https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 31 December 2023

یمین لغو

  یمین لغو (بلاقصد قسم)

یمین یعنی قسم کی تین قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم یمین لغو یا( یمین مظنون،یمین المعصیۃ) ہے اس کی تفسیر میں اختلاف ہے۔

امام شافعی کا قولترمیم

امام شافعی کے نزدیک یمین لغو کے معنی یہ ہیں کہ یہ جو قسم انسان کی زبان سے بلاقصد اور ارادہ نکل جائے جیسے عرب میں لاواللہ اور بلی واللہ تکیہ کلام تھا ایسی قسم میں نہ گناہ ہے نہ کفارہ۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ جس میں ارادہ ہو اگر وہ نفس الامر کے خلاف ہو تو اس میں کفارہ واجب ہوگا اگرچہ قسم کھانے والے کے گمان میں وہ واقع اور نفس الامر کے مطابق ہو۔

امام ابو حنیفہ کا قولترمیم

امام ابوحنیفہ کے نزدیک یمین لغووہ ہے کہ کسی گزشتہ چیز کو سچ سمجھ کر قسم کھائے اور واقع میں اس کے خلاف ہو لیکن اس نے اپنے گمان میں اس کو سچ سمجھ کر قسم کھالی ہو ایسی قسم میں نہ کفارہ ہے اور نہ کوئی گناہ، عبداللہ بن رواحہ اور ان کے داماد بشیر بن نعمان میں کسی بات پر کچھ تکرار ہواعبداللہ بن رواحہ نے قسم کھائی کہ میں نہ تم سے ملوں گا اور نہ تم سے کلام کروں گا اور نہ تمہاری کسی بھلائی اور برائی میں دخل دوں گا اس کے بعد عبد اللہ سے جب کوئی اس بارے میں کوئی بات کرتا اور کچھ کہنا چاہتا تو یہ کہہ دیتے کہ میں نے اللہ کی قسم کھالی ہے اس لیے میں کچھ نہیں کر سکتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی "اور اللہ کے نام کو اپنی قسموں کے لیے آڑ نہ بناؤ یعنی رشتہ داروں میں سلوک اور احسان کرنے کے لیے اور تقوی اور پرہیزگاری کا کام کرنے کے لیے اور لوگوں میں صلح کرانے کے لیے قسم کو بہانہ نہ بناؤ" اور یہ نہ کہو کہ میں نے قسم کھالی ہے اس لیے میں یہ کام نہیں کر سکتا۔

