https://follow.it/amir-samdani?action=followPub

Saturday 27 November 2021

امام کاربنالک الحمد کہنا

 امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک امام رکوع سے اٹھتے ہوئے صرف تسمیع (سَمِعَ اللّٰہ لمَن حَمِدَہ) کہنے پر اکتفا کرے گا، تحمید (رَبَّنَا لَکَ الحمد) امام نہیں کہے گا، یہی قول متون کاہے، اس لیے امام کو صرف تسمیع پر اکتفا کرنا چاہیے۔ تعدیل ارکان امام کے رَبَّنَا لَکَ الحمدکہنے پر موقوف نہیں ہے۔ قال الحصکفي : ثم یرفع رأسہ من رکوعہ مسمعاً۔۔۔۔۔۔ویکتفي بہ الامام۔۔۔۔۔۔۔قال ابن عابدین: المتون علی قول الامام۔۔۔۔۔۔ ( کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة)

نماز میں رکوع سے اٹھتے ہوئے امام کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ  ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہے، اور مقتدی  ”ربنا لک الحمد“ کہیں، اور اگر نماز پڑھنے والا منفرد ہے تو وہ یہ دونوں کہے، باقی امام ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد  ”ربنا لک الحمد“ کہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ ہمارے مشایخ میں مختلف فیہ ہے،  امام صاحب رحمہ اللہ کا قول یہ ہے امام صرف ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے پر اکتفا کرے، فتویٰ اسی پرہے۔ جب کہ صاحبین رحمہما اللہ اور امام صاحب کی ایک روایت یہ ہے کہ امام   ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کہنے کے بعد  ”ربنا لک الحمد“ بھی کہے یہ افضل اور مستحب ہے، اور متاخرین میں سے بہت سے مشایخ نے اس کو راجح قرار دیا ہے، یہ اختلاف صرف افضلیت میں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 496):
"(ثم يرفع رأسه من ركوعه مسمعاً) في الولوالجية لو أبدل النون لا ما يفسد وهل يقف بجزم أو تحريك؟ قولان (ويكتفي به الإمام) ، وقالا: يضم التحميد سراً (و) يكتفي (بالتحميد المؤتم) وأفضله: اللهم ربنا ولك الحمد، ثم حذف الواو، ثم حذف اللهم فقط. 

(قوله: وقالا: يضم التحميد) هو رواية عن الإمام أيضاً، وإليه مال الفضلي والطحاوي وجماعة من المتأخرين، معراج عن الظهيرية. واختاره في الحاوي القدسي، ومشى عليه في نور الإيضاح، لكن المتون على قول الإمام".

الفتاوى الهندية (1/ 74):

"فإن كان إماماً يقول: سمع الله لمن حمده بالإجماع، وإن كان مقتدياً يأتي بالتحميد ولايأتي بالتسميع بلا خلاف، وإن كان منفرداً الأصح أنه يأتي بهما، كذا في المحيط. وعليه الاعتماد، كذا في التتارخانية وهو الأصح"

No comments:

Post a Comment