قديما وحديثا، ويجب على المسلمين الحذر والتحذير منه. وعلى هذا فمدح النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- سنة نبوية شريفة ينبغي على المسلمين إحياؤها في هذا العصر، وهي من أعظم القربات التي يتوسل بها إلى رب البريات، وقصيدة البردة الشريفة هي من أفضل ما مدح به رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- ووصفها بالقصيدة الشركية أو بأن فيها شركا أو كفرا هو طعن على السواد الأعظم من علماء الأمة واتهام لهم بالشرك والكفر، ودعوة لهدم التراث الإسلامي وحضارته، وناهيك بذلك خروجا عن سبيل المؤمنين ومحادة لله تعالى ورسوله -صلى الله عليه وآله وسلم- وقد روي عن النبي –صلى الله عليه وآله وسلم- أنه قال: «إذا لعن آخر هذه الأمة أولها فمن كتم حديثا فقد كتم ما أنزل الله» رواه ابن ماجه من حديث جابر بن عبد الله رضي الله عنهما. وصدق من قال: ومن يك ذا فم مر مريض ... يجد مرا به الماء الزلالا ويرحم الله الإمام البوصيري حين قال في بردته الشريفة: قد تنكر العين ضوء الشمس من رمد ... وينكر الفم طعم الماء من سقم وهذه القصيدة الشريفة هي من أكثر ما يثبت حب المصطفى -صلى الله عليه وآله وسلم- في القلوب، واعتيادك لقراءتها باب عظيم من أبواب فتح الله تعالى عليك، فلا تلتفت إلى من يصدك عن قراءتها، والله تعالى خصيم من يتهم أولياءه وعباده الصالحين وعلماء الأمة المتقين سلفا وخلفا بالوقوع في الشرك والبدعة. والله سبحانه وتعالى أعلم. المبادئ 1- الأصل في الألفاظ التي تجري على ألسنة الموحدين أن تحمل على المعاني التي لا تتعارض مع أصل التوحيد. 2- أجمع المسلمون على أن سيدنا محمدا -صلى الله عليه وآله وسلم- سيد أهل الدنيا والآخرة، وسيد الإنس والجن، وسيد العرب والعجم. 3- مدح النبي -صلى الله عليه وآله وسلم- سنة نبوية شريفة ينبغي على المسلمين إحياؤها في هذا العصر، وهي من أعظم القربات التي يتوسل بها إلى رب البريات. 4- قصيدة البردة الشريفة من أفضل ما مدح به رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- ووصفها بالقصيدة الشركية أو بأن فيها شركا أو كفرا هو طعن على السواد الأعظم من علماء الأمة واتهام لهم بالشرك والكفر، ودعوة لهدم التراث الإسلامي وحضارته، وناهيك بذلك خروجا عن سبيل المؤمنين ومحادة لله تعالى ورسوله. دار الإفتاء المصرية رقم الفتوى: 1248 لسنة 2009 تاريخ النشر في الموقع : 15/12/2017اة

Tuesday 23 August 2022

عقیقہ میں مذکر مؤنث جانورکی تخصیص لازمی ہے کہ نہیں

شریعت مطہرہ نے لڑکے اور لڑکی کے عقیقہ کے لیے جانور کے مذکر اور مونث کے فرق کا اعتبار نہیں کیا ہے، بلکہ اگر لڑکے کے لیے بکری اور لڑکی کے لیے بکرا ذبح کر دیا جائے، تو بھی عقیقہ درست ہوجائے گا، لہذا آپ کے خاندان کے لوگوں کی یہ بات کہ لڑکے کے لیے مذکر جانور مثلاً بکرا اور لڑکی کے لیے مؤنث جانور مثلاً بکری ذبح کرنا ضروری ہے، درست نہیں ہے، البتہ شریعت میں یہ فرق ہے کہ لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو بکرے ذبح کرنا افضل ہے، جبکہ لڑکی کے لیے ایک بکرا ذبح کرنا کافی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلائل: کما فی مشکاۃ المصابیح: عن أم كرز رضی الله عنها ، قالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: اقروا الطير على مكناتها، قالت وسمعته يقول: عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة ولايضرکم ذكرانا كن أو إناثا. رواه أبو داود والترمذي والنسائي. عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه قال: عق رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحسن بشاۃ........... الحديث. (ص: 362، ط: قدیمی) وفی اعلاء السنن: والشاة يعم الذكر والأنثى جميعا لاسيما وفي حديث أم كرز، لایضرکم ذكرانا كن أو أناثا. (ج: 17، ص: 117، ط: ادارۃ القرآن)

Sunday 21 August 2022

فون پر نکاح

نکاح کے وقت عاقدین اور گواہوں کامجلس نکاح میں ہونا ضروری ہے، اور یہ ٹیلیفون پر ممکن نہیں اس لیے ٹیلیفون پر نکاح جائز نہیں۔ در مختار میں ہے: ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین وإن طال کمخیرة۔ (الدر المختار مع الشامي: 4/76، ط زکریا دیوبند) البتہ اگر وہ شخص ٹیلیفون پر کسی کو اپنا وکیل بنادے کہ وہ اس کی طرف سے فلاں لڑکی کے نکاح کو قبول کرلے پھر یہاں مجلس نکاح منعقد کی جائے اور قاضی صاحب یا لڑکی کے والد وغیرہ جو بھی نکاح پڑھائیں وہ کہیں کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح فلاں شخص سے کیا اور وکیل کہے کہ میں نے اس لڑکی کو فلاں کے نکاح میں قبول کیا، پس اس سے نکاح منعقد ہوجائے گا اور صحیح ہوجائے گا۔بصورت دگر نہیں.

Bilkis Bano Case

HYDERABAD: Activists of the Telangana Women and Transgender Organisations JAC (WT-JAC), women's organisations and other social outfits held a protest at Dharna Chowk, Indira Park on Saturday against the remission of life sentences of those convicted for the rape of Bilkis Bano and murder of her family members during the 2002 Gujarat riots. They demanded that all the 11 convicts should be sent back to jail. They opined that Bilkis Bano was an eyewitness to the communal carnage in Gujarat in 2002 and the government's decision to release all the convicts on the 75th Independence Day, in fact, making a mockery of women's independence in the country. We talk a lot about women empowerment and we have slogans like Beti Bachao, Beti Padhao, but the truth is women belonging to minority communities are still not getting justice, they said. Activist Sujatha Surepally said, "Even a trial has not taken place in this case. Women's rights guaranteed under the Indian Constitution should be protected. We feel that there is political interference in the case and there is bias towards minorities. Every democrat should protest, otherwise cases like these will not be remembered." V Sandhya, National Convenor, Progressive Organisation for Women ( POW), said, "On Independence Day, Prime Minister Narendra Modi spoke about Nari Shakti and on the same day, injustice was being metted out to a woman. These kinds of judgements will make women more insecure. The real Azadi Ka Amrit Mahotsav will be when women are treated with respect. We demand that the convicts be sent back to jail."

Friday 19 August 2022

الصلاة قبل دخول الوقت

إذا صليتها قبل الوقت فهي باطلة، ولا تسقط عن ذمتك، فإذا صليت الظهر قبل الزوال، أو المغرب قبل غروب الشمس، أو الفجر قبل طلوع الفجر؛ فالصلاة باطلة، عليك أن تعيدها، ولا تبرأ الذمة إلا بإعادتها، ولا يجوز لك أن تصلي قبل الوقت أبدًا، بل أنت آثم، وعليك التوبة من ذلك، والله المستعان

صبرالصحابية أم زفر رضى الله عنها

تُعدُّ قصة الصحابية أمُّ زفر -رضي الله عنها- مثالاً على إيثار الآخرة ونعيمها، على كلِّ ما في الدنيا من مشقَّة وعذاب، فقد كانت -رحمها الله- مُصابة بالصَّرع، وإذا صُرِعَت سقطت، وتكشَّف شيءٌ منها. فذهبت تشتكي إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- ذلك فقالت: (إنِّي أُصْرَعُ وإنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي، قالَ: إنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الجَنَّةُ، وإنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ قالَتْ: أَصْبِرُ، قالَتْ: فإنِّي أَتَكَشَّفُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ لا أَتَكَشَّفَ فَدَعَا لَهَا).[١٠] وقد كان همها -رحمها الله تعالى- الآخرة على الرغم من قَسوة الألم وشِدَّته، إلاّ أنَّها آثرت نعيم الأخرة على الشفاء من المرض بالدنيا، وكانت تعلم قيمة الَّستر، وتخشى أن تتكشَّف إن هي صُرِعَت، فطلبت من النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يدعو لها بأن لا تتكشَّف، مع أنَّها معذورة إذا تكشفت حال صرعها، إلَّا أنَّها آثرت الدعاء لها بالستر، على الدعاء لها بالشفاء.

كرامات الصحابة رضوان الله عليهم اجمعين

روى البخاري (3805) ، وأحمد (12980) - واللفظ له - عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : " أَنَّ أُسَيْدَ بْنَ حُضَيْرٍ ، وَعَبَّادَ بْنَ بِشْرٍ كَانَا عِنْدَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ ظَلْمَاءَ حِنْدِسٍ ، قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَا مِنْ عِنْدِهِ أَضَاءَتْ عَصَا أَحَدِهِمَا فَكَانَا يَمْشِيَانِ بِضَوْئِهَا، فَلَمَّا تَفَرَّقَا أَضَاءَتْ عَصَا هَذَا وَعَصَا هَذَا " . : ذكر غير واحد من أهل العلم أن عكاشة بن محصن رضي الله عنه انقطع سيفه يوم بدر، فدفع إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم عودا ، فعاد في يده سيفا شديد المتن. قال ابن كثير رحمه الله : " كَانَ عكاشة بن محصن مِنْ سَادَاتِ الصَّحَابَةِ وَفُضَلَائِهِمْ ، هَاجَرَ وَشَهِدَ بَدْرًا وَأَبْلَى يَوْمَئِذٍ بَلَاءً حَسَنًا ، وانكسر سيفه ، فأعطاه رسول الله يومئذ عرجونا ، فعاد في يده سيفا أمضى من الحديد ، شديد الْمَتْنِ ، وَكَانَ ذَلِكَ السَّيْفُ يُسَمَّى الْعَوْنَ " . انتهى من " البداية والنهاية " (6/ 338) . وقال الذهبي رحمه الله : " أَبْلَى عُكَّاشَةُ يَوْم بَدْرٍ بَلاَءً حَسَناً ، وَانْكَسَرَ سَيْفُهُ فِي يَدِهِ ، فَأَعْطَاهُ النَّبِيُّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- عُرْجُوْناً مِنْ نَخْلٍ ، أَوْ عُوْداً ، فَعَادَ بِإِذْنِ اللهِ فِي يَدِهِ سَيْفاً، فَقَاتَلَ بِهِ وَشَهِدَ بِهِ المَشَاهِدَ " انتهى، من "سير أعلام النبلاء" (3/ 189) . وانظر : "الاستيعاب" (3/ 1080) ، " دلائل النبوة " لأبي نعيم الأصبهاني (ص 613) ، " دلائل النبوة " للبيهقي (3/ 99) ، " الشفا " للقاضي عياض (1/ 642) . : روى البخاري (755) من طريق عبد الملك بن عمير عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ : " شَكَا أَهْلُ الكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَعَزَلَهُ ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا ، فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لاَ يُحْسِنُ يُصَلِّي ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ ، فَقَالَ : يَا أَبَا إِسْحَاقَ إِنَّ هَؤُلاَءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لاَ تُحْسِنُ تُصَلِّي ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا ، أُصَلِّي صَلاَةَ العِشَاءِ ، فَأَرْكُدُ فِي الأُولَيَيْنِ وَأُخِفُّ فِي الأُخْرَيَيْنِ ، قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ ، فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلًا أَوْ رِجَالًا إِلَى الكُوفَةِ ، فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الكُوفَةِ وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلَّا سَأَلَ عَنْهُ، وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا ، حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ قَالَ : أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لاَ يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ ، وَلاَ يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ ، وَلاَ يَعْدِلُ فِي القَضِيَّةِ ، قَالَ سَعْدٌ : أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلاَثٍ : اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا ، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً ، فَأَطِلْ عُمْرَهُ ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ ، وَعَرِّضْهُ بِالفِتَنِ . وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ - يعني هذا الرجل - يَقُولُ: شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ ، أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ ، قَالَ عَبْدُ المَلِكِ : فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ ، قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ " . وحصول الكرامات للصحابة رضي الله عنهم أمر معروف لا ينكر ، وهي حاصلة لهم ، ثم لمن بعدهم من الصالحين ، ببركة اتباعهم لرسول الله صلى الله عليه وسلم ، فهي من مشكاة النبوة ، وأثر من آثار تصديق رسول الله صلى الله عليه وسلم والإيمان به . قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله : " فَأَوْلِيَاءُ اللَّهِ الْمُتَّقُونَ هُمْ الْمُقْتَدُونَ بِمُحَمَّدِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَيَفْعَلُونَ مَا أَمَرَ بِهِ، وَيَنْتَهُونَ عَمَّا عَنْهُ زَجَرَ، وَيَقْتَدُونَ بِهِ فِيمَا بَيَّنَ لَهُمْ أَنْ يَتَّبِعُوهُ فِيهِ ، فَيُؤَيِّدُهُمْ بِمَلَائِكَتِهِ وَرُوحٍ مِنْهُ ، وَيَقْذِفُ اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنْ أَنْوَارِهِ ، وَلَهُمْ الْكَرَامَاتُ الَّتِي يُكْرِمُ اللَّهُ بِهَا أَوْلِيَاءَهُ الْمُتَّقِينَ ، وَخِيَارُ أَوْلِيَاءِ اللَّهِ كَرَامَاتُهُمْ لِحُجَّةِ فِي الدِّينِ أَوْ لِحَاجَةِ بِالْمُسْلِمِينَ ، كَمَا كَانَتْ مُعْجِزَاتُ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَلِكَ . وَكَرَامَاتُ أَوْلِيَاءِ اللَّهُ إنَّمَا حَصَلَتْ بِبَرَكَةِ اتِّبَاعِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَهِيَ فِي الْحَقِيقَةِ تَدْخُلُ فِي مُعْجِزَاتِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " . عدم تغيُّر جسد أبي طلحة رضي الله عنه بعد مضي سبعة أيام على موته: عن أنس رضي الله عنه، "أن أبا طلحة رضي الله عنه قرأ القرآن: ﴿ {انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا} ﴾ [التوبة: 41]، فقال: أرى أن تستنفروا شيوخًا وشبَّانًا، فقالوا: يا أبانا، لقد غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم حتى مات، ومع أبي بكر، وعمر رضي الله عنهما، فنحن نغزو عنك، فأبى، فركب البحر حتى مات، فلم يجدوا جزيرة يدفنوه إلا بعد سبعة أيام فما تغيَّر"؛ [أخرجه الحاكم]. عدم تغيُّر جسد والد جابر بن عبدالله رضي الله عنه بعد مضي ستة أشهر على موته: عن جابر بن عبدالله رضي الله عنه، قال: "لما حضر قتال أُحُد دعاني أبي من الليل، فقال: إني لا أُراني إلا مقتولًا في أول مَنْ يُقتَل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإني والله ما أدعُ أحدًا يعني أعزُّ عليَّ منك بعد نفس رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإن عليَّ دينًا، فاقْضِ عنِّي ديني، واستوصِ بأخواتِكَ خيرًا، فأصبحنا، فكان أول قتيل فدفنته مع آخر في قبر، ثم لم تطب نفسي أن أتركه مع آخر في قبر، فاستخرجتُه بعد ستة أشهر، فإذا هو كيوم وضَعْتُه غير أُذُنِه"؛ [أخرجه البخاري]. عدم إيذاء الأسد لسفينة رضي الله عنه مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم: عن سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "ركبت البحر فانكسرت سفينتي التي كنت فيها، فركبت لوحًا من ألواحها، فطرحني اللوح في أجمة فيها الأسد، فأقبل يريدني، فقلتُ: يا أبا الحارث، أنا مولى رسول الله، فطأطأ رأسَه وأقبل إليَّ، فدفعني بمنكبه حتى أخرجني من الأجمة، ووضعني على الطريق، وهَمْهَم، فظننت أنه يُودِّعُني، فكان آخر العهد به"؛ [أخرجه الطبراني في الكبير].

Thursday 18 August 2022

Nari shakti and release of killers and rapists

Prime Minister Narendra Modi, while addressing the nation for the ninth time on the occasion of Independence Day, underscored that respect for women was an important pillar of India's growth. He urged people to take a pledge to get rid of everything that humiliates women in everyday life. As it turned out, the Gujarat government, on August 15, released 11 people convicted of rape and murder in the Bilkis Bano case which transpired during the 2002 Gujarat riots within hours of his speech. This led to several Opposition parties slamming the BJP government for its 'duplicity'. As expected, no one in the ruling Bharatiya Janata Party spoke up against the release of the rapists, but neither did Aam Aadmi Party, which came to power riding on the protests against the December 2012 Nirbhaya gang rape case and the India Against Corruption movement. Samajwadi Party has also maintained a studied silence on the issue. The country's main Opposition party, the Congress, called the Gujarat government order "unprecedented" and questioned if this was the spirit behind "Amrit Mahotsav". "If we just consider the nature of the crime, does rape not come in the category that the harshest punishment be given, that any sentence is not enough? And we saw today that those who were let off, they are being felicitated and honoured. Is this Amrit Mahotsav?" asked the Congress. Chairman of the Congress' Media and Publicity Department Pawan Khera asked PM Modi to come forward and clarify if what he said in his Red Fort speech were just words, with no meaning. "Does the PM not mean what he says? Or is it that his own party, its governments have stopped listening to him? Or does he say one thing to the country and another to his own party's government?" added Khera. Referring to the Kathua and Unnao rape cases, he added that it embarrasses everyone in politics when office-bearers and supporters of a national political party are seen taking out a rally in favour of rapists on the streets. Former Congress president and Member of Parliament Rahul Gandhi tweeted: "Those who raped a 5-month pregnant woman and killed her 3-year-old girl were released during the 'Azadi Ke Amrit Mahotsav'. What is the message giving to the women of the country who are talking about women power? Prime Minister, the whole country is seeing the difference between your words and deeds". Senior Congress leader and former Union Finance Minister P Chidambaram pointed out that the review panel included two Gujarat BJP MLAs, CK Raolji and Suman Chauhan. Another member of the review panel, Murli Mulchandani, had been a key witness for the prosecution in the Godhra train burning case. The district collector was the chairperson of the review panel. Almost all the other Opposition parties - the RJD, AIMIM, CPM, TMC and BSP - criticised the BJP government's decision. AIMIM president Asaduddin Owaisi tweeted: "This is BJP's version of AZADI KA AMRIT. People who are GUILTY of a heinous crime have been given freedom. BJP's bias for a religion is such that even brutal rape & hate crimes are forgivable." Slamming the BJP government, Rashtriya Janata Dal (RJD) spokesperson Ejaz Ahmad said, "PM Modi today made tall statements on Nari Samman to prohibit insult to the womenfolk... but hours later, the Gujarat government has allowed convicts of Bilkis Bano gang rape case to go scot-free. This is unfortunate that PM on one hand spoke something, diagonally opposite was being done by the Gujarat government... how will the BJP talk about women empowerment." Condemning the Gujarat government's decision, CPI(M) tweeted, "This is the real face of New India - convicted killers and rapists released. Activist Teesta who fought for justice was jailed." Trinamool Congress spokesperson Saket Gokhale said Bilkis Bano was "raped in the 2002 Gujarat pogrom and her entire family was murdered and buried in a mass grave". "Gujarat govt has now released all 11 monsters who were convicted of this heinous crime. Where's the outrage by people & the Noida media? Not even a whimper," he tweeted.

Rana Ayub,the voice of oppressed people

Justice Yashwant Varma issued notice to the investigating agency on Ayyub`s petition against the provisional attachment and sought a response from it within six weeks. The court also restrained Ayyub in the meantime from disposing of or creating any third-party rights concerning the attached funds lying in certain bank accounts. "Till the next date of listing, the respondent (ED) shall stand restrained from taking further steps as contemplated under Section 8 (Adjudication) of the Prevention of Money Laundering Act, 2002. The petitioner shall also stand restrained from disposing of or creating any third party rights or encumbering the property which forms the subject matter of the provisional order of attachment," ordered the court. DGCA asks airlines to strictly enforce Covid-19 protocol amid rise in cases Ayyub, represented by advocate Vrinda Grover, said that the provisional attachment order of February 2022 has lapsed and ceased to exist upon expiry of 180 days and the Adjudicating Authority therefore can no longer pass an order of confirmation. In her plea, the journalist said that under Article 300A of the Constitution of India, she has the constitutional right not to be deprived of her property save by authority of law, and the continued attachment of her property beyond the statutorily authorized period of 180 days was arbitrary, lacks jurisdiction and without the authority of law. The ED has attached over Rs 1.77 crore of Ayyub`s funds held in two accounts of a private bank in Navi Mumbai under the Prevention of Money Laundering Act (PMLA). The money-laundering case against Ayyub was filed by the ED after taking cognisance of a September 2021 FIR of the Ghaziabad police (Uttar Pradesh) related to alleged irregularities in donor funds of over Rs 2.69 crore raised by her through "Ketto". The agency has said its probe "makes it abundantly clear that the funds were raised in the name of charity in a completely pre-planned and systematic manner, and the funds were not utilised completely for the purpose of which the funds were raised". The court listed the case for further hearing on November 17.

بلقيس بانومظلومة هندية تصرخ للعدل

أفادت تقارير إعلامية هندية أنه تم إطلاق سراح 11 رجلاً يقضون عقوبة السجن مدى الحياة بتهمة الاغتصاب الجماعي والقتل خلال أعمال الشغب في غوجارات عام 2002. وذكرت التقارير أنه تم الإفراج يوم الاثنين عن 11 مدانا فيما أصبح يعرف بقضية بلقيس بانو من السجن فى بلدة جودهرا بولاية جوجارات بعد أن وافقت حكومة الولاية على طلب إعفاءهم من العقوبة. ويشار إلى أنه في عام 2002 وقعت مذبحة بحق المسلمين، بعد اشتعال النيران في قطار كان يقل 59 حاجا هندوسيا ، مما أسفر عن مقتل 59 شخصا. في أعمال العنف الانتقامية التي استمرت لعدة أيام ، تعرض ما يقرب من 2000 شخص ، معظمهم من المسلمين ، لإطلاق الرصاص والحرق حتى الموت في الولاية الغربية ، وهي واحدة من أغنى ولاية في الهند. في واحدة من أفظع أحداث العنف ضد المسلمين على نطاق واسع ، تعرضت بلقيس بانو للهجوم وكانت ابنتها صالحة البالغة من العمر ثلاث سنوات من بين 14 شخصًا قتلوا على يد حشد هندوسي في 3 مارس / آذار 2002 في منطقة ليمكيدا بمقاطعة داهود. في ولاية غوجارات. وقالت المحكمة في حكمها إن صالحة قتلت بتحطيم رأسها على الأرض. كانت بلقيس تبلغ من العمر 21 عامًا وكانت حاملًا في شهرها الخامس في ذلك الوقت. نجت من خلال اللعب ميتًا أثناء المذبحة ثم فقدت وعيها. وقالت النيابة في وقت لاحق إن الرجال الأحد عشر المدانين كانوا من حي بانو. وقال كبير المسؤولين الإداريين في ولاية غوجارات لصحيفة إنديان إكسبرس يوم الاثنين إن طلب العفو الذي قدمه 11 مدانًا قد تم النظر فيه بسبب “إكمال 14 عامًا” في السجن. وعادة ما تصل عقوبة السجن المؤبد في الهند إلى 14 عاما.

Justice awaited

Former Home Minister P. Chidambaram has questioned the remission of sentence in the Bilkis Bano case and said that when the CBI was the prosecuting agency did the Gujarat government consult the Union government. Chidambaram in a tweet said on Thursday, "The settled position of law is that in a case where the prosecuting agency was the CBI, the state government is obliged to consult the central government before granting remission of sentence." He said the obvious questions that arose were that "did the Government of Gujarat consult the Central government? and Next, what was the view of the central government?" "It is unimaginable that the Gujarat government would have defied the view of the central government Let the PM and HM answer these questions. They cannot hide behind the wall of silence Under the Gujarat model, nari shakti is defeated by vinash shakti," he added. All 11 convicts, who had been sentenced to life imprisonment in the Bilkis Bano gang-rape and murder of seven members of her family, on Monday walked out of Godhra sub-jail after the Gujarat government allowed their release under its remission policy. A special CBI court in Mumbai had sentenced the 11 accused on January 21, 2008. The Bombay High Court later upheld their conviction.