https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 27 August 2022

شوہرطلاق کاانکارکرےاوربیوی تین طلاق کادعوی کرے توکس کاقول معتبر ہوگا

فقہاء نے صراحتاًلکھا ہے کہ: اگرکسی عورت کو اس کا شوہر تین طلاقیں دے دے اور پھر انکارکرے تواس صورت میں یاعورت اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے اس صورت میں عورت کے حق میں فیصلہ کردیاجائے گااور شوہر کاانکار معتبر نہ ہوگا۔ اگر عورت کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو شوہرسے حلف لیاجائے گا،اگرشوہرحلف سے انکار کردے تو بھی فیصلہ عورت کے حق میں ہوگا، اور اگر شوہر حلف اٹھاتاہے توظاہری فیصلہ اسی کے حق میں ہوگا،البتہ جب عورت کوتین طلاق کایقین ہوتوشوہرکواپنے اوپرقدرت نہ دے اور چھٹکارے کی کوئی صور ت بنائے۔شریعت کایہ مسئلہ صاف اورواضح ہے۔لہذا ۱۔اگر بیوی کے پاس گواہ موجودہوں یاشوہرنے تحریری طلاق دی ہوتواس کاانکار معتبر نہیں۔ ۲۔اگر گواہ نہ ہوں اور شوہرحلف اٹھاتاہے تو ظاہری طورپراسی کے حق میں فیصلہ کیاجائے گا،اور اس صورت میں عورت بقدرامکان شوہرکواپنے اوپرقدت نہ دے،اگرشوہرزبردستی تعلقات قائم کرتاہے تواس کاگناہ شوہرپرہی ہوگا۔ ۳۔قدرت نہ دینے کاحکم اس بناپرہے کہ عورت کویقین ہے کہ اس نے تین طلاقیں سنی ہیں، لیکن وہ شرعی ضابطے کے مطابق گواہ نہیں رکھتی ،لہذا یہ نشو ز کی تعلیم نہیں، بلکہ دیانۃً چوں کہ جدائی ہوچکی ہے، اس لیے یہ حکم دیاگیاہے۔ ۴۔جب ظاہری فیصلہ شوہرکے حق میں ہے توعدت نہیں گزار سکتی ،اس لیے کہ ظاہراً نکاح برقراہے،اورجب تک عورت اس کے گھرمیں ہے تونان ونفقہ بھی شوہرپرہی ہے۔اور ظاہرہے کہ جب عدت نہیں کرسکتی توکسی اور سے نکاح بھی جائزنہیں۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’...اگرشوہراس (مطلقہ)کواپنے پاس رکھے گاتوہمیشہ نزاع اور شک وشبہ رہے گا، اور شوہرگناہ گارہوگا،اگرخدانخواستہ شوہرنہ طلاق کااقرار کرے ،نہ اب طلاق دے ،اور طلاق کے شرعی گواہ بھی موجود نہ ہوں، توایسی صورت میں عورت شوہرسے خلع کرے،کچھ دے دلاکررہائی حاصل کرے،جماعت اور برادری کے سمجھ دار دین دارحضرات شوہر کوسمجھاکر طلاق کااقراریاطلاق دینے یاخلع کرلینے پرآمادہ کریں، طلاق کااقرار یا طلاق حاصل کیے یاخلع کے بغیر عورت کسی اور جگہ نکاح نہیں کرسکتی....ایک صورت یہ ہے کہ شوہرسے جبراً واکراہاً طلاق بائن کہلوائی جائے یہ بالکل آخری درجہ ہے‘‘۔(فتاویٰ رحیمیہ8/283،ط:دارالاشاعت) ففي مسائل الإمام أحمد بن حنبل رواية صالح: وسألته عن امرأة ادعت أن زوجها طلقها وليس لها بينة، وزوجها ينكر ذلك. قال أبي: القول قول الزوج، إلا أن تكون لا تشك في طلاقه قد سمعته طلقها ثلاثا، فإنه لا يسعها المقام معه، وتهرب منه، وتفتدي بمالها. اهـ. وعلى من سمع الطلاق من الرجل، أن يشهد في المحكمة بما سمعه، حتى تفرق المحكمة بينه وبين امرأته. قال الخرشي المالكي -رحمه الله-: (وفي محض حق الله تجب المبادرة بالإمكان، إن استديم تحريمه كعتق، وطلاق، ووقف، ورضاع) ، يعني أن الحق إذا تمحض لله -تعالى- وكان مما يستدام تحريمه، فإنه يجب على الشاهد المبادرة بالشهادة إلى الحاكم بحسب الإمكان، كمن علم بعتق عبد, وسيده يستخدمه ويدعي الملكية فيه, وكذلك الأمة، أو علم بطلاق امرأة ومطلقها يعاشرها في الحرام... " اگر واقعی بیوی نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ اس کے شوہر نے اسے تین طلاقیں دی ہیں تو تین طلاقیں واقع ہو کر حرمت مغلظہ ثابت ہو چکی ہے اور اگر شوہر طلاق کا انکار کرتا ہے تو اس صورت میں بیوی اپنے شوہر کے پاس ہرگز نہ جائے اور اس کو عذابِ الٰہی سے ڈرائے اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو خلع کرنے کو کہے یعنی اپنی طرف سے مہر معاف کر کے اس سے خلع کر لے یا کسی اور مال کی پیش کش کر کے اس سے جان چھڑا لے اس پر بھی اگر وہ راضی نہ ہو اور زبردستی اپنے ساتھ لے جائے تو الگ رہنے کی پوری کوشش کرے۔ پھر بھی شوہر قریب آئے اور اس کی طاقت میں روکنا مشکل ہو تو عدالت میں تین طلاق کا دعویٰ دائر کر دے پھر اگر شوہر کے قسم کھانے پر قاضی نے بیوی کے خلاف فیصلہ کر دیا تو اب گناہ شوہر پر ہوگا لیکن اس کے بعد بھی عورت علیحدگی کی کوشش جاری رکھے البتہ مذکورہ صورت میں چونکہ عورت کے پاس شرعی شہادت موجود نہیں اور شوہر تین طلاق کا منکر ہے لہٰذا عدالت کے فیصلے کے بغیر مذکورہ عورت کے لیے آگے نکاح جائز نہیں۔ وفی الشامیۃ والمرأۃ کالقاضی اذا سمعتہ أواخبرھا عدل لایحل لھا تمکینہ والفتویٰ علی انہ لیس لھا قتلہ ولا تقتل نفسھا بل تفدی نفسھا بمال او تھرب کما انہ لیس لہ قتلھا اذا حرمت علیہ وکلما ھرب ردتہ بالسحر وفی البزاریۃ عن الاوزجندی انھا ترفع الامر للقاضی فان حلف ولا بینۃ لھا فالاثم علیہ الخ۔ (ص ۲/۴۶۸، رشیدیہ) ہندیہ میں ہے: "وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (3/473، ط: ماجدية) بدائع الصنائع میں ہے: "وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر". (كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن 3/187، ط: سعيد

No comments:

Post a Comment