https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 18 January 2021

علماء کی فضیلت

علما کرام کی فضیلت کے بارے میں  حضرت  :

 حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کاقول

" ان ایک ہزار عبادت گزاروں کی موت کا غم برداشت کرنا آسان ہےجو دن میں روزے رکھتے اور رات میں قیام کرتے ہیں بنسبت اس ایک عالم کى موت کے جو حرام اور حلال کا فرق سمجھتا ہو-"

[جامع بیان العلم  و فضلہ ، ابن عبدالبر,جلد ١.صفحہ ٦٥)
امام ابن القیم  رحمہ اللہ نے فرمایا:
فرض کرو ایک ایسا شخص ہے جسکے پاس دنیا بھر کی دولت ہو اور وہ بڑا سخی بھی ہو اور وہ ہزاروں لوگوں کی مدد بھی کرتا ہو اور انکی حاجات بھی پوری کرتا ہو- پھر وہ مر جاتا ہے اور اسکی رسائی اب اپنی دولت تک نہ ہو- پس ایک عالم کی موت بنسبت اس مالدار شخص کی موت کے بہت بڑا سانحہ ہے"-

[مفتاح دار السعادہ: ١/٢٦٥]
امام عبدالله بن مبارک رحمہ الله سے پوچھا گیا:
"بہترین لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا " علماء"-
ان سے پوچھا گیا کہ حقیقی بادشاہ کون ہیں؟
انھوں نے جواب دیا " سادہ  درویش لوگ"-
ان سے پوچھا گیا "بے کار لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا" وہ لوگ جو دین کو دولت کا ذریعہ بناتے ہیں"-
ان سے پوچھا گیا، " بھیڑ/ہجوم کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا، " خزیمہ بن خازم(عہدعباسی   کے جرنیل)اور اسکے اصحاب".
اور انسے پوچھا گیا، " کم ظرف شخص کون ہے؟"
انھوں نے جواب دیا، "جو اپنے مہمان کو قیمتوں کے چڑھاؤ کا ذکر کرتا ہے"-

[ابو بکر الدینوری ، المجالسۃ و جواہر العلم ٢:١٨١ ]
 ابن شہاب الزہری :
ایک سنت کا درس دینا دو سو سالوں کے نفلی عبادت سے بہتر ہے-

[احمد بن حنبل، اصول السنہ، باب 6 : اہل سنہ کے امتیازی نشانیاں]
ابو ہریرہ رضی الله عنہ:
" مجھے یہ بہت محبوب ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے دین کو سمجھنے کے لئے بیٹھوں بجائے اسکے کہ میں پوری رات صبح ہونے تک عبادت کروں-"

[جامع بیان العلم فضائل جلد ١ صفحہ ٦٠]
امام ترمذ ی نے اپنے کتاب جامع ترمذی میں ایک باب 
" فقہ کی عبادت پر برتری کے بارے میں" قائم کیا ہے- اس باب میں ایک حدیث کچھ اسطرح ہے:
قیس بن کثیر سے روایت ہے:
" مدینہ سے ایک شخص ابو دردہ کے پاس آیا جب وہ دمشق میں تھے- تو انھوں نے پوچھا:
"  میرے بھانجے کیا بات تمھیں یہاں لائی ہے؟"
اسنے جواب دیا:
" ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے جسے آپ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے."
آپ رضی الله نے کہا :
" تو تم ادھر اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں آئے ہو؟
اس نے جواب دیا:
"نہیں"-
آپ نے پوچھا:
" کیا تم ادھر تجارت کے لئے آئے ہو؟-
اس نے کہا : " نہیں، میں صرف اس حدیث کی جانکاری کے لئے یہاں آیا ہوں"-
تو آپ رضی الله عنہ نے فرمایا :
بے شک میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ:

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَارِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِوَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِكَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِالْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَوَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًاوَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَاوَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَبِحَظٍّ وَافِرٍ
" اگر کوئی شخص علم کا راستہ اختیار کرے گا تو الله اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لئے (اسکے پاؤں کے نیچے) اپنے پر بچھاتے ہیں – عالم کے لئے آسماں  و زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے- یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں- 
عالم کو عابد پر اس طرح فضیلت ہے جیسے چاند کو  ستاروں پر- علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بےشک انبیاء کی وراثت درہم  و دینار نہیں ہوتے بلکہ انکی میراث علم ہے- پس جس نے اسے حاصل کیا اس نے انبیاء کی وراثت سے بہت سارا حصہ حاصل کر لیا-
[جامع ترمذی :٢٦٨٢، اس روایت کی طرح اور بھی روایت ہیں اور انکی متن پر علماء کا اتفاق ہے]
امام العینی رحمہ الله صحیح بخاری کی شرح عمدة القاري (٢.٣٩)میں لکھتے ہیں- اس حدیث 
(علماء انبیاء کے وارث ہیں ) کی دلیل قرآن کی اس آیت میں ہے جہاں الله نے فرمایا:
پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس) کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا۔ 
[سورہ فاطر :٣٢ ]
علماء کی سب سے پہلی جماعت صحابہ رسول صلی الله علیہ وسلم تھے، اور ان کے بعد تابعین ان کے بعد تبع تابعین اور یہ سلسلہ اس طرح چلتا گیا"-
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِاللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً،فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَاوَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا،فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَايَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلاَهَا، فَتَأَذَّوْابِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا، فَجَعَلَ يَنْقُرُأَسْفَلَ السَّفِينَةِ،فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْ

بِي، وَلاَ بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِأَنْجَوْهُ وَنَجَّوْاأَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ
" اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے( عام طور پر ایک جاہل یا عامی) اور اس میں مبتلا (یعنی الله کی حددو کی پابندی کرنے والے یا عالم) ہو جانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی ( پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں ) قرعہ اندازی کی ۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر ۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا ( تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے ) اب اوپر والے(یعنی علماء) آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو ( میرے اوپر آنے جانے سے ) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا ۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے(یعنی عام آدمی) کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی ۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہو گئے ۔"

[صحیح البخاری ٢٦٨٦ ]
ابو امامہ باہلی رضی الله عنہفرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم- آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ‏"‏ ‏.‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ ‏.‏ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ يَقُولُ عَالِمٌ عَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَى كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ ‏.
عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح میری تمہارےادنی ترین آدمی پر - پھر فرمایا کہ یقیناََ الله، فرشتے اور تمام اہل زمین  و آسماں یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں بھی، اس شخص کی لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور رحمت بھیجتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے-
[جامع ترمذی :٢٦٨٥]
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ فَإِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوافَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ‏"
اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔

[صحیح بخاری:١٠٠، سنن ابن ماجہ، جلد ١، حدیث ٥٢]
عوف بن مالک الاشجعی رضی الله عنہ سے روایت ہے :
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک دفعہ آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: " لگتا ہے یہ علم کے اٹھائے جانے کا وقت ہے "، پس ان میں سے ایک نے کہا : " یا رسول الله ، علم کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے پاس کتاب الله ہے ، ہم اسے پڑھتے ہیں، اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں"- تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" میں تمھیں مدینہ کے لوگوں میں سب زیادہ علم والا سمجھتا تھا، کیا یہود اور نصاریٰ کے پاس اپنی کتابیں نہیں تھی؟

[إقتضاء العلم العمل،الخطیب البغدادی مع تحقیق شیخ البانی ، جنہوں نے اسے صحیح کہا، صفحہ ٥٨]
رسول الله صلی الله وسلم نے فرمایا:
" کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کے علم میں سب سے پہلے کیا اٹھایا جائیگا ؟ آپ نے فرمایا :' خشوع اور الله کا خوف، یہاں تک کہ آنے والے وقت میں تم کسی میں بھی عاجزی اور الله کا خوف نہیں دیکھو گے-

عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا:

عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ فَإِذَا أَخَذُوا مِنْ صِغَارِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا
8 نصيحة أهل الحديث للخطيب البغدادي لا يزال الناس بخير ما أخذوا العلم
"
لوگ ہمیشہ اچھائی پر رہیں گےجبتک وہ علم لیں اپنے بڑوں سے، قابل اعتماد اور ثقہ لوگوں سے اور علماء سے- اگر لوگ اپنے نوجوانوں اور برے و خیانت دار لوگوں سے علم لیں گے تو پھر وہ تباہ ہو جاینگے-
[ مسند احمد ، صفحہ ٣٤ اور نصیحه الخطیب البغدادی ٨، صحیح الالبانی ]

سمعت عبد الله بن ضمرة، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الا إن الدنيا ملعونة، ملعون ما فيها إلا ذكر الله وما والاه وعالم او متعلم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اور متعلم (علم سیکھنےوالے)کے. 
امام ابوعیسی ترمذی نے فرمایا:یہ حدیث غریب ہے.علامہ 
البانی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے
علم حدیث کی اصطلاح میں غریب سے مراد وہ روایتہے جس کے سلسلہ اسناد میں کسی طبقہ میں سند حدیث کی روایت کا دارومدار صرف ایک ہی راوی پر ہو،اگرچہ دوسرے طبقوں میں ،ایک سے زیادہ راوی بھی ہو سکتے ہیں۔
قرآن اللہ کی ذات و صفات اور قدرت کاملہ کا تعارف کراتا ہے ، لہٰذا اس کتاب کا جتنا زیادہ مطالعہ کیاجائے اتنی ہی اللہ کی معرفت حاصل ہوگی اور اللہ کی جتنی زیادہ معرفت حاصل ہوگی اتنا ہی بندہ اللہ سے ڈرے گا۔ اس کتاب کا پڑھنا اور پڑھاناعلماء کرام کا خاص مشغلہ ہے جس کی وجہ سے یہ اللہ کے بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں ، خود اللہ تعالیٰ اس کی گواہی دیتا ہے: ﴿إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ العُلَمَاءُ ﴾(سورة الفاطر: 28) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ نے کئی مقامات پر ان کو تحفہٴ قدرو منزلت سے نوازا ہے، بنی آدم میں ایک اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے ، حتیٰ کہ اللہ نے جب اپنی شان وحدانیت( کلمہ توحید) کے لیے گواہ بنانا چاہا تو جہاں گواہی کے لیے اپنی ذات کا انتخاب فرمایا وہیں فرشتوں اور بنی نوع انسان میں سے صرف علماء کو گواہی کے لیے منتخب کیا، جویقیناً انتہائی شرف و فضل کی بات ہے ﴿شَہِدَ اللّٰہُ أَنَّہُ لا إلٰہَ إلاہُوَ وَالْمَلٰئِکَةُ وَأُولُوا العِلْمِ قَائِماً بِالقِسْطِ، لاإلٰہَ إلا ھُوَالعَزِیْزُ الْحَکِیْم﴾ (سورةآل عمران:18) اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ،یہی شہادت فرشتوں اور سب اہل علم نے دی ہے ،وہ انصاف پہ قائم ہے ، اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی اللہ نہیں ہے۔ 
اللہ نے عالم اور غیر عالم کے درمیان برابری کو یکسر مسترد کردیاہے ، سورة الزمر آیت ۹ میں اللہ ارشاد فرماتاہے: ﴿قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الذِینَ یَعْلَمُوْنَ وَالذِیْنَ لایَعْلَمُونَ، إنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوْا الألْبَاب﴾اے نبی! کہہ دیجیے کہ کیا جوعلم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے دونوں برابر ہیں؟ بلا شک عقل وفہم والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں ،یعنی جن لوگوں کو اللہ کی معرفت حاصل ہے اور جو شرعی احکام سے اچھی طرح واقف ہیں وہ اور جن کو ان سب چیزوں کا علم نہیں دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ہوسکتے۔ ایک جگہ فرماتاہے کہ علماء ہی اصحاب عقل ودانش ہیں اور جو مثالیں قرآن کریم میں بیان کی جاتی ہیں، ان کو یہی لوگ سمجھتے ہیں۔ دیکھیے سورة العنکبوت آیت نمبر 43﴿وَتِلْکَ الأمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُھَا إلا العَالِمُون﴾ یہ مثالیں ہیں جسے ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جس کو صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔
علم والوں کا علم جیسے جیسے ترقی کرتاہے خشیت الٰہی ویسے ویسے بڑھتی جاتی ہے ، غیر اللہ کا خوف جاتا رہتا ہے ، اللہ سے قربت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے ، فانی دنیا سے لگاوٴ کم ہوجاتا ہے ، اخروی شوق دنیوی خواہشات پہ غالب آتا ہے ، نتیجتاً ان کے ایمان میں جلا پیدا ہوتاہے، جو کثرت ِعبادت وریاضت کا سبب بنتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ ان کے درجات بلند فرماتا ہے ، (دیکھیے سورة المجادلة آیت 11 )﴿یَرْفَعِ اللّٰہُ الذِینَ آمَنُوا مِنْکُم وَالذِینَ أُوتُوا العِلْمَ دَرَجَات﴾ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن کو علم بخشا گیا اللہ ان کو بلنددرجے عطا فرمائے گا۔
حضرت امام احمد بن حنبل کے  بیٹے نے  اپنے والد سےایک بار سوال کیا کہ ابا جان! یہ شافعی کون شخص ہے ؟ میں دیکھتا ہوں کہ آپ اس کے لیے بہت دعائیں کرتے ہیں ، فرمانے لگے :  میرے بیٹے! شافعی دنیا کے لیے سورج اور لوگوں کے لیے عافیت ہیں ، یعنی نورِ علم سے دنیا کو روشن کرتے ہیں اور جہالت جیسے مرض کی دوا دیتے ہیں ۔ یہی وہ امام احمد بن حنبل ہیں جنھوں نے علی بن المدینی کے علم کی وجہ سے انھیں کبھی نام سے نہیں پکارا ، ہمیشہ کنیت سے پکارتے تھے۔ حضرت ابراہیم نخعی بلند پایہ عالم اور محدث بھی ہیں ، جب حضرت شعبی کے ساتھ اکٹھا ہوتے تو ان کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے زبان نہیں کھولتے تھے۔ 

Friday 15 January 2021

حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ

 صلح حدیبیہ سے فارغ ہو کر جب نبئ کریم صلی اللہ  علیہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو سب سے پہلے جو صاحب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے وہ حضرت ابو بصیر رضی اللہ  عنہ تھے۔ مشرکین مکہ نے فوراً ہی دو آدمیوں کو مدینہ بھیجا کہ ہمارا آدمی واپس کر دیجئے۔ نبئ کریم صلی اللہ  علیہ وسلم نے حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ” تم مکے چلے جاؤ، تم جانتے ہو کہ ہم نے کفارقریش سے معاہدہ کرلیا ہے اور ہمارے دین میں عہد شکنی اور غداری جائز نہیں ہے ” حضرت ابو بصیر رضی اللہ  عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا آپ مجھے کافروں کے حوالہ فرمائیں گے تاکہ وہ مجھ کو کفر پر مجبور کریں ؟ آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم جاؤ ! خداوند کریم تمہاری رہائی کا کوئی سبب بنا دے گا۔ آخر مجبور ہو کر حضرت ابو بصیر رضی اللہ  عنہ دونوں مشرکوں کی حراست میں مکہ واپس ہو گئے۔ لیکن جب مقام ” ذوالحلیفہ ” میں پہنچے تو سب کھانے کے لئے بیٹھے اور باتیں کرنے لگے۔ حضرت ابو بصیر رضی اللہ  عنہ نے ایک مشرک سے کہا کہ اجی ! تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ اس نے خوش ہو کر نیام سے تلوار نکال کر دکھائی اور کہا کہ بہت ہی عمدہ تلوار ہے اور میں نے با رہا لڑائیوں میں اس کا تجربہ کیا ہے۔ حضرت ابو بصیر رضی اللہ  عنہ نے کہا کہ ذرا میرے ہاتھ میں تو دو۔ میں بھی دیکھوں کہ کیسی تلوار ہے ؟ اس نے ان کے ہاتھ میں تلوار دے دی۔ انہوں نے تلوار ہاتھ میں لے کر اس زور سے تلوار ماری کہ مشرک کی گردن کٹ گئی اور اس کا سر دور جا گرا۔ اس کے ساتھی نے جو یہ منظر دیکھا تو وہ سر پر پیر رکھ کر بھاگا اور سر پٹ دوڑتا ہوا مدینہ پہنچا اور مسجد نبوی میں پہنچ گیا۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو دیکھتے ہی فرمایا کہ یہ شخص خوفزدہ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے ہانپتے کانپتے ہوئے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ میرے ساتھی کو ابو بصیر نے قتل کر دیا اور میں بھی ضرور مارا جاؤں گا۔ اتنے میں حضرت ابوبصیر رضی اللہ  عنہ بھی ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے آن پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی کیونکہ صلح نامہ کی شرط کے مطابق آپ نے تو مجھ کو واپس کردیا۔ اب یہ اللہ  کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ کو ان مشرکوں سے نجات دے دی۔ حضور صلی اللہ  علیہ وسلم کو اس واقعہ سے بڑا رنج پہنچا اور آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے خفا ہو کر فرمایا کہ

وَيْلُ اُمِّهٖ مِسْعَرُ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَهٗ اَحَدٌ

اس کی ماں مرے ! یہ تو لڑائی بھڑکا دے گا کاش اس کے ساتھ کوئی آدمی ہوتا جو اس کو روکتا۔

حضرت ابو بصیر رضی اللہ  عنہ اس جملہ سے سمجھ گئے کہ میں پھر مشرکین کی طرف لوٹا دیا جاؤں گا، اس لئے وہ وہاں سے چپکے سے کھسک گئے اور ساحل سمندر کے قریب مقام ” عیص ” میں جا کر ٹھہرے۔ ادھر مکہ سے حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ اپنی زنجیر کاٹ کر بھاگے اور وہ بھی وہیں پہنچ گئے۔ پھر مکہ کے دوسرے مظلوم مسلمانوں نے بھی موقع پاکر مشرکین مکہ کی قید سے نکل نکل کر یہاں پناہ لینی شروع کردی۔ یہاں تک کہ اس جنگل میں ستر آدمیوں کی جماعت جمع ہوگئی۔ کفار قریش کے تجارتی قافلوں کا یہی راستہ تھا۔ جو قافلہ بھی آمدورفت میں یہاں سے گزرتا، یہ لوگ اس کو لوٹ لیتے۔ یہاں تک کہ کفار قریش کے ناک میں دم کردیا۔ بالآخر کفار قریش نے خدا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھا کہ ہم صلح نامہ میں اپنی شرط سے باز آئے۔ آپ لوگوں کو ساحل سمندر سے مدینہ بلا لیجئے اور اب ہماری طرف سے اجازت ہے کہ جو مسلمان بھی مکہ سے بھاگ کر مدینہ جائے آپ اس کو مدینہ میں ٹھہرا لیجئے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔

(بخاری باب الشروط في الجهاد ج۱ ص۳۸۰ )

یہ بھی روایت ہے کہ قریش نے خود ابو سفیان کو مدینہ بھیجا کہ ہم صلح نامہ حدیبیہ میں اپنی شرط سے دست بردار ہو گئے۔ لہٰذا آپ حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں بلا لیں تاکہ ہمارے تجارتی قافلے ان لوگوں کی غارت گری سے محفوظ ہو جائیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بصیر رضی اللہ  عنہ کے پاس خط بھیجا کہ تم اپنے ساتھیوں سمیت مقامِ ” عیص ” سے مدینہ چلے آؤ۔ مگر افسوس ! کہ فرمانِ رسالت ان کے پاس ایسے وقت پہنچا جب وہ نزع کی حالت میں تھے۔ مقدس خط کو انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے کر سر اور آنکھوں پر رکھا اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ حضرت ابو جندل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جل کر ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا اور دفن کے بعد ان کی قبر شریف کے پاس یادگار کے لئے ایک مسجد بنا دی۔ پھر فرمان رسول کے بموجب یہ سب لوگ وہاں سے آکر مدینہ میں آباد ہوگئے۔

(مدارج النبوة ج ۲ ص۲۱۸

Thursday 14 January 2021

کرسی پر بیٹھ کر نماز اداکرنا کب جائز ہے؟

جو شخص کسی بیماری کی وجہ سے  کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو یا کھڑے ہونے پر  تو قادر ہو، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز  پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابل برداشت شدید قسم کا درد ہونے کا غالب  گمان ہو، تو ان صورتوں میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے۔   کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور کرسی یااسٹول پر بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز  نہیں۔ زمین پر سجدہ کرنے اور قیام پر قدرت ہونے کی صورت میں اگر فرض و واجب نماز میں قیام ترک کردیاتو نماز ادا نہیں ہوگی۔

اسی طرح فرض نماز  میں مکمل قیام پر تو قادر نہ ہو، لیکن کچھ دیر کھڑا ہو سکتا ہے،تو ایسے شخص کے لیے اتنی دیر کھڑا ہونا فرض ہے، اگرچہ کسی چیز کا سہارا لینا پڑے، اس کے بعد بقیہ نماز بیٹھ کر پڑھنا درست ہے، اگرزمین پر سجدہ کرنے کی قدرت ہوتو زمین پر بیٹھ کرنماز پڑھیں، اور اگر زمین پر بیٹھنے میں  ناقابلِ برداشت تکلیف ہو تو  کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھ سکتے ہیں ۔

جو  شخص قیام پر تو قادر ہو،  لیکن کمر یا گھٹنے کی تکلیف کی وجہ سے زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اس سے قیام بھی ساقط ہوجاتا ہے۔

جو شخص قیام پر تو قادر نہیں، لیکن زمین پر بیٹھ کر سجدہ کرنے پر قادر ہے تو اس کے لیے اشارہ سے سجدہ کرنا جائز نہیں، ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر باقاعدہ سجدے کے ساتھ نماز ادا کرے، صرف اشارے سے  سجدہ کرنا کافی نہیں ہوگا۔۔

"وإن تعذرا لیس تعذرہما شرطا؛ بل تعذر السجود کاف لا القیام أومأ قاعداً، وہو أفضل من الإیماء قائما لقربہ من الأرض"۔ (درمختار)

وفي الشامي: "بل کلہم متفقون علی التعلیل بأن القیام سقط؛ لأنہ وسیلۃ إلی السجود؛ بل صرح في الحلیۃ: بأن ہذہ المسألۃ من المسائل التي سقط فیہا وجوب القیام مع انتفاء العجز الحقیقي والحکمي"۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۵۶۷) فقط واللہ اعلم


Monday 11 January 2021

اہل جنت کی زبان

 حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے  مروی یہ  روایت  کہ : عرب سے تین وجوہات کی بنا پر محبت کرو، کیوں کہ میں عربی ہوں، اور قرآن عربی میں ہے، اور اہلِ جنت کی زبان عربی ہوگی"۔

 محدثین  کے نزدیک موضوع و من گھڑت ہے، بعض نے  اسےانتہائی ضعیف، اور بعض نے منکر قرار دیا ہے صرف علامہ سیوطی اور حافظ السلفی نے اسے  بلاکسی دلیل واضح کےبالترتیب  صحیح اور حسن  کہا ہے۔

"عن ابن عباس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أحبوا العرب لثلاث: لأني عربي، والقرآن عربي، وكلام أهل الجنة عربي".

لسان الميزان میں ہے: "منكر ضعيف المتن، لا أصل له". ( ٤ / ٤٦٧)

الضعفاء الكبيرمیں ہے: "منكر لا أصل له". (٣ /٣٤٩)

المعجم الأوسط للطبرانيمیں ہے: "لم يرو هذا الحديث عن ابن جريج إلا يحيى بن بريد تفرد به العلاء بن عمرو". ( ٥ / ٣٦٩)

شعب الإيمان للبيهقيمیں ہے: "تفرد به العلاء بن عمرو". ( ٢ / ٦٩٩)

موضوعات ابن الجوزي ( ٢ / ٢٩٢)

نسخة نبيط بن شريط الأشجعي ( الذهبي) میں ہے: "[فيه] أحمد بن إسحاق بن إبراهيم بن نبيط بن شريط روى عن أبيه عن جده بنسخة فيها بلايا، لايحل الاحتجاج به؛ فهو كذاب". ( ص: ٥١)

ميزان الاعتدال للذهبيمیں ہے: "موضوع". ( ٣ / ١٠٣)

محجة القرب للعراقيمیں ہے:"ضعيف". ( ص: ٨٩)

مجمع الزوائد للهيثميمیں ہے:   "فيه العلاء بن عمرو الحنفي وهو مجمع على ضعفه‏‏". ( ١٠ / ٥٥)

المقاصد الحسنة للسخاويمیں ہے: "[فيه] ابن يزيد والراوي عنه ضعيفان وله شاهد". ( ص: ٤٢)

النكت على الموضوعات للسيوطيمیں ہے: "ضعيف لا صحيح ولا موضوع". ( ص: ٣٠٦)

الجامع الصغير للسيوطي میں ہے: "صحيح". ( ص: ٢٢٤)

"اقتضاء الصراط المستقيم" میں ہے:   "وكذلك روى أبو جعفر محمد بن عبد الله الحافظ الكوفي المعروف بمطين حدثنا العلاء بن عمرو الحنفي حدثنا يحيى بن زيد الأشعري حدثنا ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"أحب العرب لثلاث: لأنه عربي ، والقرآن عربي ، ولسان أهل الجنة عربي".  قال الحافظ السلفي: هذا حديث حسن . فما أدري أراد حسن إسناده على طريقة المحدثين، أو حسن متنه على الاصطلاح العام، وأبو الفرج بن الجوزي ذكر هذا الحديث في الموضوعات، وقال : قال الثعلبي: لا أصل له، وقال ابن حبان: يحيى بن زيد يروي المقلوبات عن الأثبات، فبطل الاحتجاج به، والله أعلم". (1/158)

Tuesday 5 January 2021

داعش,دولت اسلامیہ یازندیقیت؟

 اس گروہ کو اقوام متحدہ اور کئی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ داعش شہریوں اور فوجیوں بہ شمول صحافیوں اور امدادی کارکنان کے سر قلم کرنے اور دیگر قسم کی سزائیں دینے والی وڈیوجاری کرنے اور ثقافتی ورثہ کی جگہوں کو تباہ کرنے کے لیے مشہور ہے۔اقوام متحدہ کے نزدیک داعش انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ شمالی عراق میں تاریخی سطح پر داعش دوسرے مذاہب کے افراد کو بڑی تعداد میں قتل بھی کر چکا ہے۔

داعش کا سنہ 1999ء میں جماعت التوحید و الجہاد کے طور پر ظہور ہوا، جوالقاعدہ کی حامی تھی اور 2003ء-2011ء عراقی کشیدگی میں حصہ لیا۔ جون 2014ء میں اس گروہ نے دنیا بھر میں خود کو خلافت کہا  اور خود کو دولت اسلامیہ کہلوانا شروع کر دیا۔ خلافت کے طور پر اس نے دنیا میں مسلمانوں پر مذہبی، سیاسی اور فوجی اقتدار کا دعوی کیا۔ خود خلافت کہلوانے پر اقوام متحدہ اور دیگر بڑے مسلم گروہوں نے اس کی ریاست کی تنقید اور مذمت کی۔.

شام میں اس گروپ نے حکومتی افواج اور حکومت مخالف جتھوں دونوں پر زمینی حملے کیے اور دسمبر 2015ء تک اس نے مغربی عراق اور مشرقی شام میں ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا جس میں اندازہً 2.8 سے 8 ملین افراد شامل تھے، جہاں انہوں نے شریعت کی نام نہاد تاویل کر کے اسے تھوپنے کی کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ داعش 18 ممالک میں سرگرم ہے جس میں افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہیں اور مالی، مصر، صومالیہ، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور فلپائن میں اس کی شاخیں ہیں 2015ء میں داعش کا سالانہ بجٹ 1 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ تھا اور 30،000 جنگجوؤں سے زیادہ کی فوج تھی۔

جولائی 2017ء میں گروہ نے اس کے سب سے بڑے شہر سے کنٹرول کھو دیا اور عراقی فوج نے فتح حاصل کر لی۔ اس بڑی شکست کے بعد داعش آہستہ آہستہ زیادہ تر علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور نومبر 2017ء تک اس کے پاس کچھ خاص باقی نہ رہا۔ امریکی فوجی عہدیداروں اور ساتھی فوجی تجزیوں کے مطابق دسمبر 2017ء تک گروہ دو فیصد علاقوں میں باقی رہ گیا۔ 10 دسمبر 2017ء میں عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا کہ عراقی افواج نے ملک سے دولت اسلامیہ کے آخری ٹھکانوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ 23 مارچ 2019ء کو داعش اپنے آخری علاقے باغوز فوقانی کے نزدیک جنگ میں ہار گیا اور اس علاقے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔

دنیابھرمیں اس تنظیم نے اسلام کے نام پرجوبربریت اپنارکھی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کی بنا ہی اسلام دشمنی ظلم وعدوان پر ہے.اصل مقصد میرے نزدیک صرف اسلام کے نام کواپنے ظلم وجبروت کے ذریعہ بدنام کرنا ہے .کل ہی پاکستان میں ہزارہ برادری کے چھ بے گناہ لوگوں کو مسلکی بنیاد قتل کردیاگیا.اس کی ذمہ داری اسی داعش نے لی ہے. مقتول شہداکاجرم یہ تھاکہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے..یہ تنظیم اسلام کوفرقہ پرستی  دہشت گردی اور جارحیت کامذہب مشہور کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہے.

عراق وشام پرقبضہ کے دوران ان کے زخمی جنگجؤوں کاعلاج اسرائیل میں ہوتاتھا.

ہزارہ برادری کے افراد کاقتل یہ بھی ظاہر کرتاہے کہ پاکستان ایک ناکام مملکت ہے جہاں انسانی خون کتنا ارزاں ہے..آئے دن قتل عام بم دھماکے.مسلکی بنیادپرشہادت کی خبریں آتی رہتی ہیں .یہ فی الحقیقت حکومت پاکستان کی کھلی ناکامی ہے.یہ قتل عام تابکے.اورخوں ریزی تاچند؟جہاں انسانی جان محفوظ نہیں وہ مملکت صفحۂ دہر پر ناکام اور ادھوری ریاست قرار پاتی ہے وہاں کے حکمراں نااہل, رہنماں ناہنجاراور افواج وپولیس حرف غلط سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے.مسٹرعمران خان اور ان کے نااہل وزراء کواخلاقی شکست تسلیم کرتے ہوئے فی الفور مستعفی ہوجاناچاہئے.

Tuesday 29 December 2020

حضرت جلیبیب بن عبدالفہری رضی اللہ عنہ

 جليبيب بن عبد ٍ الفہری ، انصاری صحابئ رسول کونبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے اٹھایاتھا جیساکہ آگے آئے گا وه قبيلۂ بنوثعلبہ کے فردتھے .حضرت ابوبرزہ اسلمی سے مروی ہے کہ جلیبیب کے مزاج میں شوخی وظرافت بہت تھی وہ آیت حجاب کے نزول سے پہلےلوگوں کوہنسایاکرتے تھے.خواتین کے پاس سے گذرتے توانہیں ہنساتے.میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا تھا کہ تمہارے پاس جلیبیب کو نہیں آنا چاہیے، اگر وہ آیا تو میں ایسا ایسا کردوں گا،انصار کی عادت تھی کہ وہ کسی بیوہ عورت کی شادی اس وقت تک نہیں کرتے تھے جب تک نبی ﷺ کو اس سے مطلع نہ کر دیتے، چنانچہ نبی ﷺ نے ایک انصاری آدمی سے کہا جس کا مفہوم ہے کہ اپنی بیٹی کے نکاح کا حق مجھے ديدو ، اس نے کہا زہے نصیب یارسول اللہ! بہت بہتر، نبی ﷺنے فرمایا میں اپنی ذات کے لیے اس کا مطالبہ نہیں کر رہا، اس نے پوچھا یارسول اللہ! پھر کس کے لیے؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جلیبیب کے لیے، اس نے کہا یا رسول اللہ! میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کر لوں، چنانچہ وہ اس کی ماں کے پاس پہنچا اور کہا کہ نبی ﷺتمہاری بیٹی کو پیغام نکاح دیتے ہیں، اس نے کہا بہت اچھا، ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، اس نے کہا کہ نبی ﷺ اپنے لیے پیغام نہیں دے رہے بلکہ جلیبیب کے لیے پیغام دے رہے ہیں، اس نے فوراً انکار کرتے ہوئے کہہ دیا بخدا! کسی صورت میں نہیں، نبی ﷺکو جلیبیب کے علاوہ اور کوئی نہیں ملا، ہم نے تو فلاں فلاں رشتے سے انکار کر دیا تھا، ادھر وہ لڑکی اپنے پردے میں سے سن رہی تھی۔ باہم صلاح مشورے کے بعد جب وہ آدمی نبی ﷺ کو اس سے مطلع کرنے کے لیے روانہ ہونے لگا تو وہ لڑکی کہنے لگی کہ کیا آپ لوگ نبی ﷺ کی بات کو رد کریں گے، اگر نبی ﷺ کی رضا مندی اس میں شامل ہے تو آپ نکاح کر دیں، یہ کہہ کر اس نے اپنے والدین کی آنکھیں کھول دیں اور وہ کہنے لگے کہ تم سچ کہہ رہی ہو، چنانچہ اس کا باپ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر آپ اس رشتے سے راضی ہیں تو ہم بھی راضی ہیں، (،آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو آپ نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا :اللھم صب علیھا الخیرصبا ولا تجعل عیشھا کدا. خدا وندا اس پر خیر کا دریا بہادے اوراس کی زندگی کو تلخ نہ کر۔ دعائے نبویﷺ کا یہ اثر ہوا کہ تمام انصار میں اس سے زیادہ کوئی تونگر اورخرچ کرنے والی عورت نہ تھی۔)نبی ﷺنے فرمایا میں راضی ہوں، عورت کی رضا مندی پاکر آنحضرتﷺ نے جلیبیب سے کہا کہ فلاں لڑکی سے تمہارا نکاح کرتا ہوں،بولے یا رسول اللہ! آپ مجھے کھوٹا پائیں گے فرمایا" لکنک عنداللہ لست بکاسد "یعنی تم اللہ کے نزدیک کھوٹے نہیں ہو ۔چنانچہ نبی ﷺنے جلیبیب سے اس لڑکی کا نکاح کردیا:

:شہادت

ایک غزوہ کے اختتام پر نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  شہداء کے نام دریافت کئےلوگوں نے چند آدمیوں کے نام گنائے ،آپ نے 3مرتبہ پوچھا اور وہی جواب ملا تو فرمایا :لکنی افقد جليبیبا! لیکن میں جليبیب کو گم پاتا ہوں۔ مسلمان جليبیب کی تلاش میں نکلے تو دیکھا کہ سات آدمیوں کے پہلو میں مقتول پڑے ہیں، آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی، آپ خود تشریف لائے،اورلاش کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا:قَتَلَ سَبْعَةً ثُمَّ قَتَلُوهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ.'سات کو قتل کرکے قتل ہوا یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں'
۔ اور جلبیب کی لاش کو اپنے ہاتھ سے اٹھا کر لائے اور قبر کھدواکر دفن کیا اورغسل نہیں دیا ۔

Thursday 17 December 2020

دینی معلومات:

 سوال .١نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان عمۂ محترمہ(چچی) کانام کیا ہے جن کی قبرمیں آپ خود اترے اور اس میں اپنی چادربچھادی تھی؟

جواب:حضرت فاطمہ بنت اسدزوجۂ حضرت ابوطالب ,والدۂ حضرت علی رضی اللہ عنہما

سوال۲.نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے کس معاہدۂ امن میں شرکت کی.؟

.جواب:حلف الفضول میں جبکہ آپ کی عمر صرف نوسال تھی

سوال ٣.عہدنبوی میں مسجدنبوی کے علاوہ مدینہ منورہ میں اورکون کونسی مساجدتعمیرہوچکی تھیں جن میں  باقاعدہ پنج وقتہ نماز اداکی جاتی تھی.؟

جواب:مسجد بنوعمرو,مسجدبنوساعدہ,مسجدبنوعبید,مسجدبنوذریق,,مسجد بنوسلمہ,مسجد بنوغفار,مسجدبنواسلم,مسجدجہینہ,مسجدبنوبیاضہ.

سوال ۴.حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا اصلی نام اور کنیت کیاہے؟

جواب:نام عبداللہ اورکنیت ابوبکر

سوال٥:زکوۃ کس سن میں فرض ہوئی؟

جواب:سن ٣ہجری میں.

سوال٦. روزے کب فرض ہوئے؟

جواب:سن ۲ہجری میں.

سوال ۷.نماز کب فرض ہوئی؟

جواب سن ١۲ نبوی میں 

سوال۸. عیدالفطرکی نماز سب سے پہلےکب اداکی گئی؟

جواب:یکم شوال سن ۲ہجری کو. 

سوال۹. اسلامی تاریخ میں سب سے پہلاتحریری امان نامہ آپ نے کس کے لئے جاری کیا؟

جواب :سفرہجرت کے دوران سراقہ بن جعشم کے لئے

سوال ١۰.موجودہ اذان کی ابتداء کب سے ہوئی؟

جواب:سن ۲ ہجری سے.

Tuesday 15 December 2020

خیالی سوالات سے تنگ کرنے والوں کی بابت علماء سلف کے واقعات طنز ومزاح:

  

ایک شخص نے امام عامرشعبی علیہ الرحمہ سے داڑھی پر مسح کرنے کا مسئلہ پوچھا*

انہوں نے کہا : انگلیوں سے داڑھی کا خلال کر لو.

وہ شخص بولا : مجھے اندیشہ ہے کہ داڑھی اس طرح بھیگے گی نہیں 

امام شعبی نے جواب دیا : پھر ایک کام کرو، رات کو ہی داڑھی  پانی میں بِھگو دو

            📗المراح فی المزاح:ص 39

*

امام عامر شعبی سے ہی ایک شخص نے پوچھا : کیا حالت احرام میں انسان اپنے بدن کو کھجلا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں. وہ شخص بولا : کتنا کھجلا سکتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا : جب تک ہڈی نظر نہ آنے لگے.

                 📗المراح فی المزاح


ایک آدمی نے قاضی ابو یوسف علیـہ الرّحمہ سے پوچھا: *پستے کا حلوہ زیادہ مزیدار ہوتا ہے یا بادام کا؟*

قاضی صاحب نے فوراً جواب دیا: " معاملہ انصاف کا ہے اور میں فریقین کی عدم موجودگی میں فیصلہ نہیں کرسکتا، دونوں کو حاضر کیا جائے ، تو بتاؤں گا۔"

(📗اسلام میں تصور مزاح ص116)


ایک شخص نے عمرو بن قیس سے پوچھا : اگر انسان کے کپڑے، جوتے اور پیشانی وغیرہ میں مسجد کی کچھ کنکریاں لگ جائیں تو وہ ان کا کیا کرے؟ انہوں نے جواب دیا :  پھینک دے. وہ شخص بولا : لوگ کہتے ہیں وہ کنکریاں جب تک دوبارہ مسجد میں نہ پہنچائی جائیں وہ چیختی رہتی ہیں.

وہ بولے : تو پھر انہیں اس وقت تک چیخنے دو جب تک ان کا حلق پھٹ نہ جائے.

وہ شخص بولا : سبحان اللہ! بھلا کنکریوں کا بھی کہیں حلق ہوتا ہے؟

انہوں نے جواب دیا : پھر بھلا وہ چیختی کہاں سے ہیں؟

            📗العقد الفرید 92/2


ایوب کہتے ہیں : میں نے ایک آدمی کو سنا وہ حضرت عکرمہ سے کہہ رہا تھا : فلاں شخص نے خواب میں میرے اوپر زنا کی جھوٹی تہمت لگائی ہے.

حضرت عکرمہ بولے: تو تم بھی اس کے سائے کو اسّی بار مار لو.

📗سیر اعلام النبلاء 19/5


اعمش کہتے ہیں ایک شخص امام شعبی کے پاس آیا اور پوچھا: ابلیس کی بیوی کا کیا نام  ہے؟ انہوں نے جواب دیا : میں اس کی شادی میں شریک نہیں ہوا تھا.

📗سیر اعلام النبلاء 312/4


ایک آدمی امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے پاس آیا اور پوچھا جب میں اپنے کپڑے اتار کر ندی میں غسل کرنے کے لیے جاؤں تو اپنا چہرہ قبلہ کی طرف رکھوں یا کسی اور طرف؟

انہوں نے جواب دیا : بہتر ہے کہ تم اپنا چہرہ کپڑے کی طرف رکھو تاکہ کوئی انہیں چرا نہ لے .

📗المراح فی المزاح : ص 43


 (عربی سے ترجمہ)


Friday 11 December 2020

نظربدکاعلاج


نظر لگنا برحق اورشرعی نیز حسی طور پر ثابت ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن يَكَادُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَيُزۡلِقُونَكَ بِأَبۡصَٰرِهِمۡ﴾--القلم:51
''اور منکر (جب یہ نصیحت کی کتاب سنتے ہیں تو) یوں لگتا ہے کہ تم کو اپنی (بری) نگاہوں سے پھسلا دیں گے۔''
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ آپ کو نظر لگا دیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«اَلْعَيْنُ حَقٌّ وَلَوْ کَانَ شَيْئٌ سَابَقَ الْقَدْرَ سَقَبَتُْ الْعَيْنُ، وَاِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا»سنن ابی داود، الطب، باب فی الطیرة،
حدیث: ۳۹۲۵ وجامع الترمذی، الاطعمة، باب ماجاء فی الاکل مع المجزوم، حدیث: ۱۸۱۷۔
''نظر لگنا برحق ہے، اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تو نظر سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دیا کرو۔''

نظربد کا علاج

نظر بد سے حفاظت اور اس کا اثر ختم کرنے کے کئی طریقے احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتے ہیں :

 پہلا طریقہ:سورۂ فاتحہ ، آیۃ الکرسی ،معوذتین اور مندرجہ ذیل دعاپڑھیں:

" أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لاَمَّةٍ."(اسوۂ رسول اکرم ﷺ)

دوسرا طریقہ: جس کو نظرِبد لگ جائے تواس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قولِ مبارک سے دم کیا جائے : "بِسْمِ اللهِ اَللّٰهُمَّ أَذْهِبْ حرَّهَا وَبَردَهَا وَوَصْبَهَا". 

ترجمہ :اللہ کے نام پر، اے اللہ تواس (نظربد)کے گرم وسرد کو اوردکھ درد کو دورکردے ۔ اس کے بعد یہ کلما ت کہے : "قُمْ بِـإِذنِ اللهِ"!

 ترجمہ : اللہ کے حکم سے کھڑا ہو جا ۔(حصن حصین )

تیسراطریقہ:نظر بد  دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس آدمی کے بارے میں معلوم ہوکہ اس کی نظر لگی ہے، اُسے وضو کرایا جائے اور اُس کے استعمال شدہ پانی کو کسی برتن میں جمع کرلیا جائے اور پھر  جسے نظر لگی ہے اُس پانی  سے  اُس کو غسل کرا یا جائے۔جیساکہ احادیثِ مبارکہ میں اس کا طریقہ مذکور ہے،ذیل میں مشکاۃ شریف سے وہ روایت اور اس کی تشریح نقل کی جاتی ہے:

"حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نبی کریم ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا : نظر بد حق ہے، یعنی نظر لگنا ایک حقیقت ہے اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو ۔ 

(صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔)

''اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے ۔" کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے ،اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہو جاتا تھا ۔چناں چہ رسولِ کریم ﷺ نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کو منظور کر لو"۔

نیز دوسری روایت میں ہے:

" حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سہل ابن حنیف کہتے ہیں کہ (ایک دن ) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (میرے والد ) سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہاتے ہوئے دیکھا (یعنی ستر چھپائے ہوئے) تو کہنے لگے کہ اللہ کی قسم (سہل کے جسم اور ان کے رنگ و روپ کے کیا کہنے ) میں نے تو آج کے دن کی طرح (کوئی خوب صورت بدن کبھی ) نہیں دیکھا ۔ اور پردہ نشین کی بھی کھال (سہل کی کھال جیسی نازک وخوش رنگ ) نہیں دیکھی ۔ ابوامامہ کہتے ہیں کہ (عامر کا ) یہ کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوا (جیسے ) سہل کو گرا دیا گیا (یعنی ان کو عامر کی ایسی نظر لگی کہ وہ فوراً غش کھا کر گر پڑے )، چناں چہ ان کو اٹھا کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ " یا رسول اللہﷺ ! آپ سہل کے علاج کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں ؟ اللہ کی قسم یہ تو اپنا سر بھی اٹھانے کی قدرت نہیں رکھتے ۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سہل کی حالت دیکھ کر فرمایا کہ کیا کسی شخص کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ اس نے ان کو نظر لگائی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ( جی ہاں ) عامر بن ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ہمارا گمان ہے کہ انہوں نے نظر لگائی ہے، راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) عامر کو بلایا اور ان کو سخت سست کہا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کیوں مار ڈالنے کے درپے ہوتا ہے! تم نے سہل کو برکت کی دعا کیوں نہیں دی؟ ( یعنی اگر تمہاری نظر میں سہل کا بدن اور رنگ و روپ بھا گیا تھا تو تم نے یہ الفاظ کیوں نہ کہے "بَارَکَ اللهُ عَلَیْکَ"  تاکہ ان پر تمہاری نظر کا اثر نہ ہوتا ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر کو حکم دیا کہ ( تم سہل کے  لیے اپنے اعضاء کو ) دھوؤ اور اس پانی کو اس پر ڈال دو ، چناں چہ عامر نے ایک برتن میں اپنا منہ ہاتھ کہنیاں گھٹنے دونوں پاؤں کی انگلیوں کے پورے اور زیر ناف جسم ( یعنی ستر اور کولھوں ) کو دھویا اور پھر وہ پانی جس سے عامر نے یہ تمام اعضاء دھوئے تھے سہل پر ڈالا گیا ، اس کا اثر یہ ہوا کہ سہل فوراً اچھے ہو گئے اور اٹھ کر لوگوں کے ساتھ اس طرح چل پڑے، جیسے ان کو کچھ ہوا ہی نہیں تھا 

بخاری (5742) ابو داؤد (3890) ترمذی (973) و

سنن ابن ماجه، الطب، باب العین، ح:۳۵۰۹ وسنن الکبری للنسائی: ۴/ ۳۸۱۔ و شرح السنہ ومؤطا امام مالک)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علماء کے نزدیک نظر لگانے والے کے وضو کی صورت یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں یہ تحقیق  ہو کہ اس نے نظر لگائی ہے کہ اس کے سامنے کسی برتن یعنی پیالہ وغیرہ میں پانی لایا جائے اس برتن کو زمین پر نہ رکھا جائے پھر نظر لگانے والا اس برتن میں سے ایک چلو پانی لے کر کلی کرے اور اس کلی کو اسی برتن میں ڈالے پھر اس سے پانی لے کر اپنا منہ دھوئے پھر بائیں ہاتھ میں پانی لے کر دائیں کہنی اور دائیں ہاتھ میں پانی لے کر بائیں کہنی دھوئے اور ہتھیلی و کہنی کے درمیان جو جگہ ہے اس کو نہ دھوئے پھر داہنا پیر اور پھر اس کے بعد بایاں پیر دھوئے، پھر اسی طرح پہلے داہنا گھٹنا اور بعد میں بایاں گھٹنا دھوئے اور پھر آخر میں تہبند کے اندر زیر ناف جسم کو دھوئے اور ان سب اعضاء کو اسی برتن میں دھویا جائے، ان سب کو دھونے کے بعد اس پانی کو نظر زدہ کے اوپر اس کی پشت کی طرف سے سر پر ڈال کر بہا دے ۔

واضح رہے کہ اس طرح کا علاج اسرار و حکم سے تعلق رکھتا ہے جو عقل وسمجھ کی رسائی سے باہر کی چیز ہے ؛ لہذا اس بارے میں عقلی بحث کرنا لا حاصل ہے"۔(مشکاۃ المصابیح - مظاہر حق)

جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کرتے ہوئے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:
«بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ، مِنْ کُلَّ شَيْئٍ يُؤْذِيْکَ، مِنْ شَرِّ کُلِّ نَفْسٍ اَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ، اَللّٰهُ يَشْفِيْکَ، بِاسْمِ اللّٰهِ اَرْقِيْکَ»صحیح مسلم، السلام، باب الطب والمرض والرقی، ح:۲۱۸۶۔
''اللہ کے نام کے ساتھ میں آپ کو دم کرتا ہوں، ہر اس چیز سے جو آپ کو تکلیف دے، اور ہر انسان کے یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے، اللہ آپ کو شفا دے، میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو دم کرتا ہوں۔''

Antonyms:

https://quizizz.com/admin/quiz/5fd25fe7a46e98001be89c74 

Monday 7 December 2020

نقشہ دائمی اوقات نمازعلی گڑھ واطراف:

https://drive.google.com/file/d/1V33dT91vyOKS5N232V_s5QvRSK8TXqGB/view?usp=drivesdk 

اسباب فسخ وتفریق

 درج ذیل اسباب کی بناپر زوجین کے درمیان تفریق کے لئے قضاء قاضی شرط ہے1.عدم کفأت یاغیرکفومیں نکاح ہونا.2مہرکے اندرغیرمعمولی کمی3.خیاربلوغ4.شوہرکاحقوق زوجیت ادا نہ کرنا5.شوہرکاوطی پرقادرنہ ہونا.6.شوہرکاجذام,برص یااس جیسے کسی موذی مرض میں مبتلاء ہونا.7شوہرکامجنون ہونا.8.شوہرکامفقودالخبریاغائب ہونا.9.شوہرکاغائب  غیرمفقودالخبرہونا.10شوہرکااستطاعت کے باوجود نفقہ نہ دینا.11.شوہرکاادائیگئ نفقہ سے عاجز ہونا.12شوہرکابیوی کوسخت زدوکوب کرنا.13.زوجین میں شقاق کاپایاجانا.14.مردکااپنی حالت کے بارے میں  عورت کودھوکے میں ڈال کر نکاح کرنا.15.تفریق بسبب حرمت مصاہرت.16.تفریق بسبب فساد نکاح

کتاب الفسخ والتفریق :قاضی عبدالصمد رحمانی,و مجموعۂ قوانین اسلامی مرتبہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ)