https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 17 September 2021

خیرالقرون کے چوراورقاضی کاواقعہ

 ( پہلے زمانے کے چور بھی وقت کے فقیہ ہوتےتھے)


امام جوزی رحمہ اللہ نے قاضی انطاکیہ کا ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہےکہ وہ ایک دن اپنے کھیتوں کو دیکھنے شہر سے نکلے تو شہر کے باہر ایک چور نے دھر لیا۔چور نے کہا کہ جو کچھ ہے میرے حوالے کردیجئے ورنہ میری طرف سے سخت مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔؟

قاضی نے کہا:خدا تیرابھلا کرے۔ میں ایک عالم ہوں اوردین میں اس کی عزت کا حکم دیا گیا ہے ساتھ میں قاضی شہر بھی ہوں لہذا مجھ پر رحم کر۔

چور نے کہا :الحمدللہ !ایسا شخص جوبیچارہ فقیرونادارہو اوراپنانقصان پورانہ کرسکے۔آج ایک ایسے شخص کواللہ نے میر ے قابو میں دیاہے کہ اگر اسکو میں لوٹ بھی لوں توشہرواپس جاکر اپنا نقصان پورا کرسکتا ہے ۔؟

قاضی نے کہا :خدا کے بندے تو نےرسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث نہیں سنی کہ دین وہ ہے جسے اللہ نے مقرر کیا اور مخلوق سب اللہ کے بندے ہیں اور سنت وہی ہے جو میراطریقہ ہے۔ پس جس نے میراطریقہ چھوڑ کر کوئی بدعت ایجاد کی تو اس پر اللہ کی لعنت۔؟

تو اے چور!ڈاکے ڈالنااورلوگونکو راستے میں لوٹنا یہ بدعت ہے؟

 نبی کریم ﷺ کا طریقہ اور دین نہیں۔؟

میں آپ کا خیر خواہ ہوں آپ کو چوری سے منع کرتا ہوں کہ مبادا نبی کریم ﷺ کی اس لعنت وا لی وعید میں آپ شامل نہ ہو جائیں۔؟

چورنے کہا:میری جان! یہ حدیث مرسل ہے(جوشوافع کے ہاں  حجت نہیں)اوربالفرض اس حد یث کو درست بھی مان لیاجائے  توآپ کااس’’چور‘‘ کے بارے میں کیاخیال ہے جو بالکل’’قلاش‘‘ہو فاقوں نے اسکے گھرمیں ڈیرے ڈال دئے ہوں۔ایک وقت کے کھانے کا بھی کوئی آسرانہ ہو؟۔

ایسی صورت میں ایسے شخص کیلئے آپکا مال بالکل پاک وحلا ل ہے کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے عبد اللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرمایا۔۔

کہ دنیااگرمحض۔۔خون۔۔ہوتی تو مومن کااس میں سے کھانا حلال ہوتا۔نیز علما کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر آدمی کواپنے یااپنے خاندا ن کے مارے جانے کا خوف ہو تو اس کیلئے دوسرے کا مال حلال ہے۔؟

اور اللہ کی قسم میں اسی حالت سے گزررہا ہوں لہذا شرافت سے سارا مال میرے حوالے کردو۔؟

قاضی نے کہا:اچھا اگر معاملہ ایساہی ہے تومجھے اپنے کھیتوں میں جانے دووہاں میرے غلام و خادم نے آج جواناج بیچاہوگا۔ اسکی رقم میں ان سے لیکروا پس آکرآپکے حوالے کردیتاہوں۔؟

چور نے کہا:ہرگز نہیں آپکی حا لت اس وقت پرندے کی مانند ہے جوایک دفعہ پنجرے سے نکل گیاپھراسے پکڑنامشکل ہے۔؟مجھے یقین نہیں کہ ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد آپ دوبارہ واپس لوٹیں گے۔؟

قاضی نے کہا:میں آپکوقسم دینے کوتیارہوں کہ ان شاللہ میں نے  جووعدہ آپ سے کیا ہے اسے پور ا کروں گا۔؟

چور نے کہا :مجھے حدیث بیان کی مالک رحمہ اللہ نے انہوں نے نافع رحمہ اللہ سے سنی انہوں نےعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ :یمین المکرہ لاتلزم (مجبورکی قسم کااعتبار نہیں)

اسی طرح قرآن میں بھی ہے۔ الامن اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان مجبور آدمی زبان سے کلمہ کفر بول سکتاہے تومجبوریکی حالت میں جب کلمہ کفربولنے کی اجاز ت ہے توجھوٹی قسم بھی کھا ئی جاسکتی ہے ۔؟

لہذافضول بحث سے پرہیز کریں اورجوکچھ ہے آپکے پاس ہے میر ے حوالے کردیں۔؟

قاضی اس پرلاجواب ہوگیااور اپنی سواری،مال کپڑے سوائے شلوارکے اسکے حوالے کردیا۔؟

چور نے کہا:شلوار بھی اتار کر دیں۔؟

قاضی نے کہا :اللہ کے بندے نماز کاوقت ہوچکا ہے۔اوربغیر کپڑوں کے نمازجائزنہیں۔قرآن کریم میں بھی ہے۔خذوزینتکم عندکل مسجد(اعراف،۳۱)اوراس آیت کا معنی تفاسیرمیں یہی بیان کیا گیاہے کہ نماز کے وقت کپڑے پہنے رکھو۔؟

