https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 31 December 2023

کسی مسلمان کو منافق کہنا

  نفاق ایک مخفی چیز ہے، جس کے بارے میں بالیقین فیصلہ کرنے کا کسی  کو حق نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ نفاق کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ساتھ خاص تھا، اب یا تو مؤمن ہے یا کافر، لہٰذا کسی مسلمان کو  متعینہ طور پر منافق کہنا جائز نہیں ہے،البتہ نفاق کی  دو قسمیں ہیں:

۱۔نفاقِ اعتقادی : وہ شخص جو بظاہر مسلمان ہو، لیکن درپردہ کافر ہو، منافق اعتقادی کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے اور وہ دوسرے کفار کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے گا۔

نفاقِ اعتقادی کا حکم: نفاقِ اعتقادی کا حکم یہ ہے کہ ایسا منافق کفار کے زمرے میں آتا ہے، اگر بغیر توبہ کے مرا تو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں جائے گا اور جہنم کے نچلے طبقے میں رکھا جائے گا۔
۲۔ نفاقِ عملی: وہ شخص جو عقیدے کے اعتبار سے تو پکا اور سچا مسلمان ہو، لیکن اس کے اندر منافقین سے ملتی جلتی عادتیں ہوں، مثلاً جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور خیانت وغیرہ کا مرتکب ہونا، جھگڑے کے وقت بد زبانی کرنا، اس جیسے اور برے افعال میں مبتلا شخص مسلمان تو رہے گا، لیکن سخت گناہ گار ہو گا،اور ایسا مسلمان شخص کا عمل منافقوں والا کہلاتاہے،اس لیے کہ حقیقی منافق جو عہدِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تھے ان کے اندر یہ تمام برائیاں اور خرابیاں موجود تھیں ۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص واقعۃً جھوٹ بولتاہو اور دو چہروں والا ہوتو ایسا شخص نفاقِ عملی کا مرتکب کہلائے گا،لیکن اس کے باوجود شریعت نے ہمیں اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ ہم اسے منافق کہتےپھریں ،اس کےلیے منافق ،منافق کی صدابلند کرتے رہیں،بلکہ خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی اصلاح کی کوشش کریں،اسے وعظ ونصیحت کریں ،اس کے حق میں دعاکریں ۔

نفاقِ عملی کا حکم: نفاقِ عملی کا مرتکب مسلمان ہی کہلائے گا، لیکن اس کا یہ عمل گناہ کبیرہ کی طرح ہے، اگر بغیر توبہ کے دنیا سے چلا گیا، تو اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے دوزخ میں ڈالا جائے گا، اس کے بعد ایمان کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گا۔

"صحيح البخاري"  میں ہے:

"حدثنا خلاد: حدثنا مسعر، عن حبيب بن أبي ثابت، عن أبي الشعثاء، عن حذيفة قال: إنما كان ‌النفاق ‌على ‌عهد ‌النبي صلى الله عليه وسلم، فأما اليوم: فإنما هو الكفر بعد الإيمان ".

(كتاب الفتن، باب:  إذا قال عند القوم شيئا، ثم خرج فقال بخلافه،ج:9،ص:58،ط:السلطانية)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري"میں ہے:

"السادس: ما قاله حذيفة: ذهب النفاق، وإنما كان النفاق على عهد رسول الله، عليه السلام، ولكنه الكفر بعد الإيمان، فإن الإسلام شاع وتوالد الناس عليه، فمن نافق بأن أظهر الإسلام وأبطن خلافه فهو مرتد".

(كتاب الإيمان،باب علامة المنافق،ج:1،ص:222،ط:دار إحياءالتراث العربي)

 وفيه أيضا:

"إن هذہ الخصال قد توجد في المسلم المصدق بقلبه ولسانه مع أن الإجماع حاصل علی أنه لا یحکم بکفرہ وبنفاق یجعله في الدرک الأسفل من النار".

( باب علامة المنافق ،ج:1،ص:221،ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت

No comments:

Post a Comment