https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Thursday 7 March 2024

ظلم و زیادتی کی بناپر فسخ نکاح

 اگر شوہر نہ طلاق دے اور نہ ہی خلع  دینے پر رضامند ہو اور بیوی کے ساتھ نباہ پر اور اس کو نان ونفقہ دینے پر بھی تیار نہ ہو تو   سخت مجبوری کی حالت میں  عدالت سے تنسیخِ نکاح کرایا جاسکتا ہے،  جس کی صورت یہ ہے کہ  عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کے سامنے  پیش کرے، اور متعلقہ جج  شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ  معاملہ کی  پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ  صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر  باوجود  وسعت کے  نہ تو اپنی منکوحہ  رخصت کراتا ہے، اور نہ    خرچہ  دیتا  ہے، تو اس کے  شوہر سے کہا جائے  کہ  عورت کے حقوق ادا کرو  یا  طلاق دو ،  ورنہ ہم تفریق کردیں گے،  اس کے بعد بھی اگر  وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو  قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو عورت پر طلاق واقع کردے۔

(ماخوذ از حیلہ ناجزہ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت

Wednesday 6 March 2024

درود شریف کی فضیلت

 رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک پڑھنا بےشمار رحمتوں اور فضیلت کا موجب ہے، اس سلسلہ میں علماء کرام نے مستقل کتابیں لکھی ہیں، درود شریف کے فضائل کی تفصیل کے لیے حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کی کتاب ’’فضائل درود شریف‘‘ کا مطالعہ کرنا مفید ہے ۔ذیل میں درود شریف کے فضائل پر مشتمل چند روایات ذکر کی جارہی ہیں: 

"وَعَنْ اَبِیْ ھُرَيرَۃَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم: مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَےْہِ عَشْرًا".(صحیح مسلم)

ترجمہ: اور حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (صحیح مسلم)

"وَعَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم: مَنْ صَلَّی عَلَیَّ صَلَاۃً وَّاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ عَشْرَ صَلٰواتٍ وَحُطَّتْ عَنْہُ عَشْرُ خَطِیْأَتٍ وَرَفَعْتُ لَہ، عَشْرُ دَرَجَاتٍ".(رواہ النسائی )

ترجمہ:حضرت انس (رضی اللہ عنہ) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس (مرتبہ) رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے دس گناہوں کو معاف کرے گا اور (تقرب الی اللہ کے سلسلے میں) اس کے دس درجے بلند کرے گا۔ (سنن نسائی)

"وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ کُنْتُ اُصَلِّی وَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم حَاضِرٌ وَاَبُوْبَکْرٍ وَ عُمُرُ مَعَہُ فَلَمَّا جَلَسْتُ بَدَأْتُ بِالثَّنَاءِ عَلَی اﷲِ تَعَالٰی ثُمَّ الصَّلَاۃِ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ دَعَوْتُ لِنَفْسِیْ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم سَلْ تُعْطَہْ سَلْ تُعْطَہْ". (رواہ الترمذی)

ترجمہ:اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں نماز پڑھ رہا تھا رحمت عالم ﷺ (بھی وہیں) تشریف فرما تھے اور آپ ﷺ کے پاس حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر (رضی اللہ عنہما) بھی حاضر تھے، چناچہ (نماز کے بعد) جب میں بیٹھا تو اللہ جل شانہ کی تعریف بیان کرنا شروع کی اور پھر رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجا، اس کے بعد میں اپنے (دینی و دنیاوی مقاصد کے) لیے  مانگنے لگا ( یہ دیکھ کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ  مانگو ! دئیے جاؤ گے، مانگو! دیئے جاؤ گے (یعنی دعا مانگو ضرور قبول ہوگی) ۔  (جامع ترمذی )

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اَوْلَی النَّاسَ بِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَکْثَرُ ھُمْ عَلَیَّ صَلَاۃً". (رواہ الترمذی)

ترجمہ:اور حضرت عبداللہ ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا  قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ  پر کثرت سے درود پڑھتے ہوں گے۔

(مشکوۃ المصابیح کتاب الصلوۃ ، باب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ص:87  ط: قدیمی کتب خانہ )

Tuesday 5 March 2024

خلع کا شرعی طریقہ

 اگر زوجین میں نبھاؤ کی کوئی شکل نہ رہے اور شوہر بلاعوض طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو ، تو عورت کے لیے یہ راستہ تجویز کیا گیا ہے کہ وہ خلع کی پیش کش کرکے اپنے کو آزاد کرالے ۔ اِسی بات کو قرآنِ کریم کی اِس آیت میں اِرشاد فرمایا گیا : 

وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَأْخُذُوْا مِمَّا اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْئًا اِلاَّ اَنْ یَّخَافَا اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ  فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ  تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا  وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓـئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ ۔ ( البقرۃ : ۲۲۹ ) 
ترجمہ: اور تم کو یہ روا نہیں ہے کہ عورتوں کو دیا ہوا کچھ بھی مال اُن سے واپس لو ، مگر یہ کہ جب میاں بیوی اِس بات سے ڈریں کہ اللہ کے اَحکام پر قائم نہ رہ سکیں گے ۔ پس اگر تم لوگ اِس بات سے ڈرو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود پر قائم نہ رہیں گے تو اُن دونوں پر کچھ گناہ نہیں ہے اِس میں کہ عورت بدلہ دے کر چھوٹ جائے ، یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، سو اُن سے آگے نہ بڑھو ، اور جو کوئی اللہ کی حدود سے آگے بڑھے گا سو وہی لوگ ظالم ہیں ۔ 
نیز  روایات میں وارد ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں ثابت کے اخلاق اور اُن کی دین داری کے بارے میں تو کوئی عیب نہیں لگاتی ؛ لیکن مجھے اُن کی ناقدری کا خطرہ ہے ( اِس لیے میں اُن سے علیحدگی چاہتی ہوں ) تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  : ’’ اُنہوں نے جو  باغ تمہیں مہر میں دیا ہے وہ تم اُنہیں لوٹادوگی ؟ ‘‘ تو اہلیہ نے اِس پر رضامندی ظاہر کی ، تو پیغمبر علیہ السلام نے حضرت ثابت کو بلاکر فرمایا : ’’ اپنا باغ واپس لے لو اوراِنہیں طلاق دے دو ‘‘ ۔ ( ابوداؤد شریف / باب الخلع ۱ ؍ ۳۰۳ ، تفسیر ابن کثیر مکمل ۱۸۳-۱۸۵ ریاض ) 

واضح رہے کہ شرعاً خلع صحیح ہونے کے لیے شوہر کا اسے قبول کرنا ضروری ہے۔   نیز چوں کہ خلع طلاقِ بائن کے حکم میں ہے؛ اس لیے  خلع واقع ہونے کے بعد   عدت گزارنا ضروری ہوگا، جو حمل نہ ہونے کی صورت میں تین ماہواریاں ہوگی۔

