https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 16 June 2024

عیدین کی نماز کا طریقہ

 عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز کا طریقہ ایک ہی ہے۔عید کی نماز کے لیے اذان اور اقامت نہیں، جب نماز کھڑی کی جائے تو عید کی نماز  چھ زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرے، اس کے بعد تکبیر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھ لے اور ثناء پڑھے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، دو تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے اور تیسری تکبیر پر ہاتھ اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے، اس کے بعد امام اونچی آواز میں قراءت کرے، قراءت مکمل ہونے کے بعد بقیہ رکعت (رکوع اور سجدہ  وغیرہ) دیگر  نمازوں کی طرح ادا کرے۔

پھر دوسری رکعت کے شروع میں امام اونچی آواز میں قراءت کرے، اس کے بعد تین زائد تکبیریں کہے، تینوں تکبیروں میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دے، پھر ہاتھ اٹھائے بغیر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع میں جائے اور پھر دیگر نمازوں کی طرح دو سجدوں کے بعد التحیات، درود اور دعا پڑھ کر سلام پھیر دے، پھرنماز مکمل کرنے کے بعد امام  دو  خطبے دے، دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھے۔ 

دھرکوبراکہنے سے متعلق حدیث

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"ابن آدم (انسان)   مجھے تکلیف دیتا ہے، (یعنی اس طرح کہ) وہ زمانہ کو برا کہتا ہے حال آں کہ زمانہ (کچھ نہیں وہ) میں ہی ہوں، سب تصریفات میں میرے قبضہ میں ہے، اور شب وروز کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔"

مذکورہ حدیث میں "دھر" سے مراد زمانہ اور وقت دونوں ہی ہیں، کیوں کہ زمانہ اور وقت قریباً ایک ہی ہیں، وقت لمحے بھر کو بھی کہا جاتا ہے، جب کہ زمانہ کچھ مدت وقت کے لیے استعمال ہوتاہے، گویا وقت زمانے کا ہی حصہ ہے، جاہلوں کی عادت ہے کہ وہ انسانوں کو اپنی پیدا کی ہوئی پریشانیوں اور مصیبتوں کو برائی کی صورت میں زمانے اور وقت کے سرپر ڈال دیتے ہیں، اور اپنی زبان سے اس طرح کے الفاظ نکالتے ہے کہ زمانہ خراب ہے، بہت برا وقت ہے، حدیث شریف میں زمانہ اور وقت کو برا کہنے کی مذمت کی گئی ہے، کیوں کہ زمانہ کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اور زمانے کو برا کہنے کا مطلب اللہ تعالیٰ کو برا کہنے کے مترادف ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «قال الله تعالى: يؤذيني ابن آدم، يسب الدهر وأنا الدهر بيدي الأمر، أقلب الليل والنهار» ) متفق عليه.

ان اللہ علی کل شی قدیر کا ترجمہ

 لغۃً لفظ ِ " شیئ" کا اطلاق ممکن ، واجب اور محال تینوں پر ہوتا ہے، لیکن"شیئ" کے متعلقات بدل جانے سے اس کا مفہوم بدل جاتا ہے،لفظ ِ "شیئ"جب قدرت کا متعلق بنے تو اس سے ممکنات ہی مراد ہوتی ہیں، جیسا کہ روح المعانی میں ہے:

"والشيء لغة ما يصح أن يعلم ويخبر عنه كما نص عليه سيبويه، وهو شامل للمعدوم والموجود الواجب والممكن وتختلف إطلاقاته، ويعلم المراد منه بالقرائن فيطلق تارة، ويراد به جميع أفراده كقوله تعالى: والله بكل شيء عليم [البقرة: 282، النساء: 176، النور: 18، 64، التغابن: 11] بقرينة إحاطة العلم الإلهي بالواجب والممكن المعدوم والموجود والمحال الملحوظ بعنوان ما، ويطلق ويراد به الممكن مطلقا كما في الآية الكريمة بقرينة القدرة التي لا تتعلق إلا بالممكن، وقد يطلق ويراد به الممكن الخارجي الموجود في الذهن كما في قوله تعالى: ولا تقولن لشيء إني فاعل ذلك غدا إلا أن يشاء الله [الكهف: 23، 24] بقرينة كونه متصورا مشيئا فعله غدا، وقد يطلق ويراد به الممكن المعدوم الثابت في نفس الأمر كما في قوله تعالى: إنما قولنا لشيء إذا أردناه أن نقول له كن فيكون [النحل: 40] بقرينة إرادة التكوين التي تختص بالمعدوم، وقد يطلق ويراد به الموجود الخارجي كما في قوله تعالى: وقد خلقتك من قبل ولم تك شيئا [مريم: 9] أي موجودا خارجيا لامتناع أن يراد نفي كونه شيئا بالمعنى اللغوي الأعم الشامل للمعدوم الثابت في نفس الأمر لأن كل مخلوق فهو في الأزل شيء- أي معدوم- ثابت في نفس الأمر".

(سورة البقرة، الآية: 20 ج:1،ص: 180، ط: العلمية)

اس  سے معلوم ہوا کہ  قدرت کا تعلق ممکنات کے ساتھ ہے،واجبات یا محالات کے ساتھ نہیں ، نیزمحالات   کے ساتھ قدرت الہی کے متعلق نہ ہونے سےعجز  لازم نہیں آتا، کیونکہ یہاں پر قصور  شیئ ( محال یا واجب ) میں ہے کہ اس میں مقدور بننے کی صلاحیت ہی نہیں، مقدور بننے کی صلاحیت صرف ممکنات میں ہے،محالات یا واجبات میں نہیں۔

رہی یہ بات کہ  "اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ" کا ترجمہ  اس طرح کرنا کہ  "بے شک اللہ ہر ممکن چیز پر قادر ہے" درست نہیں ہے،   ترجمہ کرتے وقت  لفظِ "ممکن " کا اضافہ نہ کیا جائے کہ اس سے  عوام  میں خوامخواہ تشویش ہوگی، اور اشکالات ابھریں گے،اور  اُن کے لیے اس بحث کو سمجھنا مشکل ہو جائے گا؛ کیوں کہ یہ علم الکلام کی بحث ہے،جو اہل علم  تک محدود رہنی چاہیے،عوام کا   اس میں  پڑنا  مضر ہے۔

کیااللہ تعالیٰ اپنا جیسا خدا بنانے پر قادر ہے

 اللہ تعالیٰ تو جو چاہیں،جیسا چاہیں پیدا کرنے پر قادر ہیں،لیکن کسی اور ذات میں معبود اور خدا بننے کی صلاحیت ہی نہیں ہے،کیوں کہ خدا وہ ہوتا ہےجو کسی کا محتاج نہیں ہو،اور جب وہ دوسری ذات اپنی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی محتاج ہوئی تو اس کا خدا بننا کیسے ممکن ہوسکتاہے؟،لیکن چوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کےحوالے سےاس خاص واقعہ کا پیش آنا معلوم نہ ہوسکاکہ کسی یہودی نے صحابہ سے سوال کیاتھا کہ کیا اللہ تعالی اپنا جیسا خدا بنانے پر قادر ہے توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کاجواب دیا کہ اللہ تعالی اس پر قادر ہے

لیکن اللہ پھر بھی خالق رہے گا اور دوسرا خدا مخلوق ہو گا،

 اس لیے اس واقعہ کو حضرت کی طرف منسوب کرکے بیان نہ کیا جائے۔

"متن العقیدۃ الطحاوية"میں ہے:

"ذلك بأنه على كل شيء قدير، وكل شيء إليه فقير، وكل أمر عليه يسير، لا يحتاج إلى شيء، ليس كمثله شيء وهو السميع البصير."

(ص:١٠،ط:دار ابن حزم)

"تفسیر الطبری"میں ہے:

"(يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ) يقول: يحدث الله ما يشاء من الخلق (إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ) يقول: إن الله على إحداث ذلك وخلقه، وخلق ما يشاء من الأشياء غيره، ذو قدرة لا يتعذّر عليه شيء أراد."

(ص:٢٠٤،ج:١٩،سورۃ النور،الآیة:٤٥،ط:دار التربية والتراث)

Saturday 15 June 2024

علی مشکل کشا کہنا

 مشکل کشا اصل میں فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں مشکل مسائل کو حل کرنے والا، یہ لفظ عربی زبان کے لفظ 'حل المعضلات'  کا فارسی میں ترجمہ ہے، حل المعضلات یعنی مشکل مسائل کا حل کرنے والا ، یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا لقب تھا؛ کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے جب بھی کوئی مشکل اور پیچیدہ مقدمہ لایا جاتا تو حضرت علی  رضی اللہ عنہ اس کو نہایت آسانی سے حل فرما دیتے، لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے یہ لفظ  اسی معنی میں استعمال کرنا صحیح ہے،  البتہ بعد میں اسی لفظ 'مشکل کشا'  کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عقیدت ومحبت میں غلو کرنے والے لوگوں نے یہ سمجھ لیا یا اپنا عقیدہ بنالیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہرزمانہ میں مشکل کشائی فرماتے ہیں اور یہاں تک غلو میں بڑھے کہ جس طرح مصائب میں اللہ پاک کو پکارا جاتا ہے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکارنے لگے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ تشبہ بالشرک بلکہ شرک ہی ہے؛ کیوں  کہ مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ لہذاکسی غیر خدا (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے متعلق   'مشکل کشا' کا عقیدہ رکھنا  یا اس کو 'مشکل کشا' مانناناجائز اور حرام ہے۔  

قرآنِ مجید میں ہے:

"وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ." (يونس، 107)

ترجمہ: "اور اگر تم کو اللہ تعالی کوئی تکلیف پہنچادے تو بجز اس کے اور کوئی اس کا دور کرنے والا نہیں ہے اور اگر وہ تم کو کوئی راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر  چاہیں مبذول فرمادیں اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والے ہیں۔"

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"أن الناس قد أكثروا من دعاء غير الله تعالى من الأولياء الأحياء منهم والأموات وغيرهم، مثل يا سيدي فلان أغثني وليس ذلك من التوسل المباح في شيء... وقد عدّه أناس من العلماء شركا."

(‌‌ج: 3، ص: 298،297، ط: ار الكتب العلمية - بيروت)

الإحكام في تمييز الفتاوى" میں ہے:

"قولُه صلى الله عليه وسلم: "أقضاكم عليّ.

وفي حاشيته: هذا ثناء عظيم، وتزكية كريمة من رسول الله صلى الله عليه وسلم، لأفضلية معرفة علي رضي الله عنه بالقضاء وإقامة الحقوق والحدود في دين الله تعالى... وقد اشتهر أبو الحسن علي رضي الله عنه بالقضاء حتى صار يضرب به المثل في حل المعضلات وفك المغلقات، حتى قيل في كل مشكلة يستعصي حلها ويصعب كشف كنهها: "قضية ولا أبا حسن لها". يعنون أن علياً أبا الحسن رضي الله عنه وهو حلال المشكلات - قد يعجز عن حل تلك المشكلة التي عجزوا عنها لتوغلها في الصعوبة والإغلاق. ولهذا كان عمر رضي الله عنه وهو المحدث الملهم - يتعوذ من معضلة ليس لها أبو الحسن، وكان يقول؛ لولا علي لهلك عمر. ويقول: علي أقضانا."

(‌‌السؤال الرابع، ص: 47،46، ط: دار البشائر الإسلامية)




 

اولیاء اللہ سے مدد مانگنا

 اللہ کے علاوہ کسی سے مدد مانگنے کی دو صورتیں ہیں :

[۱]: اس کے بارے میں  یہ عقیدہ رکھنا کہ اس میں ذاتی طور پر قدرت و طاقت ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، یہ شرک اور کفر ہے، اسی طرح  کسی غیر خدا کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس کو خدا نے تمام اختیار دے دیے  ہیں اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے، ہر قسم کی مرادیں ہر جگہ سے اس سے مانگنی چاہییں، یا اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کوئی صفت کسی غیر اللہ میں ماننا یہ بھی شرک ہے جو  ناجائز  اور حرام ہے۔مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

[۲]: ظاہری استعانت کرنا، یعنی جو چیز عادتاً انسان کی قدرت میں ہو، اس کے بارے میں مدد مانگنا، مثلاً: روپیہ، پیسہ، کپڑا، وغیرہ دینا۔ یہ چیزیں اگر کسی سے مانگی جائیں تو یہ درست ہے۔ 