نیزشلوار حوالے کرنے پر میری بے پردگی ہوگی جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ وہ شخص ملعو ن ہے جو اپنے بھائی کے ستر کو دیکھے۔؟

چورنے کہا:اس کاآپ غم نہ کریں کیونکہ ننگی حالت میں آپکی نماز بالکل درست ہے۔؟

کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ہم سے حدیث بیان کی وہ روایت کرتے ہیں نافع رحمہ اللہ سے وہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ سے۔ کہ۔العراۃ یصلون قیاما و یقوم امامھم وسطہم۔ننگے کھڑے ہوکر نمازپڑھیں اورانکا امام بیچ میں کھڑاہو۔؟

نیزامام مالک رحمہ اللہ بھی ننگے کی نماز کے جواز کے قائل ہیں مگر ان کا فتوی یہ ہے کہ کھڑے ہوکر نہیں پڑھیں گے بلکہ متفرق متفرق پڑھیں گے اور اتنی دور دور پڑھیں گے کہ ایک دوسرے کے ستر پرنظرنہ پڑے؟ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا فتوی یہ ھیکہ کھڑے ہوکر نہیں بلکہ بیٹھ کر پڑھیں۔؟

اورسترپرنظر پڑنے والی جوروا یت آپ نے سنائی اول تووہ سندا درست نہیں اگر مان بھی لیں۔؟ تووہ حدیث اس پرمحمول ھیکہ کسی کے سترکو شہوت کی نگاہ سے دیکھاجائے۔ ؟

اورفی الوقت ایسی حالت نہیں اورآپ توکسی صورت میں بھی گناہ گارنہیں کیونکہ آپ حالت اضطراری میں ھیں۔خود بے پردہ نہیں ہورہے ہیں بلکہ میں آپ کو مجبور کررہا ہوں ۔؟

لہذالایعنی بحث مت کریں اور جوکہہ رہاہوں اسپر عمل کریں؟

قاضی نے یہ سن کر کہا کہ خدا کی قسم قاضی اور مفتی تو تجھے ہوناچاہئے ہم تو جھک ماررہے ہیں۔جو کچھ تجھے چا ہئے لے پکڑ لاحول ولاقوۃالاباللہ 


اور یوں چورسب کچھ لیکرفرار ہوگیا۔؟

(کتاب الاذکیا ،لابن الجوزی ،ص۳۸۹)

Thursday 16 September 2021

نابالغ بچے کوزکوۃ دی جاسکتی ہے یانہیں

 اگرنابالغ بچے کے والد باحیات ہیں  

اور صاحب نصاب نہیں ہیں، تو نابالغ بچے کو

 زکات دی جاسکتی ہے ۔(و) لا إلی (طفلہ) بخلاف ولدہ الکبیر وأبیہ وامرأتہ الفقراء وطفل الغنیة فیجوز لانتفاء المانع.(قولہ: ولا إلی طفلہ) أی الغنی فیصرف إلی البالغ ولو ذکرا صحیحا قہستانی، فأفاد أن المراد بالطفل غیر البالغ ذکرا کان أو أنثی فی عیال أبیہ أولا علی الأصح لما عندہ أنہ یعد غنیا بغناہ نہر۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۳۵۰/۲، ط: دار الفکر، بیروت )

مالدار شخص کی غریب بالغ اولاد کوزکوۃ دینا جائز ہے یانہیں

 بالغ لڑکا صاحبِ نصاب ہونے یا نہ ہونے میں اپنے والد کے تابع نہیں ہوتا، بلکہ اس کی اپنی حیثیت کا اعتبار ہوتا ہے، چنانچہ جو بالغ لڑکا صاحبِ نصاب نہ ہو اس لڑکے کو زکات  کی رقم دینا جائز ہے، چاہے اس کے والد مال دار اور صاحبِ نصاب ہوں، البتہ ایسے لڑکے کے لیے  بلا ضرورت زکات  کی رقم استعمال کرنے سے  بچنا زیادہ اولیٰ اور افضل ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 349):

"(و) لا إلى (طفله) بخلاف ولده الكبير.

 (قوله: ولا إلى طفله) أي الغني فيصرف إلى البالغ ولو ذكرا صحيحا قهستاني، فأفاد أن المراد بالطفل غير البالغ ذكرا كان أو أنثى في عيال أبيه أولا على الأصح لما عنده أنه يعد غنيا بغناه نهر (قوله: بخلاف ولده الكبير) أي البالغ كما مر".

دعاء گنج العرش,دعاء جمیلہ, درودتاج پڑھنا

 دعائے گنج العرش کے  الفاظ  میں کوئی شرکیہ یا خلافِ شریعت لفظ تو نہیں ہے، اس لحاظ سے  کسی کا دل چاہے تو پڑھنے  میں حرج بھی نہیں ہے، لیکن ان کی جو فضیلتیں لکھی گئی ہیں، مثلاً  ان دعاؤں کے پڑھنے سے تمام کام انجام پذیر ہو جاتے ہیں، رزق میں وسعت ہوگی،دین و دنیا کےمنافع ہوں گے، مشکلات حل ہو جائیں گی،ہر قسم کے مرض سے شفایاب ہوں گے اور ان فضیلتوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی کی گئی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو سکھائی تھی ، جب کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفائے راشدین، تابعین تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین میں سے کسی سے بھی یہ فضیلتیں ثابت نہیں اور نہ ہی یہ دعائیں منقول ہیں،بلکہ یہ ساری کی ساری فضیلتیں لوگوں نے اپنی طرف سے  گھڑ کر بیان کی ہیں؛  اس لیے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا ائمہ مجتہدین رحمھم اللہ  کی طرف منسوب کرنا یا ان سے منقول سمجھ کر پڑھنا اور ان کی فضیلتوں کو بھی منقول اور مروی سمجھ کر پڑھنا درست نہیں  ہے۔

’’دعائے جمیلہ‘‘  کے نام سے جو دعا نقل کی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں، اور اس کی فضیلت من گھڑت ہے، لہذا اس کی فضیلت کو سچا ماننا اور اس کے مطابق عمل کرنا  غلط ہے، اگرچہ اس کے الفاظ میں عمومی طور پر اسماء الحسنیٰ مذکور ہیں، لیکن بعض کلمات اللہ تعالیٰ کی شان کے مناسب نہیں ہیں، اس لیے بھی یہ دعا پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

"عن أبي هریرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلّی الله علیه و سلّم: ”من کذب عليّ متعمّدًا، فلیتبوأمقعدہ من النار.“

(صحیح مسلم: مقدمہ،النسخة الہندیة ٧/١،بیت الافکار،رقم:٣،صحیح البخاری:باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،النسخة الہندیة،٢١/١،رقم:١٠٧)

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ ( از مولانا محمد یوسف لدھیانوی  رحمہ اللہ)  میں ہے:

’’عہدنامہ، دُعائے گنج العرش، دُرود تاج وغیرہ کی شرعی حیثیت

س… میں نے اربعین نووی پڑھی جس کے صفحہ:۱۶۸ پر دُعائے گنج العرش، دُرود لکھی، عہدنامہ، وغیرہ کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ میں چند دُعاوٴں کو آپ کی رائے شریف کی روشنی میں دیکھنا چاہتا ہوں، ان دُعاوٴں کے شروع میں جو فضیلت لکھی ہوئی ہے، اس سے آپ بخوبی واقف ہوں گے، زیادہ ہی فضیلت ہے جو تحریر نہیں کی جاسکتی، کیا یہ لوگوں نے خود تو نہیں بنائیں؟

آپ صرف یہ جواب دیں ان میں سے کون سی دُعا قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور کون سی نہیں؟ اگر ثابت ہے تو جو شروع میں فضیلتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں؟ اگر نہیں تو کیا ہم کو ان دُعاوٴں کو پڑھنا چاہیے یا کہ نہیں؟ کیا یہ دُشمنانِ اسلام کی سازش تو نہیں؟

دُعائیں مندرجہ ذیل ہیں:

۱:-وصیت نامہ۔ ۲:- دُرود ماہی۔ ۳:- دُرود لکھی۔ 

۴:-دعائے گنج العرش۔ ۵:-دُعائے جمیلہ۔ ۶:-دُعائے عکاشہ۔

۷:- عہدنامہ۔ ۸:- دُرود تاج۔ ۹:- دُعائے مستجاب۔

ج… ”وصیت نامہ“ کے نام سے جو تحریر چھپتی اور تقسیم ہوتی ہے،وہ تو خالص جھوٹ ہے، اور یہ جھوٹ تقریباً ایک صدی سے برابر پھیلایا جارہا ہے، اسی طرح آج کل”معجزہ زینب علیہا السلام“ اور ”بی بی سیدہ  کی کہانی“ بھی سو جھوٹ گھڑ کر پھیلائی جارہی ہے۔

دیگر دُردو و دُعائیں جو آپ نے لکھی ہیں، وہ کسی حدیث میں تو وارِد نہیں، نہ ان کی کوئی فضیلت ہی احادیث میں ذکر کی گئی ہے، جو فضائل ان کے شروع میں درج کیے گئے ہیں، ان کو صحیح سمجھنا ہرگز جائز نہیں، کیوں کہ یہ خالص جھوٹ ہے، اور جھوٹی بات آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا وبالِ عظیم ہے۔ جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے، یہ بات تو قطعی ہے کہ یہ الفاظ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ نہیں، بلکہ کسی شخص نے محنت و ذہانت سے ان کو خود تصنیف کرلیا ہے، ان میں سے بعض الفاظ فی الجملہ صحیح ہیں، اور قرآن و حدیث کے الفاظ سے مشابہ ہیں، اور بعض الفاظ قواعدِ شرعیہ کے لحاظ سے صحیح بھی نہیں، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات تو کیا ہوتے!

یہ کہنا مشکل ہے کہ ان دُعاوٴں اور دُرود کا رواج کیسے ہوا؟ کسی سازش کے تحت یہ سب کچھ ہوا ہے یا کتابوں کے ناشروں نے مسلمانوں کی بے علمی سے فائدہ اُٹھایا ہے؟ ہمارے اکابرین ان دُعاوٴں کے بجائے قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کے منقول الفاظ کو بہتر سمجھتے ہیں، اور اپنے متعلقین اور احباب کو ان چیزوں کے پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں‘‘۔

( ٣ / ٥١٥، ط: مکتبہ لدھیانوی)

Wednesday 15 September 2021

درودتنجینا پڑھناکیساہے

 سب سے افضل درود، درودِ ابراہیمی ہے جو نماز میں پڑھا جاتا  ہے اور صحیح حدیث سے ثابت ہے۔  درودِ  تنجینا کے نام سے جو درود مروج ہے، اس کے الفاظ روایتِ حدیث سے ثابت نہیں، تاہم مجموعی طور پر اس کے الفاظ درست ہیں، لہذا پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،اسے بدعت کہنا درست نہیں۔

مشہور ادیب اور مؤرخ امام عبد الرحمن الصفوری الشافعی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب" نزھۃ المجالس" میں اس درود کو ذکر فرمایا ہے کہ کسی اللہ والے کو سمندری سفر پیش آیا  کہ سخت طوفان شروع ہوگیا اور سب غرق ہونے کو تھے کہ ان کو نیند کا جھونکا آیا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سواروں سے کہو! کہ یہ (درود تنجینا)پڑھیں۔ چناں چہ ان کی آنکھ کھلی، پھر تمام لوگوں نے مذکورہ درود پڑھا،  اللہ  کے حکم سے طوفان تھم گیا، آگے مزید لکھا ہے کہ کثرت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود پڑھا کریں؛ کیوں کہ اس کی برکت سے رکے معاملات حل ہوجاتے ہیں اور مصائب دور ہوجاتے ہیں۔ 

نزهة المجالس ومنتخب النفائس (2/ 85):

"قال بعض العارفين: كنت في مركب فعصفت علينا الريح فأشرفنا على الغرق فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم في منامي، فقال: قل لهم يقولون: اللهم صل على محمد صلاةً تنجينا بها من جميع الأهوال والآفات وتقضي لنا بها جميع الحاجات وتطهرنا بها من جميع السيئات وترفعنا بها عندك أعلى الدرجات وتبلغنا بها أقصى الغايات من جميع الخيرات في الحياة وبعد الممات، فاستيقظت فقلناها جميعاً فسكن الريح بإذن الله تعالى، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: أكثروا من الصلاة علي فإنها تحل العقد وتفرج الكرب". 

درود شریف کے کوئی بھی ثابت شدہ یا درست معنیٰ والے الفاظ پڑھنے سے درود شریف کی فضیلت حاصل ہوجائے گی۔

البتہ درودِ ابراہیمی دوسروے درودوں کی بہ نسبت افضل ترین کلمات پر مشتمل ہے، اور اس کے صیغے تمام درودوں سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں، رسولِ کریم ﷺنے نمازوں کے لیے اس درورد کا انتخاب فرمایاہے، لہذا نمازوں میں اور نماز کے باہر اس درود پاک کا وِرد زیادہ افضل ہے۔

عربی میں منقول درود پاک کے کلمات کے علاوہ دیگر زبانوں میں درود پاک پڑھنا  (بشرطیکہ وہ شرعی شرائط کے خلاف نہ ہوں) درست ہے، لیکن ظاہر ہے کہ دیگر زبانوں میں درود  کا پڑھنا وہ ترجمہ کہلائے گا، اور ان میں وہ تاثیر اور برکت نہ ہوگی  جو  درود پاک کے ان اصل کلمات کو پڑھنے میں ہے جو نبی کریم ﷺسے منقول ہیں ۔

مولاناجلال الدین رومی

 اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔جلال الدین، خداوندگار اور مولانا خداوندگار کے القاب سے نوازے گئے۔ لیکن مولانا رومی کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ جواہر مضئیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیاگیا ہے : محمد بن محمد بن محمد بن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابی بکرن الصدیق۔ اس روایت سے حسین بلخی مولانا کے پردادا ہوتے ہیں لیکن سپہ سالار نے انہیں دادا لکھا ہے اور یہی روایت صحیح ہے۔ کیونکہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔ ان کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومی 1207ء بمطابق 6 ربیع الاول604ھ میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم

ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہاؤالدین نے طے کرادیے اور پھر انہوں نےاپنے مرید سید برہان الدین کو جو اپنے زمانے کے فاضل علما میں شمار کیے جاتے تھے مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے۔ والد کے انتقال کے بعد 639ھ میںشام کا قصد کیا۔ ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

علم و فضل

مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علما میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریزمولانا کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے۔ وہ تقریباً 30 سال تک تعلیم و تربیت میں مشغول رہے۔ جلال الدین رومی ؒ نے 3500 غزلیں 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔

اولاد

مولانا کے دو فرزند تھے، علاؤ الدین محمد، سلطان ولد۔ علاؤ الدین محمد کا نام صرف اس کارنامے سے زندہ ہے کہ انہوں نے شمس تبریز کو شہید کیا تھا۔ سلطان ولد جو فرزند اکبر تھے، خلف الرشید تھے، گو مولانا کی شہرت کے آگے ان کا نام روشن نہ ہو سکا لیکن علوم ظاہری و باطنی میں وہ یگانہ روزگار تھے۔ ان کی تصانیف میں سے خاص قابل ذکر ایک مثنوی ہے، جس میں مولانا کے حالات اور واردات لکھے ہیں اور اس لحاظ سے وہ گویا مولانا کی مختصر سوانح عمری ہے۔

سلسلہ باطنی

مولانا کا سلسلہ اب تک قائم ہے۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہکہتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل بلقان، افریقہ اور ایشیا میں مولوی طریقت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔

وفات

بقیہ زندگی وہیں گزار کر تقریباً 66 سال کی عمر میں سن 1273ء بمطابق 672ھ میں انتقال کر گئے۔ مزار مولانا روم ایک میوزیم کی صورت میں موجود ہے جس کا رقبہ 18000 مربع میٹر ہے جو درگاہ حضرت مولانا، مسجد، درویشوں کے کمرے، لائبریری، تبرکات کے کمرے، سماع ہال، مطبخ، وسیع لان، صحن، باغیچہ اور دفاتر پر مشتمل ہے۔ مولانا میوزیم روزانہ صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک بغیر وقفہ کے کھلا رھتا ھےاور اس میں داخلے کے لیے ٹکٹ لینا ضروری ہے۔قافلہ سالار عشق حضرت مولانا جلال الدین رومی رضی اللہ عنہ نے شہر قونیہ (ترکی) کو اپنا دائمی مسکن بنایا جو ترکی کے مشہور تاریخی شہر استنبول سے 665 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ حضرت مولانا رومی فرماتے ہیں کہ قونیہ شہر کو ہم نے مدينة الاولياء کا لقب دے دیا ہے اس شہر میں ولی پیدا ھوتے رھیں گے۔ ترکی کے اسی خوبصورت ودلکش شہر میں حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک موجود ہے۔حضرت مولانا جلال الدین رومی کا مزار مبارک خوبصورت ودلکش اور ڈیزائن کے لحاظ سے ایک منفرد مزار مبارک ہے، ظاھری خوبصورتی اور جاہ وجلال کے علاوہ انوار و تجلیات کے بھی کیا کہنے. حضرت مولانا روم کے مزار مبارک کے ایک حصہ میں شیشے کی ایک الماری میں حضرت مولانا روم کے تبرکات محفوظ ہیں جن میں حضرت مولانا روم کا لباس مبارک، حضرت مولانا کی جائے نماز، کندھے پر ڈالنے والا رومال، مولانا کی تین ٹوپیاں اور دو عدد جبے سرفہرست ہیں۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔

نمونۂ اشعار 

بخدا خبر ندارم چو نماز می گزارم
کہ تمام شد رکوعے، کہ امام شد فلانے

بخدا، میں جب نماز پڑھتا ہوں تو مجھے کچھ خبر نہیں ہوتی کہ رکوع کب تمام ہو گیا اور یہ کہ امام کون تھا۔
----------

دوش دیوانہ شدم، عشق مرا دید و بگفت
آمدم، نعرہ مزن، جامہ مدر، ہیچ مگو

گزشتہ شب میں دیوانہ ہو گیا پھر عشق نے مجھے دیکھا اور کہا، اب میں آ گیا ہوں، لہذا نعرے مت لگا، کپڑے مت پھاڑ، اور کچھ مت کہہ۔
----------

اے کیمیا اے کیمیا، در من نگر زیں را کہ من
صد دیر را مسجد کنم، صد دار را منبر کنم

اے کیمیا گر، اے عناصر میں تغیرات کا مطالعہ کرنے والے، میری طرف دیکھ (اور غور کر کہ میں کیسے اور کس طرح عناصر میں تغیرات کرتا ہوں) کہ میں سینکڑوں بُتخانوں کو مسجد بنا دیتا ہوں اور سینکڑوں داروں کو منبر۔
----------

تو مرا جان و جہانی، چہ کنم جان و جہاں را
تو مرا گنجِ روانی، چہ کنم سود و زیاں را

بس تُو ہی میری جان ہے، تُو ہی میرا جہان ہے، مجھے جان اور جہان کی کیا فکر۔ تُو ہی میرا بیش بہا خزانہ ہے جو ہر وقت میرے ساتھ ہے، مجھے سود و زیاں کی کیا پروا۔
ہر کجا ویراں بوَد آنجا اُمیدِ گنج ہست
گنجِ حق را می نجوئی در دلِ ویراں چرا؟

جہاں کہیں بھی ویرانہ ہو وہاں سے خزانہ ملنے کی امید ہوتی ہے، تو پھر تُو ویران اور ٹوٹے ہوئے دلوں میں حق کے خزانے کی تلاش کیوں نہیں کرتا؟
----------

تو گُل و من خار کہ پیوستہ ایم
بے گُل و بے خار نباشد چمن

تُو پھول ہے اور میں کانٹا ہوں کہ دونوں باہم پیوستہ ہیں، پھول اور کانٹوں کے بغیر چمن نہیں ہوتا (دونوں باہم موجود ہوں تو چمن کا بھی وجود ہوتا ہے)۔
----------

دل و جاں شہیدِ عشقت، بہ درونِ گورِ قالب
سوئے گورِ ایں شہیداں، بگذر زیارتے کن

(میرے) جسم کی قبر میں دل اور جان تیرے عشق میں شہید ہو کر پڑے ہوئے ہیں، کبھی ان شہیدوں کی قبر کی طرف گذر اور زیارت ہی کر لے۔
----------

اے ما و صد چو ما ز پئے تو خراب و مست
ما بے تو خستہ ایم، تو بے ما چگونہ ای

اے کہ ہم اور ہمارے جیسے سینکڑوں تیرے لیے اور تیرے عشق میں خراب اور مست ہیں، ہم تو تیرے بغیر خستہ حال ہیں، تُو بتا تُو ہمارے بغیر کیسا ہے؟
----------

بیا بیا کہ مرا بے تو زندگانی نیست
ببیں ببیں کہ مرا بے تو چشم جیجوں است

آجا آجا کہ تیرے بغیر میری کوئی زندگی نہیں ہے، دیکھ دیکھ کہ تیرے بغیر میری آنکھیں ایسے ہیں جیسے جیجوں دریا۔
----------

کدام حُسن و جمالے کہ آں نہ عکسِ تو است
کدام شاہ و امیرے کہ اُو گدائے تو نیست

وہ کونسا حُسن و جمال ہے کہ جو تیرا (تیرے حُسن و جمال کا) عکس نہیں ہے؟ وہ کونسا بادشاہ اور امیر ہے کہ جو تیرا گدا نہیں ہے؟
----------

ما را نہ غمِ دوزخ و نے حرصِ بہشت است
بردار ز رُخ پردہ کہ مشتاقِ لقائیم

ہمیں نہ تو دوزخ کا کوئی غم اور ڈر ہے اور نہ ہی بہشت کی کوئی حرص اور خواہش ہے، بس تُو اپنے چہرے سے پردہ اُٹھا دے کہ ہم تو تیری دید ہی کے مشتاق ہیں۔
---------

حاجیِ عاقل طواف چند کند ہفت ہفت
حاجیِ دیوانہ ام من نشمارم طواف

عاقل اور ہوش و حواس والا حاجی کچھ طواف (گِن کے) سات سات بار کرتا ہے، میں ایک دیوانہ حاجی ہوں میں طواف شمار ہی نہیں کرتا۔

کیاحضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم پرجادو کیاگیاتھا؟

 سحر ایسے اثر کو کہتے ہیں جس کا سبب ظاہر نہ ہو خواہ معنوی کوئی سبب ہو جیسے خاص خاص کلمات کا اثر یا غیر محسوس چیزوں کا ہو جیسے جنات وشیاطین وغیرہ کا اثر۔ پس ان چیزوں کے اثر سے حضراتِ انبیائے کرام بھی متأثر ہوسکتے ہیں جیسے ظاہر اسباب کا اثر ان پر ظاہر ہوتا۔ اس میں ایمان کے قوی یا ضعیف ہونے کو دخل نہیں؛ بلکہ اسباب کی تاثیر کا دخل ہے۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سحر کے اثر کا ہونا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے، بخاری شریف ۲/۸۵۸، حدیث ۵۷۶۶میں روایت موجود ہے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لبید یہودی اور اس کی بیوی نے جادو کردیا تھا اس کے بعد آپ کو ایسا لگنے لگا تھا کہ آپ کسی کام کو کرچکے ہیں جب کہ آپ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایک روز آپ نے حق تعالیٰ سے دعا کی اس پر سورة الناس اور سورة الفلق نازل ہوئیں جن میں ایک کی پانچ آیتیں اور ایک کی چھ آیتیں مجموعہ گیارہ آیتیں ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے سحر کا موقعہ بھی معلوم کرادیا گیا تھا، چنانچہ وہاں سے مختلف چیزیں نکلیں جن میں سحر کیا گیا تھا اور اس میں ایک تانت کا ٹکڑا بھی نکلا جن میں گیارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں حضرت جبرئیل علیہ السلام سورتیں پڑھنے لگے ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھلنے لگی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل طور پر شفایاب ہوگئے ۔ مزید تفصیل کے لیے روح المعانی درمنثور اور شروحات حدیث میں موجود ہیں۔

Tuesday 14 September 2021

دعاء کے آداب

 دعا کے آداب مختلف احادیث میں اس طر ح   وارد ہوئے ہیں:

(۱) دعا پاک و صاف باوضو ہوکر کرے(۲)دعا کے وقت رخ قبلہ کی طرف ہو (۳) دعا سے پہلے کوئی نیک کام کرے (۴) دو زانو ہوکر بیٹھے (۵) دعا کے اول و آخر میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے، اسی طرح اول و آخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف بھیجے (۶) دعا کے وقت دونوں ہاتھ پھیلائے اور دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں کے برابر اٹھائے (۷) اپنی محتاجگی وعاجزی کا اظہار کرے (۸)آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے (۹) اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ ذکر کرکے دعا کرے (۱۰) دعا میں قافیہ بندی کے تکلف سے بچے (۱۱) جس قدر ممکن ہو حضور قلب کی کوشش کرے اور قبولیت کی امید قوی رکھے (۱۲) دعا میں الحاح و اصرار کرے (۱۳) کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے (۱۴) کسی محال چیز کی دعا نہ کرے (۱۵) اللہ تعالیٰ کی رحمت کو صرف اپنے لیے مخصوص نہ کرے (۱۶) دعا میں اول اپنے لیے دعا کرے پھر اپنے والدین اور دوسرے مسلمان بھائیوں کو شریک کرے (۱۷) دعا کے بعد آخر میں آمین کہے اور دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرلے (۱۸) مقبولیت دعا میں جلدی نہ کرے۔

سالوں سال میاں بیوی الگ رہیں توکیاخود بخود طلاق پڑجاتی ہے یانہیں

 جب تک شوہر طلاق نہ دیدے یا خلع کا معاملہ نہ کرلے یا شرعی پنچایت کے ذریعے نکاح فسخ نہ ہوجائے محض علیحدہ رہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ،سالوں سال بھی الگ رہنے کی وجہ سے بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوتی۔

Monday 13 September 2021

حالت جنابت میں قرآن مجید یادرود شریف پڑھنا

 حالتِ  جنابت میں قرآنِ  کریم چھوئے  بغیر  زبانی تلاوت بھی جائز نہیں۔   البتہ قرآنِ پاک کی وہ آیات جو دعا کے معنیٰ پر مشتمل ہوں (مثلاً: آیۃ الکرسی یا قرآنی دعائیں وغیرہ) انہیں دعا یا وِرد کی نیت سے پڑھنے کی،  اسی طرح درود شریف پڑھنے کی گنجائش ہے، تاہم اس کے لیے بھی مستحب ہے کہ  ان اَذکار سے پہلے وضو کرلیا جائے۔

الفتاوى الهندية (2 / 44):

"( ومنها) حرمة قراءة القرآن، لاتقرأ الحائض والنفساء والجنب شيئاً من القرآن، والآية وما دونها سواء في التحريم على الأصح، إلا أن لايقصد بما دون الآية القراءة مثل أن يقول: الحمد لله يريد الشكر أو بسم الله عند الأكل أو غيره فإنه لا بأس به".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1 / 293):

"(ولا بأس) لحائض وجنب (بقراءة أدعية ومسها وحملها وذكر الله تعالى، وتسبيح)".

و في الرد:

"(قوله: ولا بأس) يشير إلى أن وضوء الجنب لهذه الأشياء مستحب، كوضوء المحدث

Friday 10 September 2021

قاضی ضیاء الاسلام صاحب رحمہ اللہ

 ڈھونڈو گے گرملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم


قاضی ضیاء الاسلام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  اگرچہ باقاعدہ عالم یاقاضی نہ تھے تاہم علماء وقضاۃ کے گرویدہ خادم بلکہ مخدوم و مکرم تھے. وہ خاندانی طورپرقاضی تھے. اپنے گھرکانام بھی انہوں نے حویلی قاضیان رکھا. قاضی  صاحب نے  آج 10ستمبر 2021بروز جمعہ دس بجے دن میں وفات پائی. ان کی زندگی انتھک محنت اورجہد مسلسل سے عبارت تھی .علی گڑھ شہر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی زیرنگرانی دارالقضاء کاقیام انہی کی محنت ولگن کانتیجہ تھا . اسلام کے لئے سینہ سپر ہوکر دن رات محنت ولگن ان کاخاصہ تھا جب کبھی کسی اجلاس کی نظامت کے فرائض سرانجام دیتے تب ان کی کڑھن اوراسلامی گرویدگی کاپتہ چلتاتھاوہ بات بات  پرسرعام اشک بار ہوتے اورخوابیدہ مجمع کو جگادیتے بلکہ رولادیتے تھے .ان کی موت نے ایک بہت بڑا خلاء چھوڑ دیاہے جس کا پرہونابظاہرمشکل ہے .علی گڑھ میں غیرمسلموں میں تحریک  دینی دعوت کے وہ سربراہ وسرخیل تھے.داعئ اسلام  حضرت مولانا کلیم صدیقی حفظہ اللہ کے جب بھی پروگرام ہوتے قاضی صاحب نظامت فرماتے تھے .ان کی سرپرستی میں دینی دعوت کاکام پوری آب وتاب اور خاموشی کے ساتھ  رواں دواں تھا کہ اچانک قاضی صاحب نے آنکھیں موندلیں. تھکاماندہ راتوں کاجگاہوایہ مسافر تھک ہارکرسوگیا. 

کون جینے کے لیے مرتا رہے

لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے

دس بجے دن میں اکثر مرحوم آرام فرماتے تھے کیونکہ رات تہجد اور رجوع الی اللہ میں  اپنے رب سے مناجات کرتے گذرتی تھی .لیکن آج انہوں نے ایک لمبی نیند لینے کافیصلہ کرلیا تاکہ قاضئ الحاجات کے دربار میں ہشاش بشاش اور فرحت وانبساط کے ساتھ حاضری ہو اور پروردگار کائنات اپنی فیاضی وسخاوت کی باران رحمت سے اس ضعیف وناتواں خادم دین مبین کوبھی شرابور فرماتے ہوئے خازن جنت کوحکم فرمائے 

بگوبخازن جنت کی خاک ایں درویش 

بہ تحفہ برسوئے فردوس عود مجمرکن 

جب قوی جواب دیدیتے ہیں چلناپھرنامشکل ہوتاہے ایسی عمرمیں بھی فکرآخرت اور دین کی محبت  ان میں جوانوں کی سی توانائی و مستعدی سائیکل پرسوار سردی گرمی کے احساس کے بغیرادھرسے ادھرلئے پھرتی تھی 

مرادر منزل جاناں چہ امن وعیش چوں ہردم 

جرس فریاد می دارد کہ بربندید محملہا 

,دین کی لگن میں انہیں نہ کپڑوں کی فکر نہ صحت کا خیال, بس ایک دھن تھی جومیلی سی شیروانی میں اس مرد خود آگاہ کوصبح وشام لئے پھرتی تھی .

اب اسے ڈھونڈوچراغ رخ زیبا لے کر 

سادگی وشرافت کے اس پیکر میں بلا کی بے باکی اور ذہانت بھی مضمرتھی . انگریزی بھگارنے والے مغرور  نابکار معترض اسلام کوبسااوقات جواب ترکی بترکی سے اس طرح نوازتے کہ وہ  اپناسامنھ لے کردم بخود رہ جاتا غرض خوبیوں کے اس پیکرکوآج سپرد خاک کردیاگیا 

 اور وہ زبان حا ل  سے یہ کہتے رہ گئے :

شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ

اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

لیٹ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا

 بہتر تو ہے یہ کہ بیٹھ کر آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت کرے لیکن اگر بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرنے پر قدرت نہ ہو تو کوشش کرکے ٹیک لگا کر بیٹھ کر تلاوت کریں، لیکن اگر ٹیک لگا کر بیٹھنے میں بھی مشقت ہو تو لیٹ کر باوضو لباس اور ستر وغیرہ کا لحاظ رکھتے ہوئے اور دونوں پاؤں کو ملا کر لحاف یاچادر سے سر نکال کر قرآن پاک کی تلاوت کرسکتے ہیں۔

الفتاویٰ الہندیہ میں ہے:

رجل أراد أن يقرأ القرآن فينبغي أن يكون على أحسن أحواله يلبس صالح ثيابه ويتعمم ويستقبل القبلة؛ لأن تعظيم القرآن والفقه واجب، كذا في فتاوى قاضي خان ... لا بأس بقراءة القرآن إذا وضع جنبه على الأرض ولكن ينبغي أن يضم رجليه عند القراءة، كذا في المحيط. لا بأس بالقراءة مضطجعا إذا أخرج رأسه من اللحاف؛ لأنه يكون كاللبس وإلا فلا، كذا في القنية.

(کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع فی الصلاۃ والتسبیح ورفع الصوت عند قراءۃ القرآن، ج: 5، ص: 316، ط: رشیدیہ)

قرآن مجید کو ہاتھ لگانے کے بغیر ازبر تلاوت کرنے کی صورت میں وضو کرنا شرط نہیں ہے

شب جمعہ یاجمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھنے کی فضیلت

 شبِ جمعہ (جمعہ کی رات) اور جمعہ کے دن دونوں میں سورۂ  کہف پڑھنے کے فضائل احادیث میں وارد ہوئے ہیں، بعض روایات میں صرف جمعہ کی رات کا ذکر ہے اور بعض میں صرف جمعہ کے دن کا ذکر ہے، شارحینِ حدیث  نے لکھا ہے کہ ان تمام روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جن روایات میں صرف رات کا ذکر ہے ان سے مراد رات اپنے دن سمیت ہے اور جن روایات میں صرف دن کا ذکر ہے ان سے مراد دن اپنی گزشتہ رات سمیت ہے۔

’’سنن دارمی‘‘   کی روایت میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قال: من قرأ سورة الكهف ليلة الجمعة أضاء له من النور فيما بينه وبين البيت العتيق".

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ جس شخص نے سورہٴ کہف جمعہ کی رات میں پڑھی اس کے لیے اس کی جگہ سے مکہ تک ایک نور روشن ہوگا۔ (2/546دارالکتاب العربی)

فيض القدير (6/ 198):
"مَنْ قَرَأَ سُورَةَ الْكَهْفِ فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ أَضَاءَ لَهُ مِنَ النُّورِ مَا بَيْنَ الجُمُعَتَيْنِ". (ك هق) عن أبي سعيد".

(من قرأ سورة الكهف في يوم الجمعة أضاء له من النور ما بين الجمعتين) فيندب قراءتها يوم الجمعة وكذا ليلتها كما نص عليه الشافعي رضي الله عنه، قال الطيبي: وقوله: "أضاء له"، يجوز كونه لازمًا، وقوله: "ما بين الجمعتين" ظرف؛ فيكون إشراق ضوء النهار فيما بين الجمعتين بمنزلة إشراق النور نفسه مبالغةً، ويجوز كونه متعديًا، والظرف مفعول به، وعليهما فسر: {فلما أضاءت ما حوله} ... (ك) في التفسير من حديث نعيم بن هشام عن هشيم عن أبي هاشم عن أبي مجلز عن قيس بن عبادة عن أبي سعيد (هق عن أبي سعيد) الخدري قال الحاكم: صحيح، فردّه الذهبي، فقال: قلت: نعيم ذو مناكير، وقال ابن حجر في تخريج الأذكار: حديث حسن، قال: وهو أقوى ما ورد في سورة الكهف".

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ : جس نے جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھی اس  کے لیے دوجمعوں کے درمیان نورروشن ہوجاتا ہے۔

فيض القدير (6/ 199):
"(من قرأ سورة الكهف يوم الجمعة أضاء له من النور ما بينه وبين البيت العتيق) قال الحافظ ابن حجر في أماليه: كذا وقع في روايات يوم الجمعة وفي روايات ليلة الجمعة ويجمع بأن المراد اليوم بليلته والليلة بيومها".

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے سورہٴ کہف جمعہ کے دن پڑھی اس کے لیے اس کی جگہ سے مکہ تک ایک نور روشن ہوگا۔

’’فتاوی شامی‘‘  میں ہے:

"مطلب ما اختص به يوم الجمعة

(قوله: قراءة الكهف) أي يومها وليلتها، والأفضل في أولهما مبادرةً للخير وحذراً من الإهمال". (2/164دارالفکر