https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 18 January 2021

علماء کی فضیلت

علما کرام کی فضیلت کے بارے میں  حضرت  :

 حضرت عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کاقول

" ان ایک ہزار عبادت گزاروں کی موت کا غم برداشت کرنا آسان ہےجو دن میں روزے رکھتے اور رات میں قیام کرتے ہیں بنسبت اس ایک عالم کى موت کے جو حرام اور حلال کا فرق سمجھتا ہو-"

[جامع بیان العلم  و فضلہ ، ابن عبدالبر,جلد ١.صفحہ ٦٥)
امام ابن القیم  رحمہ اللہ نے فرمایا:
فرض کرو ایک ایسا شخص ہے جسکے پاس دنیا بھر کی دولت ہو اور وہ بڑا سخی بھی ہو اور وہ ہزاروں لوگوں کی مدد بھی کرتا ہو اور انکی حاجات بھی پوری کرتا ہو- پھر وہ مر جاتا ہے اور اسکی رسائی اب اپنی دولت تک نہ ہو- پس ایک عالم کی موت بنسبت اس مالدار شخص کی موت کے بہت بڑا سانحہ ہے"-

[مفتاح دار السعادہ: ١/٢٦٥]
امام عبدالله بن مبارک رحمہ الله سے پوچھا گیا:
"بہترین لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا " علماء"-
ان سے پوچھا گیا کہ حقیقی بادشاہ کون ہیں؟
انھوں نے جواب دیا " سادہ  درویش لوگ"-
ان سے پوچھا گیا "بے کار لوگ کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا" وہ لوگ جو دین کو دولت کا ذریعہ بناتے ہیں"-
ان سے پوچھا گیا، " بھیڑ/ہجوم کون ہیں؟"
انھوں نے جواب دیا، " خزیمہ بن خازم(عہدعباسی   کے جرنیل)اور اسکے اصحاب".
اور انسے پوچھا گیا، " کم ظرف شخص کون ہے؟"
انھوں نے جواب دیا، "جو اپنے مہمان کو قیمتوں کے چڑھاؤ کا ذکر کرتا ہے"-

[ابو بکر الدینوری ، المجالسۃ و جواہر العلم ٢:١٨١ ]
 ابن شہاب الزہری :
ایک سنت کا درس دینا دو سو سالوں کے نفلی عبادت سے بہتر ہے-

[احمد بن حنبل، اصول السنہ، باب 6 : اہل سنہ کے امتیازی نشانیاں]
ابو ہریرہ رضی الله عنہ:
" مجھے یہ بہت محبوب ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے اپنے دین کو سمجھنے کے لئے بیٹھوں بجائے اسکے کہ میں پوری رات صبح ہونے تک عبادت کروں-"

[جامع بیان العلم فضائل جلد ١ صفحہ ٦٠]
امام ترمذ ی نے اپنے کتاب جامع ترمذی میں ایک باب 
" فقہ کی عبادت پر برتری کے بارے میں" قائم کیا ہے- اس باب میں ایک حدیث کچھ اسطرح ہے:
قیس بن کثیر سے روایت ہے:
" مدینہ سے ایک شخص ابو دردہ کے پاس آیا جب وہ دمشق میں تھے- تو انھوں نے پوچھا:
"  میرے بھانجے کیا بات تمھیں یہاں لائی ہے؟"
اسنے جواب دیا:
" ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے جسے آپ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے."
آپ رضی الله نے کہا :
" تو تم ادھر اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں آئے ہو؟
اس نے جواب دیا:
"نہیں"-
آپ نے پوچھا:
" کیا تم ادھر تجارت کے لئے آئے ہو؟-
اس نے کہا : " نہیں، میں صرف اس حدیث کی جانکاری کے لئے یہاں آیا ہوں"-
تو آپ رضی الله عنہ نے فرمایا :
بے شک میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ:

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَبْتَغِي فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَارِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِوَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِكَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِالْكَوَاكِبِ إِنَّ الْعُلَمَاءَوَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًاوَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَاوَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ أَخَذَبِحَظٍّ وَافِرٍ
" اگر کوئی شخص علم کا راستہ اختیار کرے گا تو الله اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا اور فرشتے طالب علم کی رضا کے لئے (اسکے پاؤں کے نیچے) اپنے پر بچھاتے ہیں – عالم کے لئے آسماں  و زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے- یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اس کے لئے استغفار کرتی ہیں- 
عالم کو عابد پر اس طرح فضیلت ہے جیسے چاند کو  ستاروں پر- علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بےشک انبیاء کی وراثت درہم  و دینار نہیں ہوتے بلکہ انکی میراث علم ہے- پس جس نے اسے حاصل کیا اس نے انبیاء کی وراثت سے بہت سارا حصہ حاصل کر لیا-
[جامع ترمذی :٢٦٨٢، اس روایت کی طرح اور بھی روایت ہیں اور انکی متن پر علماء کا اتفاق ہے]
امام العینی رحمہ الله صحیح بخاری کی شرح عمدة القاري (٢.٣٩)میں لکھتے ہیں- اس حدیث 
(علماء انبیاء کے وارث ہیں ) کی دلیل قرآن کی اس آیت میں ہے جہاں الله نے فرمایا:
پھر ہم نے ان لوگوں کو (اس) کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے پسند فرمایا۔ 
[سورہ فاطر :٣٢ ]
علماء کی سب سے پہلی جماعت صحابہ رسول صلی الله علیہ وسلم تھے، اور ان کے بعد تابعین ان کے بعد تبع تابعین اور یہ سلسلہ اس طرح چلتا گیا"-
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُودِاللَّهِ وَالْوَاقِعِ فِيهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوا سَفِينَةً،فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَاوَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلاَهَا،فَكَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَايَمُرُّونَ بِالْمَاءِ عَلَى الَّذِينَ فِي أَعْلاَهَا، فَتَأَذَّوْابِهِ، فَأَخَذَ فَأْسًا، فَجَعَلَ يَنْقُرُأَسْفَلَ السَّفِينَةِ،فَأَتَوْهُ فَقَالُوا مَا لَكَ قَالَ تَأَذَّيْتُمْ

بِي، وَلاَ بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ، فَإِنْ أَخَذُوا عَلَى يَدَيْهِأَنْجَوْهُ وَنَجَّوْاأَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَهْلَكُوهُ وَأَهْلَكُوا أَنْفُسَهُمْ
" اللہ کی حدود میں سستی برتنے والے( عام طور پر ایک جاہل یا عامی) اور اس میں مبتلا (یعنی الله کی حددو کی پابندی کرنے والے یا عالم) ہو جانے والے کی مثال ایک ایسی قوم کی سی ہے جس نے ایک کشتی ( پر سفر کرنے کے لیے جگہ کے بارے میں ) قرعہ اندازی کی ۔ پھر نتیجے میں کچھ لوگ نیچے سوار ہوئے اور کچھ اوپر ۔ نیچے کے لوگ پانی لے کر اوپر کی منزل سے گزرتے تھے اور اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔ اس خیال سے نیچے والا ایک آدمی کلہاڑی سے کشتی کا نیچے کا حصہ کاٹنے لگا ( تاکہ نیچے ہی سمندر سے پانی لے لیا کرے ) اب اوپر والے(یعنی علماء) آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کو ( میرے اوپر آنے جانے سے ) تکلیف ہوتی تھی اور میرے لیے بھی پانی ضروری تھا ۔ اب اگر انہوں نے نیچے والے(یعنی عام آدمی) کا ہاتھ پکڑ لیا تو انہیں بھی نجات دی اور خود بھی نجات پائی ۔ لیکن اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا تو انہیں بھی ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہو گئے ۔"

[صحیح البخاری ٢٦٨٦ ]
ابو امامہ باہلی رضی الله عنہفرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم- آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ ‏"‏ ‏.‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ ‏.‏ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ يَقُولُ عَالِمٌ عَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَى كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ ‏.
عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح میری تمہارےادنی ترین آدمی پر - پھر فرمایا کہ یقیناََ الله، فرشتے اور تمام اہل زمین  و آسماں یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں بھی، اس شخص کی لئے دعائے خیر کرتے ہیں اور رحمت بھیجتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے-
[جامع ترمذی :٢٦٨٥]
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ فَإِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالاً فَسُئِلُوافَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا ‏"
اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے ۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا ۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے ، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے ۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔

[صحیح بخاری:١٠٠، سنن ابن ماجہ، جلد ١، حدیث ٥٢]
عوف بن مالک الاشجعی رضی الله عنہ سے روایت ہے :
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک دفعہ آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: " لگتا ہے یہ علم کے اٹھائے جانے کا وقت ہے "، پس ان میں سے ایک نے کہا : " یا رسول الله ، علم کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے پاس کتاب الله ہے ، ہم اسے پڑھتے ہیں، اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسے اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں"- تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
" میں تمھیں مدینہ کے لوگوں میں سب زیادہ علم والا سمجھتا تھا، کیا یہود اور نصاریٰ کے پاس اپنی کتابیں نہیں تھی؟

[إقتضاء العلم العمل،الخطیب البغدادی مع تحقیق شیخ البانی ، جنہوں نے اسے صحیح کہا، صفحہ ٥٨]
رسول الله صلی الله وسلم نے فرمایا:
" کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کے علم میں سب سے پہلے کیا اٹھایا جائیگا ؟ آپ نے فرمایا :' خشوع اور الله کا خوف، یہاں تک کہ آنے والے وقت میں تم کسی میں بھی عاجزی اور الله کا خوف نہیں دیکھو گے-

عبد الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا:

عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ فَإِذَا أَخَذُوا مِنْ صِغَارِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا
8 نصيحة أهل الحديث للخطيب البغدادي لا يزال الناس بخير ما أخذوا العلم
"
لوگ ہمیشہ اچھائی پر رہیں گےجبتک وہ علم لیں اپنے بڑوں سے، قابل اعتماد اور ثقہ لوگوں سے اور علماء سے- اگر لوگ اپنے نوجوانوں اور برے و خیانت دار لوگوں سے علم لیں گے تو پھر وہ تباہ ہو جاینگے-
[ مسند احمد ، صفحہ ٣٤ اور نصیحه الخطیب البغدادی ٨، صحیح الالبانی ]

سمعت عبد الله بن ضمرة، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الا إن الدنيا ملعونة، ملعون ما فيها إلا ذكر الله وما والاه وعالم او متعلم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اور متعلم (علم سیکھنےوالے)کے. 
امام ابوعیسی ترمذی نے فرمایا:یہ حدیث غریب ہے.علامہ 
البانی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے
علم حدیث کی اصطلاح میں غریب سے مراد وہ روایتہے جس کے سلسلہ اسناد میں کسی طبقہ میں سند حدیث کی روایت کا دارومدار صرف ایک ہی راوی پر ہو،اگرچہ دوسرے طبقوں میں ،ایک سے زیادہ راوی بھی ہو سکتے ہیں۔
قرآن اللہ کی ذات و صفات اور قدرت کاملہ کا تعارف کراتا ہے ، لہٰذا اس کتاب کا جتنا زیادہ مطالعہ کیاجائے اتنی ہی اللہ کی معرفت حاصل ہوگی اور اللہ کی جتنی زیادہ معرفت حاصل ہوگی اتنا ہی بندہ اللہ سے ڈرے گا۔ اس کتاب کا پڑھنا اور پڑھاناعلماء کرام کا خاص مشغلہ ہے جس کی وجہ سے یہ اللہ کے بندوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں ، خود اللہ تعالیٰ اس کی گواہی دیتا ہے: ﴿إنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ العُلَمَاءُ ﴾(سورة الفاطر: 28) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ نے کئی مقامات پر ان کو تحفہٴ قدرو منزلت سے نوازا ہے، بنی آدم میں ایک اعلیٰ مقام عطا فرمایا ہے ، حتیٰ کہ اللہ نے جب اپنی شان وحدانیت( کلمہ توحید) کے لیے گواہ بنانا چاہا تو جہاں گواہی کے لیے اپنی ذات کا انتخاب فرمایا وہیں فرشتوں اور بنی نوع انسان میں سے صرف علماء کو گواہی کے لیے منتخب کیا، جویقیناً انتہائی شرف و فضل کی بات ہے ﴿شَہِدَ اللّٰہُ أَنَّہُ لا إلٰہَ إلاہُوَ وَالْمَلٰئِکَةُ وَأُولُوا العِلْمِ قَائِماً بِالقِسْطِ، لاإلٰہَ إلا ھُوَالعَزِیْزُ الْحَکِیْم﴾ (سورةآل عمران:18) اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی اللہ نہیں ،یہی شہادت فرشتوں اور سب اہل علم نے دی ہے ،وہ انصاف پہ قائم ہے ، اس زبردست حکیم کے سوا فی الواقع کوئی اللہ نہیں ہے۔ 
اللہ نے عالم اور غیر عالم کے درمیان برابری کو یکسر مسترد کردیاہے ، سورة الزمر آیت ۹ میں اللہ ارشاد فرماتاہے: ﴿قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الذِینَ یَعْلَمُوْنَ وَالذِیْنَ لایَعْلَمُونَ، إنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُولُوْا الألْبَاب﴾اے نبی! کہہ دیجیے کہ کیا جوعلم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے دونوں برابر ہیں؟ بلا شک عقل وفہم والے ہی نصیحت پکڑتے ہیں ،یعنی جن لوگوں کو اللہ کی معرفت حاصل ہے اور جو شرعی احکام سے اچھی طرح واقف ہیں وہ اور جن کو ان سب چیزوں کا علم نہیں دونوں برابر کیسے ہوسکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں ہوسکتے۔ ایک جگہ فرماتاہے کہ علماء ہی اصحاب عقل ودانش ہیں اور جو مثالیں قرآن کریم میں بیان کی جاتی ہیں، ان کو یہی لوگ سمجھتے ہیں۔ دیکھیے سورة العنکبوت آیت نمبر 43﴿وَتِلْکَ الأمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ وَمَا یَعْقِلُھَا إلا العَالِمُون﴾ یہ مثالیں ہیں جسے ہم لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں جس کو صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔
علم والوں کا علم جیسے جیسے ترقی کرتاہے خشیت الٰہی ویسے ویسے بڑھتی جاتی ہے ، غیر اللہ کا خوف جاتا رہتا ہے ، اللہ سے قربت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے ، فانی دنیا سے لگاوٴ کم ہوجاتا ہے ، اخروی شوق دنیوی خواہشات پہ غالب آتا ہے ، نتیجتاً ان کے ایمان میں جلا پیدا ہوتاہے، جو کثرت ِعبادت وریاضت کا سبب بنتا ہے، جس کی وجہ سے اللہ ان کے درجات بلند فرماتا ہے ، (دیکھیے سورة المجادلة آیت 11 )﴿یَرْفَعِ اللّٰہُ الذِینَ آمَنُوا مِنْکُم وَالذِینَ أُوتُوا العِلْمَ دَرَجَات﴾ جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور جن کو علم بخشا گیا اللہ ان کو بلنددرجے عطا فرمائے گا۔
حضرت امام احمد بن حنبل کے  بیٹے نے  اپنے والد سےایک بار سوال کیا کہ ابا جان! یہ شافعی کون شخص ہے ؟ میں دیکھتا ہوں کہ آپ اس کے لیے بہت دعائیں کرتے ہیں ، فرمانے لگے :  میرے بیٹے! شافعی دنیا کے لیے سورج اور لوگوں کے لیے عافیت ہیں ، یعنی نورِ علم سے دنیا کو روشن کرتے ہیں اور جہالت جیسے مرض کی دوا دیتے ہیں ۔ یہی وہ امام احمد بن حنبل ہیں جنھوں نے علی بن المدینی کے علم کی وجہ سے انھیں کبھی نام سے نہیں پکارا ، ہمیشہ کنیت سے پکارتے تھے۔ حضرت ابراہیم نخعی بلند پایہ عالم اور محدث بھی ہیں ، جب حضرت شعبی کے ساتھ اکٹھا ہوتے تو ان کی عمر کا لحاظ کرتے ہوئے زبان نہیں کھولتے تھے۔ 

No comments:

Post a Comment