یمین لغو میں اختلافترمیم

یمین لغو کی تفسیر میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ ابن عباس اور حسن بصری اور مجاہد اور نخعی اور زہری اور سلیمان بن یسار اور قتاوہ اور سدی اور مکحول اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں یمین لغو یہ ہے کہ کسی گذشتہ بات پر یہ جان کر کہ یہ یوں ہے قسم کھاوے اور اصل وہ یوں نہ ہوجیسا کہ کوئی کہے واللہ پرسوں بارش ہوئی تھی اور اس کو گمان غالب ہے کہ ہوئی تھی اور دراصل یہ غلطی پر تھا۔ یا کہے کہ واللہ یہ فلاں چیز ہے اور دراصل اس کا خیال غلط ہے۔ چونکہ اس نے عمداً جھوٹ نہیں بولا۔ یہ معاف ہے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا ہے لا یؤ اخذکم اللہ باللغوفی ایمانکم اور عائشہ صدیقہ اور شبعی اور عکرمہ اور امام شافعی کہتے ہیں یہ یمین لغو نہیں کیونکہ اس میں قصد پایا گیا۔ اس پر کفارہ لازم ہوگا بلکہ لغو یہ ہے کہ بلا قصد یوں ہی بات بات پر واللہ باللہ کا استعمال کیا جاوے چونکہ اس میں قصد نہیں یہ لغویت معاف ہے ٗ خدا دل کو دیکھتا ہے۔
تکیہ کلام کے طورپر جیسے لوگوں میں رواج ہے کہ فلاں کے سر کی قسم یا فلاں کی جان کی قسم یہ بالکل منع ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)عمرفاروق کے پاس پہنچے اس وقت وہ گھوڑے پر سوار تھے اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے، آپ نے فرمایا خبردار اللہ تعالیٰ تمہیں اس بات سے منع فرماتا ہے کہ اپنے باپوں کی قسم کھاؤ جس شخص کو قسم کھانا ہے تو وہ اللہ کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔
جس قسم پر مواخذہ نہیں ہوگا اسے ’’ یمین لغو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن یمین لغوکا لفظ ہمیں ایک اور اہم اور نازک بات کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم پر مواخذہ نہیں فرمائیں گے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا اس قسم کو لغو قرار دینا یقینا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار اس فعل اور رویے کو پسند نہیں فرماتے۔ کیونکہ کوئی سا لغو کام بھی اللہ کو پسند نہیں۔ اور ایک مومن کی جو صفات گنوائی گئی ہیں‘ اس میں بھی بطور خاص اس بات کا ذکر فرمایا ہے والذین ہم عن اللغو معرضون ’’ کہ فلاح پانے والے مومن وہ ہیں جو لغو سے اعراض کرنے والے ہیں‘‘ ایک مومن کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اس کی زبان سے لغویات کا صدور ہو۔ چاہے اس کا تعلق زبان کی بے احتیاطی سے ہو اور چاہے اس کا تعلق معاملات میں لاپروائی سے ہو۔ ہر لا یعنی بات کو لغو کہا جاتا ہے۔ ایسے لا یعنی کاموں کو کرنا ایک مومن کو اس لیے زیب نہیں دیتا کیونکہ اس سے اسلام کا حسن دھندلا کر رہ جاتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ ’’ ایک آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر لا یعنی بات کو چھوڑ دے‘‘ لغوقَسم بھی چونکہ ایسے ہی لا یعنی کاموں میں سے ہے‘ اس لیے ایک مومن کو اس کے ارتکاب سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔[4] یمین لغویہ ہے کہ انسان ماضی یا حال کی کسی بات پر اپنی دانست میں سچی قسم کھائے اور درحقیقت وہ جھوٹ ہو‘ اس کو لغو اس لیے کہتے ہیں کہ اس پر کوئی ثمرہ مرتب نہیں ہوتا‘ نہ گناہ نہ کفارہ اس میں قسم کھانے والے کی بخشش کی امید کی گئی ہے۔ امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ یمین لغو اس قسم کو کہتے ہیں جو انسان کی زبان پربلاقصد جاری ہو جیسے ’’ لا واللہ بلی واللہ‘‘ نہیں خدا کی قسم‘ ہاں خدا کی قسم

ابن عابدین کا قولترمیم

علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں لوگوں کی زبان پر جو نہیں خدا کی قسم اور ہاں خدا کی قسم ! جاری ہوتا ہے یہ یمین لغو ہے‘ ہمارے نزدیک یہ قسم ماضی اور حال پر موقوف ہے اور ہمارے نزدیک یہ لغو ہے اور ہمارے اور امام شافعی کے درمیان اختلاف کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بلاقصد مستقبل کے متعلق قسم کھائے تو یہ امام شافعی کے نزدیک یمین لغو ہے اور اس میں کفارہ نہیں ہے اور ہمارے نزدیک یہ یمین منعقدہ ہے اور اس میں کفارہ ہے۔ یمین لغو صرف وہ ہے جو ماضی یا حال کے متعلق بلاقصد کھائی جائے [6]

علامہ ماوردی کا قولترمیم

علامہ ماوردی شافعی لکھتے ہیں
یمین لغو وہ ہے جو زبان پر بلاقصد جاری ہوجاتی ہے جیسے نہیں خدا کی قسم ! اور ہاں خدا کی قسم ! یہ سیدتنا عائشہ اور ابن عباس کا قول ہے‘ اور امام شافعی کا یہی مذہب ہے۔

