https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Monday 29 November 2021

حدیث قرطاس

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت کا واقعہ ہے ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم آپ کے پاس جمع تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،لکھنے کے لئے لائیں میں تحریر کیے دیتا ہوںتا کہ آپ کو یاد رہے،حاضرین میں سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم شدیدبیمار ہیں ،تکلیف بڑھ گئی ہے ، ایسے عالم یہ زحمت کیوں اٹھائیں؟وحی الٰہی تو آپ پہنچا چکے ہیں اوردین مکمل ہو چکا ہے ،اس خیال کا اظہار دوسرے صحابہ سے کیا،کہا آپ تکلیف میں ہیں ، حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ ''ہمیں قرآن و سنت ہی کافی ہے۔''سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی بات پر حاضرین میں اختلا ف ہو جاتا ہے،بعض صحابہ آپ کی موافقت کرتے ہیں ،بعض مخالفت ،کاغذ قلم دے دیا جائے ،رہنے دیجئے،دے دیا جائے ،رہنے دیجئے تکرار کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔

سیدنا عمرکی رائے سے اختلاف کرنے والے کہنے لگے،اَہَجَرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم،کیوں نہیں دیتے آپ کی گفتگو کسی مریض کی طرح بے معنی تو ہر گز نہیں،اتنے میں نبی کریم کی آواز آتی ہے کاغذ قلم رہنے دیجئے،آپ یہاں سے اٹھ جائیں،مجھے تنہا ئی چاہیے۔تفصیل ملاحظہ ہو۔
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لَمَّا حُضِرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَفِی البَیْتِ رِجَالٌ فِیہِمْ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، قَالَ: ہَلُمَّ أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ ، قَالَ عُمَرُ: إِنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَلَبَہُ الْوَجَعُ وَعِنْدَکُمُ القُرْآنُ فَحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ، وَاخْتَلَفَ أَہْلُ البَیْتِ وَاخْتَصَمُوا، فَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ: قَرِّبُوا یَکْتُبْ لَکُمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ، وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ، فَلَمَّا أَکْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلاَفَ عِنْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُومُوا عَنِّی .
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت ہوا تو اس وقت گھرمیں کچھ صحابہ موجودتھے ، ایک سیّدنا عمر بن خطاب بھی تھے ، آپ نے فرمایا: قلم کاغذ لائیں ،میں تحریر کر دوں ، جس کے بعد آپ ہر گز نہ بھولوگے ۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں ہیں اور قرآن موجود ہے ، لہٰذا ہمیں قرآن و حدیث ہی کافی ہے ۔ گھر میں موجود صحابہ نے اس میں اختلاف کیا اور بحث مباحثہ ہونے لگا ، کچھ کہہ رہے تھے کہ (قلم کاغذ)دیں ، آپ تحریر فرما دیں ،جس کے بعد آپ ہر گز نہیں بھولیں گے ،کچھ کہہ رہے تھے،رہنے دیجئے آپ تکلیف میں ہیں۔اختلاف شدت اختیار کر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میرے پاس سے اُٹھ جائیں۔ ''
(صحیح البخاری :7366، صحیح مسلم :1637)
2 ایک روایت ہے :
ائْتُونِی بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاۃِ أَوِ اللَّوْحِ وَالدَّوَاۃِ - أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ أَبَدًا ، فَقَالُوا: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَہْجُرُ .
'' ہڈی اوردوات یا تختی اوردوات لائیں ،میں تحریر کر دیتا ہوںتاکہ اس کے بعد آپ نہ بھولیں ،صحابہ نے کہا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض موت میں تکلیف کی شدت سے تو ہر گز نہیں کہہ رہے۔''
(صحیح البخاری :4431، صحیح مسلم :1637)
3 سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں انہوں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جمعرات کا دن کتنا پریشان کن تھا،آپ روتے ہوئے فرما رہے تھے:
اشتد برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجعہ، فقال: ائتونی أکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدہ أبدا، فتنازعوا ولا ینبغی عند نبی تنازع، فقالوا: ما شأنہ، أہجر استفہموہ؟ فذہبوا یردون علیہ، فقال: دعونی، فالذی أنا فیہ خیر مما تدعونی إلیہ .
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرمرض موت کی تکلیف شدت اختیار کر گئی تھی،آپ نے فرمایا:میرے پاس کچھ لاؤ میں تحریر کر دیتا ہوں ،جس کے بعد کبھی نہیں بھولو گے،صحابہ نے آپس میں اختلاف کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں باہمی اختلاف مناسب نہیں تھا،صحابہ کہنے لگے ؛آپ کو کیا معاملہ درپیش ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات شدت تکلیف کی بنا پر تو ہر گز نہیں ہے،اس بات کو کیوں نہیں سمجھتے،صحابہ آپ کو باربار لکھنے کا کہہ رہے تھے،تو فرمایا؛''مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں ،آپ جو مجھے لکھنے کا کہہ رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ نہ لکھنا ہی بہتر ہے۔''
(صحیح البخاري : 4431، صحیح مسلم : 1637)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض موت میں شدت تکلیف سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی طرح سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی بیان کر رہے ہیں،اسی بنا پر سیدنا عمر نے اجتہادا کہہ دیا تھاکہ ہمارے لئے قرآن و حدیث کافی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی رائے کو درست سمجھا تب ہی صحابہ کے اصرار کے با وجود نہیں لکھا۔
لفظ ہَجَرَ کی تحقیق :
ہَجَرَ کا مطلب ہے ''شدت بخار میں بے معنی گفتگو ۔''صحابہ کرام نے اس کی انکار و نفی کی ہے،اَہَجَرَ میںہمزہ استفہام انکاری کاہے،ہَجَرَ فعل ماضی ہے بعض روایات میں بغیر ہمزہ کے ہَجَرَ اور یَہْجُرُ کے الفاظ ہیں،یہاں بھی ہمزہ محذوف ہے ،کلام عرب میں اس طرح کے محذوفات عام ہیں۔
حدیث میںفَقَالُوْا مَالَہ، اَہَجَرَ جمع کا صیغہ صراحت کرتا ہے کہ یہ الفاظ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے نہیں بل کہ دوسرے صحابہ کے ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ سے اختلاف کر رہے تھے، ان کا منشا یہ تھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شدت بخار کی حالت میں بے معنی گفتگو نہیں بل کہ شعور و احساس کے ساتھ کلام فرما رہے ہیں، لہٰذا اس حدیث میں سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی تنقیص کا کوئی پہلو نہیں بل کہ یہ حدیث ان کی عظمت کا استعارہ ہے،کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موافقت فرمائی اور لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا، صحیح بخاری(114)کے الفاظ ہیں:
قوموا عنی، ولا ینبغی عندی التنازع
''یہاں سے اٹھ جائیں ،میری موجودگی میں اختلاف مناسب نہیں۔''
صحیح بخاری (4431)صحیح مسلم (1637)میں ہے،نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دعونی، فالذی أنا فیہ خیر مما تدعونی إلیہ .
''مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں ،میں سمجھتا ہوںنہ لکھنا ہی بہتر ہے۔''
موافقات عمربن خطاب رضی اللہ عنہ :
قرآن و حدیث میں موافقات عمررضی اللہ عنہ کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں،بیسیوں مقامات ہیں ،جہاں سیدنا عمررضی اللہ عنہ رائے دیتے ہیں اور اسے شریعت کا درجہ مل جاتا ہے،سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ یاد ہو گا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تشریف فرما تھے کہ اچانک اٹھ کر چلے گئے ،کافی دیر تک واپس نہ آئے تو صحابہ کو پریشانی لاحق ہوئی کہ کوئی آپ کو نقصان نہ پہنچا ئے،چنانچہ وہ آپ کو ڈھونڈنے کے لئے نکلے،سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کوڈھونڈ لیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ میں تھے ،آپ نے اپنا جوتا انہیں دیااور ساتھ پیغام دیا کہ جو بھی کلمہ گو راستے میں ملے اسے جنت کی بشارت دیں ،سیدنا ابو ہریرہ نکلے سب سے پہلے جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی ،انہیں جنت کی خوش خبری سنائی تو انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ کو زور سے ہاتھ مارا وہ زمین پر گر گئے اور رسول اللہ کی طرف بھاگے ،سیدنا عمربھی ان کے پیچھے ہو لئے، سیدنا ابو رہریرہ نے نبی کریم سے شکایت کی تو آپ نے سیدنا عمر سے پوچھا :
یَا عُمَرُ، مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ، بِأَبِی أَنْتَ، وَأُمِّی، أَبَعَثْتَ أَبَا ہُرَیْرَۃَ بِنَعْلَیْکَ، مَنْ لَقِیَ یَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا قَلْبُہُ بَشَّرَہُ بِالْجَنَّۃِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّی أَخْشَی أَنْ یَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَیْہَا، فَخَلِّہِمْ یَعْمَلُونَ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَخَلِّہِمْ .
''عمر !ایسا کیوں کیا؟کہا آقا میرے ماں باپ آپ پہ قربان ،کیا آپ نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ پیغام دے کر بھیجا تھا کہ جو کلمہ گو ملے اسے جنت کی خوش خبری دو۔؟فرمایا ،جی ہاں! تو سیدنا عمرکہنے لگے کہ آقا ایسا نہ کیجئے،مجھے ڈر ہے کہ لوگ اسی پر تکیہ کر لیں گے،ایسے ہی چلنے دیںتا کہ یہ لوگ عمل کرتے رہیں،تو نبی کریم نے فرمایا: ایسے ہی چلنے دیں۔''
(صحیح مسلم : ح ،31 )
دیکھئے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام رساں کو مارا بھی ہے،مگر جب اپنا موقف سامنے رکھا تو نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم ان سے موافقت کر لیتے ہیں، جب کہ حدیث قرطاس میں تو سیدنا عمرصحابہ کے سامنے اپنا خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ نبی شدید تکلیف میں ہیں لہذا آپ کو یہ زحمت نہیں دینی چاہئے، بعض صحابہ اختلاف کرتے ہیں بعض اتفاق، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمروغیرہ کی موافقت کر دی جیسا کہ حدیث سے عیاں ہے۔ ،اللہ تعالی نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو فہم ثاقب اور بصیرت تامہ سے نوازا تھا،آپ
نے یہ بات اپنے اجتہاد سے کہی تھی ساتھ دلیل بھی دی۔حافظ نووی a(631۔676ھ)لکھتے ہیں؛
وَأَمَّا کَلَامُ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَدِ اتَّفَقَ الْعُلَمَاء ُ الْمُتَکَلِّمُونَ فِی شَرْحِ الْحَدِیثِ عَلَی أَنَّہُ مِنْ دَلَائِلِ فِقْہِ عُمَرَ وَفَضَائِلِہِ وَدَقِیقِ نَظَرِہِ .
''شارحین حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ یہ حدیث سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی بصیرت،فقاہت دین اور دقت نظری پر دلالت کناں ہے۔''(شرح صحیح مسلم : 90/11 )
کیا اختلاف صحابہ خلافت لکھنے میں مانع ہوا؟
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
إِنَّ الرَّزِیَّۃَ کُلَّ الرَّزِیَّۃِ مَا حَالَ بَیْنَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبَیْنَ أَنْ یَکْتُبَ لَہُمْ ذٰلِکَ الکِتَابَ مِنَ اخْتِلاَفِہِمْ وَلَغَطِہِمْ .
''بہت بڑی مصیبت تب واقع ہوئی جب صحابہ میں اختلاف اور شورہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔''(صحیح البخاری :7366، صحیح مسلم :1637)
یہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اجتہادی خطا ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ صحابہ کے اختلاف کی وجہ سے نہیں بل کہ خود ہی ترک کر دیاتھا،اس سے چند دن پہلے بھی ایسا ہی واقعہ پیش آچکا تھا آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ابوبکر اورعبد الرحمن بن ابی بکر کو بلائیں میں خلافت کا لکھ دیتا ہوں ،پھرارادہ ترک کر دیا فرمایا :
وَیَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُوْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ .
''خلافت کے لئے ابوبکر کے علاوہ نام آئے گا تواللہ تعالیٰ اور مومن انکار کردیں گے۔''
(مسند الامام أحمد :144/6، صحیح مسلم :2387)
یہاں تو صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،سیدہ عائشہ ہیں ،لکھنے سے روکنے والا کوئی نہیں مگر آپ ارادہ ترک کر رہے ہیں،کیوں؟جس بنا پر یہاں ارادہ ترک کیااسی بنا پر اس موقعہ پر بھی ترک کر دیا۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
إِنَّ النَّبِیَّ - صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - تَرَکَ کِتَابَۃَ الْکِتَابِ بِاخْتِیَارِہِ، فَلَمْ یَکُنْ فِی ذَلِکَ نِزَاعٌ، وَلَوِ اسْتَمَرَّ عَلَی إِرَادَۃِ الْکِتَابِ مَا قَدِرَ أَحَدٌ أَنْ یَمْنَعَہُ.
''اس میں تواختلاف ہی نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا،اگر آپ لکھنا چاہتے تو کس کی مجال تھی کہ آپ کو روکے۔''
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ : 317/6 )
نیز فرماتے ہیں:
ولا فی شَیْء ٍ مِنَ الْحَدِیثِ الْمَعْرُوفِ عِنْدَ أَہْلِ النَّقْلِ أَنَّہُ جَعَلَ عَلِیًّا خَلِیفَۃً. کَمَا فِی الْأَحَادِیثِ الصَّحِیحَۃِ مَا یَدُلُّ عَلَی خِلَافَۃِ أَبِی بَکْرٍ. ثُمَّ یَدَّعُونَ مَعَ ہَذَا أَنَّہُ کَانَ قَدْ نَصَّ عَلَی خِلَافَۃِ عَلِیٍّ نَصًّا جَلِیًّا قَاطِعًا لِلْعُذْرِ، فَإِنْ کَانَ قَدْ فَعَلَ ذَلِکَ فَقَدْ أَغْنَی عَنِ الْکِتَابِ، وَإِنْ کَانَ الَّذِینَ سَمِعُوا ذَلِکَ لَا یُطِیعُونَہُ فَہُمْ أَیْضًا لَا یُطِیعُونَ الْکِتَابَ. 
''کسی صحیح حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل پر نص موجود نہیں ،جب کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر صحیح ثابت نصوص موجود ہیں، شیعہ کا دعوی ہے کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم عل
یرضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل پر قطعی نص قائم کر چکے تھے،اگر ایسا ہی تھا تو لکھنے کی ضرورت کیا تھی؟روافض جو سن کر نہیں مان رہے ،لکھا ہوا مان لیتے؟
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ :318/6 )
عبد اللہ بن عباس مصیبت کسے کہتے ہیں ؟
ابن عباس رضی اللہ عنہ خلافت صدیق اکبررضی اللہ عنہ میں شک و انکارکو بڑی مصیبت قرار دے رہے ہیں ،کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تحریر فرما دیتے توگمراہ اور ظالم لوگوں کے لئے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
یَقْتَضِی أَنَّ ہَذَا الْحَائِلَ کَانَ رَزِیَّۃً، وَہُوَ رَزِیَّۃٌ فِی حَقِّ مَنْ شَکَّ فِی خِلَافَۃِ الصِّدِّیقِ، أَوِ اشْتَبَہَ عَلَیْہِ الْأَمْرُ؛ فَإِنَّہُ لَوْ کَانَ ہُنَاکَ کِتَابٌ لَزَالَ ہَذَا الشَّکُّ، فَأَمَّا مَنْ عَلِمَ أَنَّ خِلَافَتَہُ حَقٌّ فَلَا رَزِیَّۃَ فِی حَقِّہِ، وَلِلَّہِ الْحَمْد .
''سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے کلام سے ظاہر ہے کہ وہ خلافت صدیق رضی اللہ عنہ میں شک و انکار کو بڑی مصیبت اور ہلاکت قرار دے رہے ہیں،کیوں کہ اگرخلافت لکھی ہوئی ہوتی توشک دور ہو جاتا،جو سیدنا ابو بکرکی خلافت کو حق سمجھتا ہے ،اس کے لئے کوئی مصیبت نہیں۔''
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ : 25/6 )
سیدنا عبد اللہ بن عباس یہ بات اس وقت فرمایا کرتے تھے جب شیعہ جیسے گمراہ جنم لے چکے تھے،تو آپ خلافت صدیق کے انکار کو امت کی بربادی قرار دے رہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی رضی اللہ عنہ لکھنا چاہتے تھے؟
بعض کہتے ہیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ خلافت وامامت کے اوّل حقدار تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت وامامت لکھ کر دینا چاہتے تھے ، لیکن سیّدنا عمروغیرہ نے لکھنے نہیں دی ،ہم کہتے ہیں کہ آپ اس حدیث کابغور مطالعہ کریں، اس میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت وامامت لکھنا چاہتے تھے حافظ ابنِ کثیرلکھتے ہیں :
وَہٰذَا الْحَدِیْثُ مِمَّا قَدْ توَّہم بِہٖ بَعْضُ الْأَغْبِیَاءِ مِنْ أَہْلِ الْبِدَعِ مِنَ الشِّیعَۃِ وَغَیْرِہِمْ کُلِّ مُدَّعٍ أَنَّہُ کَانَ یُرِیدُ أَنْ یَکْتُبَ فِی ذٰلِکَ الکتاب ما یرمون إِلَیْہِ مِنْ مَقَالَاتِہِمْ، وَہٰذَا ہُوَ التَّمَسُّکُ بِالْمُتَشَابِہٖ.وَتَرْکُ الْمُحْکَمِ وَأَہْلُ السُّنَّۃِ یَأْخُذُونَ بِالْمُحْکَمِ.وَیَرُدُّونَ مَا تَشَابَہَ إِلَیْہِ، وَہٰذِہِ طَرِیقَۃُ الرَّاسِخِینَ فِی الْعِلْمِ کَمَا وَصَفَہُمُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی کِتَابِہٖ، وَہٰذَا الْمَوْضِعُ مِمَّا زَلَّ فِیہِ أَقْدَامُ کَثِیرٍ مِنْ أَہْلِ الضَّلَالَاتِ، وَأَمَّا أَہْلُ السُّنَّۃِ فَلَیْسَ لَہُمْ مَذْہَبٌ إِلَّا اتِّبَاعُ الْحَقِّ یَدُورُونَ مَعَہُ کَیْفَمَا دَارَ، وَہٰذَا الَّذِی کَانَ یُرِیدُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَنْ یَّکْتُبَہُ قَدْ جَاء َ فِی اَلاْئَحَادِیثِ الصَّحِیْحَۃِ التَّصْرِیحُ بِکَشْفِ الْمُرَادِ مِنْہُ۔۔۔۔۔۔
''اس حدیث سے اہلِ بدعت ، روافض وغیرہ کے بعض کندذہن لوگوں نے وہم کھایا ہے ۔ ان میں سے ہرشخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آپ ہمارا مدعا لکھنا چاہتے تھے ، یہ لوگ متشابہ کو لیتے ہیں اور محکم کو چھوڑ تے ہیں،جبکہ اہل سنت محکم کو لیتے اور متشابہ کو چھوڑتے ہیں، راسخ علماکا یہی طریقہ ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ، یہاںاکثر لوگ گمراہ ہو گئے ہیں ۔ اہل سنت کا تو مذہب ہی حق کی پیروی ہے ، حق ہی ان کا دائرہ کا ر ہے،نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم جو لکھنے کا ارادہ فرما رہے تھے ، صحیح احادیث میں اس کی وضاحت آگئی ہے ۔'' (البدایۃوالنہایۃ :227/5۔228)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا کیا چاہتے تھے؟
سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قلم کاغذ کیوں منگوایا،کیا لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے ؟یقینا خلافت ابوبکرلکھنے کا ارادہ تھا، صحیح احادیث حقیقت آشکارا کرتی ہیں :
حدیث نمبر1:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
لَمَّا کَانَ وَجَعُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الَّذِی قُبِضَ فِیہِ، قَالَ: ادْعُوا لِی أَبَا بَکْرٍ وَابْنَہُ، فَلْیَکْتُبْ لِکَیْلَا یَطْمَعَ فِی أَمْرِ أَبِی بَکْرٍ طَامِعٌ، وَلَا یَتَمَنَّی مُتَمَنٍّ ، ثُمَّ قَالَ: یَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ وَالْمُسْلِمُونَ مَرَّتَیْنِ۔۔۔۔۔۔،قَالَتْ عَائِشَۃُ: فَأَبَی اللّٰہُ وَالْمُسْلِمُونَ .
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا: ابوبکر اور ان کے فرزندعبدالرحمن کو بلائیں، وہ لکھ لیں تاکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پرکوئی حریص نہ رہے، پھر دو مرتبہ فرمایا ،اللہ تعالیٰ اور مسلمان کسی دوسرے کی خلافت تسلیم نہیں کریںگے۔۔۔۔۔۔ سیّدہ عائشہ فرماتی ہیں:چنانچہ اللہ تعالیٰ اور مسلمانوں نے میرے باپ کے علاوہ کسی کو تسلیم نہیں کیا ۔''
(مسند الامام أحمد :106/6،وسندہ، حسنٌ )
حدیث نمبر2
سیّدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مرض الموت میں فرمایاتھا :
أُدْعِی لِی أَبَا بَکْرٍ، أَبَاکِ، وَأَخَاکِ، حَتَّی أَکْتُبَ کِتَابًا، فَإِنِّی أَخَافُ أَنْ یَتَمَنَّی مُتَمَنٍّ وَیَقُولُ قَائِلٌ: أَنَا أَوْلَی، وَیَأْبَی اللّٰہُ وَالْمُوْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَکْرٍ .
'' اپنے والدابوبکر اور بھائی عبدالرحمن کو بلائیں تاکہ میں تحریر کردوں ،میں خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ کوئی خلافت کا متمنی کہے کہ میں زیادہ حق دار ہوں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ اور مومن ابوبکر کے علاوہ انکار کردیں گے۔''(مسند الامام أحمد :144/6، صحیح مسلم :2387)
حدیث نمبر3:
سیّدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں فرمایا:
لَقَدْ ہَمَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَی أَبِی بَکْرٍ وَابْنِہٖ فَأَعْہَدَ، أَنْ یَقُولَ: القَائِلُونَ أَوْ یَتَمَنَّی المُتَمَنُّونَ ـ
''میں نے ارادہ کیا ہے کہ ابوبکر اور آپ کے فرزندعبد الرحمن کی طرف پیغام بھیجوں ، اور (خلافت کی)وصیت کردوں ، تاکہ کوئی خلافت کا دعوی کر ے نہ تمنا ۔''(صحیح البخاری:7217)
یہ احادیث واضح پتادے رہی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی خلافت لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا ، پھر ترک کردیا ، اس لیے کہ جب خلافت کے لیے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ نام آئے گا تو اللہ تعالیٰ اور مومن انکار کردیں گے اور ایسا ہی ہوا۔
دین کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ خلافت وامامت اللہ کی طرف سے منصوص ہو ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے اوّل حقدار ہوں، پوری کی پوری امت اس کے خلاف متفق ہوجائے ،عقل کیا کہتی ہے ؟ اس پر سہاگہ یہ کہ سیّدناعلی نے اپنی پوری زندگی اس بات کا کبھی اظہار نہیں کیا کہ میں خلیفہ بلافصل ہوں ، لیکن مجھے میرے حق سے محروم کردیا گیا ہے ۔ کوئی دلیل ہے جو پیش کی جاسکے ؟ مان لیا جائے کہ سیّدنا علی نے اپنے حق کے لیے اعلانِ جنگ نہیں کیا ، امت کو ایک نئی آزمائش میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے تھے ، لیکن اپنے دور ِ خلافت میں اس بات کے اظہار میں کیا رکاوٹ تھی ؟راوی قصہ سیّدنا عبداللہ بن عباس جنہوں نے پریشانی کا اظہار بھی کیا ہے ، ان سے بھی یہ کہنا ثابت نہیں کہ سیّدنا علیرضی اللہ عنہ سے زیادتی ہوئی ہے یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خلافت لکھنا چاہتے تھے ، لیکن لکھ نہ سکے وغیرہ۔نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھ نہیں سکے تھے توفرماہی دیتے کہ میرے بعد علی خلیفہ بلافصل ہیں کچھ مانع تھا ؟بلکہ سیّدنا عبداللہ بن عباس،سیّدنا عمرکی فضیلت کے معترف تھے اور آپ کی خلافت کو برحق تسلیم کرتے تھے ۔فرماتے ہیں:
دَخَلْتُ عَلَی عُمَرَ حِینَ طُعِنَ فَقُلْتُ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ یَا أَمِیرَ الْمُوْمِنِینَ، أَسْلَمْتَ حِینَ کَفَرَ النَّاسُ، وَجَاہَدْتَ مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ خَذَلَہُ النَّاسُ، وَقُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ عَنْکَ رَاضٍ، وَلَمْ یَخْتَلِفْ فِی خِلَافِتِکَ اثْنَانِ، وَقُتِلْتَ شَہِیدًا ۔۔۔
'' سیّدناعمررضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو میں نے ان کے پاس آکرکہا:امیرالمومنین! جنت مبارک ہو!جب لوگوں نے اسلام کاانکار کیا تو آپ نے قبول کیا ، آپ نے اس وقت نبی کریم کا ساتھ دیا جب لوگوں نے آپ کوبے یار و مدد گا رچھوڑ دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوتے وقت آپ سے راضی تھے ۔ آپ کی خلافت میںدوانسانوںنے بھی اختلاف نہیں کیا اور اب آپ منصب شہادت پر فائز ہونے والے ہیں۔''
(المستدرک للحاکم :92/3، وصححہ ابن حبان :6891، وسندہ، صحیحٌ)
نیز دیکھیں:(صحیح البخاری:3692)
کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ وصی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟
اس بات کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ سیّدناعلی خودکو خلافت کا زیادہ حقدارسمجھتے ہوں یا آپ نے فرمایا ہو کہ میں وصی رسول ہوں ، بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
1 سیّدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں:
اِنَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، خَرَجَ مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی وَجَعِہِ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ، فَقَالَ النَّاسُ: یَا أَبَا حَسَنٍ، " کَیْفَ أَصْبَحَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: أَصْبَحَ بِحَمْدِ اللّٰہِ بَارِئًا "، فَأَخَذَ بِیَدِہٖ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ فَقَالَ لَہُ: أَنْتَ وَاللّٰہِ بَعْدَ ثَلاَثٍ عَبْدُ العَصَا، وَإِنِّی وَاللّٰہِ لَأَرَی رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَوْفَ یُتَوَفَّی مِنْ وَجَعِہِ ہٰذَا، إِنِّی لَأَعْرِفُ وُجُوہَ بَنِی عَبْدِ المُطَّلِبِ عِنْدَ المَوْتِ، اذْہَبْ بِنَا إِلَی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلْنَسْأَلْہُ فِیمَنْ ہٰذَا الأَمْرُ، إِنْ کَانَ فِینَا عَلِمْنَا ذٰلِکَ، وَإِنْ کَانَ فِی غَیْرِنَا عَلِمْنَاہُ، فَأَوْصَی بِنَا، فَقَالَ عَلِیٌّ: إِنَّا وَاللّٰہِ لَئِنْ سَأَلْنَاہَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَمَنَعَنَاہَا لاَ یُعْطِینَاہَا النَّاسُ بَعْدَہُ، وَإِنِّی وَاللّٰہِ لاَ أَسْأَلُہَا رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
'' سیّدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں سے واپس آئے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض موت کا واقعہ ہے ،صحابہ کرام نے پوچھا:ابو الحسن!رسول اللہ کی طبیعت کیسی ہے؟ کہا:الحمد اللہ!کافی بہتر ہے، پھر سیّدنا عباس بن عبدالمطلب نے سیّدنا علی کا ہاتھ تھام کر فرمایا:اللہ کی قسم!تین دن بعد آپ محکوم ہو جائیں گے،اللہ کی قسم!مجھے آثار نظر آرہے ہیں کہ نبی کریم اس مرض سے جانبرنہیں ہو سکیں گے،مجھے خوب شناخت ہے کہ وفات کے وقت بنی عبد المطلب کے چہرے کیسے ہو تے ہیں،ہمیں آپ کے پاس چلنا چاہیے اور پوچھنا چاہئے کہ خلافت کسے ملے گی؟ اگر ہم اس کے مستحق ہیں تو ہمیں معلوم ہو جائے ، اگر کوئی دوسرا ہے تو بھی پتا چل جائے اور اس کے بارے میں ہمیں وصیت فرما دیں، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ کی قسم!اب اگر پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تولوگ ہمیں کبھی خلافت نہیں دیں گے، میں تونہیں پوچھوں گا۔ ''
(صحیح البخاری :4447)
2 سیّدناابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا:
ہَلْ عِنْدَکُمْ کِتَابٌ؟ قَالَ: " لاَ، إِلَّا کِتَابُ اللّٰہِ، أَوْ فَہْمٌ أُعْطِیَہُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ، أَوْ مَا فِی ہٰذِہِ الصَّحِیفَۃِ. قَالَ: قُلْتُ: فَمَا فِی ہٰذِہِ الصَّحِیفَۃِ؟ قَالَ: العَقْلُ، وَفَکَاکُ الأَسِیرِ، وَلاَ یُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکَافِرٍ .
''کیا آپ کے پاس کو ئی خاص تحریر ہے ؟ فرمایا ، نہیں ، صرف کتاب اللہ کا فہم اور یہ صحیفہ ہے ۔ میں نے پوچھا: اس صحیفہ میں کیا ہے ؟ فرمایا:دیت ، قیدیوں کی آزادی اور یہ کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے(کے مسائل ہیں)۔''
(صحیح البخاری :111)
ثابت ہوا کہ سیّدنا علی وصی رسول نہیں تھے ، نہ ہی خودکو خلیفہ بلافصل سمجھتے تھے ، بلکہ آپ نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر خلافت وامامت کی بیعت کررکھی تھی ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہa(م:٧٢٨ھ)لکھتے ہیں: 
وَمَنْ تَوَہَّمَ أَنَّ ہٰذَا الْکِتَابَ کَانَ بِخِلَافَۃِ عَلِیٍّ فَہُوَ ضَالٌّ بِاتِّفَاقِ (عَامَّۃِ النَّاسِ)عُلَمَاء ِ السُّنَّۃِ وَالشِّیعَۃِ، أَمَّا أَہْلُ السُّنَّۃِ فَمُتَّفِقُونَ عَلَی تَفْضِیلِ أَبِی بَکْرٍ وَتَقْدِیمِہِ. وَأَمَّا الشِّیعَۃُ الْقَائِلُونَ بِأَنَّ عَلِیًّا کَانَ ہُوَ الْمُسْتَحِقَّ لِلْإِمَامَۃِ، فَیَقُولُونَ: إِنَّہُ قَدْ نَصَّ عَلَی إِمَامَتِہٖ قَبْلَ ذٰلِکَ نَصًّا جَلِیًّا ظَاہِرًا مَعْرُوفًا، وَحِینَئِذٍ فَلَمْ یَکُنْ یَحْتَاجُ إِلَی کِتَابٍ. 
''جویہ سمجھتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی رضی اللہ عنہ لکھنا چاہتے تھے، سنی وشیعہ علما کے ہاں بالاتفاق گمراہ ہے ۔اہل سنت سیّدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کی تفضیل وتقدیم پر متفق ہیں، جبکہ شیعہ کا نظریہ ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ہی امامت کے مستحق تھے ، وہ کہتے ہیں کہ ان کی امامت پر نص جلی ہے ،چنانچہ کسی تحریر کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ''
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ :135/3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھنے کا ارادہ اپنے اختیار سے ترک کیا تھا نہ کہ سیّدنا عمررضی اللہ عنہ وغیرہ کی وجہ سے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے روکنے سے تبلیغِ دین سے نہ رکے ، توصحابہ کے روکنے سے کیسے رُک سکتے تھے؟ بھلا صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغِ دین سے کیوں روکتے؟ وہ توآپ کے معاون ومددگار تھے ۔ 
ع دل صاحب ادراک سے انصاف طلب ہے۔
حَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ ؟
قول عمرحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ میں کتاب اللہ سے مراد حکم اللہ ہے،وہ احکام الہٰی جو قرآن و حدیث کی صورت میں لکھے جا چکے ہیں، قرآن کے ذکر سے حدیث پر التزامی دلالت ہو ہی جاتی ہے، سیدنا عمرکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر ترس آیا تب یہ بات کہہ دی چوں کہ آپ کا مرض موت شدت اختیا ر کر چکا تھا، آپ کے مد نظر یہ بات تھی کہ دین کی تکمیل ہو گئی ہے(الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ )''آج ہم نے تمہارا دین مکمل کر دیا۔''نازل ہو چکی ہے،قرآن کریم میں (مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ مِنْ شَیْء ٍ )''ہم نے کتا ب میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔'' اور (تِبْیَانًا لِکُلِّ شَیْء ٍ )''قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے۔''جیسے فرامین الہٰیہ موجود ہیں،قرآن کا بیان حدیث کی صورت میں موجود ہے،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھنے کی تکلیف دینا مناسب نہیں،بس اتنی سی بات تھی،جسے یار لوگوں نے افسانہ بنا دیا ،ویسے جو قرآن و حدیث کو محرف و مبدل سمجھتے ہیں انہیں فرمان عمرحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ کیسے ہضم ہو سکتا ہے؟
حافظ ذہبی رحمہ اللہ(٦٧٣۔٧٤٨ھ)لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا أَرَادَ عُمَرُ التَّخْفِیفَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، حِینَ رَآہُ شَدِیدَ الْوَجَعِ، لِعِلْمِہِ أَنَّ اللَّہَ قَدْ أَکْمَلَ دِینَنَا، وَلَوْ کَانَ ذَلِکَ الْکِتَابُ وَاجِبًا لَکَتَبَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہُمْ، وَلَمَا أَخَلَّ بِہِ .
''سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت تکلیف میں دیکھا اسی لیے تخفیف کا ارادہ فرمایا کہ آپ جانتے تھے دین مکمل ہو چکاہے،خلافت تحریر کرنا واجب ہوتی تو نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم اسے ضرور لکھ دیتے،کبھی ترک نہ کرتے۔''
(تاریخ الاسلام:813/1،ت:بشار سیر اعلام النبلائ338/2)
تنبیہ :
اگر کوئی بد باطن یہ کہے کہ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلافت علی لکھنا چاہتے تھے،جوصحابہ کی وجہ سے نہ لکھ سکے ،تو اس کی بات صریح باطل ہے،اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین وصیتیں فرمائی تھیں،خلافت علی بلا فصل کے بارے میں لکھ نہیں سکے تھے تو بیان کر دیتے ،پھریہ واقعہ جمعرات کا ہے،جب کہ نبی کریم کی وفات سوموار کو ہوئی،یعنی اس واقعہ کے تین دن بعد تک زندہ رہے خلافت علی کیوں نہ لکھ دی یا کم از کم وصیت ہی فرما دیتے۔
الحاصل :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے چوتھے برحق خلیفہ ہیں،اس پر امت محمدیہ کا اجماع ہے۔خلفائے راشدین کی ترتیب اس دور میں زبان زد عام تھی،کسی کو انکار تھا نہ اشتباہ ،بل کہ خوئے تسلم و رضا تھی،جب گمراہ اور اہل ہوا جنم لیتے ہیں تو اپنے ساتھ خلافت صدیق و فاروق پر سوالات اٹھانے کی بدعت لاتے ہیں،اس گمراہ کن نظریے پر دلائل تراشے جاتے ہیں ،قرآن و حدیث میں معنوی تحریف کا فتنہ سر اٹھاتا ہے،آل یہود کا اخاذ ذہن اس حقیقت سے واقف تھا کہ اسلام اور مسلمان کے درمیان سے اصحاب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ گرا دیا جائے تو اسلام کی عمارت دھڑام سے زمین پر آ گرے گی،اسی لئے اس ذہن کو عام کیا گیا کہ نعوذ با للہ صحابہ کرام yنبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد گمراہ ہو گئے تھے ،صحابہ کے خلاف بد چلن لو گوں کی بد زبانی اسی ذہنیت کا شاخسانہ ہے،اس کے لئے کیا کیا بہانے تراشے جاتے ہیں ،آپ حدیث قرطاس سے اندازہ لگا لیجئے ،جو سیدنا عمرکی عظمت و جلالت پردال ہے ،مگر اسے افسانہ بنا دیا گیا ،اس کی بنیاد پر سیدنا عمرکے خلاف زبان درازی کی مشق جاری رہتی ہے اور کوشش رہتی ہے کہ اسلام سے اہل اسلام کو دورکر دیا جائے ،نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ،خدا غارت کرے کس درجہ ظالم ہیں یہ لوگ۔مگر ان کی تما م کوششیں بے سود ہیں،اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار اہل سنت ابھی زندہ ہیں۔حافظ احمد بن عمر بن ابراہیم قرطبی کا قولِ فیصل ملاحظہ ہو:
وَقَدْ أَکْثَرَ الشِّیْعَۃُ وَالرَّوَافِضُ مِنَ الاْئَحَادِیْثِ الْبَاطِلَۃِ وَالْکَاذِبَۃِ ، وَاخْتَرَعُوْا نُصُوْصًا عَلٰی اِسْتِخْلَافِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلِیًّا ، وَادَّعُوْا أَنَّھَا تَوَاتَرَتْ عِنْدَھُمْ ، وَھٰذَا کُلُّہ، کِذْبٌ مُرَکَّبٌ ، وَلَوْ کَانَ شَیْءٌ مِنْ ذٰلِکَ صَحِیْحًا أَوْ مَعْرُوْفًا عِنْدَ الصَّحَابَۃِ یَوْمَ السَّقِیْفَۃِ لَذَکَرُوْہ، ، وَلَرَجَعُوْا إِلَیْہِ ، وَلَذَکَرَہ، عَلِیٌّ مُحْتَجًّا لِنَفْسِہٖ ، وَلَمَّا حَلَّ أَنْ یَّسْکُتَ عَنْ مِّثْلِ ذٰلِکَ بِوَجْہٍ ، فَإِنَّہ، حَقُّ اللّٰہِ ، وَحَقُّ نَبِیِّہِ وَحَقُّہ، ، وَحَقُّ الْمُسْلِمِیْنَ ، ثُمَّ مَا یُعْلَمُ مِنْ عَظِیْمِ عِلْمِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ، وَصَلاَبَتِہِ فِی الدِّیْنِ ، وَشُجَاعَتِہِ یَقْتَضِیْ ، اِلاَّ یَتَّقِیْ أَحَدًا فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ ،کَمَا لَمْ یَتَّقِ مُعَاوِیَۃَ ، وَأَھْلَ الشَّامِ حِیْنَ خَالَفُوْہ، ، ثُمَّ إِنَّہُ لَمَّا قُتِلَ عُثْمَانُ وَلَّی الْمُسْلِمُوْنَ بِاِجْتِھَادِھِمْ عَلِیًّا ، وَلَمْ یُذْکَرْ ھُوَ وَلَا أَحَدٌ مِّنْھُمْ نَصًّا فِیْ ذٰلِکَ ، فَعُلِمَ قَطْعًا کِذْبُ مَنِ ادَّعَاہ، ، وَما التَّوْفِیْقُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ .
''شیعہ اور رافضیوں نے بہت سی باطل اور جھوٹی احادیث بیان کی ہیں اور اس قسم کی نصوص گھڑ لی ہیں ،جن میں بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کیا تھااوران کے متعلق دعوی کیا کہ یہ درجہ تواتر کو پہنچی ہیں۔یہ سب جھوٹ کا مرکب ہے ۔ اگر اس بارے میں کوئی بات بھی صحیح ہوتی یا سقیفہ والے دن صحابہ کرام کے ہاں معروف ہوتی تووہ اس کو ذکر کرتے اوروہ علی کی طرف رجوع کرتے اور سیدناعلی رضی اللہ عنہ اسے اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ، نیز ان کے لیے اس طرح کی بات سے خاموش ہوجانا کسی طرح جائز نہ ہوتا ،کیونکہ یہ اللہ ، اس کے رسول اور خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور تمام مسلمانوں کا حق تھا ۔پھر سیدنا علی کی عظمت ِ علم اور دین میں پختگی بھی معلوم ہے اور آپ کی شجاعت بھی اس بات کی متقاضی تھی کہ آپ اللہ کے دین کے بارے میں کسی سے نہ ڈرتے ، جیسا کہ وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ڈرے تھے ، نیز اہلِ شام سے بھی نہیں ڈرتے تھے ، جب انہوں نے آپ کی مخالفت کی تھی ۔ پھر جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیاگیا تو مسلمانوں نے اپنے اجتہاد سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنالیا تھا ، آپ نے خود اور نہ ہی کسی صحابی نے اس بارے میں کوئی نص ذکر کی ۔ چنانچہ قطعی طور پر معلوم ہوگیا ہے کہ اس دعویٰ کا مدعی جھوٹا ہے ۔وما التّوفیق إلّا من عند اللّٰہ۔''
(المفہم لما اشکل من تلخیص صحیح مسلم :557/4)
سیدنا علی کی طرف منسوب کتاب نہج البلاغۃ(ص:٣٦٦،٣٦٧)میں لکھا ہے:
إِنَّہ، بَایَعَنِیَ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ عَلٰی مَابَایَعُوْہُمْ عَلَیْہِ ، فَلَمْ یَکُنْ لِلشَّاہِدِ أَنْ یَّخْتَارَ وَلاَ لِلْغَائِبِ أَنْ یَّرُدَّ ، وَإِنَّمَاالشُّوْرٰی لِلْمُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ ، فَإِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی رَجُلٍ وَسَمُّوْہ، إِمَامًا کَانَ ذٰلِکَ لِلّٰہِ رِضًی ، فَإِنْ خَرَجَ مِنْ أَمْرِہِمْ خَارِجٌ بِطِعْنٍ أَوْ بِدْعَۃٍ رُدُّوْہ، إِلٰی مَا خَرَجَ مِنْہ، ، فَإِنْ أَبٰی قَاتِلُوْہ، عَلٰی اِتِّبَاعِہٖ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَوَلاَّہُ اللّٰہُ مَا تَوَلّٰی .
''میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے، جنہوں نے سیدنا ابوبکر،سیدنا عمر اور سیدنا عثمان کی بیعت کی تھی،جس کے متعلق حاضر شخص من مانی نہیں کر سکتا اور غائب رد نہیں کر سکتا،مجلس شوریٰ صرف مہاجرین و انصار پر مشتمل ہے،اگر وہ کسی کی امامت پراتفاق کر لیں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی شامل ہے،اگر کوئی شخص کسی طعن اور بدعت کی بنیاد پر خروج کرنا چاہے تو اسے واپس پلٹایا جائے گا،اگر نہ مانے تو قتل کیا جائے گا،کیونکہ وہ مسلمانوں کے راستے سے انحراف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو اسی طرف پھیر دے گا جس کی طرف وہ پھرنا چاہتا ہے۔'

کیاحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا وراثت کے مسئلہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ناراض رہیں


امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پیش کرتے ہیں۔
حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة والعباس عليهما السلام أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما من رسول الله صلی الله عليه وسلم وهما حينئذ يطلبان أرضيهما من فدک وسهمهما من خيبر فقال لهما أبو بکر سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد من هذا المال قال أبو بکر والله لا أدع أمرا رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم يصنعه فيه إلا صنعته قال فهجرته فاطمة فلم تکلمه حتی ماتت

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ کے (ترکہ میں سے) اپنے میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے تو ان دونوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑتا ہوں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے گفتگو چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1645 ،- فرائض کی تعلیم کا بیان :
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ماننےسے انکار کیوں کیا؟؟؟ اور ساتھ ہی یہ اعتراض بھی نقل کرتے ہیں کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان پر بھی چوٹ پڑتی ہے ۔کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مرتے دم تک ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور نہ ہی ملاقات کی۔

جواب:-

دراصل یہاں صرف اور صرف مغالطوں سے کام لیاگیا ہے،کیونکہ اگر تمام طرق احادیث اسی مسئلہ پر جمع کیے جائیں تو یہ سارے اعتراضات کا لعدم ہوجاتے ہیں۔رہی بات اس مسئلے کی کہ حضرت  فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث مانے سے انکار کیوں کیا؟؟تو اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ حضرت  فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی تب تو انہوں نے وراثت مانگی لیکن جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کبھی بھی وراثت کا سوال نہیں کیا۔اور نا ہی کسی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ انہوں نے حدیث سننے کے بعد حدیث کی مخالفت کی ہو۔لہذا یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل طور پر عاملہ تھیں۔
جن احادیث میں یہ ذکر ہو اہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگونہیں کی. اس سے مرادیہ  ہے کہ وراثت کے مسئلے کے لیے گفتگو نہیں فرمائی. ملاقات ترک کرنے کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:۔
{فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر{فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}فتح الباری ،ج 6 ،ص164
ترجمہ:-{فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ } فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی۔"
یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مرادلے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ حضرت  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔
امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں ذکر فرماتے ہیں۔
"امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھذا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا"{السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735
ترجمہ:-"جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے ؟؟تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں؟ پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔"
سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے ہوا کرتے تھے ۔الحمدللہ اس حدیث نے واضح کردیا کہ ان میں کو ئی بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں تھا اور نہ ہی ناراضی تھی بلکہ احا دیث ہی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت کی نجات بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتباع میں ہی سمجھتے تھے۔

Sunday 28 November 2021

کیکڑے کی خرید و فروخت اورکھانے کاحکم

 حنفی مسلک کے اعتبار سے کیکڑے کا کھانا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ مچھلی کے قبیل سے نہیں ہے، اور پانی کے جانوروں میں سے صرف مچھلی کا کھانا حلال ہے، جہاں تک اس کی بیع کی بات ہے تو کسی نفع کی غرض سے کیکڑے کی خریدو فروخت کر سکتے ہیں۔ ”ولا یحل حیوان مائي إلا السمک“ (الدر المختارمع الشامی: ۹/۴۴۴، ط: زکریا)

اصول کرخی اور غلط فہمیاں



امام ابوالحسن الکرخی (متوفی 340)فقہ حنفی کے معتبر ائمہ میں سے ہیں۔ وہ امام طحاوی کےہم عصر ہیں اورامام طحاوی کے شیوخ واساتذہ سے علم حاصل کیاتھا۔امام کرخی کے شاگردوں میں بڑے با کمال اور نامورفقہاء ہوئے ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ وہ نہایت زاہد وعابد بھی تھے ۔کئی مرتبہ کو ان کے علمی مرتبہ ومقام کی وجہ سے عہدہ قضاپیش کیاگیا لیکن انہوں نے باوجود تنگدستی کے انکار کردیا۔صرف اسی پر بس نہیں بلکہ ان کے شاگردوں میں سے جوبھی فرد قضاء کا عہدہ قبول کرتاتھا۔ اس سے تعلقات ترک کردیتے تھے۔
آخرعمر میں جب فالج کا حملہ ہواتوان کے شاگردوں نے یہ سوچ کرکہ اس بیماری کے علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے۔سیف الدولہ ابن حمدان کو خط لکھ کر ان کے حال کے تعلق سے واقف کرایا۔سیف الدولہ نے ان کیلئے دس ہزاردرہم بھیجا۔ان کو اس سے قبل پتہ چل چکاتھاکہ میرے شاگردوں نے ایساکیاہے۔انہوں نے بارگاہ الہی میں دعاکیاکہ اے اللہ اس رقم کے مجھ تک پہنچنے سے پہلے تومجھ کو اپنے پاس بلالے۔ایساہی ہوا۔سیف الدولہ کی رقم پہنچنے سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

اصول فقہ میں انہوں نے مختصر طورپرایک کتاب لکھی ہے ۔اوراس کو اصول فقہ کیوں کہئے اس کے بجائے مناسب ہے کہ اس کوقواعدفقہ کی کتاب کہئے ۔جس میں فقہ کے چند بنیادی قاعدے بیان کئے گئے ہیں۔

اس میں انہوں نے ایک دوباتیں ایسی ذکر کی ہیں جن سے بظاہرایسالگتاہے کہ قرآن وحدیث پر ائمہ کے اقوال کو ترجیح دی جارہی ہے لیکن درحقیقت ایسانہیں ہے اورجومطلب ہے وہ پوری طرح قابل قبول اورعقل وفہم میں آنے والا اورقرآن حوحدیث کے سے کسی بھی طرح متصادم نہیں ہے۔ اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اورغوروفکر کئے بغیر کچھ لوگ فوراتبراشروع کردیتے ہیں اورصرف امام ابوالحسن الکرخی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتے بلکہ پورے جمعیت احناف کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یہ ان کی روایتی قلت فہم کی نشانی ہے کہ کسی بات کو سمجھے اورس کی حقیقت معلوم کئے بغیر فوراطعن وتشنیع شروع کردینا۔

امام ابوالحسن الکرخی اصول میں لکھتے ہیں۔
ان کل آیتہ تخالف قول اصحابنافانھاتحمل علی النسخ او علی الترجیح والاولی ان تحمل علی التاویل من جھۃ التوفیق

ہروہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تواس کو نسخ پر محمول کیاجائے گا یاترجیح پر محمول کیاجائے گا اوربہتر یہ ہے کہ ان دونوں میں تاویل کرکے تطبیق کی صورت پیداکی جائے۔

ان کل خبریجی بخلاف قول اصحابنا فانہ یحمل علی النسخ اوعلی انہ معارض بمثلہ ثم صارالی دلیل آخر اوترجیح فیہ بمایحتج بہ اصحابنامن وجوہ الترجیح اویحمل علی التوفیق،وانمایفعل ذلک علی حسب قیام الدلیل فان قامت دلالۃ النسخ یحمل علیہ وان قامت الدلالۃ علی غیرہ صرناالیہ ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)

(ترجمہ )ہروہ خبر جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف ہوگی تو وہ نسخ پر محمول کی جائے گی،یاوہ اسی کے مثل دوسری حدیث کے معارض ہوگی توپھرکسی دوسرے دلیل سے کام لیاجائے گایاجس حدیث سے ہمارے اصحاب نے استدلال کیاہے اس میں وجوہ ترجیح میں سے کوئی ایک ترجیح کی وجہ ہوگی یاپھر دونوں حدیث میں تطبیق وتوفیق کا راستہ اختیار کیاجائے گا اوریہ دلیل کے لحاظ سے ہوگا۔ اگر دلیل معارض حدیث کے نسخ کی ہے تونسخ پر محمول کیاجائے گا یااس کے علاوہ کسی دوسری صورت پر دلیل ملتی ہے تو وہی بات اختیار کی جائے گی۔

یہی وہ عبارت ہے جس کی حقیقت سمجھے بغیر لوگ اناپ شناپ کہتے رہتے ہیں اوراس میں پیش پیش وہ لوگ  ہیں جن کا علم اردو کی کتابوں اورچند عربی کتابوں کے اردو ترجمہ کی حدتک محدود ہے ۔اپنے معمولی علم وفہم کو کام میں لاکر کنویں کے مینڈک کی طرح وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جوکچھ میں نے سمجھاہے وہی حرف آخر ہے اوراس کے علاوہ کوئی دوسرانقطہ نظر قابل قبول ہی نہیں ہے۔

امام کرخی کے قول کا مطلب کیاہے اس کا جواب کئی اعتبار سے دیاجاسکتاہے۔

1:کسی بھی قول کابہتر مطلب قائل یاقائل کے شاگردوں کی زبانی سمجھنابہتر ہوتاہے کیونکہ وہ قائل کے مراد اورمنشاء سے دوسروں کی بنسبت زیادہ واقف ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جو بات کہی گئی ہے یالکھی گئی ہے اس میں کیامطلق اورکیامقید ہے کون سی بات ہے جو بظاہر تومطلق ہے لیکن وہ درحقیقت وہ مقید ہے۔اوراسی وجہ سے محدث الھند شاہ ولی اللہ دہلوی نے ائمہ اربعہ کی ہی اتباع اورپیروی کوواجب کہا ہے اوردیگر مجہتد ین کی پیروی سے منع کیاہے۔(دیکھئے عقد الجید)

امام کرخی کے شاگردوں کے شاگرد ابوحفص عمر بن محمد النسفی ہیں جو اپنے علمی تبحر کیلئے مشہور ہیں اور ان کی کتابیں فقہ حنفی کا بڑا ماخذ سمجھی جاتی ہیں۔ان کا انتقال 537ہجری میں ہوا۔انہوں نے اصول کرخی کے اصولوں کی تشریح کی ہے وہ کیاکہتے ہیں۔اسے بھی دیکھیں۔ وہ پہلے اصول ان کل آیتہ کی تشریح اور مثال میں لکھتے ہیں۔

قال(النسفی)من مسائلہ ان من تحری عندالاشتباہ واستدبرالکعبۃ جاز عندنالان تاویل قولہ تعالیٰ فولوا وجوھکم شطرہ اذاعلمتم بہ ،والی حیث وقع تحریکم عندالاشتباہ،اویحمل علی النسخ،کقولہ تعالیٰ ولرسولہ ولذی القربی فی الآیۃ ثبوت سھم ذوی القربی فی الغنیمۃ ونحن نقول انتسخ ذلک باجماع الصحابہ رضی اللہ عنہ او علی الترجیح کقولہ تعالیٰ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا ظاہریقتضی ان الحامل المتوفی عنھازوجھا لاتنقضی عدتھا بوضع الحمل قبل مضی اربعۃ اشھر وعشرۃ ایام لان الآیۃ عامۃ فی کل متوفی عنھازوجھا حاملااوغیرھا وقولہ تعالیٰ اولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن یقتضی انقضاء العدۃ بوضع الحمل قبل مضی الاشھر لانھاعامۃ فی المتوفی عنھازوجھا وغیرھا لکنارجحناھذہ الآیۃ بقول ابن عباس رضی اللہ عنھما انھانزلت بعد نزول تلک الآیۃ فنسختھا وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمع بین الاجلین احتیاطا لاشتباہ التاریخ۔(اصول البزدوی ویلیہ اصول الکرخی ص374)

ان کل آیتہ تخالف قول اصحابناالخ کی شرح میں وہ لکھتے ہیں۔اس کے مسائل میں سے یہ ہے کہ جس پر قبلہ مشتبہ ہوجائے اوروہ غوروفکر کے بعد ایک سمت اختیار کرلے توہمارے نزدیک اس کی نماز جائز ہے (اگر چہ اس نے قبلہ کے علاوہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہو)کیونکہ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قول کی تاویل فولواوجوھکم شطرہ کی یہ ہے کہ جب تم اس کے بارے میں واقف رہو،اوراشتباہ کی صورت میں غوروفکر کے بعد جو سمت اختیار کرو،یاوہ نسخ پر محمول ہوگا جیساکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ولرسولہ ولذی القربی الخ آیت میں رشتہ داروں کیلئے بھی غنیمت کے مال میں حصہ کا ثبوت ہے اورہم کہتے ہیں کہ یہ صحابہ کرام کے اجماع سے منسوخ ہے ۔ترجیح پر محمول کرنے کی صورت یہ ہے کہ آیت پاک والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا کا ظاہری تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کاشوہر مرجائے تو اس کی عدت وضع حمل سے نہیں ہوگی بلکہ اس کو چارماہ دس دن عدت کے گزارنے ہوں گے کیونکہ آیت ہرایک عورت کے بارے میں عام ہے خواہ و ہ حاملہ ہو یاغیرحاملہ ہو،اللہ تبارک وتعالیٰ کا دوسراارشاد ہے کہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہو اس کا تقاضایہ ہے کہ حاملہ عورت کے وضع حمل کے بعد عدت ختم ہوجائے گی خواہ چارماہ دس دن پورے نہ ہوئے ہوں۔یہ آیت عام خواہ حاملہ عورت کا شوہر مراہو یانہ مراہو۔لیکن اس آیت کو ہم نے اس لئے ترجیح دی کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول موجود ہے کہ یہ آیت پہلی آیت والذین یتوفون منکم کے بعد نازل ہوئی ہے۔اس سے پہلی آیت منسوخ ہوگئی ہے اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نے دونوں قول میں جمع کی صورت اختیار کی ہے احتیاط کی بناء پر۔

قال من ذلک ان الشافعی یقول بجواز اداء سنۃ الفجر بعد اداء فرض الفجر قبل طلوع الشمس لماروی عن عیسی رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلی رکعتین بعد الفجر فقال ماھما فقلت رکعتاالفجر کنت الم ارکعھما فسکت قلت ھذا منسوخ بماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لاصلوۃ بعد الفجر حتی تطلع الشمس ولابعد العصر حتی تغرب الشمس والمعارضۃ فکحدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہ کان یقنت فی الفجر حتی فارق الدنیا فھو معارض بروایۃ عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھراثم ترکہ فاذا تعارضا روایتاہ تساقطافبقی لنا حدیث ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قنت شھرین یدعو علی احیاء العرب ثم ترکہ واماالتاویل فھو ماروی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان اذارفع راستہ من الرکوع قال سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد وھذا دلالۃ الجمع بین الذکرین من الامام وغیرہ ثم روی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال اذاقال الامام سمع اللہ لمن حمدہ قولوا ربنالک الحمد والقسمۃ تقطع الشرکۃ فیوفق بینھما فنقول الجمع للمنفرد والافراد للامام والمتقدی وعن ابی حنیفۃ انہ یقول الجمع للمتنفل والافراد للمفترض(المصدرالسابق)

اس کی شرح یہ ہے کہ امام شافعی طلوع شمس سے پہلے فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فجر کی سنت پڑھنے کو جائز قراردیتے ہیں ان کی دلیل حضرت حضرت عیسی سے منقول وہ حدیث ہے کہ رسول پاک نے مجھ کو فجر کے بعد دورکعت پڑھتے دیکھا انہوں نے پوچھایہ تم کیاپڑھ رہے تھے۔ میں نے عرض کیاکہ فجر کی دو سنت رکعتیں جس کو میں نہیں پڑھ سکتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کو سکوت اختیار کیا۔ میں کہتاہوں کہ یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے منسوخ ہے کہ فجر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج طلوع ہوجائے اورعصر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے تاوقتیکہ سورج غروب ہوجائے ۔
معارضہ کی صورت یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ کی حدیث ہے کہ آپ فجر کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے اوراسی معمول پر دنیا سے رخصت ہوجائے ۔یہ حدیث حضرت انس کے دوسری حدیث کے معارض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ فجر کی نماز میں قنوت پڑھاپھر اس کوچھوڑ دیا۔یہ دونوں روایت ایک دوسرے کے معارض ہونے کی بناء پر ساقط ہوگئیں ہم نے اس کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث پر عمل کیاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دومہینہ فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی جس میں عرب کے قبیلوں کیلئے بددعا کی گئی پھر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑدیا۔
اورتاویل کی صورت یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے منقول ہے کہ آپ جب رکوع سے اپناسراٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ ربنالک الحمد کہتے تھے ۔یہ دونوں ذکر کوجمع کرنے کی دلیل ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربناالک الحمد کہاکرو تقسم شرکت کے منافی ہے۔توان دونوں حدیث میں تطبیق اس تاویل کے ذریعہ دی جائے گی کہ دونوں ذکر سمع اللہ لمن حمدہ اورربنالک الحمد کہنے کی صورت منفرد کیلئے ہے اورتقسیم اس صورت میں ہے جب باجماعت نماز ہورہی ہو ۔امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جمع نفل نماز پرھنے والے کیلئے ہے اورافراد فرض نماز پڑھنے والے کیلئے ہے۔

امام کرخی کے قاعدے کی امام نسفی کی وضاحت کی روشنی میں اتنی بات واضح ہوگئی ہے کہ
1: اس قول کا ظاہری مطلب مراد نہیں ہے کہ اگرکوئی قرآن کی آیت ہو یاکوئی حدیث ہو تواس کے مقابل میں صرف امام ابوحنیفہ کا قول کافی ہوگا۔

2:یہ بھی واضح ہوگیاہے کہ امام کرخی کاصحیح منشاء یہ ہے کہ وہ یہ بتاناچاہ رہے ہیں کہ آئمہ احناف نے اگرقرآن پاک کی کسی آیت کو ترک کیاہے یاکسی حدیث کوقابل عمل نہیں ماناہے تواس وجہ یہ ہے کہ ان کی رائے میں قرآن کی وہ آیت منسوخ ہے یاپھر اپنے ظاہر پر نہیں ہے ۔

3: ائمہ احناف نے کسی مسئلہ میں جس پہلو کو اختیار کیاہے اس کیلئے بھی ان کے پاس قرآن وحدیث سےدلائل موجود ہیں۔

میرے خیال سے اتنی بات ماننے میں کسی بھی صحیح الدماغ شخص کو تامل نہ ہوگا۔

2: امام کرخی کی یہ بات کہ ائمہ احناف نے اگرآیت یاحدیث کو چھوڑاہے تواس لئے کہ یاتو وہ ان کی رائے میں منسوخ ہے،یااس کے معارض کوئی دوسری حدیث ہے یاپھروہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں ہے۔

امام کرخی کی بات کاجومنشاء اورمقصد ہے وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اوریہی بات ہردور میں علماء اعلام نے ائمہ کرام کی جانب سے کہی ہیں۔چاہے وہ ابن تیمیہ ہوں یاپھر حضرت شاہ ولی اللہ ۔

امام ابن تیمیہ نے ایک کتاب لکھی ہے رفع الملام عن ائمۃ الاعلام ۔اس میں وہ ائمہ کرام کے کسی حدیث یانص قرانی کی مخالفت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

الأسباب التي دعت العلماء إلى مخالفة بعض النصوص،وجميع الأعذار ثلاثة أصناف: أحدها: عدم اعتقاده أن النبي صلى الله عليه وسلم قاله. والثاني: عدم اعتقاده إرادة تلك المسألة ذلك القول. والثالث: اعتقاده أن ذلك الحكم منسوخ. وهذه الأصناف الثلاثة تتفرع إلى أسباب متعددة.(رفع الملام عن ائمۃ الاعلام12)

وہ اسباب جس کی وجہ سے علماء نے بعض نصوص کی مخالفت کی وہ تمام اعذار تین قسم کے ہیں۔ ایک تویہ کہ ان کویقین نہ ہو کہ رسول پاک نے ایساکہاہوگا ۔دوسرے یہ کہ ان کا یقین نہ ہو کہ رسول پاک نے اس قول سے وہی بات مراد لی ہوگی ۔تیسرے ان کا یقین کہ وہ حکم منسوخ ہے ۔

اس کے بعد ابن تیمیہ نے ان تینوں اعذار کی شرح کی ہے اور شرح میں وہ لکھتے ہیں۔
السبب التاسع: اعتقاده أن الحديث معارض بما يدل على ضعفه، أو نسخه، أو تأويله إن كان قابلا للتأويل بما يصلح أن يكون معارضا بالاتفاق مثل آية أو حديث آخر أو مثل إجماع ۔(المصدرالسابق ص30)

اس پیراگراف کو غورسے پڑھئے اوردیکھئے کہ امام کرخی کے بیان میں اورامام ابن تیمیہ کے بیان میں کس درجہ مطابقت ہے۔امام کرخی کی بات اورابن تیمیہ کی بات میں بہت کم فرق ہے اوراگرکچھ فرق ہے توصرف اسلوب اورطرزاداء کا ۔امام کرخی کا اسلوب بیان منفی ہے یعنی ہروہ آیت یاحدیث جوہمارے اصحاب کے قول کے مخالف ہو ،جب کہ ابن تیمیہ کا بیان مثبت ہے یعنی اگرکسی امام نے کسی حدیث پر عمل ترک کیاہے تواس کی وجہ اس کا منسوخ ہونا،کسی دوسرے حدیث کے معارض ہونا وغیرہ ہے۔ اسلوب بیان کے فرق کے علاوہ گہرائی اورگیرائی سے دیکھیں اورپرکھیں تو دونوں میں کوئی فرق نہیں ملے گا۔

23: امام کرخی کے بیان کردہ قاعدہ کاایک اور مطلب ہے۔

امام کرخی نے اپنے بیان میں "ہمارے اصحاب"کا ذکر کیا ہے۔امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کانام خاص طورپر نہیں لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے یانادرالوقوع ہے کہ ائمہ امام ابوحنیفہ،امام ابویوسف،امام محمد،امام زفراوراسی طرح ائمہ متقدمین میں سے اورکچھ لوگ تمام کے تمام کسی ایسے قول کے قائل ہوں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو ۔ایسانہیں ہوسکتابلکہ عموماایساہواہے کہ ائمہ احناف کے درمیان مختلف مسائل میں اختلاف رہاہے اوربعض کے ائمہ ترجیح نے دلائل کی بنیاد پر ایک قول کو دوسرے قول پر ترجیح دی ہے ۔ وقف کے مسئلہ میں صاحبین نے امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے۔ قرات خلف الامام کے مسئلہ میں امام محمد امام مالک اورامام احمد بن حنبل کی رائے کے قائل ہیں کہ جہری نمازوں میں نہ پڑھی جائے اور سری نمازوں میں پڑھی جائے ۔

اب اگرایسے میں تمام ائمہ احناف نے کسی آیت پر عمل نہ کیاہویاکسی حدیث کو ترک کردیاہوتواس کی وجہ ہوسکتی ہے جوامام کرخی بیان کرچکے ہیں۔ میراخیال ہے کہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے بشرطیکہ انسان سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کرے اوردل کو ائمہ احناف کی طرف سے عناد اورتعصب کی جذبات سے پاک کرلے۔کسی کے عناد اورتعصب سے ان کا توکچھ بگڑنے والانہیں ہے انشاء اللہ لیکن یہ یہ غریب خسرالدنیاوالآخرۃ کا مصداق ضرور ہوگا۔

امام کرخی کے قاعدہ کے اس مطلب کے قریب قریب بات حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی بیان کیاہے چنانچہ و ہ فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں۔
عرضنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فی المذہب الحنفی طریقۃ انیقۃ ھی اوفق الطرق بالسنۃ المعروفۃ التی جمعت ونقحت فی زمان البخاری واصحابہ ،وذلک ان یوخذمن اقوال الثلاثۃ قول اقبلھم بھا فی المسئلۃ ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقہاء الحنفین الذی علماء الحدیث(فیوض الحرمین64)

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کوبتایاکہ مذہب حنفی میں ایک ایسابہترین طریقہ وپہلو ہے کہ جوتمام طرق میں سب سے زیادہ ان احادیث کے موافق ہے جن کی تدوین وتنقیح امام بخاری اوران کے اصحاب کے دور میں ہوئی۔
اور وہ طریقہ یہ ہے کہ علماء ثلاثہ (یعنی اما م صاحب اورصاحبین) کے اقوال میں سے جس کا قول حدیث کے معنی سے زیادہ قریب ہو اسے اختیار کیاجائے۔پھراس کے بعد ان حنفی فقہاء کے اختیارات پر عمل کیاجائے جو محدث بھی تھے۔

ایک دوسری جگہ حضرت شاہ ولی اللہ اسی کتاب فیوض الحرمین(ص63) میں لکھتے ہیں۔

"پھر فقہ حنفی کے ساتھ احادیث کو تطبیق دینے کا ایک نمونہ وصورت مجھ پر منکشف کیاگیا اوربتایاگیاکہ علماء ثلاثہ(امام ابوحنیفہ وصاحبین)میں سے کسی ایک کے قول کو لے لیاجائے ،ان کے عام اقوال کو خاص قراردیاجائے،ان کے مقاصد سے واقف ہواجائے۔اوربغیرزیادہ تاویل سے کام لئے احادیث کے ظاہری الفاظ کا جومطلب سمجھ میں آتاہو اس پر اکتفاء کیاجائے ۔نہ تو احادیث کو ایک دوسرے سے ٹکرایاجائے،اورنہ ہی کسی حدیث صحیح کو امت کے کسی فرد کے قول کے پیش نظرترک کیاجائے"۔

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں مقام پر حضرت شاہ ولی اللہ ائمہ ثلاثہ کا ہی ذکر کرتے ہیں کہ ان کے اقوال سے باہر نہ نکلاجائے ۔بالواسطہ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ائمہ ثلاثہ میں سے تینوں کسی ایسے قول پرمتفق ہوجائیں جس پر قرآن وحدیث کی کوئی دلیل نہ ہو ایسانہیں ہوسکتابلکہ ان میں سے کسی ایک کا قول قرآن وحدیث کی تائید سے متصف ہوگا۔

اگرخدا نے عقل وذہن کی دولت بخشی ہے توامام کرخی کے قول پرغورکریں ۔وہ بھی بالواسطہ طورپر یہی کہہ رہے ہیں لیکن ان کے طرز تعبیر نے ان کو ملامت کا نشانہ بنادیاہے۔

4: کبھی ایساہوتاہے اوربہت ہواہے کہ بات صحیح ہوتی ہے لیکن 47غلط طرز تعبیر سے بات کچھ کی کچھ ہوجاتی ہے اسی جگہ اگر طرز اورتعبیر کو درست کردیاجائے تووہی بات درست اورصحیح لگنے لگے گی۔

Saturday 27 November 2021

امام کاربنالک الحمد کہنا

 امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک امام رکوع سے اٹھتے ہوئے صرف تسمیع (سَمِعَ اللّٰہ لمَن حَمِدَہ) کہنے پر اکتفا کرے گا، تحمید (رَبَّنَا لَکَ الحمد) امام نہیں کہے گا، یہی قول متون کاہے، اس لیے امام کو صرف تسمیع پر اکتفا کرنا چاہیے۔ تعدیل ارکان امام کے رَبَّنَا لَکَ الحمدکہنے پر موقوف نہیں ہے۔ قال الحصکفي : ثم یرفع رأسہ من رکوعہ مسمعاً۔۔۔۔۔۔ویکتفي بہ الامام۔۔۔۔۔۔۔قال ابن عابدین: المتون علی قول الامام۔۔۔۔۔۔ ( کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة)

نماز میں رکوع سے اٹھتے ہوئے امام کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ  ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہے، اور مقتدی  ”ربنا لک الحمد“ کہیں، اور اگر نماز پڑھنے والا منفرد ہے تو وہ یہ دونوں کہے، باقی امام ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد  ”ربنا لک الحمد“ کہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ ہمارے مشایخ میں مختلف فیہ ہے،  امام صاحب رحمہ اللہ کا قول یہ ہے امام صرف ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے پر اکتفا کرے، فتویٰ اسی پرہے۔ جب کہ صاحبین رحمہما اللہ اور امام صاحب کی ایک روایت یہ ہے کہ امام   ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد  ”ربنا لک الحمد“ بھی کہے یہ افضل اور مستحب ہے، اور متاخرین میں سے بہت سے مشایخ نے اس کو راجح قرار دیا ہے، یہ اختلاف صرف افضلیت میں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 496):
"(ثم يرفع رأسه من ركوعه مسمعاً) في الولوالجية لو أبدل النون لا ما يفسد وهل يقف بجزم أو تحريك؟ قولان (ويكتفي به الإمام) ، وقالا: يضم التحميد سراً (و) يكتفي (بالتحميد المؤتم) وأفضله: اللهم ربنا ولك الحمد، ثم حذف الواو، ثم حذف اللهم فقط. 

(قوله: وقالا: يضم التحميد) هو رواية عن الإمام أيضاً، وإليه مال الفضلي والطحاوي وجماعة من المتأخرين، معراج عن الظهيرية. واختاره في الحاوي القدسي، ومشى عليه في نور الإيضاح، لكن المتون على قول الإمام".

الفتاوى الهندية (1/ 74):

"فإن كان إماماً يقول: سمع الله لمن حمده بالإجماع، وإن كان مقتدياً يأتي بالتحميد ولايأتي بالتسميع بلا خلاف، وإن كان منفرداً الأصح أنه يأتي بهما، كذا في المحيط. وعليه الاعتماد، كذا في التتارخانية وهو الأصح"

Friday 26 November 2021

تفسیر ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین

إنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ

یقینا اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے .
محسن کے اردو میں دو ترجمے کئے جاسکتے ہیں. نیکی کرنے والا ,دوسرااحسان کرنے والا. 

 :اپنے روابط اللہ اور بندوں کے ساتھ درست رکھنے والے ہی محسنین (نیکی کرنے والے) ہوتے ہیں۔ رحمۃ اللہ قریبۃ نہیں فرمایا۔ چونکہرحمۃ مصدر ہے۔ اس میں دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جیسے لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ۔۔۔۔ (۴۲ شوری:۱۷) بندوں سے تعلق و ربط کی نوعیت بھی اسی بندگی کے دائرہ میں ہونی چاہیے کہ اللہ نے جن فطری تقاضوں کے مطابق انسانوں کو بنایا اور انہی فطری تقاضوں کے مطابق قانون بنایا۔ ان کو سبوتاژ کر کے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔

اہم نکات

۱۔ رب کی بندگی سے آزاد ہو تو انسان مفسد و تجاوز کار بن جاتاہے۔

۲۔ بندگی خود بینی و مایوسی سے نہیں، خوف و رجاء کے دائرے میں ہوتی ہے: خَوۡفًا وَّ طَمَعًا۔۔۔۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 2
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ: قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنے اور خدا سے خوف کھاتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔
قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا اس میں ایک مسئلہ ہے : وہ یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اصلاح کے بعد چاہے وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہر فساد سے منع فرمایا ہے چاہے وہ قلیل ہو یا کثیر۔ صحیح اقوال کے مطابق یہ حکم عام ہے۔ اور حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تم چشمے دار پانی بند نہ کرو اور نقصان پہنچانے کے لیے پھل دار درخت نہ کاٹو۔ اور یہ بھی وارد ہے : زمین میں فساد سے دنانیر ختم ہوگئے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین میں فساد سے حکام کی تجارت منقطع ہوگئی۔ اور علامہ قشیری نے کہا ہے : اس سے مراد ہے اور تم شرک نہ کرو، پس یہ شرک، خون بہانے اور زمین میں ہرج اور فساد برپا کرنے سے نہی ہے اور زمین میں اصلاح کے بعد احکام شریعہ کو لازم پکڑنے کا حکم ہے، بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب سے رسول بھیج کر اس کی اصلاح فرما دی ہے، ( پس یہ) شرائع کو پختہ کرنا اور حضور نبی رحمت ﷺ کے دین کی وضاحت ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اس قول کے قائل نے عظیم اصلاح کے بعد بہت بڑے فساد کا قصد کیا ہے پس اس نے اسے خاص طور پر ذکر کیا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) ۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : رہا وہ جو حضرت ضحاک (رح) نے ذکر کیا ہے تو وہ اپنے عموم پر نہیں ہے، بلاشبہ وہ تب ہے جب اس میں ضرور اور نقصان مومن کا ہو۔ اور اگر اس کا ضرر اور نقصان مشرکین کو پہنچے تو پھر وہ جائز ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے بدر کے کنویں کا پانی بند کیا اور آپ نے کافروں کے درخت کاٹ دیئے۔ قطو الدنانیر کے بارے میں بحث سورة ہود میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ آیت : وادعوہ خوفا وطمعا یہ اس بارے امر ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) کہ انسان انتظار، کواور اللہ تعالیٰ سے امید کی حالت میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ امید اور خوف انسان کے لیے پرندے کے دو پروں کی مثل ہوتے ہیں جو اسے صراط مستقیم میں اٹھائے رکھتے ہیں اور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک منفرد ہوجائے تو انسان ہلاک ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : نبی عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ھو العذاب الالیم ( الحجر) ( بتا دو میرے بندوں کو کہ میں بلا شبہ بہت بخشنے والا از حد رحم کرنے والا ہوں اور ( یہ بھی بتا دو کہ) میرا عذاب بھی بہت درد ناک ہے۔ خوف کا معنی ہے : الانزعاج لما لا یومن من المضار ( اس شے کے لیے بےقرار اور بےچین ہونا جس کے ضرور اور نقصان سے وہ محفوظ نہ ہو) اور طمع کا معنی ہے : توقع المحبوب ( کسی محبوب اور پسندیدہ شی کی توقع رکھنا) یہ علامہ قشیری نے کہا ہے۔ اور بعض اہل علم نے کہا ہے : مناسب یہ ہے کہ طویل زندگی میں خوف امید پر غالب رہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) اور جب موت آجائے تو پھر امید غالب رہے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لا یموتن احدکم الا وھو یحسن الظن باللہ (صحیح مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، جلد 2، صفحہ 387) ( تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہو) یہ حدیث صحیح ہے اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین اس میں قریمۃ نہیں کیا، سو اس میں سات وجوہ ہیں : ان میں سے پہلی یہ ہے کہ رحمت اور رحم ایک ہی شے ہے اور یہ عفو اور غفران کے معنی میں ہیں۔ یہ زجاج نے کہا ہے۔ اور نحاس نے اسے ختیار کیا ہے۔ اور نضر بن شمیل نے کہا ہے : رحمت مصدر ہے اور مصدر کا حق یہ ہے کہ وہ مذکر ہو، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : فمن جآء موعظۃ ( البقرہ : 175) یہ قول زجاج کے قول کے قریب ہے، کیونکہ موعظۃ بمعنی وعظ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت سے احسان کا ارادہ کیا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ جس کی تانیث حقیقی نہ ہو تو اسے مذکر لانا جائز ہوتا ہے، اسے جوہری نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہاں رحمت سے مراد بارش ہے۔ یہ اخفش نے کہا ہے۔ اور کہا : اسے مذکر لانا جائز ہے جیسے بعض مونث کو مذکر ذکر کیا جاتا ہے۔ اور یہ شعر بھی کہا ہے : فلا مزنۃ ودقت ودقھا ولا ارض ابقل ابقالھا اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : مکان کی تذکیر کی بنا پر قریب مذکر ذکر کیا گیا ہے، یعنی مکانا قریبا۔ علی بن سلیمان نے کہا ہے : یہ خطا ہے، اگر اس طرح ہوتا جیسے انہوں نے کہا تو پھر قرآن کریم میں قریب منصوب ہوتا، جیسے آپ کہتے ہیں : ان زیدا قریبا منک اور یہ بھی کہا گیا ہے : اسے نسبت کی بنا پر مذکر ذکر کیا گیا ہے، گویا کہ فرمایا : ان رحمۃ اللہ ذات قرب ( بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت قرب والی ہے) جیسے آپ کہتے ہیں : امراۃ طالق وحائض۔ اور فراء نے کہا ہے : جب قریب کا لفظ مسافت کے معنی میں ہو تو اسے مذکر اور مونث دونوں طرح لایا جاتا ہے اور اگر نسب کے معنی میں ہو تو پھر بلا اختلاف مونث لایا جاتا ہے۔ آپ کہتے ہیں : ھذہ المراۃ قریبتی، ای ذات قرابتی اسے جوہری نے ذکر کیا ہے۔ اور اس کے علاوہ نے فراء سے ذکر کیا ہے : نسب میں کہا جائے گا قریبۃ فلان اور غیر نسب میں تذکیر وتانیث دونوں جائز ہیں۔ کہا جاتا ہے : دارک منا قریب ( تیرا گھر ہمارے قریب ہے) وفلانۃ منا قریب ( اور فلانہ ہمارے قریب ہے) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ومایدریک لعل الساعۃ تکون قریبا ( الاحزاب) ( اور ( اہل سائل) ! ) تو کیا جانے شاید وہ گھری قریب ہی ہو) اور جس نے اس کا استدلال کیا ہے اس نے کہا ہے : اسی طرح کلام عرب بھی ہے، جیسا کہ امرء القیس نے کا کہا ہے : لہ الویل ان امسی ولا ام ہاشم قریب ولا البسباسۃ ابنۃ یشکرا زجاج نے کہا ہے : یہ غلطی ہے، کیونکہ مذکر اور مونث کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دونوں اپنے افعال پر جاری ہوں.

القرطبی:الاعراف.

برےپڑوسی سے بچنے کی دعاء

 اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ جَارِ السَّوْءِ


ترجمہ: اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں برے ہمسائے سے۔

(السنن النسائي، الاستعاذة من جار السوء، رقم الحديث: 5517)