https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 5 January 2021

داعش,دولت اسلامیہ یازندیقیت؟

 اس گروہ کو اقوام متحدہ اور کئی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔ داعش شہریوں اور فوجیوں بہ شمول صحافیوں اور امدادی کارکنان کے سر قلم کرنے اور دیگر قسم کی سزائیں دینے والی وڈیوجاری کرنے اور ثقافتی ورثہ کی جگہوں کو تباہ کرنے کے لیے مشہور ہے۔اقوام متحدہ کے نزدیک داعش انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم کا مرتکب ہے۔ شمالی عراق میں تاریخی سطح پر داعش دوسرے مذاہب کے افراد کو بڑی تعداد میں قتل بھی کر چکا ہے۔

داعش کا سنہ 1999ء میں جماعت التوحید و الجہاد کے طور پر ظہور ہوا، جوالقاعدہ کی حامی تھی اور 2003ء-2011ء عراقی کشیدگی میں حصہ لیا۔ جون 2014ء میں اس گروہ نے دنیا بھر میں خود کو خلافت کہا  اور خود کو دولت اسلامیہ کہلوانا شروع کر دیا۔ خلافت کے طور پر اس نے دنیا میں مسلمانوں پر مذہبی، سیاسی اور فوجی اقتدار کا دعوی کیا۔ خود خلافت کہلوانے پر اقوام متحدہ اور دیگر بڑے مسلم گروہوں نے اس کی ریاست کی تنقید اور مذمت کی۔.

شام میں اس گروپ نے حکومتی افواج اور حکومت مخالف جتھوں دونوں پر زمینی حملے کیے اور دسمبر 2015ء تک اس نے مغربی عراق اور مشرقی شام میں ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا جس میں اندازہً 2.8 سے 8 ملین افراد شامل تھے، جہاں انہوں نے شریعت کی نام نہاد تاویل کر کے اسے تھوپنے کی کوشش کی۔ کہا جاتا ہے کہ داعش 18 ممالک میں سرگرم ہے جس میں افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہیں اور مالی، مصر، صومالیہ، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور فلپائن میں اس کی شاخیں ہیں 2015ء میں داعش کا سالانہ بجٹ 1 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ تھا اور 30،000 جنگجوؤں سے زیادہ کی فوج تھی۔

جولائی 2017ء میں گروہ نے اس کے سب سے بڑے شہر سے کنٹرول کھو دیا اور عراقی فوج نے فتح حاصل کر لی۔ اس بڑی شکست کے بعد داعش آہستہ آہستہ زیادہ تر علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھا اور نومبر 2017ء تک اس کے پاس کچھ خاص باقی نہ رہا۔ امریکی فوجی عہدیداروں اور ساتھی فوجی تجزیوں کے مطابق دسمبر 2017ء تک گروہ دو فیصد علاقوں میں باقی رہ گیا۔ 10 دسمبر 2017ء میں عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے کہا کہ عراقی افواج نے ملک سے دولت اسلامیہ کے آخری ٹھکانوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ 23 مارچ 2019ء کو داعش اپنے آخری علاقے باغوز فوقانی کے نزدیک جنگ میں ہار گیا اور اس علاقے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔

دنیابھرمیں اس تنظیم نے اسلام کے نام پرجوبربریت اپنارکھی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس کی بنا ہی اسلام دشمنی ظلم وعدوان پر ہے.اصل مقصد میرے نزدیک صرف اسلام کے نام کواپنے ظلم وجبروت کے ذریعہ بدنام کرنا ہے .کل ہی پاکستان میں ہزارہ برادری کے چھ بے گناہ لوگوں کو مسلکی بنیاد قتل کردیاگیا.اس کی ذمہ داری اسی داعش نے لی ہے. مقتول شہداکاجرم یہ تھاکہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے..یہ تنظیم اسلام کوفرقہ پرستی  دہشت گردی اور جارحیت کامذہب مشہور کرنے کے لئے دن رات کوشاں ہے.

عراق وشام پرقبضہ کے دوران ان کے زخمی جنگجؤوں کاعلاج اسرائیل میں ہوتاتھا.

ہزارہ برادری کے افراد کاقتل یہ بھی ظاہر کرتاہے کہ پاکستان ایک ناکام مملکت ہے جہاں انسانی خون کتنا ارزاں ہے..آئے دن قتل عام بم دھماکے.مسلکی بنیادپرشہادت کی خبریں آتی رہتی ہیں .یہ فی الحقیقت حکومت پاکستان کی کھلی ناکامی ہے.یہ قتل عام تابکے.اورخوں ریزی تاچند؟جہاں انسانی جان محفوظ نہیں وہ مملکت صفحۂ دہر پر ناکام اور ادھوری ریاست قرار پاتی ہے وہاں کے حکمراں نااہل, رہنماں ناہنجاراور افواج وپولیس حرف غلط سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے.مسٹرعمران خان اور ان کے نااہل وزراء کواخلاقی شکست تسلیم کرتے ہوئے فی الفور مستعفی ہوجاناچاہئے.

No comments:

Post a Comment