https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Sunday 6 June 2021

علم جرح وتعدیل

 علم جرح وتعدیل میں راویان ِحدیث کی عدالت وثقاہت اور ان کے مراتب پر بحث کی جاتی ہے

علم جرح  وتعدیل اور اسماء  الرجال میں فرق  

علم اسماء رجال میں راویانِ حدیث کے عام حالات پر گفتگو کی جاتی ہے اور علم جرح وتعدیل میں رواۃ ِحدیث کی عدالت وثقاہت اور ان کے مراتب پر بحث کی جاتی ہے یہ دونوں علم ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں۔اس موضوع پر ائمہ حدیث اوراصولِ حدیث کے ماہرین نے کئی کتب تصنیف کی ہیں لیکن یہ کتب زیادہ تر عربی زبان میں ہیں

علم جرح

علم جرح سے مراد روایانِ حدیث کے وہ عیوب بیان کرنا جن کی وجہ سے ان کی عدالت ساقط ہوجاتی ہے او ران کی روایت کردہ حدیث رد کر دی جاتی ہے

الفاظ جرح

علم جرح میں استعمال ہونے والے حروف اور ان کا مفہوم

  • دجال: سخت دھوکے باز،دجل حق اورباطل کے ملانے کو کہتے ہیں کذاب: بہت جھوٹا  (یا غلط بات کہنے والا)
  • وضاع: حدیثیں گھڑنے والا ۔
  • یضع الحدیث: حدیث گھڑتا ہے۔
  • متہم بالکذب: غلط بیانی سے متہم ۔
  • متروک: لائق ترک سمجھا گیا ۔
  • لیس بثقۃ: قابل بھروسا نہیں ۔
  • سکتو اعنہ: اس کے بارے میں خاموش ہیں۔
  • ذاہب الحدیث: حدیث ضائع کرنے والا ۔
  • فیہ نظر: اس میں غور کی ضرورت ہے۔
  • ضعیف جدا: بہت ہی کمزور ۔
  • ضعفوا: محدثین نے  اس کو کمزور ٹھہرایا ۔
  • واہ: فضول ، کمزور ۔
  • لیس بالقوی: روایت میں پختہ نہیں۔
  • ضعیف: روایت میں کمزو ر۔
  • لیس بحجۃ: حجت کے درجہ میں نہیں۔
  • لیس بذاک: ٹھیک نہیں ۔
  • لین:یاداشت میں نرم ۔
  • سئی الحفظ:یاداشت اچھی نہیں۔
  • لایحتج بہ: لائق حجت نہیں۔

علم تعدیل

علم تعدیل سے مراد روائ حدیث کے عادل ہونے کے بارے میں بتلانا اور حکم لگانا کہ وہ عادل یاضابط ہے

الفاظ تعدیل

علم تعدیل میں استعمال ہونے والے حروف اور ان کا مفہوم

  • ثبت حجت:اُونچے درجہ پرفائز ؛ یہاں تک کہ دوسروں کے لیے سند ۔
  • ثبت حافظ :اونچے درجہ پرفائز ، خوب یادرکھنے والا ۔
  • ثبت متقن :اونچے درجہ پرفائز  اور بہت مضبوط ۔
  • ثقہ  ثقہ :اونچے درجہ پرفائز ؛  بہت ہی قابل اعتماد ۔
  • ثقہ: قابل وثوق اور قابل اعتماد ۔
  • ثبت: اکھڑنے والا نہیں اونچے مقام پر فائز ۔
  • صدوق: بہت سچا ۔
  • لاباس بہ: اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ۔
  • محلہ الصدق: سچائی والا ۔
  • جید الحدیث: حدیث روایت کرنے میں بہت اچھا ۔
  • صالح الحدیث:روایت میں اچھا ۔   -

اس فن کی تفصیلی معلومات کے لیے یہ کتابیں نہایت معاون ہوں گی:
(۱)مولانا عبدالحئی لکھنوی (۱۳۰۴ھ) کی الرفع والتکمیل مع تحقیق وتعلیق شیخ عبدالفتاح ابوغدۃ (۱۴۱۷ھ)۔
(۲)علامہ تاج الدین سبکی کی جوانہوں نے طبقات الشافعیۃ میں احمد بن صالح مصری کے ترجمہ کے تحت تحریر فرمائی ہے اورالگ سے قاعدۃ فی الجرح والتعدیل کے نام شیخ ابوغدہ رحمہ اللہ کی تعلیقات کے ساتھ اربع فی علوم الحدیث کے ضمن میں مطبوع ہے۔
(۳)شیخ عبدالوہاب عبداللطیف کی کتاب ضوابط الجرح والتعدیل۔
اسی طرح علم تخریج الحدیث ودراسۃ الاسانید کے موضوع پرتصنیف شدہ کتابیں بھی اصولِ جرح وتعدیل کوبیان کرتی ہیں؛ چنانچہ دکتور محمود طحان مولانا ابواللیث خیرآبادی اور دکتور سیدعانی کی کتب میں بھی اس فن سے متعلق کافی مواد موجود ہے۔

ایمۂ جرح وتعدیل :

یوں تو بڑے بڑے محدثین نے مختلف راویوں پر بحث کی ہے، لیکن جو حضرات اس موضوع میں زیادہ معروف ہوئے اورانہیں بجا طورپر جرح وتعدیل کا امام کہا جاسکتا ہے وہ درج ذیل  ہیں:
(۱)امیرالمؤمنین فی الحدیث شعبہ (۱۶۰ھ)
(۲)یحییٰ بن سعید القطان (۱۹۸ھ)
(۳)عبدالرحمن بن مہدی (۱۹۸ھ)
(۴)یحییٰ بن معین (۲۲۳ھ)
(۵)علی بن المدینی (۲۳۴ھ)
(۶)امام احمد بن حنبلؒ (۲۴۱ھ)
(۷)امام نسائی (۳۰۳ھ)
(۸)دارِقطنی (۳۸۵ھ)
ان حضرات نے جرح وتعدیل کے قوانین وضع کئے، رواۃِ حدیث کے درجات معلوم کئے اور ایک لاکھ کے قریب اشخاص  حدیث کے حالاتِ زندگی تحقیق  کے بعد مرتب کئے.

لم یصح :

اگرکسی حدیث کے بارے میں لم یصح کے الفاظ وارد ہوں تواس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث ضعیف یاموضوع ہے ہوسکتا ہے حسن ہو یاضعیف ہو، من گھڑت (موضوع) نہ ہو، حافظ ابنِ حجرعسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (۸۵۲ھ) لکھتے ہیں:ترجمہ: کسی حدیث کے بارے میں لم یصح (یہ حدیث ثابت نہیں ہوئی) کہنے سے لازم نہیں آتاکہ وہ حدیث موضوع ہو۔ (القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد:۲۹)ہاں ایسی کتاب جس میں موضوع روایات کا بیان ہو اس میں لم یصح کے الفاظ واقعی اس کے حسن اور ضعیف ہونے کی بھی نفی کردیتے ہیں، لم یصح کے بعد اگر اس کا کسی درجے میں اثبات نہ ہو تواس کا مطلب واقعی یہ ہوتا ہے کہ وہ روایت موضوع ہو۔
جرح وہی لائقِ قبول ہے جس کا سبب معلوم ہو
کسی کے بارے میں نیک گمان کرنے کے لیئے دلیل کی ضرورت نہیں؛ لیکن بدگمانی کے لیئے دلیل ہونا لازمی ہے، بغیر دلیل کے کسی مسلمان کوبرا سمجھنا یاناقابلِ شہادت سمجھنا گناہ ہے، جس راوی پر جرح کی گئی ہو اور اس جرح کا سبب بھی معلوم ہو اور وہ راوی واقعی اس سبب کا مورد ہوتووہ جرح معتبر ہوگی اور ایسے راوی کی روایت مسترد کی جاسکے گی۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے کتنے راوی ہیں جن پر جرح کی گئی ہے، جیسے عکرمہ مولیٰ بن عباس، اسماعیل بن ابی اویس، عاصم بن علی، عمروبن مرزوق، سوید بن سعید وغیرہم؟ مگرچونکہ وہ جرح مفسر اور مبین السبب نہ تھی، اس لیئے شیخین نے اسے قبول نہیں کیا امام نوویؒ (۶۷۶ھ) لکھتے ہیں:ترجمہ:جرح لائق قبول نہیں جب تک کہ اس کی تشریح واضح نہ ہو اور سبب جرح واضح نہ ہو۔ (تقریب نووی:۲۰۲، مع التدریب)


1 comment: