https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 10 September 2021

قاضی ضیاء الاسلام صاحب رحمہ اللہ

 ڈھونڈو گے گرملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم


قاضی ضیاء الاسلام صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  اگرچہ باقاعدہ عالم یاقاضی نہ تھے تاہم علماء وقضاۃ کے گرویدہ خادم بلکہ مخدوم و مکرم تھے. وہ خاندانی طورپرقاضی تھے. اپنے گھرکانام بھی انہوں نے حویلی قاضیان رکھا. قاضی  صاحب نے  آج 10ستمبر 2021بروز جمعہ دس بجے دن میں وفات پائی. ان کی زندگی انتھک محنت اورجہد مسلسل سے عبارت تھی .علی گڑھ شہر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی زیرنگرانی دارالقضاء کاقیام انہی کی محنت ولگن کانتیجہ تھا . اسلام کے لئے سینہ سپر ہوکر دن رات محنت ولگن ان کاخاصہ تھا جب کبھی کسی اجلاس کی نظامت کے فرائض سرانجام دیتے تب ان کی کڑھن اوراسلامی گرویدگی کاپتہ چلتاتھاوہ بات بات  پرسرعام اشک بار ہوتے اورخوابیدہ مجمع کو جگادیتے بلکہ رولادیتے تھے .ان کی موت نے ایک بہت بڑا خلاء چھوڑ دیاہے جس کا پرہونابظاہرمشکل ہے .علی گڑھ میں غیرمسلموں میں تحریک  دینی دعوت کے وہ سربراہ وسرخیل تھے.داعئ اسلام  حضرت مولانا کلیم صدیقی حفظہ اللہ کے جب بھی پروگرام ہوتے قاضی صاحب نظامت فرماتے تھے .ان کی سرپرستی میں دینی دعوت کاکام پوری آب وتاب اور خاموشی کے ساتھ  رواں دواں تھا کہ اچانک قاضی صاحب نے آنکھیں موندلیں. تھکاماندہ راتوں کاجگاہوایہ مسافر تھک ہارکرسوگیا. 

کون جینے کے لیے مرتا رہے

لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے

دس بجے دن میں اکثر مرحوم آرام فرماتے تھے کیونکہ رات تہجد اور رجوع الی اللہ میں  اپنے رب سے مناجات کرتے گذرتی تھی .لیکن آج انہوں نے ایک لمبی نیند لینے کافیصلہ کرلیا تاکہ قاضئ الحاجات کے دربار میں ہشاش بشاش اور فرحت وانبساط کے ساتھ حاضری ہو اور پروردگار کائنات اپنی فیاضی وسخاوت کی باران رحمت سے اس ضعیف وناتواں خادم دین مبین کوبھی شرابور فرماتے ہوئے خازن جنت کوحکم فرمائے 

بگوبخازن جنت کی خاک ایں درویش 

بہ تحفہ برسوئے فردوس عود مجمرکن 

جب قوی جواب دیدیتے ہیں چلناپھرنامشکل ہوتاہے ایسی عمرمیں بھی فکرآخرت اور دین کی محبت  ان میں جوانوں کی سی توانائی و مستعدی سائیکل پرسوار سردی گرمی کے احساس کے بغیرادھرسے ادھرلئے پھرتی تھی 

مرادر منزل جاناں چہ امن وعیش چوں ہردم 

جرس فریاد می دارد کہ بربندید محملہا 

,دین کی لگن میں انہیں نہ کپڑوں کی فکر نہ صحت کا خیال, بس ایک دھن تھی جومیلی سی شیروانی میں اس مرد خود آگاہ کوصبح وشام لئے پھرتی تھی .

اب اسے ڈھونڈوچراغ رخ زیبا لے کر 

سادگی وشرافت کے اس پیکر میں بلا کی بے باکی اور ذہانت بھی مضمرتھی . انگریزی بھگارنے والے مغرور  نابکار معترض اسلام کوبسااوقات جواب ترکی بترکی سے اس طرح نوازتے کہ وہ  اپناسامنھ لے کردم بخود رہ جاتا غرض خوبیوں کے اس پیکرکوآج سپرد خاک کردیاگیا 

 اور وہ زبان حا ل  سے یہ کہتے رہ گئے :

شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ

اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

No comments:

Post a Comment