إن الناس قد أكثروا من دعاء غیر الله تعالى من الأولیاء: الأحیاء منهم والأموات، وغیرهم مثل: یا سیدي فلان أغثني! ولیس ذلك من التوسل المباح في شيء ․․․ وقد عدّه أناس من العلماء شركًا․

(روح المعاني: ۲/۱۲۸)

غیرمسلم مریض کی عیادت کرنا

 (۲) رواداری سے اظہار کے لیے غیرمسلم مریضوں کی عیادت کرنا، ان کے یہاں کسی کے انتقال پر تعزیت کرنا اسی طرح ان کی غیرمذہبی تقریبات میں شریک ہونے کی گنجائش ہے؛ لیکن خالص مذہبی پروگراموں میں شرکت کرنا بہرحال جائز نہیں ہے، حسن تدبیر سے معذرت کردینی چاہیے۔ دونوں مسئلوں کے لیے دیکھیں: امداد الفتاوی: ۴/ ۲۶۸، سوال: ۳۴۷، ۳۴۸، ۳۴۹)

پوجاکے لیے چندہ دینا

 دسہرہ اور پوجا ہندوووٴں کے خالص مذہبی تہوار ہیں، ان کے پروگراموں میں چندہ دینا کفر وشرک اور ناجائز کاموں میں تعاون کرنا ہے جو از روئے آیت کریمہ ”وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ“ (المائدہ) جائز نہیں ہے۔


Thursday 13 June 2024

دوا کے نسخے پر میڈیکل اسٹور سے ڈاکٹر کا کمیشن لینا

 اگر مریض کو کسی قسم کا دھوکہ نہ دیا جاتا ہو ، اور نہ ہی ڈاکٹر ناقص کارکردگی والی ادویہ تجویز کرتا ہو ، اور اس بیماری کیلئے اس سے بہتر و عمدہ اور سستی کوئی دوسری دوا بھی موجود نہ ہو ، اسی طرح متعلقہ میڈیکل اسٹور سے دوائی کی خریداری یا لیبارٹری سے ٹیسٹ وغیرہ بنسبت دوسری جگہوں کے مہنگے دام نہ ہوں ، نیز ڈاکٹر کا کسی کمپنی کی ناقص کارکردگی والی ادویہ کو پاس کرنا ، محض اپنے ذاتی کمیشن اور فوائد کی بنا پر نہ ہو ، اور دیا جانے والا کمیشن بھی طے شدہ ہو ، تو اس صورت میں کسی ڈاکٹر کا ان تینوں امور پر طے شدہ کمیشن لینا اور کمپنی، میڈیکل اسٹور یا لیبارٹری والے کا اسے کمیشن دینا بلاشبہ جائز ہے ، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں

انسان اسی مٹی سے پیدا ہوتا ہے جہاں دفن ہوتاہے والی روایت

 صحیح روایات کا اہتمام کرنے والے مفسرین میں سے کسی نے بھی یہ بات نقل نہیں کی۔

تفسیر قرطبی میں اس حوالے سے دو تین روایتیں ہیں، فرماتے ہیں:
وَرَوَى أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: (مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا وَقَدْ ذُرَّ عَلَيْهِ مِنْ تُرَابِ حُفْرَتِهِ) أَخْرَجَهُ أَبُو نُعَيْمٍ الْحَافِظُ فِي بَابِ ابْنِ سِيرِينَ، وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عَوْنٍ لَمْ نَكْتُبْهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي عَاصِمٍ النَّبِيلِ، وَهُوَ أَحَدُ الثِّقَاتِ الْأَعْلَامِ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ. وَقَدْ مَضَى هَذَا الْمَعْنَى مُبَيَّنًا فِي سُورَةِ (الْأَنْعَامِ)(٧) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ. وَقَالَ عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ: إِذَا وَقَعَتِ النُّطْفَةُ فِي الرَّحِمِ انْطَلَقَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِالرَّحِمِ فَأَخَذَ مِنْ تُرَابِ الْمَكَانِ الَّذِي يُدْفَنُ فِيهِ فَيَذُرُّهُ عَلَى النُّطْفَةِ فَيَخْلُقُ اللَّهُ النَّسَمَةَ مِنَ النُّطْفَةِ وَمِنَ التُّرَابِ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى:" مِنْها خَلَقْناكُمْ وَفِيها نُعِيدُكُمْ وَمِنْها نُخْرِجُكُمْ تارَةً أُخْرى [٢٠: ٥٥]".
قرطبی نے یہاں تین روایات کا حوالہ دیا ہے:
پہلی روایت ابی ہریرۃ:
حلیۃ الأولیاء کے حوالے سے:
حلية الأولياء وطبقات الأصفياء (2/ 280)
حدثنا القاضي محمد بن إسحاق بن إبراهيم الأهوازي قال: ثنا محمد بن نعيم، قال: ثنا أبو عاصم، قال: ثنا ابن عون، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من مولود إلا وقد ذر عليه من تراب حفرته» قال أبو عاصم: ما تجد لأبي بكر، وعمر رضي الله تعالى عنهما فضيلة مثل هذه لأن طينتهما من طينة رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا حديث غريب من حديث ابن عون عن محمد، لم نكتبه إلا من حديث أبي عاصم النبيل عنه، وهو أحد الثقات الأعلام من أهل البصرة-
اس سند میں محمد بن إسحاق نامی راوی وضاع(حدیث گھڑنے والا) ہے۔(لسان الميزان(ج6ص553)
یہ روایت مصنف عبد الرزاق میں بھی ہے
مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 516)
6533 - عن الأسلمي قال: أخبرني نوح بن أبي بلال، عن أبي سليمان الهذلي، عن أبي هريرة قال: «ما من مولود يولد إلا بعث الله ملكا فأخذ من الأرض ترابا فجعله على مقطع سرته فكان فيه شفاؤه، وكان قبره في موضع أخذ التراب منه»
لیکن اس کی سند بھی مشکوک ہے۔

دوسری روایت عطاء الخراسانی والی:
ایک تو یہ بلاسند ہے، اگر سند ملے بھی تو عطا الخراسانی صغار تابعین میں سے ہیں، ان کی بات ایسے غیبی امور سے متعلق قابل اعتماد نہیں۔ واللہ اعلم۔
تیسری روایت ابن مسعود:
تفسير القرطبي (6/ 387)
وقد روى أبو نعيم الحافظ في كتابه عن مرة عن ابن مسعود أن الملك الموكل بالرحم يأخذ النطفة فيضعها على كفه ثم يقول: يا رب مخلقة أو غير مخلقة؟ فإن قال مخلقة قال: يا رب ما الرزق ما الأثر ما الأجل؟ فيقول: انظر في أم الكتاب فينظر في اللوح
المحفوظ فيجد فيه رزقه وأثره وأجله وعمله ويأخذ التراب الذي يدفن في بقعته ويعجن به نطفته فذلك قوله تعالى:" منها خلقناكم وفيها نعيدكم"
قرطبی نے یہ روایت امام ابو نعیم کے حوالے سے بیان کی ہے، لیکن ابو نعیم کے ہاں یہ روایت مل نہیں سکی۔

عن أبي سعيد أن النبي صلى الله عليه وسلم مر بالمدينة فرأى جماعة يحفرون قبراً فسأل عنه فقالوا‏:‏ حبشي قدم فمات‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم‏:‏

‏"‏لا إله إلا الله سيق من أرضه وسمائه إلى التربة التي خلق منها‏"‏‏.‏

رواه البزار وفيه عبد الله والد علي بن المديني وهو ضعيف‏.‏

4227- وعن أبي الدرداء قال‏:‏ مر بنا النبي صلى الله ونحن نحفر قبراً فقال‏:‏

‏"‏ما تصنعون‏؟‏‏"‏‏.‏ فقلنا‏:‏ نحفر قبراً لهذا الأسود فقال‏:‏ ‏"‏جاءت به منيته إلى تربته‏"‏‏.‏ قال أبو أسامة تدرون‏:‏ يا أهل الكوفة لم حدثتكم بهذا الحديث‏؟‏ لأن أبا بكر وعمر خلقا من تربة رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏

رواه الطبراني في الأوسط وفيه الأحوص بن حكيم وثقه العجلي وضعفه الجمهور‏.‏

4228- وعن ابن عمر أن حبشياً دفن بالمدينة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم‏:‏

‏"‏دفن بالطينة التي خلق منها‏"‏‏.‏

رواه الطبراني في الكبير وفيه عبد الله بن عيسى الخزاز وهو ضعيف‏.‏

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد)


لنور الدين الهيثمي 

عصراورفجرکےبعد سجدۂ تلاوت

 ۔نماز فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے تک اور عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے تک  سجدہ تلاوت کی ادائیگی درست ہے۔البتہ عین طلوع اور عین غروب کے اوقات میں سجدہ تلاوت جائز نہیں، الا یہ کہ اسی وقت آیتِ سجدہ کی تلاوت کی تو اس سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی اجازت ہوگی۔''فتاوی ہندیہ'' میں ہے:

''( الفصل الثالث في بيان الأوقات التي لا تجوز فيها الصلاة وتكره فيها ) ثلاث ساعات لا تجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة: إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب''۔(2/257)

نیز نماز فجر اور عصر کے بعد فرائض کی قضادرست ہے ،نوافل پڑھنامکروہ ہے،لہذا فرائض کی قضا کے دوران اگر سجدہ سہو لازم ہوجائے تو جس طرح قضا نماز درست ہے سجدہ سہو بھی درست ہے۔

Wednesday 12 June 2024

میاں بیوی کاجماعت سے نماز پڑھنا

 بلاعذر  مسجد میں جماعت سے نماز چھوڑ  کر گھر پر نماز پڑھنا مکروہ ہے،  اگر کبھی کسی عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے تو کوشش کرنی چاہیے کہ کسی قریبی مسجد میں جماعت سے ادا کرلے، بہرحال اگر کسی عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے تو گھر میں جماعت کی جاسکتی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ صلح کرانے تشریف لے گئے تھے، واپسی پر مسجد کی جماعت نکل گئی تو آپ ﷺ نے گھر والوں کو جمع کرکے گھر میں جماعت سے نماز ادا فرمائی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اگر جماعت چھوٹ جاتی تھی تو وہ یا انفرادی طور پر نماز ادا کرتے یا دوسری مسجد میں جاکر جماعت کی نماز میں شریک ہوجاتے تھے۔

تاہم گھر والوں کو جماعت سے نماز پڑھاتے ہوئے  بیوی کو اپنے برابر میں کھڑا نہ کرے،  بلکہ کچھ  پیچھے ہو یعنی  شوہر کے قدم سے بیوی کاقدم پیچھے ہونا چاہیے، پچھلی صف میں بھی کھڑی ہوسکتی ہے۔

لما في الشامیة:

(قوله: وخصه الزيلعي ... الخ) ... وقال: المرأة إذا صلت مع زوجها في البیت، إن کان قد مها حذاء قدم الزوج لاتجوز صلاتهما بالجماعة، و إن کان قدماها خلف قدم الزوج إلا أنها طویلة تقع رأس المرأة في السجود قبل رأس الزوج جازت صلاتهما؛ لأن العبرة للقدم". ( ج 1 ، ص 567) فقط

محاذات کامسئلہ

 مرد اور عورت کے ایک ساتھ  نماز پڑھنے سے مراد اگر یہ ہو کہ نماز پڑھتے ہوئے مرداور عورت دونوں ایک ہی ساتھ صف میں کھڑے ہوں، تو یہ مسئلہ اصطلاح میں ”محاذات“ کا مسئلہ کہلاتا ہے، اس کا شرعی حکم درج ذیل ہے:

اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی ، وہ شرائط یہ ہیں :

(1)   وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی  ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔

(2)  دونوں نماز میں ہوں، یعنی  ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔

(3)  مرد کی پنڈلی، ٹخنہ  یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔

(4)  یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔

(5)  یہ اشتراک مطلق نماز میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔

(6)  دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی  مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔

(7)  تحریمہ دونوں کی ایک ہو،  یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا  کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔

(8)  عورت میں  نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں،  یعنی  عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں  نہ ہو۔

(9)   مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔

(10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو،  یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا  ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔

(11)  مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو  پھر بھی عورت  مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔

(12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔

  اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں ( دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد  ہوجائے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:

(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل  الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ)

 (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی)

(شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید