https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Friday 26 November 2021

تفسیر ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین

إنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ

یقینا اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے .
محسن کے اردو میں دو ترجمے کئے جاسکتے ہیں. نیکی کرنے والا ,دوسرااحسان کرنے والا. 

 :اپنے روابط اللہ اور بندوں کے ساتھ درست رکھنے والے ہی محسنین (نیکی کرنے والے) ہوتے ہیں۔ رحمۃ اللہ قریبۃ نہیں فرمایا۔ چونکہرحمۃ مصدر ہے۔ اس میں دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جیسے لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ۔۔۔۔ (۴۲ شوری:۱۷) بندوں سے تعلق و ربط کی نوعیت بھی اسی بندگی کے دائرہ میں ہونی چاہیے کہ اللہ نے جن فطری تقاضوں کے مطابق انسانوں کو بنایا اور انہی فطری تقاضوں کے مطابق قانون بنایا۔ ان کو سبوتاژ کر کے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔

اہم نکات

۱۔ رب کی بندگی سے آزاد ہو تو انسان مفسد و تجاوز کار بن جاتاہے۔

۲۔ بندگی خود بینی و مایوسی سے نہیں، خوف و رجاء کے دائرے میں ہوتی ہے: خَوۡفًا وَّ طَمَعًا۔۔۔۔

الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 2
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ: قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنے اور خدا سے خوف کھاتے ہوئے اور امید رکھتے ہوئے دعائیں مانگتے رہنا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔
قولہ تعالیٰ : آیت : ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا اس میں ایک مسئلہ ہے : وہ یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اصلاح کے بعد چاہے وہ تھوڑی ہو یا زیادہ ہر فساد سے منع فرمایا ہے چاہے وہ قلیل ہو یا کثیر۔ صحیح اقوال کے مطابق یہ حکم عام ہے۔ اور حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے : اس کا معنی ہے تم چشمے دار پانی بند نہ کرو اور نقصان پہنچانے کے لیے پھل دار درخت نہ کاٹو۔ اور یہ بھی وارد ہے : زمین میں فساد سے دنانیر ختم ہوگئے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زمین میں فساد سے حکام کی تجارت منقطع ہوگئی۔ اور علامہ قشیری نے کہا ہے : اس سے مراد ہے اور تم شرک نہ کرو، پس یہ شرک، خون بہانے اور زمین میں ہرج اور فساد برپا کرنے سے نہی ہے اور زمین میں اصلاح کے بعد احکام شریعہ کو لازم پکڑنے کا حکم ہے، بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب سے رسول بھیج کر اس کی اصلاح فرما دی ہے، ( پس یہ) شرائع کو پختہ کرنا اور حضور نبی رحمت ﷺ کے دین کی وضاحت ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : اس قول کے قائل نے عظیم اصلاح کے بعد بہت بڑے فساد کا قصد کیا ہے پس اس نے اسے خاص طور پر ذکر کیا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) ۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : رہا وہ جو حضرت ضحاک (رح) نے ذکر کیا ہے تو وہ اپنے عموم پر نہیں ہے، بلاشبہ وہ تب ہے جب اس میں ضرور اور نقصان مومن کا ہو۔ اور اگر اس کا ضرر اور نقصان مشرکین کو پہنچے تو پھر وہ جائز ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے بدر کے کنویں کا پانی بند کیا اور آپ نے کافروں کے درخت کاٹ دیئے۔ قطو الدنانیر کے بارے میں بحث سورة ہود میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ آیت : وادعوہ خوفا وطمعا یہ اس بارے امر ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) کہ انسان انتظار، کواور اللہ تعالیٰ سے امید کی حالت میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ امید اور خوف انسان کے لیے پرندے کے دو پروں کی مثل ہوتے ہیں جو اسے صراط مستقیم میں اٹھائے رکھتے ہیں اور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک منفرد ہوجائے تو انسان ہلاک ہوجائے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : آیت : نبی عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ھو العذاب الالیم ( الحجر) ( بتا دو میرے بندوں کو کہ میں بلا شبہ بہت بخشنے والا از حد رحم کرنے والا ہوں اور ( یہ بھی بتا دو کہ) میرا عذاب بھی بہت درد ناک ہے۔ خوف کا معنی ہے : الانزعاج لما لا یومن من المضار ( اس شے کے لیے بےقرار اور بےچین ہونا جس کے ضرور اور نقصان سے وہ محفوظ نہ ہو) اور طمع کا معنی ہے : توقع المحبوب ( کسی محبوب اور پسندیدہ شی کی توقع رکھنا) یہ علامہ قشیری نے کہا ہے۔ اور بعض اہل علم نے کہا ہے : مناسب یہ ہے کہ طویل زندگی میں خوف امید پر غالب رہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 411) اور جب موت آجائے تو پھر امید غالب رہے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لا یموتن احدکم الا وھو یحسن الظن باللہ (صحیح مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمھا، جلد 2، صفحہ 387) ( تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہو) یہ حدیث صحیح ہے اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : ان رحمۃ اللہ قریب من المحسنین اس میں قریمۃ نہیں کیا، سو اس میں سات وجوہ ہیں : ان میں سے پہلی یہ ہے کہ رحمت اور رحم ایک ہی شے ہے اور یہ عفو اور غفران کے معنی میں ہیں۔ یہ زجاج نے کہا ہے۔ اور نحاس نے اسے ختیار کیا ہے۔ اور نضر بن شمیل نے کہا ہے : رحمت مصدر ہے اور مصدر کا حق یہ ہے کہ وہ مذکر ہو، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : آیت : فمن جآء موعظۃ ( البقرہ : 175) یہ قول زجاج کے قول کے قریب ہے، کیونکہ موعظۃ بمعنی وعظ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت سے احسان کا ارادہ کیا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ جس کی تانیث حقیقی نہ ہو تو اسے مذکر لانا جائز ہوتا ہے، اسے جوہری نے ذکر کیا ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہاں رحمت سے مراد بارش ہے۔ یہ اخفش نے کہا ہے۔ اور کہا : اسے مذکر لانا جائز ہے جیسے بعض مونث کو مذکر ذکر کیا جاتا ہے۔ اور یہ شعر بھی کہا ہے : فلا مزنۃ ودقت ودقھا ولا ارض ابقل ابقالھا اور ابو عبیدہ نے کہا ہے : مکان کی تذکیر کی بنا پر قریب مذکر ذکر کیا گیا ہے، یعنی مکانا قریبا۔ علی بن سلیمان نے کہا ہے : یہ خطا ہے، اگر اس طرح ہوتا جیسے انہوں نے کہا تو پھر قرآن کریم میں قریب منصوب ہوتا، جیسے آپ کہتے ہیں : ان زیدا قریبا منک اور یہ بھی کہا گیا ہے : اسے نسبت کی بنا پر مذکر ذکر کیا گیا ہے، گویا کہ فرمایا : ان رحمۃ اللہ ذات قرب ( بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت قرب والی ہے) جیسے آپ کہتے ہیں : امراۃ طالق وحائض۔ اور فراء نے کہا ہے : جب قریب کا لفظ مسافت کے معنی میں ہو تو اسے مذکر اور مونث دونوں طرح لایا جاتا ہے اور اگر نسب کے معنی میں ہو تو پھر بلا اختلاف مونث لایا جاتا ہے۔ آپ کہتے ہیں : ھذہ المراۃ قریبتی، ای ذات قرابتی اسے جوہری نے ذکر کیا ہے۔ اور اس کے علاوہ نے فراء سے ذکر کیا ہے : نسب میں کہا جائے گا قریبۃ فلان اور غیر نسب میں تذکیر وتانیث دونوں جائز ہیں۔ کہا جاتا ہے : دارک منا قریب ( تیرا گھر ہمارے قریب ہے) وفلانۃ منا قریب ( اور فلانہ ہمارے قریب ہے) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : آیت : ومایدریک لعل الساعۃ تکون قریبا ( الاحزاب) ( اور ( اہل سائل) ! ) تو کیا جانے شاید وہ گھری قریب ہی ہو) اور جس نے اس کا استدلال کیا ہے اس نے کہا ہے : اسی طرح کلام عرب بھی ہے، جیسا کہ امرء القیس نے کا کہا ہے : لہ الویل ان امسی ولا ام ہاشم قریب ولا البسباسۃ ابنۃ یشکرا زجاج نے کہا ہے : یہ غلطی ہے، کیونکہ مذکر اور مونث کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دونوں اپنے افعال پر جاری ہوں.

القرطبی:الاعراف.

No comments:

Post a Comment