https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 28 December 2023

قفیز طحان کیاہے

 قفیز طحّان“ کا مطلب یہ ہے کہ اجیر کے کام سے جو چیز وجود میں آرہی ہے اجرت اسی میں سے طے ہو یا اس کا عرف ہو شرعاً یہ جائز نہیں، حدیث کے اندر اس سے ممانعت آئی ہے۔ ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)

امداد الفتاوی میں ہے:

سوال:"زید نے اپنا بچھڑا بکر  کودیاتو اس کو پرویش کر بعد جوان ہونے کے اس کی قیمت کرکے ہم دونوں میں سے جوچاہے گانصف قیمت دوسرے کو دے کراسے رکھ لے گا،یا زید نے خالدکو ریوڑ سونپااور معاہدہ کرلیا کہ اس کوبعد ختم سال پھر پڑتال لیں گے،جو اس میں اضافہ ہوگا وہ باہم تقسیم کرلیں گے، یہ دونوں عقد شرعاًجائز ہیں یاقفیز الطحان کے تحت میں ہیں،جیساکہ عالمگیری جلد پنجم،ص:271،مطبوعہ احمدی میں ہے:دفع بقرة إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافًا فالإجارة فاسدة.

الجواب:كتب إلی بعض الأصحاب،من فتاوى ابن تيميه،كتاب الإختيارات مانصه: ولو دفع دابته أو نخله،إلي من يقوم له وله جزء من نمائه صح وهو رواية عن أحمد،ج:4ص:85،س:14،پس حنفیہ کے قواعدپر تویہ عقد ناجائز ہے،کمانقل في السؤال عن عالمگیرۃ،لیکن بنا بر نقل  بعض اصحاب امام احمد رح کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے،پس تحرز احوط ہے،اورجہاں ابتلاء شدید ہوتوسع کیاجاسکتاہے۔"

(کتاب الاجارۃ،ج:3،ص:342،343،ط:مکتبہ دار العلوم  کراچی)

ہدایہ میں ہے:

"ولا تصح حتى تكون المنافع معلومة والأجرة معلومة لما روينا ولأن الجهالة في المعقود عليه وفي بدله تفضي إلى المنازعة كجهالة الثمن والمثمن في البيع."

(كتاب الإجارة،ج:3،ص:231،ط:دار احياء التراث العربي،بيروت،لبنان)

قفیز الطحان اس کو کہتے ہیں کہ اجیر کے عمل کے کچھ حصے کو اس کے لیے اجرت کےطور پر مقرر کیا جائے۔مثلا کسی شخص کو گندم دی جائے کہ اس کو پیس کر آٹا بناؤاور اس آٹے میں سے ایک قفیز تمھاری اجرت ہوگی۔

   صورت مسئولہ کے مطابق اگر اجرت اس گندم سے مقرر کی جائے جس کو ابھی تک پیسا گیا نہ ہو تو یہ بلا شبہ جائز ہے۔لیکن اگر اس آٹے سےاجرت طے کی جائے جو اس گندم سے حاصل ہوگاتو یہ قفیز الطحان ہونے کی وجہ سے ناجائز ہوگا۔

صورۃ قفیز الطحان ان یستاجر رجل من آخر ثورا یطحن بہ الحنطۃ علی ان یکون لصاحبھا قفیز من دقیقھا او یستاجر انسانا لیطحن لھا الحنطۃ  بنصف من الدقیق او ثلثھا او ما اشبھہ ذالک۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الاجارہ،الباب الخامس  ،ج4 ص444)

والحیلۃ في ذالک لمن اراد الجواز ان یشترط صاحب الحنطۃ قفیزا من الدقیق الجید،ولم یقل من ھذہ الحنطۃ او یشترط ربع ھذہ الحنطۃ من الدقیق الجید لان الدقیق اذا لم یکن مضافا الی حنطۃ بعینھا یجب فی الذمۃ ـ ـ ـ ـ ـ ـ وفی الخانیۃ: وکذا لو استاجر رجلا یجنی ھذا القطن بعشرۃ امناء من ھذالقطن لا یجوز ولو قال بعشرۃ امناء من القطن ولم یقل من ھذا القطن جاز۔(الفتاوی التا تارخانيه،كتاب الاجاره،ج15 ص114،115)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل، ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولايكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه، كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً ولا شك في جوازه اهـ. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي".

 (كتاب الإجارة،ج:6،ص:57،ط:سعيد)

No comments:

Post a Comment