https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Tuesday 8 June 2021

علی بن مدینی محدث جلیل رحمہ اللہ

 ابو الحسن کنیت اور علی نام تھا۔ ان کا خانوادہ بنو سعد کے ایک شخص عطیۃ السعد کا غلام تھا۔ آبائی وطن مدینہ المنورہ تھا۔ اس نسبت سے مدینی مشہور ہوئے۔ بعد میں ان کاخاندان بصرہ میں آباد ہو گیا تھا۔ یہیں 161ھ میں ان کی ولادت ہوئی اور وہیں ان کی نشو و نما اور ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔ ان کے والد اور دادا دونوں صاحب علم و فضل تھے۔ ان کے والد کے بارے میں تو خطیب بغدادینے لکھا ہے کہ وہ مشہور محدث تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم تو انہی کی آغوش تربیت میں ہوئی۔ بعض واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اختتام تعلیم سے پہلے ہی ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے سماع حدیث کے لیے یمن کا سفر کیا تو اس وقت ان کے اخراجات کی ساری ذمہ داری ان کی والدہ کے سر تھی۔

طلب علم

انہوں نے طلبِ علم کے شوق میں دور دور کی خاک چھانی تھی۔ مکہ، مدینہ، بغداد، کوفہ، عرض ممالک اسلامیہ کے ہر مشہور مقام تک طلب علم کے لیے گئے۔ خصوصیت سے یمن میں وہ تین سال تک مقیم رہے۔ علم حدیث میں ان کو فطری لگاؤ بھی تھا اور وراثتاً بھی یہ علم ان کے حصہ میں آ گیا۔ اس لیے ان کے علم کا سارا جوہر اس فن میں کھلا۔ سماع حدیث کے لیے جس وقت انہوں نے یمن کا سفر کیا تھا، اس وقت یہ مبتدی تھے، بلکہ اپنے حفظ و سماع سے حدیث کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ پاس جمع کر چکے تھے۔ خود بیان کرتے ہیں کہ میں نے سلسلہ سفر کے اعتبار سے ایک سند جمع کی تھی۔ میں جب یمن جانے لگا تو اس کو بحفاظت ایک صندوق میں بند کرتا گیا، لیکن تین برس کے بعد واپس ہوا تو یہ سارا ذخیرہ مٹی کا ڈھیر ہو چکا تھا۔ مجھ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ پھر دوبارہ اس کے جمع کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کا کوئی نگران نہیں تھا۔ صرف ان کی والدہ تنہا تھیں۔ ان کے قیام یمن کے زمانہ میں ان کو نہ جانے کتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہوگا، مگر ان کی والدہ نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان تکالیف کی اطلاع دے کر اپنے بیٹے کے سمندِ شوق کی راہ میں روڑہ ڈالیں، بلکہ جن لوگوں نے اس کا مشہور دیا ان کو ان کی والدہ نے اپنے لڑکے کا دشمن سمجھا۔ ان کے علمی شغف کا یہ حال تھا کہ رات کو سوتے سوتے کوئی حدیث یاد آ گئی یا کوئی شبہ ہوا تو فوراً لونڈی سے کہتے کہ چراغ جلا۔ چراغ چل جاتا اور جب وہ اپنی تسکین کر لیتے تب جا کر پھر ان کو نیند آتی تھی۔

اساتذہ

جن اساتذہ سے انہوں نے کسب فیض کیا تھا، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چند مشاہیر کے نام یہ ہیں۔ ان کے والد عبد اللہ بن جعفر مدینی، حماد بن زید،سفیان بن عیینہ، یحییٰ بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی، ابو داؤد طیالسی،ابن علیہ، سعید بن عامر الضبعی وغیرہ۔

علم و فضل

ان کے علم و فضل کا ہر کہ دمہ کو اعتراف تھا۔ یحییٰ بن سعید القطان ان کے اساتذہ میں تھے، مگر وہ کہا کرتے تھے کہ علی بن المدینی جتنا مجھ سے استفادہ کیا وہ اس سے کہیں زیادہ میں نے ان سے استفادہ کیا۔ اسی طرح مشہور محدث اور ان کے شیخ ابن مہدی کہا کرتے تھے کہ میں نے احادیث نبوی کا اتنا جاننے والا نہیں دیکھا۔ سفیان بن عیینہ کے یہ خاص اور محبوب تلامذہ میں تھے۔ بعض لوگوں کو ابن المدینی کے ساتھ ان کی نسبت و محبت ناگوار گزرتی تھی۔ ایک مرتبہ انہوں نے فرمایا کہ مجھے لوگ علی کی محبت پر ملامت کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! انہوں نے مجھ سے جتنا کسب فیض کیا ہے، اس سے کچھ زیادہ میں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔ سفیان بن عیینہ ان کو حدیث کا مرجع و ماویٰ کہتے تھے۔ کہتے تھے کہ اگر ابن المدینی نہ ہوتے تو میں درس بند کر دیتا۔ احمد بن حنبل ان کا اتنا احترام کرتے تھے کہ ادب سے ان کا نام نہیں لیتے تھے، بلکہ ہمیشہ ان کی کنیت ہی سے ان کو مخاطب کرتے تھے۔محمد بن اسماعیل بخاری ان کے تلامذہ میں ہیں۔ ان کا قول ہے کہ علی بن المدینی کے علاوہ کسی کے سامنے اپنے کو حقیر نہیں سمجھا۔ ان کے انتقال کے بعد کسی نے امام بخاری سے پوچھا کہ آپ کے دل میں کوئی خواہش باقی ہے؟ ایک خواہش ہے، وہ یہ ہے کہ ابن المدینی زندہ ہوتے اور عراق جا کر ان کی صحبت میں بیٹھتا۔ ابن ماجہ اور نسائی نے ان سے بالواسطہ روایتیں کی ہیں۔ امام نسائی کہتے تھے کہ اللہ نے ان کو علم حدیث ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔

تصانیف

وہ ان ائمہ تبع تابعین میں ہیں، جنہوں نے اپنی تحریری یادگاریں بھی چھوڑی ہیں۔ یحییٰ بن شرف نووی نے لکھا ہے کہ حدیث میں دو سو ایسی تصنیفیں چھوڑی ہیں، جس کی مثال ان سے پہلے نہیں ملتی۔ مگر ان میں بیشتر ضائع ہو گئیں۔ ابن حجر عسقلانی نے صرف اتنا لکھا کہ وہ صاحب تصانیف ہیں۔ ابن ندیم نے ان کی چند تصانیف کے نام گنائے ہیں: کتاب المسند بعللہ، کتاب المدلسلین، کتاب الضعفاء، کتاب العلل، کتاب الاسماء و الکنی، کتاب الاشربہ، کتاب النزیل۔

وفات

ابن المدینی سنہ وفات اور مقام اور وفات دونوں میں اختلاف ہے۔ سنہ وفات کسی نے 232ھ لکھا، کسی نے 235ھ اور کسی نے 238ھ لکھا ہے۔ مگرخطیب بغدادی نے 234ھ کو صحیح قرار دیا ہے۔ بعض اہل تذکرہ نے لکھا ہے کہ ان کا انتقال بصرہ ہی میں ہوا مگر خطیب بغدادی اور ابن ندیم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا انتقال سامراء میں ہوا

Monday 7 June 2021

حدیث کے لئے سب سے پہلے صحیح کااستعمال

    حدیث کے حوالے سے استعمال ہونے والی اصطلاحات صحیح وغیرہ کا استعمال سب سے پہلے علی بن المدینی رحمہ اللہ نے کیا ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وأما علي بن المديني، فقد أكثر من وصف الأحاديث بالصحة والحسن في مسنده وعلله، فظاهر عبارته قصد المعنى الاصطلاحي وكأنه الإمام السابق لهذا الاصطلاح، وعنه أخذ البخاري ويعقوب بن شيبة وغير واحد(النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر:۱/۴۲۶)

کہ اصطلاحی اعتبار سے علی بن المدینی نے صحت وحسن کے لفظ کو استعمال کیا ۔

۲۔                              اصطلاح " صحیح " کے دو معنی ہیں : (۱) معنی اخص : جو  کہ متاخرین کے ہاں ہے ، اس کی تعریف یہ ہے : هو ما اتصل سنده بنقل عدل تام الضبط ، غیر معلل ولا شاذ ، فالحدیث المجمع علی صحته عند المحدثین هو ما اجتمع فیه خمسة شرائط ۔(المدخل الی اصول الحدیث :۹۶، ط: دارالکتب پشاور)

علامہ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہی پانچ چیزیں محدثین کے نزدیک صحیح حدیث کی حقیقت میں معتبر ہیں ، فرماتے ہیں :

فهذه الخمسة هي المعتبرة فی حقیقة الصحیح عند المحدثین (توضیح الافکار :۱/۲۳)

اور صحیح کی یہ اصطلاح اس معنی میں علی ابن المدینی رحمہ اللہ کے دور میں شروع ہوئی اور سب سے پہلے اس اصطلاح کو علی ابن المدینی رحمہ اللہ نے استعمال کیا جیسا کہ ماقبل میں ہم نے یہ بات حوالہ کے ساتھ ذکر کردی ہے ۔

(۲) حدیث صحیح کا دوسرا معنی ، معنی اعم ہے ، یعنی  ہر وہ حدٰیث جو معمول بہ ہو، یہ متقدمین محدثین اور فقہاء واصولیین کے ہاں ہے ، علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :

ان الحدیث الصحیح بالمعنی الاخص عند المتاخرین من حوالی زمن البخاری ومسلم هو مارواه العدل الحافظ عن مثله من غیر شذوذ ولا علة ، وبالمعنی الاعم عند المتقدمین من المحدثین وجمیع الفقهاء والاصولیین هو المعمول به (الاجوبة الفاضلة ،ص: ۱۹۰، دارالکتب للنشر والتوزیع پشاور)

اس فر ق کو مد نظر رکھتے ہوئے اب ملاحظہ فرمائیں کہ ائمہ اربعہ نے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں یا نہیں ؟

۱۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ : 

                                                  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے کہ : انی اخذت بکتاب الله اذا وجدته فما اجده اخذت بسنة رسول الله صلی الله علیه وسلم والآثار الصحاح عنه التی فشت فی ایدی الثقات " (امام اعظم اور علم حدیث :۴۴۷، مکتبۃ الحسن )

یعنی جب میں مسئلہ کو کتاب اللہ میں پاتا ہوں تو وہاں سے لے لیتا ہوں ، اگر وہاں سے نہ ملے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحیح حدیثیوں سے لیتا ہوں جو ثقات کے ہاتھوں شائع ہوچکی ہیں ۔

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ کے اس طرز عمل کی شہادت ان الفاظ میں دی ہے :

"یأخذ بما صح عنده من الاحادیث التی یحملها الثقات وبالاخر من فعل رسول الله صلی الله علیه وسلم

(یعنی جو حدیثیں صحیح ہوتی ہیں ان کے نزدیک اور جن کو ثقہ روایت کرتے ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل ہوتا ہے وہی لیتے ہیں ۔(الانتقاء ،ص: ۲۶۲، ط: المکتبۃ الغفوریہ)

۲۔امام مالک رحمہ اللہ 

                                                 امام مالک رحمہ اللہ سے اذان کے مسئلہ میں ابو مصعب رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ نے فرمایا  کہ آپ ترجیع کے ساتھ اذان دیتے ہیں ، حالانکہ آپ کے پاس اس بارے میں کوئی حدیث نہیں ہے ، تو فرمانے لگے : مجھے اس سے زیادہ کوئی بات پسند نہیں کہ سب کے سامنے روزانہ  پانچ بار یہ اعلان کیاجائے جسے بچے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہمارے زمانے تک کے تمام لوگوں کو ذکر کریں جنہوں نے اس کو حدیث کو لیا ہو ، کیا ایسی صورت میں بھی فلان عن فلان کی ضرورت پڑے گی ، یہی میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح ترین حدیث ہے ، عبارت ملاحظہ فرمائیں :

قال ابو مصعب : قال ابویوسف رحمه الله : تؤذنون بالترجیع ولیس عندکم عن النبی صلی الله علیه وسلم فیه حدیث ! فالتفت مالک الیه وقال : یا سبحان الله ! ما رأیت امراً اعجب من هذا ، ینادی علی رؤوس الاشهاد فی کل یوم خمس مرات یتوارثها الابناء من لدن رسول الله صلی الله علیه وسلم الی زماننا هذا ، أیحتاج فیه الی فلان عن فلان ، هذا اصح عندنا من الحدیث "۔(الامام مالک وعمله بالحدیث من خلال کتابه الموطا :۱۶۸، ط: دارابن حزم )

۳۔امام شافعی رحمہ اللہ 

                                                      امام شافعی رحمہ اللہ " الرسالۃ " میں ایک حدیث کے تحت فرماتے ہیں:ودلالة علی انهم قبلوا فیه خبر الواحد ، فلا نعلم احدا رواه من وجه یصح عن النبی صلی الله علیه وسلم الا ابا هریرة (الرسالة :۴/۲۲۳، ط: دارالحدیث قاهره)

۴۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 

                                                  امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی حدیث کی صحت کے لیے صحیح کا لفظ استعمال کیا ہے ، علامہ لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 

قال الامام احمد بن محمد بن حنبل صح سبع مئة الف وکسر وهم خمسون الفا (ظفر الامانی للکنوی :۷۳)

حدثنا عن ابی عبدالله انه قال : کنت عند اسحاق بن ابراهيم بنیسابور فقال رجل من اهل العراق : سمعت احمد بن حنبل یقول : صح من الحدیث سبع مئة الف وکسر (ظفر الامانی:۷۴)۔

۳۔ صحیح کا لفظ استعمال کرنے والے محدثین :                              

امام بخاری رحمہ اللہ :                          

امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا :ما ادخلت فی کتابی الجامع الا ما صح وترکت من الصحیح حتی لا یطول (مقدمة فتح الباری :۱/۹، ط: دارالسلام )

 امام مسلم رحمہ اللہ :

امام مسلم رحمہ اللہ  سے باب التشہد فی الصلاۃ کے تحت  فاذا قرأ فانصتو ا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ میرے نزدیک صحیح ہے ،

فقال له ابوبکر: فحدیث ابی هریرة ؟ قال ہو صحیح ؟ یعنی فاذا قرأ فانصتوا ۔ فقال : هو عندی صحیح (صحیح مسلم :۴/۳۴۳،ط: دارالمعرفہ)

اس سے معلوم ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی حدیث کی صحت کے لیے بھی صحیح کا لفظ استعمال کیا ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ : 

امام ترمذٰی رحمہ اللہ کی عادت مشہور ہے کہ وہ جگہ جگہ پر اپنی سنن میں حدیث پر صحت وضعف وحسن کے اعتبار سے حکم لگاتے رہتے ہیں ۔

امام ابوداؤد رحمہ اللہ :

امام ابو داؤد رحمہ اللہ سے تاریخ بغداد میں منقول ہے :

سمعت ابا داؤد یقول : کتبت عن رسول الله صلی الله علیه وسلم خمسائة الف حدیث ، انتخبت منها ما ضمنته هذا الکتاب یعنی کتاب السنن ۔ جمعت فیه اربعة آلاف وثمان مائة حدیث ، ذکرت الصحیح ومایشبهه ویقاربه (تاریخ بغداد :۹/۵۷)۔

امام نسائی رحمہ اللہ :

امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی اپنی حدیث کی صحت کے لیے صحیح کا لفظ استعمال کیا ہے ، چنانچہ صحت کے بارے میں خود امام نسائی فرماتے ہیں :

قال النسائی : کتاب السنن کله صحیح "(سنن النسائی ، حاشیة زهر الربی :۱/۳، ط: قدیمی کتب خانہ)

امام ابن ماجہ رحمہ اللہ :

ہمیں تلاش کے باوجود ابن ماجہ رحمہ اللہ کی کوئی صریح عبارت نہ مل سکی جس میں انہوں نے حدیث کی صحت کے لیے صحیح کا لفظ استعمال کیا ہو ، البتہ دیگر ائمہ ومحدثین نے ان کی تعریف وتوصیف میں ذکر کیا ہے کہ ان کی احادیث کا بڑا مجموعہ حدیث صحیح پر مشتمل ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

عن ابن ماجة  قال : عرضت هذه السنن علی ابی زرعة فنظر فیه وقال : اظن ان وقع هذا فی ایدی الناس تعطلت هذه الجوامع او اکثرها (سیر اعلام النبلاء :۱۳/۶۷۸)۔

۴۔صحٰیح کا لفظ صحیحین کے استعمال کرنے والے حضرات 

صحیح البخاری :

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا نام ہی صحیح رکھا ہے ؛ کیونکہ انہوں نے اپنی کتاب کا نام :"الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول الله صلی الله علیه وسلم وسننه وایامه ، وروی من جهات عن البخاری ، قال : صنفت کتاب الصحیح لست عشر سنة (مقدمه صحیح البخاری:۱/۴،ط: قدیمی کتب خانہ)

صحیح مسلم :

خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  امام مسلم فرماتے ہیں :صنفت هذا المسند الصحیح من ثلاث مئة الف حدیث مسموعة "۔(تاریخ بغداد :۳/۱۰۰)

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ حدیث کی مشہور کتابوں کے ساتھ لفظ صحیح کا استعمال خود امام بخاری ومسلم رحمہا اللہ نے کیا ہے ، البتہ اسے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہنا بعد کے حضرات کا عمل ہے خود ان کا نہیں

Sunday 6 June 2021

دوسرے مسلمان کو کافر کہنا

 دوسرے مسلمانوں پرکفرکاحکم لگانے والے شخص کواپنے دین وایمان کی فکرکرنی چاہیئے،اپنی حرکات سے تائب ہوناچاہیے،ایسے شخص کوحکمت وتدبیرکے ساتھ سمجھایاجائے ،اگر اپنی ان حرکات سے بازنہ آئے تواس سے قطع تعلق کرنادرست ہے۔

مشکوۃ شریف میں ہے:

" حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)

دوسری روایت میں ہے:

''حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے جانتے بوجھتے کسی دوسرے کو باپ بنایا تو یہ بھی کفر کی بات ہے اور جس شخص نے ایسی بات کو اپنی طرف منسوب کیا جو اس میں نہیں ہے تو ایسا شخص ہم میں سے نہیں ہے اور اس کو اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنانا چاہئے اور جس نے کسی کو کافر کہا یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا حالانکہ وہ ایسا نہیں ہے تو یہ کلمہ اسی پر لوٹ آئے گا''۔

(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )

علم جرح وتعدیل

 علم جرح وتعدیل میں راویان ِحدیث کی عدالت وثقاہت اور ان کے مراتب پر بحث کی جاتی ہے

علم جرح  وتعدیل اور اسماء  الرجال میں فرق  

علم اسماء رجال میں راویانِ حدیث کے عام حالات پر گفتگو کی جاتی ہے اور علم جرح وتعدیل میں رواۃ ِحدیث کی عدالت وثقاہت اور ان کے مراتب پر بحث کی جاتی ہے یہ دونوں علم ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں۔اس موضوع پر ائمہ حدیث اوراصولِ حدیث کے ماہرین نے کئی کتب تصنیف کی ہیں لیکن یہ کتب زیادہ تر عربی زبان میں ہیں

علم جرح

علم جرح سے مراد روایانِ حدیث کے وہ عیوب بیان کرنا جن کی وجہ سے ان کی عدالت ساقط ہوجاتی ہے او ران کی روایت کردہ حدیث رد کر دی جاتی ہے

الفاظ جرح

علم جرح میں استعمال ہونے والے حروف اور ان کا مفہوم

  • دجال: سخت دھوکے باز،دجل حق اورباطل کے ملانے کو کہتے ہیں کذاب: بہت جھوٹا  (یا غلط بات کہنے والا)
  • وضاع: حدیثیں گھڑنے والا ۔
  • یضع الحدیث: حدیث گھڑتا ہے۔
  • متہم بالکذب: غلط بیانی سے متہم ۔
  • متروک: لائق ترک سمجھا گیا ۔
  • لیس بثقۃ: قابل بھروسا نہیں ۔
  • سکتو اعنہ: اس کے بارے میں خاموش ہیں۔
  • ذاہب الحدیث: حدیث ضائع کرنے والا ۔
  • فیہ نظر: اس میں غور کی ضرورت ہے۔
  • ضعیف جدا: بہت ہی کمزور ۔
  • ضعفوا: محدثین نے  اس کو کمزور ٹھہرایا ۔
  • واہ: فضول ، کمزور ۔
  • لیس بالقوی: روایت میں پختہ نہیں۔
  • ضعیف: روایت میں کمزو ر۔
  • لیس بحجۃ: حجت کے درجہ میں نہیں۔
  • لیس بذاک: ٹھیک نہیں ۔
  • لین:یاداشت میں نرم ۔
  • سئی الحفظ:یاداشت اچھی نہیں۔
  • لایحتج بہ: لائق حجت نہیں۔

علم تعدیل

علم تعدیل سے مراد روائ حدیث کے عادل ہونے کے بارے میں بتلانا اور حکم لگانا کہ وہ عادل یاضابط ہے

الفاظ تعدیل

علم تعدیل میں استعمال ہونے والے حروف اور ان کا مفہوم

  • ثبت حجت:اُونچے درجہ پرفائز ؛ یہاں تک کہ دوسروں کے لیے سند ۔
  • ثبت حافظ :اونچے درجہ پرفائز ، خوب یادرکھنے والا ۔
  • ثبت متقن :اونچے درجہ پرفائز  اور بہت مضبوط ۔
  • ثقہ  ثقہ :اونچے درجہ پرفائز ؛  بہت ہی قابل اعتماد ۔
  • ثقہ: قابل وثوق اور قابل اعتماد ۔
  • ثبت: اکھڑنے والا نہیں اونچے مقام پر فائز ۔
  • صدوق: بہت سچا ۔
  • لاباس بہ: اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ۔
  • محلہ الصدق: سچائی والا ۔
  • جید الحدیث: حدیث روایت کرنے میں بہت اچھا ۔
  • صالح الحدیث:روایت میں اچھا ۔   -

اس فن کی تفصیلی معلومات کے لیے یہ کتابیں نہایت معاون ہوں گی:
(۱)مولانا عبدالحئی لکھنوی (۱۳۰۴ھ) کی الرفع والتکمیل مع تحقیق وتعلیق شیخ عبدالفتاح ابوغدۃ (۱۴۱۷ھ)۔
(۲)علامہ تاج الدین سبکی کی جوانہوں نے طبقات الشافعیۃ میں احمد بن صالح مصری کے ترجمہ کے تحت تحریر فرمائی ہے اورالگ سے قاعدۃ فی الجرح والتعدیل کے نام شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ کی تعلیقات کے ساتھ اربع فی علوم الحدیث کے ضمن میں مطبوع ہے۔
(۳)شیخ عبدالوہاب عبداللطیف کی کتاب ضوابط الجرح والتعدیل۔
اسی طرح علم تخریج الحدیث ودراسۃ الاسانید کے موضوع پرتصنیف شدہ کتابیں بھی اصولِ جرح وتعدیل کوبیان کرتی ہیں؛ چنانچہ دکتور محمود طحان مولانا ابواللیث خیرآبادی اور دکتور سیدعانی کی کتب میں بھی اس فن سے متعلق کافی مواد موجود ہے۔

ایمۂ جرح وتعدیل :

یوں تو بڑے بڑے محدثین نے مختلف راویوں پر بحث کی ہے، لیکن جو حضرات اس موضوع میں زیادہ معروف ہوئے اورانہیں بجا طورپر جرح وتعدیل کا امام کہا جاسکتا ہے وہ درج ذیل  ہیں:
(۱)امیرالمؤمنین فی الحدیث شعبہ (۱۶۰ھ)
(۲)یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ)
(۳)عبدالرحمن بن مہدی (۱۹۸ھ)
(۴)یحییٰ بن معین (۲۲۳ھ)
(۵)علی بن المدینی (۲۳۴ھ)
(۶)امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ)
(۷)امام نسائی (۳۰۳ھ)
(۸)دارِقطنی (۳۸۵ھ)
ان حضرات نے جرح وتعدیل کے قوانین وضع کئے، رواۃِ حدیث کے درجات معلوم کئے اور ایک لاکھ کے قریب اشخاص  حدیث کے حالاتِ زندگی تحقیق  کے بعد مرتب کئے.

لم یصح :

اگرکسی حدیث کے بارے میں لم یصح کے الفاظ وارد ہوں تواس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث ضعیف یاموضوع ہے ہوسکتا ہے حسن ہو یاضعیف ہو، من گھڑت (موضوع) نہ ہو، حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:ترجمہ: کسی حدیث کے بارے میں لم یصح (یہ حدیث ثابت نہیں ہوئی) کہنے سے لازم نہیں آتاکہ وہ حدیث موضوع ہو۔ (القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد:۲۹)ہاں ایسی کتاب جس میں موضوع روایات کا بیان ہو اس میں لم یصح کے الفاظ واقعی اس کے حسن اور ضعیف ہونے کی بھی نفی کردیتے ہیں، لم یصح کے بعد اگر اس کا کسی درجے میں اثبات نہ ہو تواس کا مطلب واقعی یہ ہوتا ہے کہ وہ روایت موضوع ہو۔
جرح وہی لائقِ قبول ہے جس کا سبب معلوم ہو
کسی کے بارے میں نیک گمان کرنے کے لیئے دلیل کی ضرورت نہیں؛ لیکن بدگمانی کے لیئے دلیل ہونا لازمی ہے، بغیر دلیل کے کسی مسلمان کوبرا سمجھنا یاناقابلِ شہادت سمجھنا گناہ ہے، جس راوی پر جرح کی گئی ہو اور اس جرح کا سبب بھی معلوم ہو اور وہ راوی واقعی اس سبب کا مورد ہوتووہ جرح معتبر ہوگی اور ایسے راوی کی روایت مسترد کی جاسکے گی۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے کتنے راوی ہیں جن پر جرح کی گئی ہے، جیسے عکرمہ مولیٰ بن عباس، اسماعیل بن ابی اویس، عاصم بن علی، عمروبن مرزوق، سوید بن سعید وغیرہم؟ مگرچونکہ وہ جرح مفسر اور مبین السبب نہ تھی، اس لیئے شیخین نے اسے قبول نہیں کیا امام نوویؒ (۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:ترجمہ:جرح لائق قبول نہیں جب تک کہ اس کی تشریح واضح نہ ہو اور سبب جرح واضح نہ ہو۔ (تقریب نووی:۲۰۲، مع التدریب)


Saturday 5 June 2021

جمعہ کے دن زوال کا وقت

 بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جمعہ کے دن زوال نہیں ہوتا، اوقات کے لحاظ سے تمام ایام برابر ہیں، جمعہ کے دن بھی زوال کا وقت ہوتا ہے، اور دیگر ایام کی طرح اس دن بھی  اس وقت میں نماز پڑھنا درست نہیں۔

امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے صحیح حدیث ذکر کی ہے:

"أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه علیه وسلم کَانَ یُصَلِّي الجُمُعَةَ حِیْنَ تَمِیْلُ الشَّمْسُ".حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ پڑھا کرتے تھے جس وقت سورج ڈھلتا یعنی زوال کے بعد جمعہ پڑھتے تھے۔

صحیح بخاری کے مشہور شارح علامہ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں :

"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زوالِ آفتاب کے بعد ہی نمازِ جمعہ ادا کرتے تھے"۔ (فتح الباری) فقط

Friday 4 June 2021

شیخ حمدایوارڈ برائے ترجمہ وبین الاقوامی مفاہمت

 نئی دہلی/دوحہ(قطر) : شیخ حمد ایوارڈ برائے ترجمہ اور بین الاقوامی مفاہمت کی ذمہ دار کمیٹی نے ایوارڈ کے 7ویں سیزن کے آغاز کا اعلان کردیا۔اس سیزن میں مختلف زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ دوحہ قطر سے ایوارڈ کی میڈیا کمیٹی کوآرڈینیٹر عبیدطاہر نے یواین آئی کو یہ اطلاع دی۔انہوں نے بتایا کہ حکومت قطر دنیا کے مختلف زبانوں میں ترجمہ نگاری واس کی افادیت کو فروغ دینے کے لیے گزشتہ 6برس سے 'شیخ حمد ایوارڈ برائے ترجمہ اور بین الاقوامی مفاہمت' ایوارڈ تفویض کررہی ہے ، جو20 لاکھ ڈالر پر مشتمل ہوتی ہے ۔ اس سے قبل کمیٹی گزشتہ6 سیزن کے دوران دنیا کی 6 زبانوں کو مرکزی زبانوں کے زمرے میں اور 20 زبانوں کو فروعی زمرے میں شامل کرچکی ہے ۔ امسال 2021 کے لیے انگریزی کے ساتھ ساتھ چینی زبان کو بطور مرکزی زبان کے اور اردو، امہری، ڈچ اور جدید یونانی زبان کو فروعی زبانوں کی حیثیت سے شامل کیا گیا ہے ۔ ایوارڈ کی مجموعی مالیت 20 لاکھ ڈالر ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اس ایوارڈ کمیٹی کا مقصد دنیا کی مختلف اقوام اور ملل کے درمیان روابط کو فروغ دینا اور عربی زبان سے یا عربی زبان میں تراجم کے لیے افراد اور ثقافتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے اور عربی و عالمی سطح پر ان کے کردار کو سراہنا ہے

Tuesday 1 June 2021

سی اے اے کے خلاف احتجاج

 موجودہ سرکار ہر موڑ پر مکمل طورپر ناکام ثابت ہوئی ہے جہاں ایک طرف روزگار کا وعدہ تھا وہاں ہر طرف بے روزگاری کا بول بالا ہے، تعلیمی سسٹم مکمل طورپر تباہ ہے تو وہیں کورونا اور لاک ڈاؤن کے دور میں سرکار علاج و سہولیات دینے میں بالکل ناکام ہو چکی ہے ۔ان باتوں کا اظہار سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا بہار کے صوبائی جنرل سکریٹری انجنیئر احسان پرویز نے اپنے ایک پریس ریلیز میں کیا۔انہوں نے آگے کہاکہ آج جب خراب سسٹم کی وجہ سے آکسیجن نہ ملنے سے لاکھوں اموات ملک میں ہوچکی ہیں جنہیں ایک انسانی وقار کے ساتھ انتم سنسکار بھی نہیں مل سکا یہی وجہ ہیکہ ہزاروں لاشیں گنگا ندی میں بہتے ہوئے اترپردیش و بہار میں نظر آئی ہیں ان تمام ناکامیوں پر پردہ کرنے کیلئے موجودہ سرکار نے اپنی نفرت کی سیاست کا استعمال شروع کردیا ہے جس کے تحت موب لنچنگ و مساجد کی شہادت کے لگاتار واقعات ہمارے سامنے آ ئے ہیں۔ احسان پرویز نے کہاکہ اسی سلسلہ کے تحت اب سی.اے.اے کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے جس کیلئے مختلف ریاستوں سے شہریت کی درخواست مانگی گئی ہے جو کہ ملک کو برہمن وادی نظام کی طرف دھکیلنے کی کوشش کا حصہ ہے لیکن ملک کی سیکولر عوام اس کوشش کو بالکل کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ایس.ڈی.پی.آئی بہار صوبائی جنرل سکرٹری احسان پرویز نے آگے کہا کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ہر ظلم کے خلاف ہمیشہ سب سے پہلے سامنے آتی رہی ہے جس میں سی.اے.اے کے خلاف بھی سب سے پہلے تحریک شروع کرنے کا کام بھی تھا اور اب جبکہ ایک بار پھر اسے چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے تو سب سے پہلے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے پورے ملک میں آج احتجاجی مظاہرے منعقد کیے ہیں جس میں لاکھوں لوگوں نے حصہ لیا ہے ساتھ ہی ٹویٹر کیمپین بھی کیا گیا جو کہ ملکی سطح پر ٹرینڈ نمبر01 پر رہنے کے ساتھ ملک کے اکثر صوبوں میں بھی صوبائی سطح پر ٹرینڈ ایک پر رہا جس میں بہار نے بھی ایکٹولی حصہ لیا اور بہار کے 25 سے زائد ضلعوں میں ہزاروں فیملی اس احتجاج کا حصہ بنی و بہار میں بھی ٹویٹر ٹرینڈ مستقل ایک نمبر پر رہا جس میں ہزاروں افراد نے گھنٹوں تک مستقل حصہ لیا انہوں نے کہاکہ آگے بھی ہماری تحریک چلتی رہیگی اور ضرورت پڑی تو ہم پھر کارکنان و عوام کو گھروں سے باہر لاکر مضبوط جمہوری عوامی تحریک کھڑا کرنے کا کام کرینگے۔

شہریت کیلئے درخواست طلب کرنے پر احتجاج

 سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے بہار صوبائی صدر نسیم اختر نے اپنے جاری کردہ اخباری بیان میں وزرات داخلہ کے اس اقدام کی سخت تنقید کی ہے جس میں اس نے افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کے غیر مسلم مہاجرین سے گجرات، راجستھان، چھتیس گڑھ، ہریانہ اور پنجاب کے 13 اضلاع میں رہنے والے غیر مسلموں سے ہندوستانی شہریت کیلئے درخواستیں طلب کی ہے۔ نسیم اختر نے کہا ہے کہ مرکزی حکومت اس مضحکہ خیز عمل سے ملک کے عوام کا مذاق اڑارہی ہے جبکہ ملک پہلے ہی سے بدترین اور مشکل صورتحال سے گذر رہا ہے۔بی جے پی حکومت نے خود کو ملک پر حکومت کرنے سے قاصر اور نااہل ثابت کیا ہے۔ یہ تمام پہلوؤں میں بالکل ناکام حکومت ہے۔ بدنظمی اور بدعنوانی اس حکومت کی نشان تصدیق ہے۔ یہ حکومت فرقہ وارانہ منافرت کو بھڑکاکر اقتدارمیں آئی ہے۔ جس نے مذہبی عقیدے کی بنیاد پر ملک سے شہریوں کے ایک حصے کا صفایا کرنے کی پیش کش کی اور دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو منہدم اور منہدم جگہوں پر مندر وں کو تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پارٹی کے غنڈوں کو دوسرے مذہب کے ماننے والے شہریوں کو 'جئے شری رام 'کا نعرہ لگانے پر مجبور کرنے اور ان پر حملہ کرنے کیلئے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک مذہبی نعرے کو متعصب سنگھی غنڈوں نے خوفناک نعرے میں تبدیل کردیا ہے۔جو لوگ اس نعرے کو لگانے سے اتفاق نہیں کرتے ہیں ان کو سڑکوں پر بے رحمی سے پیٹ پیٹ کرقتل کر دیا جاتا ہے۔ ایندھن کی قیمتیں روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی جارہی ہیں۔ اشیاء کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں اور کوویڈ وبا ملک میں تباہی مچا رہا ہے۔ ایسے میں حکومت وباء سے متاثر مریضوں کیلئے صحت کی مناسب سہولیا ت کی فراہمی کیلئے فکر مند نہیں ہے۔ کوویڈ مریضوں کیلئے آکسیجن کی مناسب فراہمی کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ پی ایم کیئر فنڈکے ذریعہ فراہم کردہ وینٹلیٹر ناقص ہیں۔ ویکسین بھی دستیاب نہیں ہے۔ شمشان گھاٹ کا انتظام نہیں ہے جس کی وجہ سے لاشوں کو ندیوں میں پھینک دیا جارہا ہے۔ معیشت تباہ ہوگئی ہے، جی ڈی پی اتنی گری ہے کہ بنگلہ دیش ہندوستان سے آگے ہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ بی جے پی حکومت نے ملک کو کینیا جیسے غریب افریقی ممالک سے مدد لینے کی ذلت آمیز حالت میں دھکیل دیا ہے۔ جب ملک اور اس کے قدرتی شہریوں کو اپنی زندگی کیلئے سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور وبائی مرض پر قابو پانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں تو مودی روم کے نیرو بن کر جھوم رہے ہیں۔ حکومت اپنے شہریوں کی زندگیاں بچانے کی زحمت گوارا نہیں کررہی ہے بلکہ بعض عقائد کے نام نہاد مہاجرین کو شہریت دینے کی کوشش کررہی ہے۔ ایس ڈی پی آئی بہار صوبائی صدر نسیم اختر نے مزید کہا ہے کہ غیر مسلم مہاجرین کو شہریت دینے کا حکومت کا یہ اقدام بالکل مضحکہ خیز اور قابل مذمت ہے اور عوام کی توجہ کو بحرانوں سے ہٹانے اور حکومت کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے یہ منصوبہ بند فضول مشق ہے۔ مودی اور ان کی زیر قیادت بی جے پی حکومت ملک کیلئے ایک بہت بڑا بوجھ بن گئی ہے۔ نسیم اختر نے اختتام میں کہا ہے کہ ایسے صورتحال میں سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا نے بروز منگل یکم جون 2021کو پورے ملک میں بشمول بہار کے گھروں میں ہی ایک ملک گیر مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس میں اس کی ناکامی کو چھپانے کیلئے شہریت جیسے متنازعہ امور کو بھڑکانے کی مرکزی حکومت کی مکروہ کوشش کے خلاف پلے کارڈز اور پوسٹر تھام کر احتجاج کیا جائے گا۔

Monday 31 May 2021

شہریت ترمیمی قانون چوردروازے سے نافذکرنے کی کوشش

 متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019 کے ضابطے حالانکہ ابھی زیر غور ہیں۔ لیکن مودی حکومت نے پانچ ریاستی حکومتوں کو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے غیر مسلم شہریوں کو بھارتی شہریت دینے کا عمل شروع کرنے کی ہدایت دے دی ہے۔بھارت میں مودی حکومت نے ایک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرکے پانچ ریاستوں گجرات، چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے مجموعی طور پر تیرہ اضلاع کے حکام کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والی اقلیتی برادری کے افراد کی جانب سے شہریت کی درخواستوں کو موجودہ ضابطوں کے تحت ہی موصول، تصدیق اور منظور کریں۔ بھارتی وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) 2019 کے ضابطے ابھی وضع نہیں ہو سکے ہیں اس لیے اس نوٹیفیکیشن کو سی اے اے 2019 کے بجائے شہریت قانون 1955ء اور شہریت ضابطے 2009 ء کے تحت جاری کیا گیا ہے۔ اس نوٹیفیکیشن کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں، سکھوں، بدھ مت کے پیروکاروں، جینیوں اور مسیحیوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے اور اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ درخواستیں آن لائن طلب کی گئی ہیں۔ 

اپوزیشن کا الزام 

اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والی اقلیتی برادری کے لوگوں کو شہریت دینے کا یہ معاملہ مودی حکومت کے ”فسطائی کردار" کو اجاگر کرتا ہے۔ انہوں نے مودی حکومت پر 'چور دروازے سے‘ سی اے اے 2019 نافذ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری کا اس حوالے سے کہنا تھا، ”یہ شہریت ترمیمی قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ ابھی تک تو سی اے اے کے آئینی جواز کے حوالے سے عدالت میں دائر عرضیوں پر سماعت ہی شروع نہیں ہوئی ہے اور مرکزی حکومت نے سی اے اے 2019کے ضابطے بھی وضع نہیں کیے ہیں۔" سیتا رام یچوری کا مزید کہنا تھا کہ مودی حکومت نے جس طرح نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس پر سپریم کورٹ کو فوراً کارروائی کرنی چاہیے اور متنازعہ قانون کو چور دروازے سے نافذ کرنے کی کوشش کو روک دینا چاہیے۔ بائیں بازو کے ایک اور رہنما سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجا کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی وبا کے سبب مظاہروں پر پابندی عائد کیے جانے سے قبل تک متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے تھے اور بعض مقامات پر حکومت نے ان مظاہروں کو انتہائی 'بے دردی‘ کے ساتھ کچل دیا تھا، ”شہریت دینے کے متعلق نوٹیفکیشن جاری کرنے کے حکومت کے فیصلے سے اس کی بے حسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایسے وقت بھی گریز نہیں کر رہی ہے جب کورونا وبا کی وجہ سے ہر روز ہزاروں افراد مر رہے ہیں۔ اس سے حکومت کی بے حسی، عوام دشمنی اور جمہوریت مخالف رویے کا پتہ چلتا ہے۔" سی پی آئی ایم ایل کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ نے ایک ٹوئٹ کر کے سوال کیا کہ ابھی جبکہ سی اے اے کے ضابطے ہی وضع نہیں کیے جا سکے ہیں اس طرح کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے۔انہوں نے طنز کرتے ہو ئے کہا،”الیکشن ریلیو ں میں بی جے پی کے رہنما شہریت اسی طرح 'تقسیم‘ کر رہے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہر بھارتی شہری کے بینک کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے جمع کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب وہ پناہ گزینوں سے درخواست دینے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ لیکن کیا سی اے اے کے ضابطے نافذ ہو گئے ہیں؟" ’جانبدارانہ قانون‘ بھارتی پارلیمان نے دسمبر 2019ء میں شہریت ترمیمی قانون کو منظوری دی تھی، جس کے تحت یکم جنوری 2015ء سے قبل بھارت میں موجود پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندو، جین، سکھ، پارسی، مسیحی اور بودھوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس قانون کی سخت نکتہ چینی ہوئی تھی اور اسے جانبدارانہ قرار دیا گیا تھا۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔

اُردو کی بہترین غزلیں

https://docs.google.com/document/d/1EL5iuirytcuXdQtumKeLtkUWGEam9zA49tGN9mxFaBY/edit?usp=drivesdk