ابن جوزی کا قولترمیم

علامہ ابن جوزی حنبلی لکھتے ہیں
یمین لغو میں

  • ایک قول یہ ہے کہ ایک شخص اپنے گمان کے مطابق کسی بات پر حلف اٹھائے پھر اس پر منکشف ہو کہ واقعہ اس کے خلاف ہے‘ابوہریرہ‘ ابن عباس عطاء شعبی‘ ابن جبیر‘ مجاہد‘ قتادہ‘ امام مالک اور مقاتل کا یہی قول ہے۔
  • دوسرا قول یہ ہے کہ کوئی شخص قسم کھانے کے قصد کے بغیر کہے : نہیں خدا کی قسم ! ہاں خدا کی قسم ! یہ عائشہ صدیقہ، طاؤس‘ عروہ‘ نخعی اور امام شافعی کا قول ہے‘ اس قول پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے ‘’’ لیکن اللہ ان قسموں پر تم سے مواخذہ کرے گا جو تم نے پختہ ارادوں سے کھائی ہیں‘‘۔ یہ دونوں قول امام احمد سے منقول ہیں‘
  • تیسرا قول یہ ہے کہ آدمی غصہ میں جو قسم کھائے وہ یمین لغو ہے‘
  • چوتھا قول یہ ہے کہ آدمی کسی گناہ پر قسم کھائے‘ پھر قسم توڑ کر کفارہ دے اس پر کوئی گناہ نہیں ہے‘ وہ یمین لغو ہے‘ یہ سعید بن جبیر کا قول ہے‘ پانچواں قول یہ ہے کہ آدمی کسی چیز پر قسم کھائے پھر اس کو بھول جائے‘ یہ نخعی کا قول ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی مالکی لکھتے ہیں
  • امام مالک کے نزدیک یمین لغو یہ ہے کہ آدمی اپنے گماں کے مطابق کسی چیز پر قسم کھائے اور واقعہ اس کے خلاف ہو

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی قسم کھا نا

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھانا جائز نہیں،فقہاء نے اس سے منع فرمایا ہے ؛لہذا قسم کی روسے آپ پر کوئی کفارہ واجب نہیں ؛البتہ اگر آپ نے نیک کام کے کرنے کا عزم کیا ہو تو اس کو پورا کرنا بہتر اور پسندیدہ ہوگا۔ولا یقسم بغیر اللّٰہ کالنبي والقرآن والکعبة۔ (الدر المختار) وفي الشامیة: بل یحرم کما في القہستاني؛ بل یخاف منہ الکفر۔ (شامي، الأیمان / مطلب في القرأن ۵/۴۸۵زکریا)

لا یکون الیمین بغیر اللّٰہ تعالیٰ فإنہ حرام۔ (مجمع الأنہر ۲/۲۶۹بیروت)

قرآن کریم کی قسم کھا نا

 اگر کوئی شخص  اللہ تعالیٰ کے نام کی یا اس کے کلام یعنی قرآن کی قسم اٹھاتا ہے تو اس سے قسم منعقد ہوجائےگی، اور توڑنے کی صورت میں کفارہ لازم ہوجائےگا، اگر کوئی شخص اللہ کے نام اور کلام(قرآن) کے علاوہ کسی اور چیز  (مثلاً خانہ کعبہ/ نبی) کی قسم اٹھا لے تو وہ قسم درست ہی نہیں ہوتی اور  ایسی قسم توڑنے کی صورت میں کوئی کفارہ بھی لازم نہیں ہوتا، تاہم اس طرح کی  قسم کھانے پر توبہ و استغفار ضرور کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولايخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينًا.

و في الرد : (قوله: لايقسم بغير الله تعالى) عطف على قوله والقسم بالله تعالى: أي لاينعقد القسم بغيره تعالى أي غير أسمائه وصفاته ولو بطريق الكناية كما مر، بل يحرم كما في القهستاني، بل يخاف منه الكفر في نحو وحياتي وحياتك كما يأتي.
مطلب في القرآن:
(قوله: قال الكمال إلخ) مبني على أن القرآن بمعنى كلام الله، فيكون من صفاته تعالى كما يفيده كلام الهداية حيث قال: ومن حلف بغير الله تعالى لم يكن حالفا كالنبي والكعبة، لقوله عليه الصلاة والسلام: "من كان منكم حالفًا فليحلف بالله أو ليذر"، وكذا إذا حلف بالقرآن؛ لأنه غير متعارف اهـ. فقوله: "وكذا" يفيد أنه ليس من قسم الحلف بغير الله تعالى، بل هو من قسم الصفات، و لذا علله بأنه غير متعارف، ولو كان من القسم الأول كما هو المتبادر من كلام المصنف والقدوري لكانت العلة فيه النهي المذكور أو غيره؛ لأن التعارف إنما يعتبر في الصفات المشتركة لا في غيرها. وقال في الفتح: وتعليل عدم كونه يمينًا بأنه غيره تعالى؛ لأنه مخلوق؛ لأنه حروف وغير المخلوق هو الكلام النفسي منع بأن القرآن كلام الله منزل غير مخلوق. ولايخفى أن المنزل في الحقيقة ليس إلا الحروف المنقضية المنعدمة، وما ثبت قدمه استحال عدمه، غير أنهم أوجبوا ذلك؛ لأن العوام إذا قيل لهم: إن القرآن مخلوق تعدوا إلى الكلام مطلقًا. اهـ. وقوله: ولايخفى إلخ رد للمنع.
وحاصله: أن غير المخلوق هو القرآن بمعنى كلام الله الصفة النفسية القائمة به تعالى لا بمعنى الحروف المنزلة غير أنه لايقال: القرآن مخلوق لئلايتوهم إرادة المعنى الأول. قلت: فحيث لم يجز أن يطلق عليه أنه مخلوق ينبغي أن لايجوز أن يطلق عليه أنه غيره تعالى بمعنى أنه ليس صفة له؛ لأن الصفات ليست عينًا ولا غيرًا كما قرر في محله، ولذا قالوا: من قال بخلق القرآن فهو كافر. ونقل في الهندية عن المضمرات: وقد قيل هذا في زمانهم، أما في زماننا فيمين وبه نأخذ ونأمر ونعتقد. وقال محمد بن مقاتل الرازي: إنه يمين، وبه أخذ جمهور مشايخنا اهـ فهذا مؤيد لكونه صفة تعورف الحلف بها كعزة الله وجلال".

(کتاب الأیمان، ج:3، ص:712، ط:ایچ ایم سعید)

کسی مسلمان کو منافق کہنا

  نفاق ایک مخفی چیز ہے، جس کے بارے میں بالیقین فیصلہ کرنے کا کسی  کو حق نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ نفاق کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص تھا، اب یا تو مؤمن ہے یا کافر، لہٰذا کسی مسلمان کو  متعینہ طور پر منافق کہنا جائز نہیں ہے،البتہ نفاق کی  دو قسمیں ہیں:

۱۔نفاقِ اعتقادی : وہ شخص جو بظاہر مسلمان ہو، لیکن درپردہ کافر ہو، منافق اعتقادی کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے اور وہ دوسرے کفار کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا۔

نفاقِ اعتقادی کا حکم: نفاقِ اعتقادی کا حکم یہ ہے کہ ایسا منافق کفار کے زمرے میں آتا ہے، اگر بغیر توبہ کے مرا تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں جائے گا اور جہنم کے نچلے طبقے میں رکھا جائے گا۔
۲۔ نفاقِ عملی: وہ شخص جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کے اندر منافقین سے ملتی جلتی عادتیں ہوں، مثلاً جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور خیانت وغیرہ کا مرتکب ہونا، جھگڑے کے وقت بد زبانی کرنا، اس جیسے اور برے افعال میں مبتلا شخص مسلمان تو رہے گا، لیکن سخت گناہ گار ہو گا،اور ایسا مسلمان شخص کا عمل منافقوں والا کہلاتاہے،اس لیے کہ حقیقی منافق جو عہدِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تھے ان کے اندر یہ تمام برائیاں اور خرابیاں موجود تھیں ۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص واقعۃً جھوٹ بولتاہو اور دو چہروں والا ہوتو ایسا شخص نفاقِ عملی کا مرتکب کہلائے گا،لیکن اس کے باوجود شریعت نے ہمیں اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ ہم اسے منافق کہتےپھریں ،اس کےلیے منافق ،منافق کی صدابلند کرتے رہیں،بلکہ خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی اصلاح کی کوشش کریں،اسے وعظ ونصیحت کریں ،اس کے حق میں دعاکریں ۔

نفاقِ عملی کا حکم: نفاقِ عملی کا مرتکب مسلمان ہی کہلائے گا، لیکن اس کا یہ عمل گناہ کبیرہ کی طرح ہے، اگر بغیر توبہ کے دنیا سے چلا گیا، تو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا، اس کے بعد ایمان کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گا۔

"صحيح البخاري"  میں ہے:

"حدثنا خلاد: حدثنا مسعر، عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي الشعثاء، عن حذيفة قال: إنما كان ‌النفاق ‌على ‌عهد ‌النبي صلى الله عليه وسلم، فأما اليوم: فإنما هو الكفر بعد الإيمان ".

(كتاب الفتن، باب:  إذا قال عند القوم شيئا، ثم خرج فقال بخلافه،ج:9،ص:58،ط:السلطانية)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري"میں ہے:

"السادس: ما قاله حذيفة: ذهب النفاق، وإنما كان النفاق على عهد رسول الله، عليه السلام، ولكنه الكفر بعد الإيمان، فإن الإسلام شاع وتوالد الناس عليه، فمن نافق بأن أظهر الإسلام وأبطن خلافه فهو مرتد".

(كتاب الإيمان،باب علامة المنافق،ج:1،ص:222،ط:دار إحياءالتراث العربي)

 وفيه أيضا:

"إن هذہ الخصال قد توجد في المسلم المصدق بقلبه ولسانه مع أن الإجماع حاصل علی أنه لا یحکم بکفرہ وبنفاق یجعله في الدرک الأسفل من النار".

( باب علامة المنافق ،ج:1،ص:221،ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت

اسود عنسی

اسود عنسی وہ شخص ہے جس نے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی میں ہی نبوت کا دعویٰ کردیا تھا اس کے علاوہ درج ذیل لوگوں نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا:

1۔ مسیلمہ کذاب

2۔ عبہلہ بن كعب بن غوث العنسی المعروف اسود العنسی

3۔ حارث دمشقی

4۔ مغیرہ بن سعید

5۔ بیان بن سمعان

6۔ صالح بن طریف برغواطی

7۔ اسحاق اخرس

8۔ استاد سیس

9۔ علی بن محمد خارجی

10۔ حمدان بن اشعث قرمطی

11۔ علی بن فضل یمنی

12۔ حامیم بن من اللہ

13۔ عبد العزیز باسندی

14۔ ابو القاسم احمد بن قسی

15۔ عبد الحق بن سبعین مرسی

16۔ بایزید روشن جالندھری

17۔ میر محمد حسین مشہدی

18۔ سید علی محمد باب

19۔ بہاء اللہ

20۔ مرزا غلام احمد قادیانی

21۔ محمود پسی خانی گیلانی

22۔ ریاض احمد گوہر شاہی

23۔ یوسف کذاب

24۔ احمد عیسی

اسود عنسی کا اصل نام عبہلہ بن کعب بن عوف عنسی تھا۔ یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں ہی نبوت کا دعویدار بن بیٹھا۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں دو کنگن ہیں جسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نفرت اور حقارت کے سبب ہاتھ سے جھٹک دیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ اس سے مراد نبوت کے دو جھوٹے دعویدار ہیں۔ ایک، مسیلمہ کذاب، یمامہ والا اور دوسرا، اسود عنسی، یمن والا۔

حدیثترمیم

فَأَخْبَرَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : بَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ فِي يَدَيَّ سِوَارَيْنِ مِنْ ذَهَبٍ فَأَهَمَّنِي شَأْنُهُمَا ، فَأُوحِيَ إِلَيَّ فِي الْمَنَامِ أَنِ انْفُخْهُمَا ، فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا ، فَأَوَّلْتُهُمَا كَذَّابَيْنِ يَخْرُجَانِ بَعْدِي فَكَانَ أَحَدُهُمَا الْعَنْسِيَّ ، وَالْآخَرُ مُسَيْلِمَةَ الْكَذَّابَ صَاحِبَ الْيَمَامَةِ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا ”میں سویا ہوا تھا کہ میں نے (خواب میں) سونے کے دو کنگن اپنے ہاتھوں میں دیکھے۔ مجھے اس خواب سے بہت فکر ہوا، پھر خواب میں ہی وحی کے ذریعہ مجھے بتلایا گیا کہ میں ان پر پھونک ماروں۔ چنانچہ جب میں نے پھونک ماری تو وہ دونوں اڑ گئے۔ میں نے اس سے یہ تعبیر لی کہ میرے بعد جھوٹے نبی ہوں گے۔“ پس ان میں سے ایک تو اسود عنسی ہے اور دوسرا یمامہ کا مسیلمہ کذاب تھا۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ٣٦٢١

مختصر واقعہترمیم

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حجۃ الوداع سے واپسی کے علالت کا دور شروع ہوا اسی زمانے میں یمن کے علاقے میں قبیلۂ عنس کے ایک شخص عبہلہ بن کعب نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ شخص مزاجاً نرم اور شیریں گفتگو والا تھا لیکن کریـہ صورت اور کالی رنگت کا تھا اسی وجہ اسے اسود کہا گیا یعنی کالا۔ اس کے لقب کے متعلق، ذو الخمار (اوڑھنی والا) یا ذو الحمار (گدھے والا) تحریر ہے، وجہ یہ ہے کہ کریہ صورت ہونے کے سبب وہ اوڑھنی کا نقاب لگاتا تھا اور اس کے پاس سدھایا ہوا ایک گدھا بھی تھا جو اس کے اشارے پر رکوع و سجود کرتا تھا۔ اسود عنسی شعبدے اور کہانت میں بھی ماہر تھا جس کی وجہ سے اسے دعوائے نبوت کو ثابت کرنے میں مدد ملی۔ شعبدے اور کہانت کے زور پر لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت کا معتقد بنا کر اس نے باضابطہ یمن کے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور بلا شرکت غیرے،(مصلحت خداوندی سے) پورے یمن کا حاکم بن گیا۔ حکومت اور اقتدار ملتے ہی اس کے کلام کی شیرینی ختم ہو گئی اور عجز و انکسار کی جگہ غرور اور تکبر نے لے لیا۔

انجامترمیم

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمام حالات کی خبر ہوئی تو یمن کے چند مسلمانوں کے نام آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسود عنسی کی سرکوبی کا حکم بھیجا، چنانچہ وہاں کے مسلمانوں نے حکمت اور مصلحت کے ساتھ، عسکری ہنگامہ آرائی کے بغیر اس فتنے کا سر کچلنے کے لیے باہم مشورہ کیا اور ایک دن اس کے محل میں نقب کے سہارے داخل ہوئے اور فیروز نامی ایک شخص نے اس کی گردن مروڑ کر اسے اس کے انجام تک پہنچا دیا۔ ان تمام واقعات کی خبر جناب محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بذریعۂ وحی مل گئی اور آپ نے مدینے میں مسلمانوں کو بتایا۔ لیکن جب قاصد یہ خبر لے کر مدینہ پہنچا تو اس وقت جناب محمد رسول الله صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس دار فانی سے پردہ فرما چکے تھے۔

عہد صدیق کی پہلی خوشخبریترمیم

حضرت ابو بکر صدیق جب خلیفہ بنے تو انہیں پہلی خوشخبری یہ ملی کہ اسود عنسی کا قتل ہو گیا اور ایک فتنے سے نجات مل گئی۔

Thursday 28 December 2023

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے بارے میں کلمة اللہ کا مطلب

 مطلب یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مادّ ی اسباب کے واسطہ کے بغیر کلمة ”کن“ سے پیدا ہوئے ہیں، مزید تفصیل کے لیے حضرت اقدس الحاج مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”تفسیر معارف القرآن“ ج۲ ص۶۱۶ ملاحظہ کریں۔

قفیز طحان کیاہے

 قفیز طحّان“ کا مطلب یہ ہے کہ اجیر کے کام سے جو چیز وجود میں آرہی ہے اجرت اسی میں سے طے ہو یا اس کا عرف ہو شرعاً یہ جائز نہیں، حدیث کے اندر اس سے ممانعت آئی ہے۔ ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)

امداد الفتاوی میں ہے:

سوال:"زید نے اپنا بچھڑا بکر  کودیاتو اس کو پرویش کر بعد جوان ہونے کے اس کی قیمت کرکے ہم دونوں میں سے جوچاہے گانصف قیمت دوسرے کو دے کراسے رکھ لے گا،یا زید نے خالدکو ریوڑ سونپااور معاہدہ کرلیا کہ اس کوبعد ختم سال پھر پڑتال لیں گے،جو اس میں اضافہ ہوگا وہ باہم تقسیم کرلیں گے، یہ دونوں عقد شرعاًجائز ہیں یاقفیز الطحان کے تحت میں ہیں،جیساکہ عالمگیری جلد پنجم،ص:271،مطبوعہ احمدی میں ہے:دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافًا فالإجارة فاسدة.

الجواب:كتب إلی بعض الأصحاب،من فتاوى ابن تيميه،كتاب الإختيارات مانصه: ولو دفع دابته أو نخله،إلي من يقوم له وله جزء من نمائه صح وهو رواية عن أحمد،ج:4ص:85،س:14،پس حنفیہ کے قواعدپر تویہ عقد ناجائز ہے،کمانقل في السؤال عن عالمگیرۃ،لیکن بنا بر نقل  بعض اصحاب امام احمد رح کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے،پس تحرز احوط ہے،اورجہاں ابتلاء شدید ہوتوسع کیاجاسکتاہے۔"

(کتاب الاجارۃ،ج:3،ص:342،343،ط:مکتبہ دار العلوم  کراچی)

ہدایہ میں ہے:

"ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة والأجرة معلومة لما روينا ولأن الجهالة في المعقود عليه وفي بدله تفضي إلى المنازعة كجهالة الثمن والمثمن في البيع."

(كتاب الإجارة،ج:3،ص:231،ط:دار احياء التراث العربي،بيروت،لبنان)

قفیز الطحان اس کو کہتے ہیں کہ اجیر کے عمل کے کچھ حصے کو اس کے لیے اجرت کےطور پر مقرر کیا جائے۔مثلا کسی شخص کو گندم دی جائے کہ اس کو پیس کر آٹا بناؤاور اس آٹے میں سے ایک قفیز تمھاری اجرت ہوگی۔

   صورت مسئولہ کے مطابق اگر اجرت اس گندم سے مقرر کی جائے جس کو ابھی تک پیسا گیا نہ ہو تو یہ بلا شبہ جائز ہے۔لیکن اگر اس آٹے سےاجرت طے کی جائے جو اس گندم سے حاصل ہوگاتو یہ قفیز الطحان ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔

صورۃ قفیز الطحان ان یستاجر رجل من آخر ثورا یطحن بہ الحنطۃ علی ان یکون لصاحبھا قفیز من دقیقھا او یستاجر انسانا لیطحن لھا الحنطۃ  بنصف من الدقیق او ثلثھا او ما اشبھہ ذالک۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الاجارہ،الباب الخامس  ،ج4 ص444)

والحیلۃ في ذالک لمن اراد الجواز ان یشترط صاحب الحنطۃ قفیزا من الدقیق الجید،ولم یقل من ھذہ الحنطۃ او یشترط ربع ھذہ الحنطۃ من الدقیق الجید لان الدقیق اذا لم یکن مضافا الی حنطۃ بعینھا یجب فی الذمۃ ـ ـ ـ ـ ـ ـ وفی الخانیۃ: وکذا لو استاجر رجلا یجنی ھذا القطن بعشرۃ امناء من ھذالقطن لا یجوز ولو قال بعشرۃ امناء من القطن ولم یقل من ھذا القطن جاز۔(الفتاوی التا تارخانيه،كتاب الاجاره،ج15 ص114،115)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل، ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولايكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه، كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً ولا شك في جوازه اهـ. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي".

 (كتاب الإجارة،ج:6،ص:57،ط:سعيد)

پالتی مارکر یاکرسی پر بیٹھ کر سونے میں وضو باقی رہے گا یاٹوٹ جایے گا

 آلتی پالتی مار کر یعنی چہار زانوں بیٹھنے کی حالت میں سونے والے نے اگر کسی چیز پر اس طرح ٹیک لگائی ہوئی ہو کہ اس ٹیک کو ہٹادیا جائے تو وہ گر جائے یا اس کا مقعد زمین سے اٹھا ہوا ہو تو اس حالت میں سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا، لیکن اگر وہ ٹیک لگائے بغیر سویا ہو  تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہوگا جب کہ آلتی پالتی مار کر یعنی چہار زانوں بیٹھنے  کی حالت میں سونے والے نے اپنا ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر ٹھوڑی کو ہاتھ سے ٹیک دی ہوئی ہو، یعنی کسی دوسری چیز سے ٹیک لگائی ہوئی ہو  تب تو وضو ٹوٹ جائے گا  ورنہ نہیں ٹوٹے  گا، ٹھوڑی کو ہاتھ پر ٹیک دینے کا وضو کے ٹوٹنے سے کوئی تعلق نہیں  ہے۔

(۳)  اگر کرسی پر بیٹھ کر سونے والے نے  ہاتھ  یا کمر سے  ٹیک لگائی ہوئی ہے  اس طرح کہ اس ٹیک کو  ہٹادیا جائے تو  وہ گر جائےتو اس حالت میں سونے سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر وہ کرسی پر ٹیک لگائے بغیر  سیدھا بیٹھا ہے اور اس کی آنکھ لگ گئی تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 141):

’’(و) ينقضه حكماً (نوم يزيل مسكته) أي قوته الماسكة بحيث تزول مقعدته من الأرض، وهو النوم على أحد جنبيه أو وركيه أو قفاه أو وجهه (وإلا) يزل مسكته (لا) يزل مسكته (لا) ينقض وإن تعمده في الصلاة أو غيرها على المختار كالنوم قاعداً ولو مستنداً إلى ما لو أزيل لسقط على المذهب‘‘۔

Wednesday 27 December 2023

من الشعر العربي


يا قُضاةَ العِبادِ إِنَّ عَلَيكُم

في تُقى رَبِّكُم وَعَدلِ القَضاءِ

أَن تُجيزوا وَتَشهَدوا لِنِساءٍ

وَتَرُدّوا شَهادَةً لِنِساءٍ

فَاِنظُروا كُلَّ ذاتِ بوصٍ رَداحٍ

فَأَجيزوا شَهادَةَ العَجزاءِ

وَاِرفُضوا الرُسحَ في الشَهادَةِ رَفضاً

لا تُجيزوا شَهادَةَ الرَسحاءِ

لَيتَ لِلرُسحِ قَريَةً هُنَّ فيها

ما دَعا اللَهَ مُسلِمٌ بِدُعاءِ

لَيسَ فيها خِلاطَهُنَّ سِواهُن

نَ بِأَرضٍ بَعيدَةٍ وَخَلاءِ

عَجَّلَ اللَهُ قَطَّهُنَّ وَأَبقى

كُلَّ خَودٍ خَريدَةٍ قَبّاءِ

تَعقِدُ المِرطَ فَوقَ دِعصٍ مِنَ الرَم

لِ عَريضٍ قَد حُفَّ بِالأَنقاءِ

وَلَحى اللَهُ كُلَّ عَفلاءَ زَلّا

ءَ عَبوساً قَد آذَنَت بِالبَذاءِ

صَرصَرٍ سَلفَعٍ رَضيعَةِ غولٍ

لَم تَزَل في شَصيبَةٍ وَشَقاءِ

وَبِنَفسي ذَواتُ خَلقٍ عَميمٍ

هُنَّ أَهلُ البَها وَأَهلُ الحَياءِ

قاطِناتٌ دورَ البَلاطِ كِرامٌ

لَسنَ مِمَّن يَزورُ في الظلماء