"إلا نفقۃ العدۃ وسکناہا فلا یسقطان إلا إذا نص علیہا فتسقط النفقۃ "۔ ( الدر المختار ، کتاب الطلاق / باب الخلع ۵ ؍ ۱۰۶

تین دن میں ختم قرآن

 بعض روایات میں تین دن سے کم میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی ممانعت آئی ہے، بعض میں سات دن میں قرآنِ مجید ختم کرنے کا ذکر ہے، صحیح بخاری میں ہے:

"واقرأ في كل سبع ليال مرةً»..." (صحيح البخاري (6/ 196)

یعنی ہر سات دن میں ایک قرآن ختم کرو۔

قال أبو عبد الله: " وقال بعضهم: في ثلاث وفي خمس وأكثرهم على سبع "

امام بخاری رحمہ فرماتے ہیں: بعض راویان حدیث کی روایت میں ہے کہ  قرآن مجید تین دنوں میں مکمل کرنا چاہیے ، بعض پانچ دنوں کا کہتے ہیں اور اکثر راوی حضرات سات دن والی روایت نقل کرتے ہیں۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ تکمیلِ قرآن کریم کے لیے دنوں کی کوئی خاص حد مقرر نہیں جس میں کمی یا اضافہ نہ ہوسکتا ہو۔  بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ عموماً دنیوی مشاغل کے ساتھ اتنے کم وقت میں قرآنِ مجید ختم کیا جائے تو تلاوت کا حق ادا نہیں ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص تلاوت کا حق ادا کرتے ہوئے اس سے کم وقت میں قرآنِ پاک مکمل پڑھ لے تو اسے ممنوع نہیں کہا جائے گا، چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے باوجود امت کے اَکابرین سے بکثرت منقول ہے کہ وہ ایک یا دو دن میں قرآنِ پاک ختم فرمایا کرتے تھے جیسا کہ امام اسود  سے  منقول ہے۔ 

الطبقات الكبرى لابن سعد (6/ 73):
"عن إبراهيم عن الأسود أنه كان يختم القرآن في شهر رمضان في كل ليلتين، وكان ينام ما بين المغرب والعشاء".

بلکہ سات دن میں قرآنِ مجید ختم کرنے کی روایت کو اکثر راویوں کی روایت قرار دینے کے باوجود خود امام بخاری رحمہ اللہ سے ایک رات میں مکمل قرآنِ مجید  پڑھنا منقول ہے، نیز ابن سیرین، سعید بن جبیر رحمہم اللہ کے متعلق منقول ہے کہ یہ حضرات ایک رات بلکہ ایک رکعت میں پورا قرآن ختم فرمایا کرتے تھے۔

تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 84):
"عن ابن سيرين: أن تميماً الداري قرأ القرآن في ركعة .... عن سعيد بن جبير: أنه قال: قرأت القرآن في ركعة في البيت -يعني الكعبة-"

تفسير ابن كثير ت سلامة (1/ 84):
"وقد روى ابن أبي داود عن مجاهد أنه كان يختم القرآن فيما بين المغرب والعشاء".

اب یہ کہنا مشکل ہے  کہ امت کے ان اکابر کا عمل حدیث کے خلاف تھا، کیوں کہ یہ حضرات تو سنتِ نبویہ پر عمل کے حریص تھے، لہذا اس باب میں جو احادیث مروی ہیں اس کے مختلف مطالب بیان کیے  گئے ہیں، انہی مطالب میں سے ایک مطلب  مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے، چنانچہ  تین دن میں قرآن ختم کرنے کی حدیث سے متعلق  اپنی کتاب ’’مقامِ ابی حنیفہ‘‘  میں لکھتے ہیں:

’’اس حدیث کے دیگر بیان کردہ مطالب کےعلاوہ ایک آسان مطلب یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد (تین دن سے کم میں قرآنِ کریم ختم نہ کرو ) امت پر شفقت اور ترحم کے سلسلہ میں ہے، تاکہ ان دنوں میں غور وفکر سے قرآنِ کریم پڑھا جائے اور اس کے معانی کو سمجھا جاسکے۔ کیوں کہ ہر آدمی تو مثلاً امام شافعی رحمہ اللہ نہیں کہ مسئلہ اجماع کو سمجھنے کے لیے تین دن میں نو مرتبہ قرآنِ کریم ختم کرے اور منتہائے نظر یہ ہو کہ مسئلہ استنباط کرنا ہے۔ ہر ایک کو بھلا یہ مقام کہاں نصیب ہو سکتا ہے ؟‘‘ (مقام ابی حنیفہ ص 243 )

مذکورہ بالا تمام  عبارتوں کو نقل کرنے کے بعد امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ وہ حضرات تھے جواس مختصر وقت میں ختم کرنے کے باوجود قرآن کو سمجھ کر پڑھ سکتے تھے، لہذا جو بھی ایسی قدرت پائے اس کے لیے  اتنے عرصہ میں قرآن ختم کرنا قابلِ ملامت نہیں۔

"وهذا نادر جداً. فهذا وأمثاله من الصحيح عن السلف محمول إما على أنه ما بلغهم في ذلك حديث مما تقدم، أو أنهم كانوا يفهمون ويتفكرون فيما يقرؤونه مع هذه السرعة، والله أعلم.

 

بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے منع فرماتے ہیں لیکن اس ممانعت کی حیثیت ارشاد یا مشورے کی ہوتی ہے اور اس کا ماننا اور نہ ماننا دونوں جائز ہوتے ہیں اور آپ کے ایسے حکم کی مخالفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی تصور نہیں ہوتی، جیسے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ کو جب آزادی حاصل ہوئی تو شرعی مسئلہ کے تحت ان کو اپنے خاوند حضرت مغیث کے پاس رہنے یا نکاح فسخ کرانےکی اجازت ملی، انہوں نے حضرت مغیث سے علیحدگی کو ترجیح دی اور وہ بے چارے گلیوں میں حضرت بریرہ کے پیچھے رو رو کر یہ التجا کرتے رہے کہ تو مجھ سے الگ نہ ہو، مگر وہ نہ مانیں اس پر آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بریرہ! تو مغیث کے پاس ہی رہے تو کیا اچھا ہے، وہ کہنے لگیں کہ   يا رسول الله تأمرني؟  یعنی کیا آپ مجھ کو اس کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ حکم تو نہیں دیتا، ہاں صرف سفارش کرتا ہوں، انہوں نے کہا کہ پھر مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

صحيح البخاري (7/ 48):
"أن زوج بريرة كان عبداً يقال له: مغيث، كأني أنظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعباس: «يا عباس، ألا تعجب من حب مغيث بريرة، ومن بغض بريرة مغيثاً» فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «لو راجعته».

خلاصہ یہ کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بطورِ مشورہ ہوتا ہے اور اس کی مخالفت مذموم نہیں ہوتی، لہذا تین دن یا سات دن سے کم ایام میں قرآنِ کریم ختم کرنا شرعاً مذموم اور نا پسندیدہ نہیں بشرطیکہ قرآنِ کریم کی تلاوت درست کی جائے

Monday 4 March 2024

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیویوں کے ساتھ برتاؤ


 

 

 

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے ساری مخلوقات کے لیے ”نبی رحمت “ بنا کر بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی وکریمی اس ”صنفِ نازک“ پر کیوں سایہ فگن نہ ہوتی ، جس کو دنیا ”آبگینہ “ جیسے لطیف ونازک شیء کے ساتھ تشبیہ دیتی ہے؛ بلکہ نرم اور نازک شی کے ساتھ دنیا والوں کی رعایت واہتمام بھی زیادہ ہوتا ہے تو آپ کے رحم وکرم سے ”عورت“ کیوں محروم ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں عورت کی رعایت اوراس کی صنفی نزاکت کے ساتھ احکام موجود ہیں ، موجودہ دور کا اس صنف نازک کے ساتھ یہ المیہ ہے کہ اس نے عورت کو گھر کی ”ملکہ “ کے بجائے ”شمع محفل “ بنادیا ہے ، اس کی نسوانیت اور نزاکت کو تار تار کرنے کے لیے ”زینتِ بازار“ اور اپنی تجارت کے فروغ کا ”آلہٴ کار“ اور ”ذریعہ “ بنادیا، عورت کے لیے پردہ کے حکم میں در اصل اس کی نزاکت کی رعایت ہی مقصود ہے کہ اسے مشقت انگیز کاموں سے دور رکھ کر اس کو درونِ خانہ کی صرف ذمہ داری سونپی جائے ۔

اللہ عزوجل اپنے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلمپر نازل کردہ کتاب میں عورتوں کے تعلق سے فرمایا ہے : ”عاشروھن بالمعروف“ (اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے ساتھ گزران کیا کرو)۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صنف نازک کے بہترین برتاوٴ کی تاکید

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاوٴ کی تاکید کی ، خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی عورتوں کے ساتھ اچھابرتاوٴ اور ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ۔

خود نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی عورتوں کے ساتھ نیکی ، بھلائی ،بہترین برتاوٴ ، اچھی معاشرت کی تاکید فرمائی ہے ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا : تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرتے ہیں ، اورمیں تم میں اپنی خواتین کے ساتھ بہترین برتاوٴ کرنے والا ہو(ترمذی :کتاب المناقب : باب فضل ازواج النبی ، حدیث : ۳۸۹۵ )

اور ایک روایت میں نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : میں تم کو عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کرتاہو ں(مسلم : کتاب الرضاع ، باب الوصیة بالنساء ، حدیث : ۱۴۶۸)

اور ایک روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور بہترین برتاوٴ کو کمالِ ایمان کی شرط قرار دیا ہے ، حضرتِ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : مسلمانوں میں اس آدمی کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاقی برتاوٴ (سب کے ساتھ )(اور خاص طور سے )بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف ومحبت کا ہو۔ (المستدرک: کتاب الایمان: حدیث: ۱۷۳)

بیویوں کے ساتھ آپ کا دوستانہ برتاوٴ

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ازواج کے ساتھ کس طرح بے تکلف، پر لطف اور دوستانہ تعلقات تھے اسکا اندازہ مندرجہٴ ذیل واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔

$ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ : جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو دونوں حالتوں کا علم مجھے ہوجاتا ہے ، حضرت عائشہ نے پوچھا کہ : یا رسول اللہ ! کس طرح علم ہوجاتا ہے ؟ آپ نے فرمایاکہ : جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہوتو ”لا وربّ محمد“(محمد کے رب کی قسم )کے الفاظ سے قسم کھاتی ہو، اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہوتو ”لا ورب ابراہیم “(ابراہیم کے رب کی قسم )کے الفاظ سے قسم کھاتی ہو ، اس وقت تم میرا نام نہیں لیتیں ؛ بلکہ حضرت ابراہیم کا نام لیتی ہو ، حضرت عائشہ نے فرمایا : (یا رسول اللہ ! میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ہوں )نام کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑتی (بخاری: کتاب الأدب: باب مایجوز من الھجران من عصی، حدیث: ۶۰۷۸)

$ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ کے گھر میں تھے اور ان کی باری کا دن تھا ، حضرت عائشہ نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک حلوہ پکایا اور حضرت سودہ کے گھر پر لائیں اور لا کر حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے رکھ دیا ، اور حضرت سودہ بھی سامنے بیٹھی ہوئی تھیں ، ان سے کہا کہ تم بھی کھاوٴ،سودہ کو یہ بات گراں لگی کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کا جب میرے یہاں باری کا دن تھا تو پھر یہ حلوہ پکاکر کیوں لائیں؟ اس لیے انھوں نے کھانے سے انکار کردیا ، حضرت عائشہ نے حضرت سودہ کے منہ پر مل دیا، حضرت سودہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سے شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ قرآن میں آیا ہے کہ ”جزاء سیئة سیّئة مثلھا “یعنی اگر تمہارے ساتھ کوئی برائی کرے تو تم بھی بدلے میں اسی کے بقدر برائی کرو ؛ لہٰذا بدلہ میں تم بھی ان کے منہ پر حلوہ مل دو ؛ چنانچہ حضرت سودہ نے تھوڑا سا حلوہ اٹھا کر حضرت عائشہ کے چہرے پر مل دیا ، اب دونوں کے چہرے پر حلوہ ملا ہوا ہے ، یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہورہا ہے ، اس دوران حضرت عمر کی آمد ہوئی توحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو منہ دھونے کو کہا (مسند ابی یعلی: مسند عائشہ: حدیث:۴۴۷۶، دارالمأمون، دمشق، مجمع الزوائد: باب عشرة النساء: حدیث: ۷۶۸۳)

$ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں ایک سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی تو پیدل دوڑ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہوا تو میں جیت گئی اور آگے نکل گئی ، اس کے بعد جب (موٹاپے ) سے میرا جسم بھاری ہوگیا تو (اس زمانے میں بھی ایک دفعہ )ہمارا دوڑ میں مقابلہ ہوا تو آپ جیت گئے ، اس وقت آپ نے فرمایا : یہ تمہاری اس جیت کا جواب ہوگیا(ابوداوٴد: کتاب الجہاد، باب فی السبق علی الرجل، حدیث: ۲۵۷۸)

$ حضرتِ عائشہ صدیقہ سے روایت ہے بیان کرتی ہیں کہ خدا کی قسم ! میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ (ایک روز )حبشی نابالغ لڑکے مسجد میں نیزہ بازی کر رہے تھے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کا کھیل دکھانے کے لیے میرے لیے اپنی چادر کا پردہ کر کے میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے ، (جو مسجد میں کھلتا تھا)میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے کاندھے درمیان سے ان کا کھیل دیکھتی رہی ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے ؛ یہاں تک کہ( میرا جی بھر گیا )اور میں خود ہی لوٹ آئی۔ (مسلم: باب الرخصة فی اللعبة اللتی لا معصیة فیہ فی ایام العید: حدیث:۸۹۲)

$ حضرت عائشہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس نکاح ورخصتی کے بعد آپ کے پاس آجانے کے بعد بھی گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ کھیلنے والی میری سہلیاں تھیں ، جب حضرت گھر میں تشریف لاتے تو وہ (آپ کے احترام میں کھیل چھوڑ کر )گھر کے اندر چھپتیں تو آپ ان کو میرے پاس بھجوادیتے اور میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔(بخاری: باب الانبساط الی النّاس، حدیث: ۵۷۷۹)

عورت پر ظلم وزیادتی کی ممانعت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کو مارنے پیٹنے یااس کو کسی بھی قسم کی تکلیف دینے سے سختی سے منع فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو اس طرح نہ پیٹنے لگے جس طرح غلام کو پیٹا جاتا ہے اور پھر دوسرے دن جنسی میلان کی تکمیل کے لیے اس کے پاس پہنچ جائے(بخاری: کتاب النکاح، باب ما یکرہ من ضرب النساء، حدیث: ۲۹۰۸)

ایک دفعہ نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے بیویوں کے حقوق کے متعلق پوچھا گیا تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم کھاوٴ تو اس کو کھلاوٴ ، اور جب تم پہنو تو اس کو پہناوٴ ، نہ اس کے چہرے پر مارو اور نہ برا بھلا کہو اور نہ جدائی اختیار کرو ، اس کا موقع آبھی جائے یہ گھر میں ہی ہو(ابوداوٴد: کتاب النکاح، باب فی حق المرأة علی زوجھا، حدیث: ۲۱۴۳)

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو مارنے پیٹنے والوں کو خراب لوگ فرمایا: اپنی بیویوں کو مارنے والے اچھے لوگ نہیں ہیں ،(ابن حبان :باب معاشرة الزوجین، حدیث: ۱۴۸۹) اور خود نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں میں سے کسی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا،(مسلم: باب مباعدتہ، حدیث: ۲۳۴۸)

عورت کے حقوق کی رعایت کی تاکید

جس طرح مرد یہ چاہتا ہے کہ بیوی اس کے لیے بناوٴ وسنگار کرے ،اسی طرح مرد کو بھی عورت کے لیے بناوٴ سنگار کرنا چاہیے ،صاف ستھرا رہناچاہیے!

ابن عباسفرمایا کرتے تھے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے میں بھی اپنی زینت کروں جس طرح وہ مجھے خوش کرنے کے لیے اپنا بناوٴ سنگھار کرتی ہے ؛ چونکہ ارشادِ باری عزوجل ہے : وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرة: ۲۲۸)(اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا حق ان پر ہے دستور کے مطابق )میں یہ نہیں چاہتا کہ وہ تومیری تمام حقوق کی ادائیگی کرے ، حالانکہ اللہ عزوجل کا ارشا دہے کہ ”وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَةٌ“ (اور مردوں کوعورتوں پر فضیلت ہے )(السنن الکبریٰ للبیہقی: باب حق المرأة علی الزوج، حدیث: ۱۵۵۰۵)یعنی جس طرح مرد کو ہر اعتبار سے عورت پر فضیلت حاصل ہے ، اسی طرح اسے اخلاق کے اعتبارسے بھی اس پر فضیلت ہوناچاہیے ۔

ابویوسف  سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جیسے مجھے یہ پسند ہے کہ میری بیوی میرے لیے زینت کرے ،اسے بھی یہ اچھا لگتا ہے کہ میں اس کے لیے زینت کروں ”کما یعجبنی أن تتزین لی زوجتی یعجبھا أن اتزین لھا (الفتاوی الھندیة: ۵/۲۵۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ازواج کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے

حضراتِ انبیاء اہلِ خانہ کی ضروریات کا خیال کرتے تھے ،چنانچہ حضرت موسیٰ اللہ کے پیغمبر ہیں ، ان کی بیوی بیمار حالت میں ہیں ، انھیں سردی لگی اور وقت کے پیغمبر آگ ڈھونڈنے کے لیے چل پڑے ، پرودگار کو پسند آیا اور نبوت سے سرفراز فرمایا ۔

نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ تھی، کبھی گھر میں آٹا گوندھ دیتے ، گھر کی دیگر ضروریات پوری کرتے ، حضرت عائشہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں معمولات کے بارے میں پوچھا ، تو انھوں نے بتایا کہ : ”اپنے سر سے جوئی نکالتے ، اپنی بکری کا دودھ دوہتے ، اپنے کپڑے سی لیتے ، اپنی خدمت خود کرلیتے ، اپنے جوتے سی لیتے اور وہ تمام کام کرتے جو مرد اپنے گھر میں کرتے ہیں، وہ اپنے گھر والوں کی خدمت میں لگے ہوتے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھاو چھوڑ کر چلے جاتے (ترمذی: باب مما فی صفة اوانی الحوض: حدیث: ۲۴۸۹)

بچیوں کی پرورش کی فضیلت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رحم وکرم نہ صرف ازواج کے ساتھ مخصوص تھا؛ بلکہ پوری صنف نازک کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین برتاوٴ کا حکم کیا ، قبل از اسلام عرب میں لڑکیوں ں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا، لڑکی کی پیدائش کو باعث ننگ وعار باور کیا جاتا، جیسا کہ قرآن مجید نے خود اس کی منظر کشی کی ہے ”وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہ مُسْوَدًّا وَّھُوَ کَظِیْمٌ، یَتَوَارَیٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا بُشِّرَ بِہ“ (سورة النحل: ۵۸) جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ، لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس برائی کی خوشخبری کے سبب سے جو اسے دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف عورت کو جینے کا حق دیااور اس کو معاشرہ میں بلند مقام عطا کیا ؛ بلکہ عورت کے وجود کو خیر وبرکت کا باعث او رنزول رحمت کا ذریعہ اور اس کی نگہداشت اور پرورش کو دخولِ جنت کا ذریعہ بتایا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں ، پھر جب تک وہ اس کے پاس رہیں یا یہ ان کے پا س رہے اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرے تو وہ دونوں بیٹیاں اس کو ضرور جنت میں داخل کرادیں گی (ابن حبان: باب ما جاء فی الصبر والثواب، حدیث:۲۹۴۵)

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے دو لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی وہ شخص اور میں جنت میں اس طرح اکٹھے داخل ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔ یہ ارشاد فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ فرمایا ۔ (ترمذی:باب ما جاء فی النفقة علی البنات والاخوات، حدیث: ۱۹۱۴)

حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس شخص نے ان بیٹیوں کے کسی معاملہ کی ذمہ داری لی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ سے بچاوٴ کا سامان بن جائیں گی (بخاری: باب رحمة الولد، حدیث:۵۹۹۵)

عورتوں کی کوتاہیوں سے درگذر کا حکم

نہ صرف یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاوٴ کا حکم دیا ؛ بلکہ اس کی کمی کمزوری اور خاص مزاجی کیفیت کی وجہ سے پیدا ہونے والی تکالیف کو انگیز کرنے کی بھی تاکید فرمائی:

اسی کو اللہ عز وجل نے یوں فرمایا : وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِنْ کَرِھُتُمُوْھُنَّ شَیْئاً فَعَسَیٰ أَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئاً وَیَجْعَلُ اللہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً “(النساء: ۱۹)اور ان عورتوں کے ساتھ حسن وخوبی سے گذر بسر کرو اور اگر تم کو وہ ناپسند ہو ں تو ممکن ہے کہ تم ایک چیز ناپسند کرو اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑی منفعت رکھ دے ۔

اسی کو ایک روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :کوئی مسلمان مرد کسی مسلمان عورت کو اس لیے مبغوض نہ رکھے کہ اس کی کوئی عادت ناگوارِ خاطر ہے ؛ اس لیے کہ اگر ایک عادت ناپسند ہے تو ممکن ہے کوئی دوسری عادت پسند آجائے(مسلم: باب الوصیة بالنساء، حدیث: ۱۴۶۹)

ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ خصوصیت سے رحم و کرم کا معاملہ فرمایا، اس کی صنفی نزاکت کو ملحوظ رکھ کراس کے ساتھ رحم وکرم کرنے کا حکم دیا، اس پر بار اور مشقت ڈالنے سے منع فرمایا، اس پر بے جاسختی سے روکا؛ اس کوقعر مذلت سے نکال عزت ووقار کا تاج پہنایا، 

میاں بیوی کے حقوق وفرائض اور باہمی ذمہ داریاں


ارشادِ ربّانی ہے: اور (مردوں پر ) عورتوں کا حق ہے جیسا کہ (مردوں کا) عورتوں پر حق ہے معروف طریقے پر اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ (سورۃ البقرہ ۲۲۸) اس آیت مبارکہ میں صرف حُسن معاشرت کے لیے ہی نہیں کہا گیا کہ عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر اللہ نے فرض کیاہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہر طرح کے مسائل کے بارے میں کہا گیا ہے۔اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا، اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اِس رشتے میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی۔اسلام دین فطرت اور دین انسانیت ہے ،اس نے مسلمانوں کو ایسا نظام معاشرت عطا فرمایا ہے کہ جس میں انسانی زندگی اور ہر طبقے کے افراد کے حقوق و فرائض متعین کردیے گئے ہیں۔بالخصوص میاں بیوی اور زوجین کے حقوق و فرائض کے حوالے سے اسلامی تعلیمات بہت واضح ہیں۔اسلام میں حقوق و فرائض کے حوالے سے زوجین کے باہمی تعلق اور اس رشتے کی بنیاد انتہائی پائیدار ہے۔ اس کے لیے مرد و عورت دونوں پر ذمے داریاں اور ایک دوسرے پر دونوں کے حقوق وفرائض متعین کئے گئے ہیں ،جن سے خاندان کی بنیاد مضبوط ہوتی اور معاشرے میں امن وسکون کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔سورۂ نساءمیں حکم دیا گیا : ’’اور ان کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرو‘‘۔ (ترجمہ روح القرآن جلد دوم) عورتوں کے ذمے احکام بیان کرنے کے بعد قرآن مجید دوبارہ شوہروں کو بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے کہ تمہارے اوپر عورتوں کے جو حقوق ہیں، انہیں اچھی طرح ادا کرو، اور خود کو بالادست و بااختیار سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ دستور شرعی کے خلاف بدسلوکی نہ کرو‘‘۔(تفسیر روح القرآن)’’یعنی ان کے بارے میں اچھی بات کرو، اپنے افعال اور اپنی ہیئت (کردار اور رویے) کو اچھا کرو، جیسا کہ تم ان سے اپنے لیے چاہتے ہو، ویسے ہی تم ان کے ساتھ (رویہ اور حسن سلوک کا معاملہ اختیار )کرو‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر)

یہاں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں سے حسنِ معاشرت یعنی معروف طریقے کے مطابق زندگی بسر کرنے کا حکم دیا ہے اور ’’معروف‘‘ کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کا حق پورا پورا ادا کیا جائے، مثلاً مہر، نفقہ اور باری، اگر کئی بیویاں ہوں تو ان کے درمیان باری مقرر کرنا،اسی طرح بدگوئی ترک کرکے اس کی اذیت کو ختم کرنا، اسی طرح اس کی طرف سے بے اعتنائی اور دوسروں کی طرف میلان کو ترک کرنا وغیرہ، اسی طرح ناک بھوئیں چڑھانا اور ترش روئی سے اس کے سامنے پیش آنا، جب کہ اس کا کوئی قصور بھی نہ ہو اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو ان صورتوں میں آتی ہوں‘‘۔(احکام القرآن )

پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، یہ امر نفس انسانی کے لیے بہترین اورخوش گوار زندگی کی ضمانت ہے‘‘۔ (تفسیر قرطبی )حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اپنی بیویوں کے بارے میں اچھائی کی میری نصیحت کو قبول کرو‘‘۔ (صحیح مسلم )

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہو اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو‘‘۔ (جامع ترمذی)رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے لیے بہتر ہو اور خود مَیں اپنے اہل و عیال کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تمہاری رفیقہ حیات مرجائے تو اس کے لیے دعا کرو‘‘۔ (مشکوٰۃ شریف )حضور اکرمﷺ نے بیویوں کے حقوق کے حوالے سے فرمایا: ’’جو خود کھاؤ، انہیں بھی کھلاؤ، جیسے اچھے کپڑے اور بہترین لباس خود پہنو، انہیں بھی ویسا ہی پہناؤ، انہیں مارو نہیں اور نہ انہیں برے الفاظ کہو‘‘۔ (سنن ابوداؤد، کتاب النکاح)حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’انسان حُسن اخلاق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے سے حاصل ہوتا ہے‘‘۔ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حُسن الخلق )

قرآن میں حکم دیا گیا: ’’وَعَاشِرُوہُنّ بِالمَعرُوف‘‘ عورتوں سے حُسن سلوک سے پیش آؤ۔ (سورۃ النساء: ۱۹)

چناںچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاؤ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:’’ خیرُکمُ خیرُکمُ لأہلہ‘‘ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہوں۔(مشکوٰۃ، کتاب النکاح)

بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ ﷺنےحجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو ،وہ تمہاری زیر نگیں ہیں، تم نے انہیں اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور انہیں اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں ،جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر ایسا کریں تو تم انہیں ہلکی سزا دے سکتے ہو اور تم پر انہیں کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔(مشکوٰۃ بروایت صحیح مسلم ، فی قصۃ حجۃ الوداع)

آپﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔(مشکوٰۃ، باب عشرۃ النساء)

آپﷺ نے فرمایا:کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔(مشکوٰۃ، ترمذی)

نبی اکرم ﷺ کے ارشادات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں، حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے حسن معاشرت کے ساتھ ساتھ صبروتحمل سے کام لینے والا اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔

اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو کتنا بلند مقام حاصل ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ‘‘معروف‘‘ یعنی اچھے طرزِ عمل اور حُسنِ معاشرت کاخیال کیا جائے، تاکہ وہ زندگی کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشادِ ربانی ہے :اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔(سورۃ النساء: ۱۹)

اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کی تابعدار ی کرتی ہیں ،وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ (سورۃ النساء ۳۴) رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں مرد کا سب سے بہترین خزانہ نہ بتاؤں؟ (بہترین خزانہ )وہ نیک عورت ہے، جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ شوہر کو خوش کردے، جب شوہر اسے کوئی حکم کرے تو شوہر کا کہنا مانے۔ اگر شوہر کہیں باہر سفر میں چلا جائے تو اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ (ابوداؤـد، نسائی) شوہرکے مال کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے مال میں سے کچھ نہ لے، اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے۔ ہاں اگر شوہر واقعی بیوی کے اخراجات میں کمی کرتا ہے تو بیوی اپنے اور اولاد کے خرچے کو پورا کرنے کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر مال لے سکتی ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ہند بنت عتبہ سے فرمایا تھا، جب انہوں نے اپنے شوہر کے زیادہ بخیل ہونے کی شکایت کی تھی: اتنا مال لے لیا کرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے متوسط خرچے کے لئے کافی ہو۔ (بخاری، مسلم) شوہر کی آبرو کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل نہ ہونے دے، کسی نامحرم سے بلا ضرورت بات نہ کرے۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلے۔

اسلام نے فرد اور معاشرے کی اصلاح ، استحکام، فلاح وبہبود اورامن وسکون کےلیے ہر شخص کے حقوق وفرائض مقرر کردیے ہیں۔میاں بیوی ایک دوسرے کالباس ہیں، ایک دوسرے کی عزت ہیں ایک کی عزت میں کمی دونوں کےلیے نقصان کا باعث ہے۔ ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے۔زوجین اگر دینی تعلیمات کے مطابق ایک دوسرے کےحقوق خوش دلی سے پور ے کرنے لگیں تونہ صرف بہت سی خرابیوں کا خاتمہ ہوجائے گا، بلکہ ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔

بیوی کے ساتھ شوہر کا حسن سلوک

 قرآن کریم میں یہ حکم دیاگیاہے ’’عورتوں کے ساتھ اچھی طرح زندگی بسرکرو‘‘۔(النساء:۱۹)

اورحدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے:’’تم میں سے بہتروہ ہے جواپنے گھروالوں کے لیے بہترہےاورمیں اپنے گھروالوں کے لیے بہترہوں‘‘۔

اس سے معلوم ہواکہ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک اوران کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آناقرآن وسنت کے احکامات میں شامل ہے،حسن سلوک اورحسن اخلاق کی اہمیت اورقیامت کے دن اعمال کے ترازومیں اس کے وزنی ہونے سے متعلق ترمذی شریف میں مندرجہ ذیل حدیث موجودہے: ’’حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے  ہیں کہ آپ نے ارشادفرمایاقیامت کے دن مومن کی میزان عمل میں سب سے زیادہ وزنی اوربھاری چیزجورکھی جائے  گی وہ اس کے اچھے اخلاق ہوں گے‘‘۔

قیامت میں سب سے پہلے سوال کس چیزسے متعلق کیاجائے گا؟اس بارے میں مختلف احادیث میں علماء کرام نے یہ تطبیق دی ہے کہ  حقوق اللہ میں سب سے پہلے نمازکاسوال کیاجائے گا۔حقوق العباد میں سب سے پہلا فیصلہ خون ناحق کاکیاجائے گا،اورمعاشرت کے باب میں میاں بیوی کاایک دوسرے کے ساتھ سلوک سے متعلق سوال ہوگ

درہم و دینار کی مقدار

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رائج دراہم مختلف وزن کے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے درہم (چاندی کے سکے) اور دینار (سونے کے سکے) کے لیے وزن متعین فرمادیا، پھر وہی وزن درہم ودینار کے وزن کے لیے معیار بن گیا۔

چناں چہ ایک  چاندی کے درہم کی مقدار  : 3 ماشہ، 1رتی اور رتی کا پانچواں حصہ ہے۔

ایک سونے کے  دینار کی مقدار : چار ماشہ اور چار رتی ہے۔

ایک ماشہ میں کل آٹھ رتیاں ہوتی ہیں، ایک تولہ میں کل بارہ ماشے ہوتے ہیں، ایک تولہ میں کل چھیانوے رتیاں ہوتی ہیں، ایک تولہ برابر ہے گیارہ گرام اور چھ سو چونسٹھ ملی گرام (11.664)کے، ایک ماشہ برابر ہے نوسو بہتر ملی گرام(0.972)کے، ایک رتی برابر ہے ایک سو اکیس ملی گرام(0.121)کے۔
لہذا  گرام کے اعتبار سے ایک درہم کی مقدار  061۔3 گرام،  اور دینار کی مقدار 374۔4 گرام ہے،  مارکیٹ میں جو سونے اور چاندی کی قیمت ہو اس کے حساب سے دینار اور درہم کی قیمت معلوم کی جاسکتی ہے

مدکی مقدار

 مُد‘‘  بضم  المیم  (میم پر پیش کے ساتھ) ایک پیمانے  کا نام ہے،امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ   کی تحقیق کے مطابق  ایک ’’صاع‘‘ چار ’’مُد‘‘ کا ہوتا ہے اور ایک ’مُد‘ چار ’رطل‘ کا ہوتا ہے، یعنی ’مُد‘ چوتھائی ’صاع‘ کے برابر ہوتا ہے،جدید اوزان کے اعتبار سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  کی تحقیق  کے  مطابق ایک ’مُد‘  اٹھاسی  (۸۸)  تولہ  کے سیر سے ڈیڑھ سیر  ڈیڑھ  چھٹانک بنتا ہے،اور علامہ شامی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق ایک ’مُد‘ دو  سو ساٹھ  درہم کے برابر ہوتا ہے اور دو سو ساٹھ درہم کا وزن تحقیق مذکور کے موافق آٹھ سو انیس ماشہ یعنی اڑسٹھ تولہ تین ماشہ ہوتا ہے۔

(مستفاد از جواہر الفقہ،ج:۳،ص:۴۱۱)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 158):

’’ (ثم يفيض الماء) على كل بدنه ثلاثًا مستوعبًا من الماء المعهود في الشرع للوضوء والغسل وهو ثمانية أرطال، وقيل: المقصود عدم الإسراف.

(قوله: وهو ثمانية أرطال) أي بالبغدادي، وهي صاع عراقي، وهو أربعة أمداد، كل مد رطلان، وبه أخذ أبو حنيفة. والصاع الحجازي خمسة أرطال وثلث، وبه أخذ الصاحبان والأئمة الثلاثة، فالمد حينئذ رطل وثلث، والرطل مائة وثلاثون درهما وقيل مائة وثمانية وعشرون درهما وأربعة أسباع درهم وتمامه في الحلية. قلت: والصاع العراقي نحو نصف مد دمشقي، فإذا توضأ واغتسل به فقد حصل السنة.

(قوله: وقيل المقصود إلخ) الأصوب حذف قيل لما في الحلية أنه نقل غير واحد إجماع المسلمين على أن ما يجزئ في الوضوء والغسل غير مقدر بمقدار. وما في ظاهر الرواية من أن أدنى ما يكفي الغسل صاع، وفي الوضوء مد للحديث المتفق عليه «كان صلى الله عليه وسلم يتوضأ بالمد، ويغتسل بالصاع إلى خمسة أمداد» ليس بتقدير لازم، بل هو بيان أدنى القدر المسنون. اهـ. قال في البحر: حتى إن من أسبغ بدون ذلك أجزأه، وإن لم يكفه زاد عليه؛ لأن طباع الناس وأحوالهم مختلفة كذا في البدائع اهـ وبه جزم في الإمداد وغيره.‘‘

شرعی اوزان ومساحات

 مُد:

الشیخ عبد اللہ بن سلیمان المنیع حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر مد کو ایک مکمل رطل اور تہائی رطل کے برابر شمار کریں تو پھر مد کی مقدار 544 گرام ہے، اور جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ رطل کی مقدار 408 گرام ہے۔"
" مجلة البحوث الإسلامية " ( 59 / 179 )

2- صاع:

الشیخ عبد اللہ بن سلیمان المنیع حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"مملکت سعودی عرب میں سپریم علما کونسل نے صاع کی کلو گرام میں مقدار نکالنے کے لئے تحقیق کی تھی اور اس تحقیق میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صاع کی مقدار چار مُد کو بنیاد بنایا گیا تھا، اور یہ کہ ایک مد درمیانی قامت والے شخص کی دونوں ہتھیلیوں کے بھراؤ کو کہتے ہیں، اس تحقیق میں یہ بھی شامل تھا کہ درمیانی قامت کے شخص کی ہتھیلیوں میں کتنی مقدار آتی ہے۔ چنانچہ اس تحقیق کے نتائج یہ نکلے کہ تقریباً 650 گرام ایک مد کی مقدار ہے ، اس بنا پر صاع کی مقدار 2600 گرام ہوئی۔"
" مجلة البحوث الإسلامية " ( 59 / 178 )

3- قُلّہ:

الشیخ عبد اللہ بن سلیمان المنیع حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کے ہاں جو قلہ مشہور ہے یہ ھجر بستی کا قلہ ہے، یہ بستی مدینے کے قریب ہی واقع ہے، یہاں پر ھجر سے مراد بحرین کی ھجر بستی مراد نہیں ہے۔

یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ ایک قلے میں 250 رطل ہوتے ہیں، اور یہ بھی پہلے گزر چکا ہے کہ رطل کی گراموں میں مقدار 408 گرام ہے، تو پھر ایک قلے کی مقدار 250*408=102000 یعنی 102 کلو گرام بنے گی۔"
" مجلة البحوث الإسلامية " ( 59 / 184 )

4- ذراع:

الشیخ وھبہ زحیلی حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"ذراع کا لفظ بول کر فقہی کتابوں میں ہاشمی ذراع [ہاتھ] مراد لیا جاتا ہے، اور اس کی لمبائی 61.2 سم ہے۔"

5- میل:

ایک میل 4000 ذراع کا ہوتا ہے یعنی 1848 میٹر لمبائی ایک میل کی بنتی ہے۔

6- فرسخ:

ایک فرسخ 3 میل کا ہوتا ہے، یا 5544 میٹر لمبائی رکھتا ہے یا 12000 قدم اس کی لمبائی ہوتی ہے۔

7- برید:

ایک عربی برید 4 فرسخ کا ہوتا ہے، یا 22176 میٹر یا 22.176 کلومیٹر اس کی لمبائی بنتی ہے۔
" الفقه الإسلامي وأدلته " ( 1 / 74 ، 75 )

مثقال کی مقدار اور انگوٹھی میں اس کا اعتبار

 ایک مثقال  سے کم  وزن چاندی کی انگوٹھی مردوں کے لیے حلال اور جائز ہے، البتہ بلاضرورت نہ پہننا اولیٰ ہے۔ ایک مثقال  ساڑھے چار ماشے  یعنی۴گرام،۳۷۴ملی گرام (4.374 gm) ہوتا ہے۔ 

روایت میں آتا ہے کہ ایک  شخص نے دریافت کیاکہ یارسول اللہ! میں کس دھات کی انگوٹھی پہنوں؟تو آپ نے فرمایا: چاندی کی، مگر ایک مثقال تک اس کا وزن نہ پہونچے۔

باقی حدیث شریف میں چوں کہ ایک مثقال تک کی اجازت ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص ایک ہی انگوٹھی پہنتا ہے تو  ایک مثقال سے زائد وزن کی انگوٹھی کی اجازت نہیں ہو گی،  اور اگر ایک سے زائد انگوٹھی پہنتا ہے تو اس کا مجموعی وزن ایک مثقال سے زائد ہونا منع ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 358):

"(ولايتحلى) الرجل (بذهب وفضة)  مطلقاً (إلا بخاتم ومنطقة وجلية سيف منها) أي الفضة .. (ولايتختم) إلا بالفضة؛ لحصول الاستغناء بها، فيحرم (بغيرها كحجر) ... ولايزيده على مثقال.

 (قوله: ولايتختم إلا بالفضة) هذه عبارة الإمام محمد في الجامع الصغير، أي بخلاف المنطقة، فلايكره فيها حلقة حديد ونحاس كما قدمه، وهل حلية السيف كذلك؟ يراجع! قال الزيلعي: وقد وردت آثار في جواز التختم بالفضة وكان للنبي صلى الله تعالى عليه وسلم خاتم فضة، وكان في يده الكريمة، حتى توفي صلى الله تعالى عليه وسلم ، ثم في يد أبي بكر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عمر رضي الله تعالى عنه إلى أن توفي، ثم في يد عثمان رضي الله تعالى عنه إلى أن وقع من يده في البئر، فأنفق مالاً عظيماً في طلبه فلم يجده، ووقع الخلاف فيما بينهم والتشويش من ذلك الوقت إلى أن استشهد رضي الله تعالى عنه. (قوله: فيحرم بغيرها إلخ)؛ لما روى الطحاوي بإسناده إلى عمران بن حصين وأبي هريرة قال: «نهى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن خاتم الذهب» ، وروى صاحب السنن بإسناده إلى عبد الله بن بريدة عن أبيه: «أن رجلاً جاء إلى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم وعليه خاتم من شبه، فقال له: مالي أجد منك ريح الأصنام! فطرحه، ثم جاء وعليه خاتم من حديد، فقال: مالي أجد عليك حلية أهل النار! فطرحه، فقال: يا رسول الله من أي شيء أتخذه؟ قال: اتخذه من ورق ولا تتمه مثقالاً»". فعلم أن التختم بالذهب والحديد والصفر حرام ؛ فألحق اليشب بذلك؛ لأنه قد يتخذ منه الأصنام ، فأشبه الشبه الذي هو منصوص معلوم بالنص، إتقاني، والشبه محركاً: النحاس الأصفر، قاموس۔ وفي الجوهرة: والتختم بالحديد والصفر والنحاس والرصاص مكروه للرجل والنساء ... (قوله: ولايزيده على مثقال)، وقيل: لايبلغ به المثقال، ذخيرة. أقول: ويؤيده نص الحديث السابق من قوله عليه الصلاة والسلام : «ولا تتممه مثقالاً»

Sunday 3 March 2024

اوقیہ کی مقدار

 الأُوقِيَّةُ

: مِعْيارٌ تُوزَن بهِ الأشياء، ويختَلِفُ مِقدارُها باختِلافِ البِلادِ، وهي تَقْريبًا: أُوقِيَّةُ الفِضَّةِ 1920 حبة = 40 درهمًا = 119 غرامًا. أُوقِيَّةُ الذَّهَبِ = 29.75 غرامًا. الأُوقِيَّةُ من غير الذَّهَبِ والفِضَّةِ = 127 غراماً. وهي اليَومَ تَخْتَلِفُ باخْتِلافِ البُلدانِ، ففي مِصْرَ = 24 غرامًا. وفي جَنوبِ الشّامِ = 200غرام، وفي شَمالِهِ = 333 غرامًا. 

اردو اوقیہ: ایک پیمانہ جس سے اشیاء تولی جاتی ہیں۔ اس کی مقدار علاقوں کے اعتبار سے مختلف ہے۔ اندازاً اس کی مقدار یہ ہے: چاندی کا اوقیہ 1920 رتی= 40 درہم = 119 گرام۔ سونے کا اوقیہ:29.75 گرام۔ سونے اور چاندی کے علاوہ کسی اور شے کا اوقیہ= 127 گرام۔ آج کل مختلف علاقوں کے اعتبار سے اس کی مقدار مختلف ہوتی ہے۔ مصر میں یہ 24 گرام کا ہے، جنوبی شام میں 200 گرام کا اور شمالی شام میں 
۔یہ 333 گرام کا ہے۔بعض علماء کے نزدیک ایک اوقیہ ١٠.٥گرام  کا ہوتاہے ۔ہندوستان میں اسی پر عمل ہے۔
موسوعة مصطلحات الفقهية 

Saturday 2 March 2024

تحفے تحائف کی واپسی

 

تفریق کی صورت میں لڑکے والے اور لڑکی والوں کا تحائف کی واپسی کا مطالبہ کرنا؟

 ِ مذکورہ سامان،یعنی کپڑے،زیورات اوردیگر ضروری سامان چوں کہ   لڑکے والوں نے بطورِہبہ (تحفہ)  کےدیا تھا تو ایسی صورت میں مذکورہ سامان لڑکی کی ملکیت ہوگیاتھا اور  لڑکے والوں کا اسے واپس لینا شرعًا درست نہیں تھا۔باقی لڑکی والوں نے جوسامان لڑکے کودیا ہے اگر وہ بھی بطورہبہ  کےدیا تھا تو ایسی صورت میں وہ لڑکے کی ملکیت ہےاور لڑکی والے کو شرعاً اس کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے۔

  واضخ رہے کوئی چیز بطورِ  ہبہ(تحفہ)دےکر واپس لیناشرعاً درست نہیں ہے، لہذا صورت مسئولہ میں منگنی اورشادی کے موقع پر جوکچھ بطورِ ہبہ؛(تحفہ) دیا تھا، تفریق کی صورت میں اسے واپس لینا شرعاً درست نہیں ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(‌وتتمّ) ‌الهبة (بالقبض) الكامل" .

(الد ر المختار ،کتاب الہبۃ،ج:۵،ص:۶۹۰،ط:سعید)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وأما‌‌ ما يتعلق بالمهر حالة البقاء: فهو حق المرأة، فيكون ملكاً خالصاً لها لايشاركها فيه أحد، فلها أن تتصرف فيه، كما تتصرف في سائر أموالها متى كانت أهلاً للتصرف، فلها حق إبراء الزوج منه أو هبته له".

(القسم السادس،الباب الاول،الفصل السادس،ج:۹،ص:۶۷۸۵۔۶۷۸۶،ط:دار الفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"(وإن وهب هبةً لذي رحم محرم منه فلا رجوع فيها) لقوله - عليه الصّلاة والسّلام - :إذا كانت الهبة لذي رحم محرم منه لم يرجع فيها، ولأنّ المقصود فيها صلة الرحم وقد حصل (وكذلك ما وهب ‌أحد ‌الزوجين للآخر) ؛ لأنّ المقصود فيها الصلة كما في القرابة، وإنما يُنظر إلى هذا المقصود وقت العقد حتّى لو تزوّجها بعدما وهب لها فله الرجوع، ولو أبانها بعدما وهب فلا رجوع" .

(فتح القدیر،کتاب الہبۃ،باب الرجوع فی الہبۃ، ج:۹،ص:۴۴،ط:دار الفکر)